احوالِ قلب اور نفس اور روح کے مابین جنگ

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

مَا جَعَلَ اللهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ.

(الاحزاب، 33:4)

’’اللہ نے کسی آدمی کے لیے اس کے پہلو میں دو دِل نہیں بنائے۔‘‘

اللہ رب العزت نے انسانی جسم میں دل کے علاوہ باقی اعضاء کو جوڑے کی شکل میں بنایا۔ دیکھنے کے لیے دو آنکھیں، سماعت کے لیے دو کان، چلنے کے لیے دو پاؤں، چھونے کے لیے دو ہاتھ، اسی طرح دو گردے اور سانس کا نظام چلانے کے لیے دو پھیپھڑے بنائے۔ انسانی جسم کے نظام میں دل کا ایک ہونا اللہ تعالیٰ کی شانِ وحدت کی جھلک کی علامت ہے۔شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ جب اللہ رب العزت نے کائنات کی ہر شے کو زوج اور جوڑے میں پیدا کیا تو دل نے پوچھا ہوگا کہ میرا جوڑ کیا ہے جس کے ساتھ تو مجھے جوڑے گا؟ تو اللہ نے فرمایا ہوگا کہ اے دل باقی ہر شے کو دوسرے کے ساتھ جوڑا، تجھے میں نے اپنے ساتھ جوڑ لیا۔ میں بھی ایک ہوں اور تجھے بھی ایک ہی رکھا اور اگر کوئی مجھے تلاش کرنا چاہے گا تو مجھے تیرے (دل) اندر ہی پالے گا۔

اللہ رب العزت کو دل سے بہت پیار ہے، اسی لیے وہ اس میں رہتا ہے۔ دل کے ساتھ اس کی محبت کا عالم یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس نے بقیہ انسانی اعضاء کی نسبت سب سے زیادہ تذکرہ قلب (دل) کا ہی کیا ہے۔ کیونکہ جسے جس چیز سے جتنا زیادہ پیار ہوتا ہے، وہ اس کا تذکرہ اتنا ہی زیادہ کرتا ہے۔

دل کاایک نام ’’فواد‘‘ ہے، اس کا تذکرہ قرآن مجیدمیں 16 مرتبہ آیا ہے۔’’قلب‘‘کا تذکرہ قرآن مجید میں 133 مرتبہ آیا ہے۔ صدر جس میں یہ قلب موجود ہوتا ہے، اس کا تذکرہ 46 مرتبہ آیا ہے اور ’’باطن‘‘کا ذکر ایک مرتبہ آیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ’’جسم‘‘ کا ذکر 2 دفعہ آیا ہے۔ جسد بھی ظاہری جسم کو کہتے ہیں، اس کا ذکر 4 مرتبہ آیا ہے اور مجموعی طور پر ’’ظاہر‘‘ کا ذکر ایک مرتبہ آیا ہے۔133 مرتبہ قلب کے تذکرہ سے عیاں ہے کہ اللہ کو دل کتنا محبوب ہے اور جسم کی طرف اس نے گویا توجہ ہی نہیں فرمائی، جس بنا پر اس کا ذکر صرف 2 مرتبہ کیا۔ حدیث مبارک میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى أَجْسَادِكُمْ وَلَا إِلَى صُوَرِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ إِلَى صَدْرِهِ.

(مسلم، الصحیح، باب تحریم ظلم المسلم، 12: 426، الرقم: 4650)

اللہ تو نہ تمہارے جسموں کو دیکھتا ہے نہ صورتوں کو بلکہ وہ تو تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ اور یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺ نے اپنی انگلی مبارک سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔

دوسری روایت میں ہے کہ:

إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ.

(مسلم، الصحیح، باب تحریم ظلم المسلم، 12: 426، الرقم: 4651)

بے شک اللہ تمھاری صورتوں اور تمھارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔ گویا وہ دل کے اعمال رجحانات، میلانات اور رغبات کو دیکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اعضائے جسمانی میں سے زبان کو بھی ایک ہی بنایا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق بھی دل کے ساتھ ہے۔ ارشاد فرمایا:

اَلَمْ نَجْعَلْ لَّـہٗ عَیْنَیْنِ. وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ.

(البلد، 90: 8-9)

’’کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔ اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دیے)۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جس طرح دل ایک بنایا، اسی طرح دل کے احوال و کیفیات، چاہت، معاملات اور رغبات کا پتہ چلانے کے لیے زبان بھی ایک ہی بنائی۔ دل ایک ہومگر اس کے ترجمان دو ہوں تو بات نہیں بنے گی۔ ایک کچھ اور خبر دے گا دوسراکوئی اور خبر دے گا۔ اس لیے اس نے چاہا کہ جب دل ایک ہے تو اس کا نمائندہ بھی ایک ہونا چاہیے۔ اللہ رب العزت نے دل کے اس ترجمان یعنی زبان کوکنٹرول میں رکھنے کے لیے کہ کہیں خبر دیتے ہوئےپھسل نہ جائے، دو ہونٹ بنادیئے تاکہ یہ دونوں ہونٹ مل کر زبان کو کنٹرول میں رکھیں اور زبان دل کے حقیقی احوال و کیفیات اورخواہشات و تمناؤں کو لوگوں کے سامنے بیان کرے۔

انسانی جسم میں دل کی ہیئت اور افعال

1۔ اللہ رب العزت نے دل کا نظام چلانے کے لیے اس کے چار چیمبرز اور خانے بنائے۔ ان خانوں، چیمبرز کے لیے اس نے ایک طریقہ کار بنایا ہے تاکہ دل دھڑکتا رہے اور اپنا کام سرانجام دیتا رہے۔

2۔ اس دل کے valves بنائے تاکہ یہ خون کو جسم کے دوسرے حصوں تک منتقل کرتے رہیں۔ پھر ان valves کے ذریعے خراب خون کو جمع کرکے اس کی صفائی و تطہیر کے بعد صاف شفاف حالت میں واپس جسم میں موجود خون کی نالیوں میں آگے بھیجتا ہے تاکہ یہ تازہ خون جسم کے اعضاء کو توانا رکھ سکے، انسانی جسم کی بہتر نشوونما ہوسکے اور اعضاء اچھے طریقے سے اپنا کام سرانجام دے سکیں۔

3۔ دل کا ایک عمل یہ بھی ہے کہ یہ پھیلتا اور سکڑتا بھی ہے۔ سکڑنے کی حالت کو انقباض کہتے ہیں اور پھیلنے کی حالت کو انبساط کہتے ہیں۔ حالتِ اطمینان و سکون اور حالتِ انبساط؛ فرحت و شادمانی کی حالت ہے جبکہ انقباض تنگی اور بے چینی کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دل انبساط یعنی پھیلنے کی حالت میں ہوتا ہے تو خون دیتا ہے اور جب انقباض یعنی سکڑنے کی حالت میں ہوتا ہے تو خون لیتا ہے۔

4۔ اللہ رب العزت نے اسی دل کے میکنزم میں layers (تہیں) بنائی ہیں۔ ایک تہہ دل کے بیرونی حصے کی حفاظت کرتی ہے۔ پھر درمیانی اور اندرونی تہیں ہیں تاکہ براہ راست کوئی چیز دل پر اثر انداز نہ ہو اور دل محفوظ رہے۔

5۔ اگر روزمرہ کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کبھی مرجھایاہوا اور بیمار بیمار نظر آتا ہے اور ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ وہ چلتے چلتے گرنے لگتا ہے، چکر آنے لگتے ہیں حتی کہ جسم کمزور ہونے لگتا ہے۔ اگر کسی پر ایسی حالت طاری ہو اور اس کے بارے میں پوچھاجائے تو بتاتا ہے کہ پتہ نہیں کھاتا پیتا بھی اچھا ہوں مگرجو کھاتا ہوں وہ جسم کو لگتا نہیں ہے۔ جب وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تووہ بتاتا ہے کہ تیرا دل کمزور ہورہا ہے جس کی وجہ سے دل کی دھڑکن آہستہ ہوگئی اور شریانیں بند ہونا شروع ہوگئیں۔ اگر یہ بیماری ابتدائی سٹیج پر ہوتو stent سے کام چل جاتا ہے، اگر اس سے زیادہ کام خراب ہو تو انجیو گرافی کراتے ہیں اور اگر اس سے بھی معاملہ بڑھ جائے تو بائی پاس ہوتا ہے۔

6۔ بائی پاس کے بعد دل کی حفاظت کے لیے پورے جسم کا نظام اور میکنزم بدلنا پڑتا ہے۔ بندہ اپنی مرضی اور پسند کی خوراک نہیں لے سکتا۔ معالج کہتا ہے کہ اب تیرے جینے اور مرنے کی ضمانت اللہ کے بعد تیرے دل کے پاس ہے۔ اگر تیرے دل کی صحت ٹھیک رہے گی تو تو سلامت رہے گا۔ اس لیے کہ دل ایک ہے اور اس کا کوئی back up اور متبادل بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ایک آنکھ تلف ہو تو دوسری آنکھ back up کے طور پر موجود ہے، اگر ناک کی ایک طرف بند ہوتی تو دوسرے حصے کی نالی back up کے طور پر موجود ہے۔ اگر ایک کان بند ہوتا تو دوسرا سماعت کے لیے موجود ہے۔ اسی طرح ایک ہاتھ، پاؤں یا گردہ تلف ہوتا تو دوسرا حصہ back up کے طور پر موجود ہے۔

دل چونکہ ایک ہے، اس لیے اگر اس کی حفاظت کی جائے گی تو زندہ رہنا ممکن ہوگا ورنہ اس کے بند ہوتے ہی بندہ اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔ اب مریض ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنا شروع کردیتاہے کیونکہ اس کو ظاہری زندگی سے پیار ہے، وہ اپنے کھانے پینے کی خواہشات کو پس پشت ڈال دیتا ہے، اپنی چاہت اوررغبت کو قربان کردیتاہے۔ گویا وہ دل کو بچانے کے لیے ظاہری نظامِ حیات کو ہی تبدیل کردیتا ہے۔ وہ مریض ڈاکٹر کے کہنے پر پرہیز کرتا ہے تاکہ دل سلامت رہ جائے اور وہ اس دنیا میں مزید چند روز گزار سکے۔

باطنی دنیا اور احوالِ قلب

دل کی اس ظاہری کیفیت اور اس کے افعال کا مطالعہ کرنے کے بعد آیئے اب باطن کی دنیا میں بھی نگاہ ڈال کر دیکھیں کہ وہاں دل کا حال کیا ہے؟

1۔ جسمانی قلب اور باطنی قلب کا طبیب الگ الگ ہوتا ہے۔ جسمانی قلب کا طبیب کارڈیالوجسٹ دل کی بند شریانوں کو کھولتا ہے جبکہ روحانی طبیب دل کو میت ہونے سے بچاتا ہے۔ دل کے ظاہری لوازمات پورے کردیں تو دل کام کرنے لگ جاتا ہے اور خون کی سپلائی جاری کردیتا ہے جبکہ روحانی لوازمات پورے کردیں تو وہ دل قلبِ میت سے قلبِ سلیم اور قلبِ منیب بن جاتا ہے۔

2۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ.

(بخاری، الصحیح، باب فضل من استبرا لدینہ، 1: 90، الرقم: 50)

خبردار تمھارے جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہوجاتا ہے، اسے خیرمل جاتی ہے تو تمہارے پورے جسم کو خیر مل جاتی ہے۔ اگر وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ جان لو کہ وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔

  • حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ سے دل کی کیفیات سے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

الْقَلْبُ مَلِكٌ وَالْأَعْضَاءُ جُنُودُهُ فَإِذَا طَابَ الْمَلِكُ طَابَتْ جُنُودُهُ وَإِذَا خَبُثَ الْمَلِكُ خَبُثَتْ جُنُودُهُ.

(کنزالعمال، ہندی، فصل فی خطرات القلب وتقلبہ، 1: 132، رقم: 1205)

دل بادشاہ ہے اور جسم کے سارے اعضاء اس کی فوج ہیں۔ اگر بادشاہ خیر اور بھلائی پر قائم ہوگا تو سمجھ لو اس کی پوری فوج بھلائی اور خیر پر گامزن ہوگی۔ اگر بادشاہ خبیث اور کرپٹ ہوگیا تو ساری کی ساری فوج کرپٹ ہوجائے گی۔ پس باطن کی وادی کا دارومدار دل پر ہے۔

3۔ دل کی باطنی بیماریوں کا علاج روحانی معالج کے پاس ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب کے روحانی معالج حضور نبی اکرم ﷺ تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوجایا کرتے تھے اور دل کے احوال سے آگاہ کرتے۔ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھامے تشریف لے جارہے تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی:

لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ.

میں سوائے اپنی جان کے، ہر شے سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت کرتاہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں اے عمر! جب تک میں تجھے تیری جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں، تیرا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ > حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سچ بول دیاکیونکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے دل کا علاج بھی حضور ﷺ ہی سے کرواتے تھے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ فرماتے ہوئے اپنا دستِ اقدس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قلب پر رکھ دیا اور قلبِ عمر پر نگاہ فرمائی۔ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دست اقدس کی ٹھنڈک محسوس کی تو عرض کی:

فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ الْآنَ يَا عُمَرُ.

(بخاری، الصحیح، باب کیف کانت یمین عن النبیؐ، 20: 314، الرقم:6142)

یارسول اللہ ﷺ اب میں اپنی جان سے بھی بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت کرنے لگا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمر اب تیرا ایمان مکمل ہوگیا۔

دل کی اقسام

دل کبھی صحت مند ہوتا ہے اور کبھی بیمار ہوجاتا ہے اور کبھی اس پر موت طاری ہوجاتی ہے۔ دل پر وارد ہونے والی کیفیات اور احوال کے لحاظ سے ذیل میں اس کی چند اقسام کا تذکرہ کیا جارہا ہے:

(1) قلبِ سلیم:

دل کی ایک قسم قلبِ سلیم ہے۔ یہ بے عیب دل ہوتا ہے۔ یہی وہ دل ہے جس میں خدا کی ذات جلوہ افروز ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ یوں آیا ہے:

إِلَّا مَنْ أَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ.

(الشعراء، 26: 89 )

مگر صرف وہی شخص نفع مندہوگاجو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوگا۔

(2) قلبِ منیب:

ایسا دل جو رجوع اور انابت والا ہو، اسے قلبِ منیب کہتے ہیں۔ جیسا کہ ارشادفرمایا:

مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ.

(ق، 50: 33)

جو خدائے رحمان سے ڈرتا رہے اور اس کی خشیت اور خوف کا پیکر بن کر اس کے پاس آئے توکہا جائے گا کہ یہ بندہ قلبِ منیب کے ساتھ آیا ہے۔

(3) القلب المتقی:

دل کی تیسری قسم ’’القلب المتقی‘‘ ہے۔ متقی دل کے بارے میں فرمایا:

ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ.

(الحج، 22: 32)

جو اللہ کے شعائر اورنشانیوں کی تعظیم کرتا ہے تو یہ تعظیم متقی دل کی وجہ سے ہے۔یعنی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم وہی کرتا ہے جس کا دل متقی ہوچکا ہوتا ہے۔

(4) القلب المطمئن:

دل کی چوتھی قسم القلب المطمئن ہے۔ یہ وہ دل ہے جو اللہ تعالیٰ کے انوار وتجلیات اور نشانیوں کا مشاہدہ کرلینے کے بعد حالتِ اطمینان و سکون میں آجاتا ہے اور اس کا ایمان اللہ کی ذات پر مزید بڑھ جاتا ہے۔

(5) قلبِ خائف:

قلب خائف وہ ہے جوہر وقت خوف و اضطراب کی کیفیت میں رہتا ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا:

قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ.

(النازعات، 79: 8)

’’اس دن (لوگوں کے) دل خوف و اضطراب سے دھڑکتے ہوں گے۔‘‘

(6) القلب المرعوب:

جو دل رعب و دبدبہ میں آجائے، اسے قلبِ مرعوب کہتے ہیں۔ اس کے لیے فرمایا:

سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ.

(آل عمران، 3: 151)

ہم عنقریب کافروں کے دل میں تمہارا رعب ڈال دیں گے۔

(7) القلب الحی:

قلبِ حی سےمراد زندہ دل ہے۔ فرمایا:

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ.

(ق، 50: 37)

بے شک ان کھنڈرات اور نشانیوں میں اس کے لیے نصیحت اور انتباہ ہے، جس کا دل زندہ ہوگیا۔ گویا جس کا دل خوابِ غفلت سے بیدار ہوجائے، اسے قلبِ حی کہتے ہیں۔

(8) القلب المیت:

قلبِ میت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:

لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آَذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ.

(الاعراف، 7: 179)

’’ وہ دل (و دماغ) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (ان سے بھی) زیادہ گمراہ، وہی لوگ ہی غافل ہیں۔‘‘

(9) القلب اللیّن:

قلبِ لیّن سے مراد نرمی والا دل ہے۔ فرمایا:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ.

(آل عمران، 3: 159)

محبوب یہ آپ کے قلبِ اطہر کی وہ نرمی ہے کہ آپ ان کے لیے پیکر عفو و درگزر اور سخی و لجپال ہیں۔ جو آتا ہے آپ ﷺ کی بارگاہ سے اپنی مرادوں کی جھولی بھر کر لے جاتا ہے۔

(10) قلب عجل:

ارشاد فرمایا:

قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ.

(البقرۃ، 2: 93)

یہ دل عجلت میں نافرمانی کرنےوالے کفار کے دل ہیں جنھوں نے بچھڑے کو معبود بنالیا۔

(11) القلب الاعمیٰ:

اندھے دل کو قلب الاعمیٰ کہتے ہیں۔ فرمایا:

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آَذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ.

(الحج، 22: 46)

’’ تو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ (شاید ان کھنڈرات کو دیکھ کر) ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے یا کان (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ (حق کی بات) سن سکتے، تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘

قلب پر غلبہ کے لیے نفس اور روح کے مابین جنگ

اللہ رب العزت نے انسان کے باطن میں دل کے ساتھ نفس اور روح کو بھی رکھا ہے۔ دل درمیان میں ہے اور اس کے ایک طرف نفس اور دوسری طرف روح ہے۔ یہ دونوں اپنی اپنی حیثیت میں اس دل پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ نفس کے بارے میں ارشاد فرمایا:

فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا. قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا.

(الشمس، 91: 8-9)

یعنی ہم نے نفس میں فسق و فجور کی طاقت بھی رکھی ہے اور تقویٰ و طہارت کو سمجھنے کی طاقت بھی رکھی ہے مگر کامیاب وہ ہی ہوتا ہے جس نے نفس کو پاک صاف کردیا۔اس لیے کہ نفس برائی اور بے حیائی کی طرف ابھارتا ہے اور برائی کی طرف راغب کرتا ہے۔

روح کے بارے میں فرمایا:

قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي.

(الاسراء، 17: 85)

فرما دیجیے: روح میرے رب کے امر سے ہے۔ یعنی روح کا معاملہ میرے رب کے ساتھ ہے۔ یہ وہاں سے آتی ہے۔

انسان کی تخلیق مادہ اور روح دونوں کے امتزاج کےساتھ ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کے حوالے سے فرمایا:

إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ.

(الحجر، 15: 28)

’’فرمایا کہ میں سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں۔‘‘

اس آیت میں اللہ رب العزت نے انسان کے تشکیلی عناصر کا ذکر کیا ہے۔ ان تشکیلی عناصر کے باعث اس میں تکبر، شہوت و خودپسندی، دنیوی رغبت و میلان، دنیا کی چاہت و محبت، دنیا کا حرص و طمع، لالچ، بغض و حسد، غیبت، جھوٹ، غضب، دشمنی و عداوت اور کینہ پروری گویا ہر برائی اس میں پائی جاتی ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی نفس کو ان رذائلِ خبیثہ سےچھٹکارا کیسے ملے گا؟ اور یہ نفسِ انسانی کیسے نکھرے گا اور اس میں اجلا پن کیسے آئے گا؟ اس امر کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیکر بشری بنالینے کے بعد:

وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي.

(الحجر، 15: 29)

اپنی نورانی روح اس کے جسد میں پھونک دی۔ اب اس روح کے باعث اس میں اوصافِ حمیدہ اور مثبت رجحانات جنم لیتے ہیں۔ جبکہ تشکیلی عناصر کے باعث اس میں رذائلِ خبیثہ اور منفی رجحانات جنم لیتے ہیں۔

نفس اور روح دو پارٹیوں کا نام ہے۔ نفس کی پارٹی کا نام شیطان ہے اور روح کی پارٹی کا نام رحمٰن ہے۔ ان کے درمیان کشمکش شروع ہے جو جنگ کی صورت اختیار کرگئی ہے۔جس بندے کے نفس پر روح غالب آگئی، وہ نورانی اور روحانی ہوجائے گا اور جس کا نفس اس کی روح پر غالب آگیا، وہ بندہ نفسانی اور شیطانی ہوجائے گا۔

روح اور نفس کے اس مقابلہ میں اللہ رب العزت نے دونوں کو لیول پلینگ فیلڈ دی ہے لیکن وہ اس میں دھاندلی نہیں ہونے دیتا۔ اگر نفس شیطان کی مدد سے شتونگڑوں کو لے آئے گا تو روح کے مددگار اولیاءِ رحمٰن بھی موجود ہیں۔ شیطان اپنے نمائندوں کو خریدنے کے لیے ان کو دنیا دکھاتا ہے، کسی کو شہوت پرستی کی طرف راغب کرتا ہے، کسی کو محلات اور سواریوں کی لالچ دیتا ہے اور جو جو اس سے سودا خریدتا ہے، وہ اس کا ساتھی اور سپورٹر ہوتا چلا جاتا ہے۔ دوسری طرف رحمٰن والے روح کے ساتھی ہیں، جن کے دل زندہ ہوچکے ہیں، ان کی مجلس میں بیٹھنےوالوں کے دل بھی ان کے فیض سے زندہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یوں روح کے اولیاء بڑھتےبڑھتے کثرت اختیار کرلیتے ہیں۔

جب روح اور نفس کے ووٹرز اور سپورٹرز کی اس جنگ میں روح کامیاب ہوجاتی ہے تو اپنے ساتھیوں کو اپنے دائرے کے اندر بندکرلیتی ہے اور اگر کوئی بھٹک کر شیطان اورنفس کی طرف جانے بھی لگے تو پکڑ کرروک لیتی ہے اور راہِ راست پر چلاتی ہے۔ روح کے ساتھی اولیاء ہوتے ہیں جو دوسروں کو اپنی چوکھٹ پر بٹھاتے ہیں اور ان کی تربیت بھی کرتے ہیں اور راہِ راست پر بھی چلاتے ہیں۔ حضور قدوۃ الاولیاء فرماتے ہیں کہ وہ پیرنہیں ہوتا، جسے اپنے مریدین کی خبر نہ ہو اور ان کی فکر نہ ہو۔

حضرت پیر مہر علی شاہؒ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ حضرت میں آپ کا مرید ہونا چاہتا ہوں۔ آپ نے شرائط بتائیں تو کہا سب کچھ چھوڑ دوں گا مگر شراب نہیں چھوڑی جاسکتی۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں مگر اتنا تو کرسکتے ہو کہ میرے سامنے نہیں پیو گے؟ اس نے کہا کہ ایسی جرأت میں کیسے کرسکتا ہوں۔ وعدہ کیا کہ آپ کے سامنےنہیں پیوں گا۔ وہ شخص بیعت کرکے چلا گیا۔ جب گولڑہ شریف سے دور نکل آیا تو شراب کی بوتل کھولی، جو نہی اس نے شراب کی بوتل منہ سے لگائی تو کیا دیکھتا ہے کہ سامنے پیر مہر علی شاہ کھڑے ہیں۔فوراً بوتل پھینک کر آپ کی طرف دوڑا تو آپ غائب ہوچکے تھے۔ اس نے اسے اپنا وہم سمجھا۔

اس کے بعد اس نے دوسری بوتل کھولی، جب اسے لبوں کے قریب لایا تو دیکھا کہ پیر صاحب پھر سامنے کھڑے ہیں۔پھر ان کی طرف دوڑا تو آپ غائب ہوگئے حتی کہ تیسری دفعہ جب واقعہ ہوا تو شراب کی بوتل توڑی اور آپ کی بارگاہ میں چلا گیا اور عرض کیا کہ حضرت اگر اجازت دی تھی تو پیچھا بھی چھوڑ دیتے۔ فرمایا: وہ پیر ہی کیا جومریدکا پیچھا چھوڑ دے۔

اسی طرح کا ایک واقعہ تحریک منہاج القرآن کے ایک رفیق نے مجھے سنایا۔ وہ کہتا ہے کہ جوانی میں جب مجھے منہاج القرآن سے وابستہ ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا اور مرکز کی طرف سے دیے گئے اورادو وظائف پر بھی حسبِ استطاعت عمل کرتا تھا لیکن ابھی میں نفس اور شیطان کے حملوں کی زدمیں تھا کہ اس دوران میں ایک دفعہ ایک خاتون نے مجھے برائی کی طرف بلایا۔ میں نے اس خاتون کی دعوت قبول کرلی اور وقتِ مقررہ پر اس کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ میں نے راستے میں اپنے سامنے شیخ الاسلام کو کھڑے پایا۔ میں نے راستہ تبدیل کیا اور دوسری طرف سے جانے لگا تو وہاں بھی شیخ الاسلام کو کھڑا پایا۔ میں نے تیسرے راستے سے اس گلی میں داخل ہونا چاہا تو مجھے ایک زور دار تھپڑ لگا اور آواز آئی کہ جب روکا ہے تو پھر کیوں آتے ہو۔

مراد یہ ہے کہ جب روح جنگ جیت جاتی ہے تو اس کے سپورٹرز بھی ممدو معاون بن جاتےہیں۔

قلب پر روح کے غلبہ کے اثرات اور انعام

جب روح کی فوج جیت جاتی ہے اور جسم کی پارلیمنٹ میں براجمان ہوجاتی ہے تو اللہ رب العزت دل کو بھی روح کے تابع کردیتا ہے۔ اور پھر دل کے روح کے تابع ہونے کے ساتھ ہی جسم کےتمام اعضاء اس دل کے تابع ہوجاتے ہیں۔ جب دل پر روح کا مکمل غلبہ ہوجاتا ہے اور جسم کے تمام اعضاء اس قلبِ سلیم کے تابع ہوجاتے ہیں تو اب اس بندے کو یہ مقام ملتا ہے جس کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ.

(بخاري، الصحیح، باب التواضع، 5: 2384، الرقم:6137)

جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسندہیں جیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔

گویا اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ نفلی عبادت، اطاعت و فرمانبرداری اور خدمتِ انسانیت کے ذریعے میرے قریب ہونا شروع کردیتا ہے اور جب میں اس کے دل کی کیفیت دیکھتا ہوں تو اسے قلب سلیم عطا کرکے اپنا محبوب بنالیتا ہوں۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا:

اِتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ.

(السنن، الترمذي، باب ومن سورۃ الحجر، 10: 298، الرقم:3527)

اس حدیث قدسی کا آغاز من عادلی ولیا سے کیوں ہوا؟ اس سے بتانا یہ مقصود ہے کہ بے شک بندہ فرائض و واجبات، نوافل، عبادات، طاعات بجا لاتا رہا لیکن اگر اس کے دل میں میرے کسی ولی کی عداوت ہوگی تو نہ فرائض کام آئیں گے نہ نوافل۔ اگر دل میں میرے ولی کی محبت پائی گئی تو فرائض بھی قبول اور نوافل بھی قبول ہوں گے۔ ان عبادات کی قبولیت کے لیے اصحاب کہف کے کتے کی طرح کسی کامل ولی کی چوکھٹ پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ اگر مالک کو بیٹھنے کا اندازہ پسند آگیا تو نوافل کی کمی بھی آڑے نہیں آئے گی بلکہ وہ شرفِ قبولیت عطا فرماتے ہوئے اپنا محبوب بنالے گا۔

دل کو زندہ کیسے کیا جائے؟

  • حضرت ابن عطا السکندری ’’الحکم العطایا‘‘ میں نقل کرتے ہیں کہ ان سے پوچھا گیا کہ دل کو زندہ کیسے کریں؟ یہ دل مولا کو کب پہچانتا ہے؟ آپ نے فرمایا: اے بندے! اگر تو سرفراز ہونا چاہتا ہے اور دل کو اللہ کی بارگاہ میں قربت کے مقام پر رکھنا چاہتا ہے تو :

ادْفِنْ وُجُودَك فِي أَرْضِ الْخُمُولِ فَمَا نَبَتَ مِمَّا لَمْ يُدْفَنْ لَمْ يَتِمَّ نِتَاجُهُ.

(فيض القدير، 1: 188)

اپنے وجود، اپنے شعور، خیال، تصور، چاہت، ارادے، جاہ ومنصب کے احساس اور اپنے ہونے کے احساس کو گمنامی کی زمین میں دفن کردو۔ کیونکہ جب تک کسی بیج کو زمین میں دفن نہ کیاجائے، تب تک نہ اس بیج سے پھل اگتا ہے نہ پھول۔ اس لیے اے بندے پہلے تو اپنے وجودکے بیج کو گمنامی کی زمین میں فن کردے۔ بعد ازاں جب وہ گمنامی کی زمین سے ظاہر ہوگا تو تجھے نامورکردے گا۔ لہذا دل کو دنیا کی شہوات، طلب، رغبت اور میلانات سے بچانے کے لیے گمنام کرنا پڑتا ہے۔جیسے سیدہ مریمd نے فرمایا تھا:

وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا.

(مريم، 19: 23)

پس کچھ بننے کے لیے پہلے خود کو مٹانا پڑتا ہے۔کبھی خلوت نشین ہونا پڑتا ہے، کبھی اپنا احساس بھی مٹانا پڑتا ہے، کبھی کچھ لینےکے لیے اپنا عنوان بھی ہٹانا پڑتا ہے اور پہچان بھی ختم کرنی پڑتی ہے۔ اِدھر سے بندہ مٹتا ہے تو اُدھر اسے خدا زندہ و جاوید بنادیتا ہے۔

  • حضرت امام شافعی سے پوچھا گیا کہ حضرت آپ کی چاہت کیا ہے؟ فرمایا میری تو خواہش یہ ہے:

يا بني لوددت أن الخلق كلهم تعلموا يريد كتبه ولا ينسب إلي منه شيء وددت أن كل علم أعلمه يعلمه الناس أوجر عليه ولا يحمدوني.

(حلية الاولياء، 9: 119)

میں یہ چاہتا ہوں کہ میری کتابوں سے ساری مخلوق علم لیتی رہے لیکن یہ نہ کہے کہ یہ کس نے کہا۔چاہتا ہوں کہ جو علم اللہ نے مجھے دیا ہے، وہ سارے کا سارا علم لوگ مجھ سے لیں مگر میری تعریف نہ کریں۔ تاکہ اللہ کی بارگاہ میں علم لے کر بھی گمنام رہوں اور علم دے کر بھی گمنام رہوں۔

یہی وہ عمل ہے جو ہمارے نفس کو اس کے مقام پر رکھتا ہے اور قلب کو سلیم و منیب بناتا ہے اورزندہ کرتا ہے۔ جس کا دل زندہ ہوگیا۔ وہ مقصدِ حیات پاگیا۔

دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

لہذا ضروری ہے کہ ہم تصویرِمحبوب کو اپنے دل میں جمالیں اور اسی کی چاہت کو دل میں بسالیں۔ اگر دنیا کی چاہت دستک بھی دے تو کہیں کہ یہاں تو کوئی اور بستا ہے، یہاں تیرا کام ہی نہیں اور نہ تیری ضرورت و حاجت ہے۔