تصورِ فنا و بقا اور انسانی زندگی

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

کُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْهُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ.

(الرحمٰن، 55: 26-27)

’’ہر کوئی جو بھی زمین پر ہے فنا ہو جانے والا ہے۔ اور آپ کے رب ہی کی ذات باقی رہے گی جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ انعام و اکرام ہے۔‘‘

’’فنا‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ختم ہونا ہے۔ کسی شے کا زوال پذیر ہوجانا یا کسی شے کی نفی ہوجانا یا کسی شے کا غائب ہوجانا،’’فنا‘‘ کے مفہوم میں داخل ہے۔’’فنا‘‘ کا تصور اہلِ تصوف کے ہاں زیادہ پایا جاتا ہے۔ تصوف کے علاوہ بھی فنا کے معانی و مطالب پائے جاتے ہیں مگر تصور ِفنا کی سب سے بہتر تعریف کتبِ تصوف میں بیان کی گئی ہے۔

صوفیا کے ہاں فنا سے مراد درحقیقت ایک تبدیلی کا رونما ہونا ہے۔ قربتِ حق کے حصول میں جو نفسیاتی، اجتماعی، انفرادی، شخصی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، صوفیا ان تبدیلیوں کو فنا کا نام دیتے ہیں۔ جب راہِ حق کا متلاشی سالک اپنے روحانی سفر پر گامزن ہوتا ہے تو اس روحانی سفر میں فنا کا ایک موثر کردار ہے اور بعض اوقات منزلِ مقصود تک پہنچنے اور سفر کی تکمیل کے لیے فنا ناگزیر ہے۔

تصورِ فنا؛ انا پرستی، ذات کی نفی اور اپنی خودی سے ماوراء ہونے کا نام ہے۔ وہ خودی جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ؎خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے۔ اسی خودی سے ماوراء ہوجانا فنا ہے۔ انا پرستی وہ چیز ہے کہ جس سے ہرکوئی مزین نظر آتا ہے۔ دنیا میں انسان جتنے برے کام کرتا ہے اس میں اس کی اناکا عمل شامل ہوتا ہے۔ انسان کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور کسی ظلم پر معافی مانگنے سے اگر کوئی شے روکتی ہے تو وہ اس کی انا ہے۔ یہ انا ہی ہے جو اپنی بداعمالیوں پر بھی بندے کو شرمندہ نہیں ہونے دیتی۔ اس انا پرستی کو چھوڑ دینا اور اپنی خودی سے بالاتر ہوجانا، صوفیاء کے ہاں فنا سے عبارت ہے۔

فنا کی جہات

حضرت شیخ ابن العربیؒ جو صوفیاء کے ہاں تصوف کی ابحاث میں حجت مانے جاتے ہیں، آپ نے کثرت کے ساتھ فنا کے موضوع پر ابحاث قلمبندکی ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ فنا محض وجود کا مٹ جانا نہیں ہے بلکہ یہ ایک تبدیلی کا عمل ہے جس میں بندہ اپنے نفس کی زنجیروں کو توڑ کر خداکے اوصاف سے مزین ہوجاتا ہے۔ پھر اس میں شعوری سطح کی ایک گہری تبدیلی رونما ہوتی ہے جس میں سالک انفصالِ نفس کی حالت سے اتصالِ حق کی حالت کی طرف سفر کرتا ہے اور یہی سفر حقیقت کی راہ کے متلاشیوں کی حقیقت ہے۔فنا ایک کثیر الجہتی تصور کا نام ہے جس میں وجودی اور تجرباتی دونوں جہات شامل ہیں:

1۔ وجودی فنا سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی ذات، اپنے نفس، انا پرستی، ذاتی رجحانات و میلانات اور اپنی من پسند عادات و اطوار کو ختم کردیتا ہے۔ اس وجودی فنا کے حصول کا ذریعہ تزکیۂ نفس ہے۔

2۔ تجرباتی فنا سے مراد سالک کا خدا کے ذکر میں یوں مستغرق ہوجانا ہے کہ پھر اسے کسی اور شے کا تجربہ باقی نہ رہے۔ انسان تجربہ اپنے حواس سے حاصل کرتا ہےا ور حواس سے حاصل ہونے والا تجربہ اس کی یادداشت بن جاتا ہے۔ لہذا انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے تمام حواس کو صرف اللہ کے ذکر و فکر اور اللہ سے وابستہ امور کے لیے استعمال کرے اور جو کچھ اس کے حواس کے ذریعے ذہن میں داخل ہورہا ہے، وہ یادِ خدا کے سوا کچھ نہ ہو۔ یہ تجرباتی فنا اپنے حواس کو خدا کی نوکری یعنی خدمتِ دین میں لگادینے کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔

فنا کا حصول عشق سے ہی ممکن ہے

حضرت شیخ ابن العربیؒ فرماتے ہیں کہ فنا کے سفر میں جو چیز سب سے زیادہ مفید اور کار آمد ثابت ہوتی ہے وہ عشق ہے کیونکہ عشق فوراً جھاڑیاں جلا دیتا ہے۔ عشق repair (مرمت) نہیں کرتا بلکہ reconstruct (تعمیر ِنو) کرتا ہے یعنی عشق پہلے سے موجود چیز کی خرابی کو ٹھیک نہیں کرتا بلکہ پہلے سے موجود چیز کے وجود کو جلادیتا ہے اور پھر وہاں نئے سرے سے تعمیر کرتا ہے۔ اسی کو فنا کے بعد بقا کہتے ہیں۔ لہذا جسے عشق نہ ہوا، اس نے فنا کا مزہ نہ چکھا۔

فقط آسان طریقہ سے اعمال صالحہ کی انجام دہی کہ دنیا بھی چلتی رہے آخرت بھی چلتی رہے، اس راستے سے فنا نصیب نہیں ہوتی بلکہ فنا تو یک دم کیے جانے والا عمل ہے کہ انسان یک دم عشق میں یوں مبتلا ہوتا ہے کہ پھر وہ بھوک و پیاس سے آزاد ہوجاتا ہے، اسے ایسا روگ لگ جاتا ہے کہ صبح و شام یادِ خدا میں مست الست رہتا ہے۔ اسے کسی شے کا خیال نہیں سوجھتا، کوئی اور صورت نظر نہیں آتی اور نہ ہی کوئی اور دھیان باقی رہتا ہے،بس اس کا عشق بڑھتا چلا جاتا ہے۔ حتی کہ عشق کی وہ چنگاری بھانبڑ بن جاتی ہےاور تمام حیات کو جلا کر راکھ کردیتی ہے اور جو بچتا ہے، وہ صرف باقی کاخیال بچتا ہے، باقی کی ذات بچتی ہے اور باقی کے تصورات بچتے ہیں۔

اس لیے شیخ اکبر فرماتے ہیں کہ فناکے لیے سب سے مؤثر نسخہ عشق ہے اور فنا کے سفر کے لیے سب سے مؤثر راستہ اللہ والے کی سنگت ہے۔

تصورِ فنا قرآن مجید کی روشنی میں

1۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً.

(البقرة، 2: 208)

’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘

اس آیت کریمہ کا مفہوم ہم اس دعا کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں:

اللهم من احییته منا فاحیینا علی الاسلام ومن توفیته منا فتوفه علی الایمان.

اے اللہ ہم میں سے تو نے جس کو زندہ رکھنا ہے، اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے موت دینی ہے تو اسے ایمان پر موت دے۔

یعنی موت ایمان کی حالت میں دے اور حیات اسلام کی حالت میں دے۔معلوم ہوا کہ اسلام جس شے کا نام ہے، وہ حیات کی علامت ہے۔ ایمان دل کی حالت ہے اور اسلام انسان کی ظاہری حالت ہے۔ ایمان کی زمین میں اعمال کی عمارت کا نام اسلام ہے جہاں اللہ تعالیٰ ہمیں مکمل داخل ہوجانے کا حکم ارشاد فرمارہا ہے کہ ایمان کی زمین پر اعمال کی جو عمارت (اسلام) کھڑی ہے، اس میں کامل طور پر داخل ہوجاؤ۔دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ فنا کا سفر طے کرتے ہوئے بقا کی عمارت میں داخل ہوجاؤ۔

2۔ ایک اور مقام پر فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.

(آل عمران، 3: 102)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو۔‘‘

صوفیاء اس آیت مبارکہ میں اسلام اور مسلمان سے مراد ’’باقی‘‘ کو لیتے ہیں کہ تمہاری موت اس حال میں آئے کہ تم فنا کے راستے کے مسافر بن چکے ہو اور فنا کی وادی کو ترک کرچکے ہو۔ اللہ رب العزت نے اس آیت کا آغاز یا ایھالذین امنوا سے فرمایا یعنی سفرِ فنا کے لیے انفرادی طور پر نہیں بلایا بلکہ اجتماعی طور پر بلایا جارہا ہے کہ اے ایمان والو فنا کے راستے کے ذریعے بقا کی طرف سفر کرو۔

3۔ ایک اور مقام پر فنا اور بقا کے تصور کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:

اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.

(الانعام، 6: 122)

’’بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح کافروں کے لیے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں) خوشنما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں۔‘‘

اس آیت مبارکہ نے ایک اور عقدہ حل فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ نے فنا کے بعد بقا کا تذکرہ کیا کہ پہلے مردہ تھا پھر اس نے زندہ فرمادیا۔ پھر جس کو بقا کے ساتھ زندہ کیا تو اس کے لیے ایک نور پیدا فرمادیا جس نور کے ساتھ وہ چلتا پھرتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو لوگ اس کے ساتھ باقی ہوجاتے ہیں۔یعنی جو لوگ اپنی انا ، اپنے وجود، تجربے ، احساس اور اپنی خواہشاتِ نفسانی کو فنا کردیتے ہیں اور خدا کی خاطر اس کے ساتھ باقی ہوجاتے ہیں تو خدا ان کو دنیا میں ہی وہ نور عطا کردیتا ہے کہ جب وہ چلتے پھرتے ہیں تو وہ خود بھی نورانی نظر آتے ہیں، جو ان کی صحبت میں بیٹھتا ہے اس کو بھی نور والا کردیتے ہیں، جو ان کی باتیں سنتا ہے، وہ اپنی سماعتوں کے ذریعے نور سمیٹ لیتا ہے، جو اپنے دلوں کو ان کی طرف متوجہ کرتا ہے، وہ دلوں میں نور حاصل کرلیتا ہے اور جو ان کے چہروں کو تکتا ہے، وہ اپنی نگاہوں میں نور سمیٹ لیتا ہے۔

4۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.

(البقرة، 2: 179)

’’اور تمہارے لیے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خونریزی اور بربادی سے) بچو۔‘‘

یعنی تمہاری فنا میں ہی حیات ہے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر بھی صوفیاء کرام اسی انداز میں کرتے ہیں کہ فنا کے بعد بقا ملتی ہے۔

5۔ تصورِ فنا تصورِ بقا کی ضد ہے۔ بقا قائم رہنے کو کہتے ہیں یعنی وہ شے جس کو دوام نصیب ہوجائے اس کو باقی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بقا کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

وَاللهُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی.

(طہ، 20: 73)

’’اور اللہ ہی بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘

فنا اور بقا سننے اور سمجھنے میں دو متضاد تصورات ہیں اس لیے کہ ایک موت کی علامت ہے اور دوسرا زندگی کی علامت ہے۔۔۔ ایک شے ختم ہوجانے سے عبارت ہے اور ایک شے زندہ ہوجانےسے عبارت ہے لیکن یہ ایک دوسرے کی تکمیل کی علامت ہیں۔ فنا سے بقا الگ نہیں ہوسکتی اور بقا سے فنا الگ نہیں ہوسکتی۔ فنا ہے تو بقا ہوگی اور اگر بقا ہے تولازم ہے کہ پہلے فنا ہوئی ہو۔ گویا یہ دونوں تصورات ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔

فنا اور بقاء کی اقسام

1۔ فنا اور بقا کی ایک قسم یہ ہے کہ ایک شے پہلے موجود تھی، پھر وہ ختم کردی گئی، فنا کردی گئی، اس کے بعد اسے بقا نہیں ملے گی۔ جیسے عالمِ ناسوت ہے یعنی یہ دنیا بنائی گئی اورجب اسے فنا کردیا جائے گا تو دوبارہ نہیں بنایا جائے گا۔

2۔ فنا اور بقا کی دوسری قسم یہ ہے کہ جو پہلے وجود میں نہ تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے وجود دے دیا اور اس کے بعد وہ ہمیشہ رہے گی۔ یعنی اس کو دائمی بقا نصیب ہوئی۔ جیسے جنت دوزخ۔ یہ پہلے نہ تھیں، پھر اللہ تعالیٰ نے بنادیا، اب یہ ہمیشہ رہیں گی۔

3۔ بقا کی تیسری قسم یہ ہے کہ جو پہلے بھی تھی، آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ وہ اللہ رب العزت کی ذات ہے۔

4۔ فنا و بقا کی چوتھی قسم کے متعلق صوفیا فرماتے ہیں کہ جب جہالت فنا ہوجائے تو علم کو بقا ملتی ہے۔۔۔ جب معصیت فنا ہوتی ہے تو طاعت باقی ہوجاتی ہے۔۔۔ جب غفلت فنا ہوجاتی ہے تو حضوری باقی ہوجاتی ہے۔۔۔ اور جب دنیا فنا کردی جاتی ہے تو آخرت باقی ہوجاتی ہے۔گویا صوفیا کے ہاں فنا اور بقا کے تصور میں ہر وہ شے جو اس فانی جسم اور ناسوتی دنیا سے جڑی ہوئی ہے، اسے فنا کردیا جاتا ہے اور ہر وہ شے جو اس باقی سے جڑی ہوئی ہے، اسے بقا دی جاتی ہے، اسے دوام نصیب ہوجاتا ہے۔

  • حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فنا اور بقاکے تصور کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فنا سے مراد بندے کااپنی بندگی کو دیکھنے سے فانی ہوجانا ہے اور بقا سے مراد بندے کا مشاہدۂ حق میں باقی رہنا ہے۔ یعنی مشاہدۂ حق کو دوام نصیب ہوجائے اور اپنے اعمالِ صالحہ کی انجام دہی پر جانے والی نگاہ فانی ہوجاتی ہے۔
  • مولانا رومؒ فنا اور بقا سے متعلق فرماتے ہیں کہ فنا کی باتیں کرنے میں وہ لوگ کامل ہیں جو باقی ہیں۔ یعنی وہ لوگ فنا سے متعلق بہتر بتاسکتے ہیں جو باقی ہوچکے ہیں اور بقا کی راہ میں سیکھنے سمجھنے میں زندگی گزارتے ہیں۔
  • سیدنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں کہ فنا یہ ہے کہ ولی تجلی خداوندی کا مشاہدہ کرکے اپنی جان اور اپنی ذات کو فنا کردیتے ہیں۔ یعنی ولی خداکے اشارہ سے فنا کردیا جاتا ہے اور اس کی تجلی سے باقی بنادیا جاتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ فنا اور بقا کے درمیان ایک لمحے یا اس سے بھی کم کا فرق ہوتا ہے۔جونہی فنا نصیب ہوئی، اسی وقت خدا نے باقی کردیا کیونکہ جب باطن میں کچھ نہیں رہتا تو وہاں صرف خدا ہوتا ہے۔ لہذا جب بندہ سب کچھ ختم کرکے فنا حاصل کرلیتا ہے تو پھر خدا خود نزول فرماتا ہے اور اس کو بقا عطاکرتا ہے۔ یہ موت و حیات کی طرح ہے کہ جونہی انسان دنیا سے رخصت ہوا، اسی لمحے اس فانی دنیا سے نکل کر باقی دنیا میں چلا گیا۔ جس طرح ایک لمحہ اس کی روح کے نکلنے اور اس دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہونے میں لگتاہے، اسی طرح فنا کی وادی سے نکل کر بقا کی وادی میں منتقل ہونے میں بھی ایک لمحہ سے بھی کم عرصہ لگتا ہے۔
  • اللہ رب العزت نے فنا سے بقا کی طرف دعوت ان الفاط میں دی، ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ. ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً. فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْ. وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ.

(الفجر، 89: 27-30)

’’اے اطمینان پا جانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔ پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔‘‘

یہ وہ دعوت ہے جو فنا کی وادی سے بقا کی وادی کی طرف دی جاتی ہے۔حدیث قدسی میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

یَقُولُ اللهُ تَعَالَی: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِي، فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِہِ ذَکَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَکَرَنِي في مَـلَاءٍ ذَکَرْتُهُ فِي مَلَاءٍ خَیْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي یَمْشِي، أَتَیْتُهُ هَرْوَلَۃً.

(اخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب: التوحید، باب: قول الله تعالی: ویحذرکم الله نفسہ،6: 2694، الرقم:6970)

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (یعنی ذکر خفی) کرے تو میں بھی (اپنی شان کے لائق) اپنے دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (یعنی ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت (یعنی فرشتوں) میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘

گویا جب بندہ فنا کے جذبے کے ساتھ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف بقا کاپیالہ لے کر چار ہاتھ بڑھتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو میں بقا کے تصور اور پیغام کے ساتھ اس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہوں۔

تصور فنا و بقا کے مراحل

فنا و بقا کے سفر میں چار مراحل آتے ہیں:

(1) خود آگہی

فنا و بقا کے سفر کا پہلا مرحلہ خود آگہی کا ہے۔ اس مرحلہ میں انسان سب سے پہلے اپنے نفس کو پہچانتا ہے اور اپنے اندر پائی جانے والی خامیوں اور خرابیوں کو جاننے اور ان کا دائرہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس کے حدود و قیود اور کمزوریوں کو سمجھتا ہے حتی کہ اپنی کم فہمی اور نالائقی کو سمجھتا ہے اور اس میں غورو خوض کرنا شروع کرتا ہے۔ یہ فنا کی راہ کا مسافر ہونے کی پہلی علامت اور مرحلہ ہے۔

(2) تزکیہ ٔنفس

تصور فنا و بقا کے راستے میں دوسرا مرحلہ تزکیہ نفس کا آتا ہے۔ اس مرحلہ میں فنا کی راہ کا مسافر اور سالک ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے تزکیہ و تصفیہ قلب کرتا ہے۔ وہ نماز، روزہ، حج، اعتکاف اور نفلی عبادات، اعمال صالحہ کی انجام دہی اور اخلاق حسنہ کو کاملاً اپناتا ہے دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کرتا اور معاف کرنے کا وطیرہ اپناتا ہے۔یہ مرحلہ اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کرنا ، اپنے اوپر جبر کرنا اور اس طرح کی بہت ساری مشقوں پر مشتمل ہے جن میں انسان اپنے آپ کو مبتلا کرتا ہے۔ان ساری مشقوں سے گزر کر انسان تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے مراحل عبور کرتا ہوا فنا سے بقا کی طرف سفر کرتا ہے۔

(3) جذب

جب انسان خود شناسی ، خود آگہی اور تزکیۂ نفس و تصفیۂ قلب کے مراحل طے کرلیتا ہے تو پھر اللہ رب العزت اسے جذب عطا فرماتا ہے جو فنا کے راستے میں سب سے مؤثر دوا ہے۔جذب کے مرحلے میں انسان کسی کے ساتھ عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے یعنی کسی کے ساتھ اس کا دل لگ جاتا ہے اور پھر اس کی یاد میں ہمہ وقت رہنا اسے اچھا لگتا ہے۔ اس کی باتیں کرتے رہنا اسے اچھا لگتا ہے، اس کے بارے میں سوچتے رہنا اسے اچھا لگتا ہے، اس کی اداؤں کو دہرانا اسے اچھا لگتا ہے اور اس جیسا روپ اختیار کرنا اور اس جیسا لگنا بھی اسے اچھا لگتا ہے۔ یہ تمام عشق کی کیفیات ہیں۔ گویا جب انسان کو جذب نصیب ہوجاتا ہے تو پھر وہ عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔خواہ یہ شیخ و مرشد کا عشق ہی ہو جو اسے مولا سے ملادیتا ہے۔ یوں اس کا عشق دنیا کو چھوڑ کر اخروی کائنات سے ہوجاتا ہے۔

(4) کشف و حجاب

چوتھے مرحلے پر کشف و حجاب کی منزل آتی ہے اس مرحلے میں اللہ تعالیٰ حجاب اٹھاتا ہے اور کشف عطا فرماتا ہے۔کشف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے براہِ راست اپنی تربیت میں لے لیتا ہے۔ اب وہ اس کی تربیت آزمائش اور ابتلا کے ساتھ کرتاہے۔

ایک موقع پر آپ ﷺ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے علی تو مجھ سے محبت کرتا ہے اور یہ عمل میری محبت میں کیا ہے تو جان لے کہ جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس کی طرف آزمائشیں یوں آتی ہیں جیسے ڈھلوان سے پانی آتا ہے۔

گویا اللہ ر ب العزت آزمائشوں کے ذریعے تربیت یوں کرتا ہے کہ جب سالک سے کوئی نافرمانی سرزد ہوتی ہے تو پھر اسے جھنجھوڑتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں اس نے چونکہ عشق دیا ہے اور عشق کے مرحلے میں تکالیف نے آنا ہے، اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے نشاندہی فرمادی کہ جب تم فنا کی راہ پر جذب کی منزل کوپہنچو گے تو پھر اس کے بعد انتظار کرنا خدا تمہیں اپنی تربیت میں لے لے گا۔ پھر صبح و شام زندگی کے معاملات میں زیرو بم آئے گا، وہ تمھیں کبھی ذہنی پریشانی اور کبھی مالی مشکلات میں مبتلا کرے گا۔ ارشاد فرمایا:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ.

(البقرة، 2: 155)

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے۔‘‘

ان آزمائشوں کے بعد پھر فناء تامہ نصیب ہو گی جس کے اندر انسان اپنی ذات، انا، خودی اور خواہشات سب چیزوں کو فنا کرچکا ہوتا ہے اور اللہ کی صفات کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور پھر بالآخر بقا کی وادی میں داخل ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)