ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلاَّ مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَھُمْ.
(آل عمران، 3: 19)
’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے اور اہلِ کتاب نے جو اپنے پاس علم آ جانے کے بعد اختلاف کیا، وہ صرف باہمی حسد و عناد کے باعث تھا۔‘‘
قرآن مجید اور احادیث نبوی کی روشنی میں اس مضمون کے گزشتہ دو حصوں میں اس امر کی وضاحت کی گئی کہ ایک ہی دین، مذہب اور ملت میں بہت سے مسالک اور مکاتبِ فکر وجود میں آجانے اور تفرقہ پیدا ہونے کا سبب کیا ہے؟ اس حوالے سے ہم مطالعہ کرچکے ہیں کہ تفرقہ پیدا ہونے کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ لوگ اللہ رب العزت کی نازل کردہ اصل وحی کے منکر ہوجاتے ہیں بلکہ اس انکار کا بنیادی سبب یہ ہوتاہے کہ جب نازل ہونے والی وحی، اللہ کی طرف سے اترنے والے احکام، تعلیمات اور عقائد و ہدایات کی تعبیر و تشریح کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہاں کئی ایسے عوامل جنم لے لیتے ہیں جو تعبیر و تشریح کرنے والوں کو گمراہ کر دیتے ہیں۔ اس گمراہی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان کے قلب و باطن اور نفس کا تزکیہ نہیں ہوتا، قلب و باطن میں نورِ الٰہی نہیں ہوتا اور وحی الٰہی کے نور کے ساتھ اُن کے قلب و باطن کی مناسبت نہیں ہوتی۔
مذکورہ آیتِ کریمہ سے درج ذیل امور واضح ہورہے ہیں:
1۔ پہلی چیز جو اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمائی، وہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے ہاں دین تو اوّل دن سے اسلام ہی ہے۔ یعنی جملہ انبیاء کرام اور رسل عظامf جو دین اپنی امم کی طرف لے کر آئے، وہ بھی دین اسلام ہی تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے امت کو ’’مسلمین‘‘ کا نام دیا تھا۔ ارشاد فرمایا:
سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ.
(الحج، 22: 78)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے راہِ حق پرچلنے والوں کا نام مسلمین رکھا گیا۔ حتیٰ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ تعمیر کرتے ہوئے بھی یہی نام استعمال کرتے ہوئے عرض کیا تھا:
وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ.
(البقرۃ، 2: 128)
’’ ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا۔‘‘
گویا یہ کوئی نیا ٹائٹل نہیں ہے بلکہ اللہ رب العزت کے حضور ہمارا یہ ٹائٹل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چلا آرہا ہے۔
2۔ اس آیتِ کریمہ کے دوسرے حصے میں فرمایا:
وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلاَّ مِنْ م بَعْدِ مَا جَآئَھُمُ الْعِلْمُ.
(آل عمران، 3: 19)
’’اور اہلِ کتاب نے جو اپنے پاس علم آ جانے کے بعد اختلاف کیا۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے تورات و انجیل کی صورت میں بنی اسرائیل کو جو علم دیا تھا، اُس علم کے آ جانے کے بعد انھوں نے اختلاف کیا اور ان میں تفرقہ پیدا ہوا۔ یہاں دو چیزیں قابلِ غور ہیں:
(i) ایک اختلاف وہ ہے جو مبنی بر جہالت تھا اور وہ تورات اور انجیل کے نازل ہونے سے پہلے کا اختلاف تھا، جب اُن کے پاس علمِ حق نہیں آیا تھا۔ انبیاء کرامf کی بعثت سے پہلے وہ گمراہ تھے اور شرک میں مبتلا تھے۔ اس وقت ان میں دھڑے، طبقے، فرقے اور گمراہی کا سبب یہ تھا کہ اُن کے پاس علم نہ تھا۔اُس جہالت کو دُور کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے انبیاء کرامf بھیجے۔ جہاں جہاں اللہ کا نبی آتا گیا، وہاں جہالت کی تاریکیاں ختم ہوگئیں۔ اس گمراہی، تفرقہ اور دھڑے بندیوں اور گمراہی کا ازالہ اور علاج علم نے کیا۔ مذکورہ آیت میں اس تفرقہ اور گمراہی کا ذکر نہیں ہورہا جو علم کے آنے سے پہلے تھی۔
(ii) اس آیتِ کریمہ میں ان گمراہیوں، تفرقہ اور دھڑے بندیوں کا ذکر ہے جو علمِ حق آنے کے بعد وجود میں آئی ہیں۔ یعنی علمِ الٰہی، علمِ حق ، کتاب، نبوت کی تعلیمات، ہدایت اور علم کے آجانے کے بعد انہوں نے باہمی اختلاف کیا۔
اب اس آیت کے تناظر میں اس حدیث کا دوبارہ مطالعہ کریں کہ آقا علیہ السلام اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کے ساتھ اپنی امت کی مماثلت بیان فرما رہے ہیں کہ:
لَیَأْتِیَنَّ عَلَی أُمَّتِي مَا أَتَی عَلَی بَنِي إِسْرَائِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ.
(ترمذی، السنن، ابواب الایمان، 5: 26، الرقم: 2641)
’’میری امت پر وہ کچھ ضرور آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا جس طرح ایک جوتی دوسری جوتی کے برابر ہوتی ہے۔‘‘
یعنی جو احوال بنی اسرائیل (یہود و نصاریٰ) پر بیتے، من و عن وہی احوال میری امت پر بھی بیتیں گے اور اسی طرح کی کیفیات میں میری امت بھی مبتلا ہو گی۔ گویا علم کے آجانے، قرآن کے نازل ہونے اور حضور علیہ السلام کی حدیث و سنت کی تعلیمات مل جانے کے بعد اسی طرح تفرقہ ہو گا، جیسے بنی اسرائیل میں تورات و انجیل اور علم آجانے کے بعد تفرقہ ہوا۔
زیرِ نظر سلسلہ وار تحریر میں ہم جس تفرقہ کے ازالے اور علاج کی کوشش کررہے ہیں یا جس تفرقہ کے ماحول میں سچائی کی تلاش کررہے ہیں اور حق و باطل اور درست اور غلط میں امتیاز کے لیے ایک methodology کے حصول کے لیے کاوش کررہے ہیں، اس کی تائید قرآن مجید سے میسر آ رہی ہے کہ امتِ مسلمہ بھی بنی اسرائیل ہی کی طرح کے احوال کا شکار ہوگی۔
باہمی حسد و بغض کے باعث حق کا انکار کیا جاتا ہے
3۔ اس آیت کریمہ کے تیسرے حصہ میں ارشاد فرمایا:
بَغْیًا م بَیْنَھُمْ.
(آل عمران، 3: 19)
’’وہ (اختلاف) صرف باہمی حسد و عناد کے باعث تھا۔‘‘
جب علم یعنی تورات و انجیل کی تعلیمات ان تک پہنچ گئیں تو اس کے بعد ان میں جو اختلافات ہوئے، ان کا ایک سبب اُن کے دلوں کے اندر باہمی حسد، بغض، عداوت و عناد کا ہونا تھا۔ گویا علم، روشن دلیل، حق، ہدایت الغرض سب کچھ ہونے کے باوجود اُن کے دلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد تھا۔۔۔ ایک دوسرے پر بڑائی اور سبقت لے جانے کی دوڑ تھی۔۔۔ بغض، عناد اور عداوت تھی۔۔۔ ایک دوسرے کی فضیلت اور برتری کو تسلیم نہ کرنے کا رجحان تھا کہ ’’میں بڑاہوں، اس کی بات کیوں مان لی جائے، یہ کون ہوتاہے کہ اس کی بات کو قبول کیا جائے۔‘‘ پس اُنہوں نے وسروں کے پاس موجود حق کو محض حسد، بغض اور عناد کے باعث چھوڑ دیا اور اس چیز نے اُنھیں گمراہی میں دھکیل دیا۔
جو لوگ قلب و باطن کا تزکیہ اور تطہیر قلب کا اہتمام نہیں کرتے، جن کے دلوں پر زنگ اور غلاظت ہے، طہارت موجود نہیں تو پھر بارش (یعنی علم اور اللہ کی کتب) کے نازل ہونے کے باوجود بھی اُس دل کی گندی زمین پر اسی طرح بیماریاں اور تعفن جنم لیتا ہے۔
- یہ ہی بات اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشوریٰ میں بھی بیان فرمائی۔ ارشاد فرمایا:
وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا م بَیْنَهُمْ.
(الشوریٰ، 42: 14)
’’اور انہوں نے فرقہ بندی نہیں کی تھی مگر اِس کے بعد جب کہ اُن کے پاس علم آ چکا تھا محض آپس کی ضِد (اور ہٹ دھرمی) کی وجہ سے۔‘‘
گویا علم، حق اورہدایت کے آجانے کے باوجود وہ بغض و حسد اور دوسرے کی فضیلت و برتری کو تسلیم نہ کرنے کے سبب دھڑوں اور گروہوں میں بٹ گئے۔ اس بغض اور حسد نے انہیں تباہ کردیا۔ حق پیچھے رہ گیا اور بغض بازی لے گیا۔ اس طرح اس سوچ نے پوری امت کو گمراہیوں کی بنیاد پر دھڑوں میں مبتلا کردیا اور ان کے ہاں 72 فرقے وجود میں آگئے۔
مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ امر واضح ہوگیا کہ بنی اسرائیل کے اندر جو تفرقہ ہوا، دھڑے اور گروہ بنے، اختلاف ہوئے حتیٰ کہ 72 فرقے بنتے چلے گئے، قرآن مجید نے اس کا بنیادی سبب تکرار کے ساتھ یہ بیان کیا کہ حق اُن کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں تھا، ہدایت تھی، کتاب تھی، آیاتِ ربّانی تھیں، پیغمبر کے فرمودات تھے، مگر اُن کی اپنی ہٹ دھرمی اور باہمی بغض آڑے آ گیا۔ اُن میں سے ہرشخص اپنی بڑائی کاطالب تھا۔۔۔ معاشرے میں اپنی فضیلت اور فوقیت دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ سردار بننا چاہتا تھا کہ لوگ اُس کے پیروکار بنیں۔۔۔ اُس کی بات تسلیم کریں اور اسے اپنا امام اور پیشوا مانیں۔اس حسد اور بغض و عناد کے سبب انھوں نے حق کو پیچھے چھوڑ دیا اور نئے نئے نظریے، مکاتبِ فکر، فرقے اور دھڑے بنے ا ور امت تفرقہ میں مبتلا ہوگئی۔
- صاحبِ تفسیر ابن کثیر سورۃ آل عمران کی آیت 19 کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
أی بغی بعضهم علی بعض فاختلفوا فی الحق لتحاسدهم وتباغضهم وتدابرهم فحمل بعضهم بغض البعض الآخر علی مخالفته فی جمیع أقواله وأفعاله وإن کانت حقا.
(ابن کثیر، تفسیر، 1: 355)
یعنی بَغْیًام بَیْنَھُمْ کا مطلب یہ ہے کہ حق، ہدایت اور کتاب کی روشنی آنے کے باوجود اُنہوں نے اس حق کی تعبیر و تشریح میں اختلاف کیا۔۔۔ اُن آیات کی تشریح، تفسیر اور معانی بیان کرنے میں اختلاف کیا۔۔۔ہر ایک نے متضاد معانی اور الگ الگ معارف اخذ کیے۔ الگ الگ اطلاقات کیے اور ان میں اختلاف کیا۔۔۔ حق کی شرح کرنے اور حق کو مختلف صورت حال پر پیش کرنے میں اختلاف کیا۔ ان کے ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کی جڑ حسد اور بغض تھا، پس اس بغض نے انھیں دوسرے کی مخالفت کرنے پر مجبور کردیا۔
نیز یہ کہ حسد، بغض اور عداوت پر مبنی یہ مخالفت کسی ایک پہلو سے نہ ہوتی بلکہ فی جمیع أقوالہ وأفعالہ وإن کانت حقا؛بلکہ اگر وہ بندہ حق کہہ رہا ہو تب بھی اُس کی مخالفت کی جاتی ہے اور اگر صحیح اور درست عمل کر رہا ہے، تب بھی اس کے ہر فعل کی مخالفت کی جاتی۔ صرف اس لیے کہ اگر ہم نے اُس کی بات سچی مان لی تو پھر اُس کی برتری اور فضیلت ہو جائے گی اور وہ دوسرے کی برتری اور فضیلت کو ماننا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ اس حسد، بغض اور عناد نے اُنھیں حق سے پھیر دیا، علم کے صحیح معنی اور مفہوم کو سمجھنے سے محروم کردیا اور دھڑے بندیوں، ٹکڑوں اور فرقوں میں تقسیم کردیا۔
یہی کچھ آج ہمارے دور میں ہورہاہے کہ اگر کوئی شخص حق بات کہہ رہا ہے۔۔۔ قرآن و حدیث کا صحیح معنیٰ بیان کر رہا ہے۔۔۔ صحیح معرفت، آگاہی اور شعور دے رہا ہے۔۔۔ حق اور باطل کافرق بتا رہا ہے۔۔۔ تو دوسری طرف کچھ لوگ اس شخص کے ساتھ حسد، بغض، عناد اور اپنی بڑائی، فضلیت اور برتری کی خواہش کے سبب نہیں چاہتے کہ اس کی بات کو سنا جائے۔ قرآن مجید نے واضح کردیا کہ محض حسد کی وجہ سے سچ اور حق بیان کرنے والے کی مخالفت کی جاتی ہے۔
بنی اسرائیل نے حسد، بغض اور اپنی برتری کی خواہش کے سبب رسالتِ محمدی کا انکار کیا
جس علم کے آجانے کے بعد بنی اسرائیل نے حسد، بغض اور عناد کے سبب اختلاف کیا، ائمہ نے اس علم سے حضور علیہ السلام کی فضیلتِ نبوت بھی مراد لی ہے۔تورات اور انجیل میں حضور نبی آخر الزماں سیدنا محمد مصطفی a کی بعثت کے ذکر، آپ ﷺ کی شان کا بیان اور آپ ﷺ کے اوصاف و کمالات بیان ہوئے ہیں کہ ایک نبی آخر الزماں آئیں گے، اُن کی ولادت مکہ میں ہوگی، ہجرت مدینہ کی طرف ہو گی، چالیس برس کی عمر میں اُن کی بعثت ہوگی، وہ معراج پر جائیں گے، اُن کے اوصاف و کمالات یہ ہوں گے۔ ان تمام باتوں کو ائمہ تفسیر نے مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَ ھُمُ الْعِلْمُ کی تفسیر میں علم قرار دیا ہے۔
امام قرطبی بیان فرماتےہیں:
إلا من بعد ما جاء هم العلم نبوۃ النبی فاختلفوا فیها (بغیا بینهم) أی حسدا علی النبی قال: معناه الضحاک قیل معنی بغیا أی بغی بعضهم علی بعض یطلب الفضل والریاسۃ وقتلوا الأنبیاء فکذا مشرکوا عصرک یا محمد قد جائتهم البینات ولکن أعرضوا عنها للمنافسۃ فی الریاسۃ.
(قرطبی، الجامع لاحکام القرآن ، 16: 163)
بنی اسرائیل کو آقا علیہ السلام کے ساتھ حسد پیدا ہو گیا کہ ہم بنی اسرائیل میں سے ہیں اور یہ (رسول) بنی اسماعیل میں سے آئے۔ ہم تو اعلیٰ ہیں، اس لیے کہ کل انبیاءf ہماری نسل میں آئے، ہم پر تورات اور انجیل اتریں، ہم دینِ اسلام کے اصل وارث ہیں۔ اگر ہم اس نبی پر ایمان لے آئیں اور ان کا کلمہ پڑھ لیں تو ہم فوقیت اور فضیلت سے محروم ہو جائیں گے۔ پس آقا علیہ السلام کے ساتھ اس حسد نے انھیں گمراہ کردیا اور انھوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت اور عظمت کو ماننے سے انکار کردیا۔
مزید یہ کہ ان کے اندر معاشرے میں اپنی لیڈر شپ، قیادت اور فوقیت و برتری منوانے کی طلب، حرص اور لالچ تھی۔ پس اس طلب اور حرص کی وجہ سے انھوں نے حق اور سچائی کا انکار کردیا۔ امام قرطبی بیان کرتے ہیں:
فکذا مشرکوا عصرک یا محمد !قد جاء تهم البینات ولکن أعرضوا عنها للمنافسة فی الریاسة.
(قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 16: 163)
آپ ﷺ کے زمانے کے منکروں اور کافروں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ چاند کو ٹکڑے ہوتا دیکھ رہے ہیں، کنکریوں کو کلمہ پڑھتے دیکھ رہے ہیں، سورج کا پلٹنا دیکھ رہے ہیں، وہ دیکھ رہے تھے کہ درخت زمین کا سینہ چیرکر آپ کو سجدہ ریز ہو رہے ہیں، جانور آپ کو سجدے کر رہے ہیں، آپ کی زبان پاک سے نکلا ہوا ہر لفظ سچا ہورہا ہے، وہ آپ a کی برکات، کمالات اور معجزات دیکھ رہے ہیں اور پچھلی کتابوں میں مذکور آپ کے فضائل پڑھ رہے ہیں، الغرض ہر چیز عیاں ہے اور حق ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے، اس ساری بات کے باوجود وہ صرف حسد اور ریاست کی طلب کے باعث آپ ﷺ کو ماننے سے انکار کررہے ہیں۔
حسد اور بغض میں مبتلا بندہ دوسرے کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا حتی کہ وہ نبوت و رسالت اور معجزات کابھی انکار کردیتاہے۔ اب جب کہ کوئی نبی نہیں آئے گا، نہ کوئی کتاب اور وحی نازل ہوگی اور نہ کوئی صاحبِ معجزہ ہوگا تو اِس زمانہ میں حسد، بغض اوراپنی فضیلت و برتری اور ریاست و اقتدار کی طلب کیا کچھ کرواتی ہوگی، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اگر نبی کے ہاتھوں چاند کے ٹکڑے ہوتے دیکھ کر فقط حسد اور طلبِ ریاست نے حق کا انکار کروا دیا تو امت میں آج اور آئندہ آنے والے زمانہ میں اپنی قیادت اور برتری تسلیم کروانے کے لیے کیا کچھ نہیں ہوتا ہوگا۔
اللہ نے جس سیدھے راستے کی پیروی کا حکم دیا ہے تو اُس کی پہچان کا بھی ضابطہ اور قاعدہ مقرر فرمایا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہرکوئی قرآن مجید کی آیات اور احادیثِ نبویہ کی تعبیر اپنی رائے سے کرتا رہے
پس واضح ہوا کہ بنی اسرائیل کا دینِ اسلام سے ٹکراؤریاست، لیڈر شپ اور برتری لینے کی وجہ سےتھا۔ ان کا انکار تورات اور انجیل پر نہیں تھا۔ اسی طرح آج امتِ مسلمہ میں اختلاف قرآن کے قرآن ہونے پرنہیں ہے، حدیث نبوی کے سچا ہونے پر نہیں ہے بلکہ اختلاف قرآن و حدیث کی تشریح اور تعبیر میں ہے اور اس اختلاف کا بنیادی سبب بھی حسد، بغض اور اپنی برتری وبغض و فضیلت کی خواہش ہے۔
امام قرطبی بیان فرماتے ہیں:
ولا خلاف أن اللہ تعالٰی لم یغایر بین الشرائع فی التوحید والمکارم والمصالح وإنما خالف بینهما فی الفروع.
(قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 16: 164)
اس چیز میں کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مختلف شریعتوں کی توحید، مکارم اور مصالح میں مغایرت پیدا نہیں کی بلکہ فرق صرف فروع میں ہے۔ سو اختلاف بھی فروع میں جنم لیتاہے۔ اختلاف تشریح اور تعبیر میں جنم لیتاہے۔ اصل سے جومسائل اخذ کرتے ہیں، اُن میں اختلاف جنم لیتا ہے اور اس اختلاف کا بنیادی سبب عناد، عداوت، بغض، حسد، لیڈرشپ کی طلب اور دنیا پرستی کا ہونا ہے۔
قرآن مجید کی ان آیات نے یہ واضح کردیا کہ اختلاف؛ طلبِ فضیلت، طلبِ ریاست اور باہمی بغض، حسد اور عناد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان اختلافات کے سبب وہ دوسرے کی بات قبول نہیں کرتے اور ایک نیا نظریہ، نیامؤقف، نئی تشریح اور نئی تعبیر دیتے ہیں اور بعد ازاں اس کی بنیاد پر ایک عقیدے، مسلک اور مکتبۂ فکر کی عمارت قائم ہوتی چلی جاتی ہے۔
تفرقہ اور دھڑےبندی کی ممانعت کا سبب
قرآن مجید میں جابجا تفرقہ اور دھڑے بندی کی نہ صرف ممانعت فرمائی گئی ہے بلکہ اس کے اسباب بھی بیان کیے ہیں۔ ذیل میں چند آیات ملاحظہ ہوں:
1۔ قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا گیا:
وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا.
(آل عمران، 3: 105)
’’ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے۔‘‘
یعنی اے امت مسلمہ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے باہمی حسد، بغض و عناد، عداوت اور اپنی لیڈرشپ کی طلب میں تفرقہ کیا، دھڑے بندی کی، ایک دوسرے کو برا بھلا کہا اور اپنے غلط مؤقف پیش کیے۔
2۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَاخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَھُمُ الْبَیِّنٰتُ.
(آل عمران، 3: 105)
’’اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے۔‘‘
3۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَمِینِهِ وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَسَارِهِ، ثُمَّ وَضَعَ یَدَهُ فِي الْخَطِّ الْأَوْسَطِ فَقَالَ هَذَا سَبِیلُ اللهِ. ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآیَةَ (وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِهِ).
(ابن ماجہ، السنن، المقدمۃ، 1: 6، رقم: 11)
آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام کی مجلس میں ایک خط (لائن) کھینچا اور پھر اس خط کے دائیں طرف ایک خط کھینچا اور پھر اس کے بائیں طرف بھی ایک خط کھینچا اور پھردرمیان والے خط پر ہاتھ رکھا اور فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے۔ پھر اس آیت (الانعام: 153) کی تلاوت کی:
وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ.
(الانعام، 6: 153)
’’ اور یہ کہ یہی (شریعت) میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اس کی پیروی کرو اور (دوسرے) راستوں پر نہ چلو۔ پھر وہ (راستے) تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گے۔‘‘
جب سیدھے راستے کی پیروی کا حکم دیا جارہاہے تو لازمی بات ہے کہ اس سیدھے راستے کی پہچان کا کوئی ضابطہ اور کوئی قاعدہ ہو گا۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ہرکوئی اپنی مرضی سے قرآن مجید سے چند آیات پڑھے اور پھر جو چاہے کہتا پھرے۔ لہذا قرآن و سنت کی تعبیراپنی رائے سے نہیں بلکہ اس methodology سے ہونی چاہیے جو قرآن و سنت اور اللہ اوراس کے رسول نے دی۔
مذکورہ آیت میں قرآن مجید نے سیدھے راستے کی پیروی کا حکم دیتے ہوئے یہ امر بھی واضح فرمادیا کہ بہت سارے راستوں کی پیروی نہ کرو۔ قرآن مجید کے لفظ ’’السُّبُل‘‘ نے واضح کردیا کہ لوگ قرآن مجید کی آیات اور حدیث نبوی کے کئی معانی نکالیں گے، کئی تعبیرات اور تشریحات ہوں گی، دعوت دینے والے علماء طرح طرح کے کئی راستے نکال لیں گے اور ہر راستہ ایک مکتبِ فکر، ایک مسلک اور فرقہ بنتا جائے گا مگر یہ سارے چھوٹے چھوٹے فرقے، مکاتبِ فکر اور چھوٹے چھوٹے دھڑے تمہیں اصل راہِ ہدایت سے ہٹا دیں گے۔
4۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ م بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ.
(الروم، 30: 32)
’’ان (یہود و نصاریٰ) میں سے (بھی نہ ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور وہ گروہ در گروہ ہوگئے، ہر گروہ اسی (ٹکڑے) پر اِتراتا ہے جو اس کے پاس ہے۔‘‘
قرآن مجید نے اس آیت میں یہ امر بھی واضح کردیا کہ جس گروہ اور فرقے کے پاس چلے جاؤ، وہی اپنے آپ کو حق پر سمجھ رہا ہے اور اس پر خوش ہے۔۔۔ جو سودا اُن کے پاس ہے، وہ کہتا ہے کہ یہی درست ہے۔۔۔ جو تعبیر اور تشریح وہ کر رہا ہے، وہ اسے ہی درست مانتا ہے۔
آج یہ صورت حال اور نقشہ پوری امت مسلمہ میں بھی نظر آرہا ہے۔ دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ فرقے بن گئے، دھڑے بن گئے اورہر مسلک، ہر فرقہ اور ہر دھڑے کے پاس جو سودا ہے، وہ اُس پر خوش اور مطمئن ہے اور کہتاہے کہ میری بات ہی درست ہے۔ اس صورت حال میں ہمیں اس راستے کو تلاش کرنا ہے جسے اللہ نے سیدھا راستہ قرار دیا ہے۔ ہم نے صرف اسی راستہ کی پیروی کرنا ہے اور ولا تتبعوا السبلکے مصداق بے شمار ان راستوں، تعبیرات اور تشریحات کو ترک کرنا ہے، جن کی تعبیر و تشریح قرآن اور حدیث نے نہیں کی تھی بلکہ ان لوگوں نے کی تھی جنہوں نے دوسروں کی برتری اور فضیلت تسلیم نہیں کرنی، حسد اور بغض کرنا ہے اور اپنی لیڈرشپ کو تسلیم کروانا ہے۔ ان کی اس خود ساختہ تعبیر وتشریح کے نتیجے میں فرقے، دھڑے اور جماعتیں بنتی گئیں۔ ہم نے اس کیفیت سے نبرد آزما ہوتے ہوئے راہِ حق کو تلاش کرنا ہے۔
وَاٰتَیْنٰهُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَمَا اخْتَلَفُوْا اِلَّا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَ هُمُ الْعِلْمُ لا بَغْیًا م بَیْنَهُمْ اِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰـمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ. ثُمَّ جَعَلْنٰـکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.
(الجاثیہ، 45: 17-18)
’’اور ہم نے ان کو دین (اور نبوّت) کے واضح دلائل اور نشانیاں دی ہیں مگر اس کے بعد کہ اُن کے پاس علم آچکا انہوں نے (اس سے) اختلاف کیا محض باہمی حسد و عداوت کے باعث ، بے شک آپ کا رب اُن کے درمیان قیامت کے دن اس امر کا فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ پھر ہم نے آپ کو دین کے کھلے راستے (شریعت) پر مامور فرما دیا، سو آپ اسی راہ پر چلتے جائیے اور اُن لوگوں کی خواہشوں کو قبول نہ فرمائیے جنہیں (آپ کی اور آپ کے دین کی عظمت و حقّانیت کا) علم ہی نہیں ہے۔‘‘
یعنی اتنی کھلی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی انہوں اختلاف کیا اور علم آجانے کے باوجود دھڑے اور فرقے بنادیے۔ آج ہمارے پاس قرآن، سنتِ نبوی اور حدیث کی صورت میں علم ہے مگر اس علم کے ہونے کے باوجود محض حسد ، بغض ، عناد ، قلب و باطن کی سیاہی ، لیڈرشپ اور برتری کی فضیلت کے حصول اور اس طرح کے دیگر امور نے دھڑے اور فرقے بنا دیئے۔ نئے نئے کئی راستے کھول دیئے، جو جہنم میں لے جانے والے ہیں۔۔
حسد و بغض کے سبب بنی اسرائیل نے رسالت محمدی ﷺ کا انکار کردیا اور کفارِ مکہ معجزات دیکھنے کے باوجود آپ ﷺ پر ایمان نہیں لائے توآج جب نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہے اور معجزات بھی رونما نہیں ہوسکتے تو یہ حسد و بغض، برتری و فوقیت کی خواہش اور اقتدار کی طلب کیا کچھ کرواتی ہوگی، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے
آیت میں مذکور شریعۃ من الامر کا معنی امام قرطبی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
اي علی منھاج واضح من الأمرالدین. لأنہ طریق إلی المقصد.
(قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 16: 164)
یعنی ایک طریقہ دیاہے جس کے ذریعے آپ مقصد تک پہنچ سکیں، حق تک پہنچ سکیں، صحیح اور غلط میں امتیاز کرسکیں۔ یعنی دین کے امور میں واضح methodology (منھاج الواضح) دی ہے، ایک واضح راستہ، طریقہ، سائنس، ضابطہ اور قاعدہ دیا ہے جس کے ذریعے آپ حق تک پہنچ سکیں اور امت کو حق کی طرف لے جاسکیں۔
جو لوگ حق کو نہیں پہنچانتے، ان کے بارے میں امت کو کہا جا رہا ہے کہ ان کی خواہشاتِ نفس کی پیروی نہ کریں۔ دین آپ کی اور میری مرضی سے تشکیل نہیں پاتا، حق میری اور آپ کی ذاتی تعبیر سے نہیں بنتا بلکہ حق وہ ہے جو شریعۃ من الامر (methodology) سے بنتاہے۔ جو اللہ اور رسول کے دیئے ہوئے واضح احکام اور طریقے سے ثابت ہو، وہ حق ہے اور جو اس سے ہٹ کر ہو وہ حق نہیں ہوتا۔
(جاری ہے)