الفقہ: حج وحدتِ امت کا سرمایہ و ذریعہ

دارالافتاء تحریک منہاج القرآن

اسلامی فلسفہ زندگی اور اسلامی قانون و احکام دنیا کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے جسے اپناکر دنیا کے تمام غموں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے اور صرف آخرت ہی نہیں، اس زندگی کو بھی قابلِ رشک بنایا جاسکتا ہے۔ قرآن و سنت سے دوری سے صرف مسلمان ہی اس کی خیروبرکت سے محروم نہیں ہوئے بلکہ تمام عالمِ انسانیت اس چشمۂ حیات کے فیض و برکت سے محروم ہوگئی۔ آج دنیا مختلف علوم و فنون سے فیضیاب ہورہی ہے۔ زمین نے اپنے خزانوں کی کنجیاں نوعِ انسانی کے سپرد کردیں۔ تحقیق و تفتیش کے نت نئے ذرائع فطرت کے پوشیدہ خزانوں کو بے نقاب کررہے ہیں۔ علوم و فنون کے تنوع نے ترقی کی نئی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ اس تمام ترقی کے باوجود امنِ عالم کے لئے کی جانے والی تمام کاوشیں اسلامی احکام کی نقالی کرنے کی ناکام کوشش ثابت ہوئیں اور صدیاں گزرنے کے باوجود اصل کی خُو بُو بھی حاصل نہ کرسکیں۔

حج کی صورت میں مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع دور دراز کے مسلمانوں، عوام و خواص، مختلف رنگوں، نسلوں، زبانوں کے بولنے والوں، مختلف الانواع تہذیب و ثقافت، تمدن کے حامل مگر ایک دین کے پیروکاروں کے ایک دوسرے سے ملنے کا ایک موقع ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کا باہمی تعارف ہو، ایک دوسرے کے مسائل و مشکلات سے آگاہ ہوں اور یہی ان کا بین الاقوامی مرکز قرار پائے۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی رابطے مضبوط ہوں۔۔۔ ان کے حکمران علاقائی مسائل کو زیر بحث لائیں۔۔۔ مظلوم جہاں کہیں ہوں ان کی سیاسی، مالی اور اخلاقی مدد کریں۔۔۔ حوادث، سانحات، قحط، سیلابوں، زلزلوں اور مظالم کا شکار بھائیوں کے مصائب کا ادراک و احساس کریں۔۔۔ ان کے ازالہ کی تدبیریں اور عملی جدوجہد کریں۔۔۔ اپنے قدرتی وسائل کو حقداروں پر خرچ کریں۔۔۔ اپنی معیشت کو مضبوط کریں۔۔۔ اپنے عوام کی تعلیم، صحت، صنعت، حرفت، زراعت کو ترقی دیں۔۔۔ اپنا دفاع، اپنی آزادی، اپنی عزت اور عظمت رفتہ کی بحالی پر اپنے وسائل خرچ کریں۔

قرآن مجید میں کس فصاحت و بلاغت سے یہ بات بتائی گئی اور ان مقاصد کے حصول کا حکم دیا۔ ارشاد ہوا:

لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ.

(الحج: 28)

’’ تاکہ وہ اپنے فوائد (بھی) پائیں۔‘‘

حضرت صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادیؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’دینی اور دنیوی فوائد جو اس عبادت (حج) کے ساتھ خاص ہیں، دوسری عبادات میں نہیں پائے جاتے۔‘‘

علامہ اقبالؒ نے حج کی کتنی خوبصورت ترجمانی کی ہے:

طاعتے، سرمایۂ جمعیتے
ربطِ اوراق کتاب ملتے

’’(حج) اللہ تعالیٰ اور رسول پاک ﷺ کی اطاعت ہے، وحدت امت کا سرمایہ و ذریعہ ہے، کتاب ملت کے منتشر اوراق (یعنی افراد امت) کی جلد بندی ہے۔‘‘

حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں اتحاد، یقین اور نظم کے فوائد نہ صرف امت مسلمہ کے لئے بلکہ تمام دنیا کے لئے پنہاں ہیں۔ اس سے یقینِ محکم، عملِ پیہم، محبت فاتح عالم کے انوار کی خیرات بٹتی ہے مگر ہم اپنے حکمرانوں کی نااہلی کے سبب ان انوار و برکات سے محروم ہیں۔ آج امت کہاں کہاں کس حال میں ہے۔۔۔؟ ہمارے حاکم ہمارے خادم ہیں یا خدام۔۔۔؟ دور و نزدیک سے عوام کی آواز بااختیار لوگوں تک پہنچتی ہے یا راہوں میں ہی بھٹکتی ہے۔۔۔؟ مظلوم کی ہر سطح پر داد رسی ہورہی ہے یا ظالم کو تحفظ اور مظلوم کو دھتکارا جاتا ہے۔۔۔؟ کیا حکمرانوں اور بااثر طبقات کی زیادتی اور مظلوم کی فریاد کو دیکھا سنا اور موقع پر بدلہ دیا جاتا ہے یا مظلوم کو دھتکار دیا جاتا ہے۔۔۔؟ ناحق قتل و غارت کرنے والوں کو فوراً سرعام سزا ملتی ہے یا شیطانی آنت کی طرح عمر بھر کے لئے انکوائری کمیٹیاں ہی بنتی رہتی ہیں۔۔۔؟

ذرا چشم تصور میں دور اول کی برکات لے کر آئیں۔ جب ہر ذی استطاعت مسلمان اپنے مرکز میں حاضر ہوتا تھا اور اُسے عدل و انصاف ملتا تھا۔۔۔ اپنے حقوق کے حصول کے لئے اُسے دھکے نہیں کھانے پڑتے تھے۔۔۔ حج کے اس عظیم اجتماع عام میں جرائم کی فوری شنوائی، سزاؤں کا فوری نفاذ اور چھوٹے بڑے کی تمیز کئے بغیر عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے اور ان پر عملدرآمد ہوتا تھا۔۔۔ علاقائی و مرکزی حکام کونماز پنجگانہ، نماز جمعہ و عیدین اور حج کے موقع پر عوام کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کاش کہ یہ منظر پھر سے زندہ ہوجائے اور حج ایک مرتبہ پھر امتِ مسلمہ کی وحدت کے ایک عملی مظہر کے طور پر سامنے آسکے۔

حج کی فضیلت

حج اسلام کا بنیادی رکن ہے اور یہ ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحبِ استطاعت ہو۔ حج، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ایسا رکن ہے جو اجتماعیت اور اتحاد و یگانگت کا آئینہ دار ہے۔ قرآن کریم میں حج کی فضیلت واہمیت کا اندازہ درج ذیل آیتِ مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَ لِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً.

(آل عمران: 97)

’’اور جو اس میں داخل ہوگیا امان پا گیا، اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘

اللہ رب العزت کے مقدس گھر کی زیارت اور حج کرنے کے لیے حاضر ہونےو الے یہ نفوس ہر قسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ ربِ کائنات کی رحمتوں سے نہ صرف محروم ہوجاتا ہے بلکہ ہدایت کے راستے بھی اس کے لئے مسدود ہوجاتے ہیں۔

استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ کرم سے نکال دیتا ہے۔حضرت ابو اُمامہg سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ لَمْ یَمْنَعْہُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَۃٌ ظَاہِرَۃٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَآءَ یَھُوْدِیًّا وَإِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا.

(ترمذي، السنن، 3: 176، رقم: 812)

جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے)۔

جبکہ دوسری طرف اس عظیم سعادت کو حاصل کرنے والے کو بخشش کی نوید سناتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اَلْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللهِ. إِنْ دَعَوْہُ أَجَابَھُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوْہُ غَفَرَ لَھُمْ.

(ابن ماجہ، السنن، 2: 9، رقم: 2892)

حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے۔

حج ایک ایسا عمل ہے کہ اگر بندہ اس کے آداب اور تقاضوں کو ملحوظ رکھتا ہے اور مناسک حج کی ادائیگی کے دوران صدق و اخلاص کا پیکر بنے اللہ کی بارگاہ میں حاضر رہتا ہے اور اپنے ماضی پر شرمندہ ہوتے ہوئے آئندہ گناہ و نافرمانی کا مرتکب نہ ہونے کا عہد کرتا ہے تو ایسے بندے کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ.

(بخاري، الصحیح، 2: 553، رقم: 1449)

جو رضائے الٰہی کے لیے حج کرے جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب۔ وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہو۔

ایک اور مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہُ جَزَاءٌ إِلاَّ الْجَنَّۃُ.

(بخاري، الصحیح، 2: 929، رقم: 1683)

ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ جنت ہی ہے۔

پس جسے بھی بھی حج وعمرہ کی سعادت نصیب ہو، اسے صدقِ دل سے اور خلوصِ نیت کے ساتھ اس عمل کو اچھی طرح سرانجام دینا چاہیے۔ گناہوں کی معافی اور حج کے اجرو ثواب کی مقدار کا معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کی مرضی جتنا اجر دے۔ یہ تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک شخص گناہ گار اور سیاہ کار ہو، وہ صدقِ دل سے اللہ تعالی سے توبہ کرے تو اللہ تعالی توبہ قبول فرمانے والا ہے، اس کو معاف فرمائے گا۔ اللہ تعالی تو نیتوں کے بھید جانتا ہے۔ صدقِ دل اور خلوصِ نیت ہو تو بعید نہیں سب کے سب گناہ معاف ہو جائیں۔ اگر کوئی حج کرنے کے بعد بھی ظلم و ناانصافی اور حقوق کی پامالی کا مرتکب ہوتا رہے تو اس کے حج وعمرہ، نماز، روزہ وغیرہ اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہوں گے بلکہ اُسے اپنی بداعمالیوں پر اللہ کے حضور جوابدہ ہونا ہوگا۔

سوال: کیا کوئی شخص اپنی طرف سے کسی کو حج پر بھیج سکتا ہے؟

جواب: اگر کوئی شخص انتہائی کمزوری کی وجہ سے حج نہ کرسکے تو کسی اور کو اپنی طرف سے حج پر بھیج سکتا ہے۔ یہ دوسرا شخص اس کی طرف سے حج و عمرہ کرے گا۔ اسے حج بدل کہا جاتا ہے۔ خشعم قبیلہ کی ایک بی بی نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ حج کا حکم آیا ہے مگر میرے والد بوڑھے ہیں، سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ فرمایا: ہاں۔ (متفق علیہ)

ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کی میری بہن نے حج کی نذر مانی مگر وہ وفات پاگئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لو کان علیھا دین اکنت قاضیہ قال نعم.

اگر اس پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتے؟ وہ بولے: جی ہاں! فرمایا:

فاقض دین اللہ فھوا حق بالقضاء. (متفق علیہ)

تو پھر اللہ کا قرض بھی ادا کرو کہ یہ ادائیگی کا زیادہ حقدار ہے۔

سوال: اگر والدین مقروض ہوں اور بیٹا صاحبِ استطاعت ہو تو بیٹے کے حج کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مال و دولت سے استطاعت رکھتا ہے تو اس پر حج فرض ہے اور فرض حج میں والدین کی اجازت ضروری نہیں، بلکہ والدین کو ممانعت کا اختیار نہیں۔ اس پر لازم ہے کہ حج کرے، اگرچہ والدین منع کریں۔ والدین کا مقروض ہونا اس شخص پر فرضیت حج میں خلل انداز نہیں۔ ہاں اگر وہ شخص خود مقروض ہے تو مقروض ہونے کی صورت میں پہلے قرض ادا کرنا لازم ہے، اس کے بعد حج کیا جائے گا۔

سوال: گھریلو ضروریات اور حج میں سے کس کو ترجیح دی جائے؟

جواب: بندہ سب سے پہلے ضروریات زندگی کو پورا کرے۔ اپنے ذمہ عائد فرائض و ذمہ داریاں ادا کرے مثلاً اگر غیر شادی شدہ بہن بھائی، اولاد ہے اور وہ شادی کے قابل ہیں پہلے تو ان کی شادی کی جائے تاکہ وہ گناہ کی طرف نہ چلے جائیں۔ رہائش کے لئے مکان نہیں ہے، اسے حاصل کرلیا جائے۔ المختصر اگر ضروریات زندگی کے علاوہ آپ کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ آپ حج کر سکتے ہیں تو کر لیں۔