اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا.
(العنکبوت، 29: 69)
’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ تصوف، سلوک اور معرفت کے راستے کے حوالے سے اس امر کی طرف ہماری توجہ مبذول کروارہا ہے کہ اللہ رب العزت اسی کو اپنی طرف آنے والے راستے کی ہدایت عطا فرماتا ہے جو مجاہدہ و ریاضت اور محنت و مشقت کرتے ہیں اور جو جہدِ مسلسل نہیں کرتے، انہیں کبھی اپنی طرف آنے والے راستوں کی طرف ہدایت عطا نہیں فرماتا۔
اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں جمع کا صیغہ ’’السبل‘‘ (کئی راستے) استعمال فرمایا کہ ہم اپنی طرف آنے والے راستوں کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنے وصال اور قربت و معرفت کے لیے ایک راستہ نہیں بلکہ متعدد راستے عطا فرمائے ہیں۔ یہ راستے اگرچہ جدا جدا ہیں مگر ان راستوں کی منزل ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تصوف میں کئی سلاسلِ طریقت؛ قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ، شاذلیہ وغیرہ موجود ہیں۔ یہ سارے طرق اور راستے اللہ رب العزت کی جانب ہی جاتے ہیں اور انہی راستوں کے ذریعے اللہ کا قرب، اس کی معیت اور صحبت ملتی ہے۔
تعلق باللہ کا راستہ ایک ایسا راستہ ہے جس راستے سے اولیاء کاملین گزرے۔ وہ اس راہِ محبت و شوق، راہِ جستجو و آرزو، راہِ عشق، راہِ تقویٰ و پرہیزگاری، راہِ قناعت اور راہِ زہد و ورع سے نہ صرف خود گزرتے ہیں بلکہ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو بھی گزارتے ہیں۔ تصوف اور صوفیاء کی جملہ کتب اور رسائل کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تصوف کا آغاز بھی اسی تعلق باللہ کے سفر سے ہوتا ہے۔یہ سفر کبھی بیابان اور بنجر زمین کا ہوتا ہے، کبھی ویران صحراؤں اور غیر آباد بستیوں اور شہروں کا ہوتا ہے۔ جوں جوں سالک اس سفرِعشق و محبت میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے تو اس کا سفر بیابان و بنجر زمین سے رفتہ رفتہ سرسبز و شاداب باغات کی طرف چلا جاتا ہے اور جوں جوں یہ سفر اپنے نقطۂ کمال کی طرف بڑھتا ہے تو ایک مقام پر جاکر یہ سفر محبوب کی گلیوں تک مکمل ہوجاتا ہے۔
قرآن مجید میں مذکور درج ذیل واقعہ سے بھی اولیاء و صوفیاء یہ امر مستنبط کرتے ہیں کہ اللہ کی طرف جانے والے راستے متعدد ہیں۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی کہ اے موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے ہمارے لیے بارش طلب کریں کیونکہ ہمیں پانی کی اشد ضرورت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے درخواست گزار ہوتے ہیں:
وَاِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْناً قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ.
(البقرة، 2: 60)
’’ اور (وہ وقت بھی یا دکرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا: اپنا عصا اس پتھر پر مارو، پھر اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، واقعتاً ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کی ضرب سے اس پتھر سے 12 چشموں کا پھوٹ پڑنا، اس امر کا اللہ رب العزت کے فرمان؛ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا سے گہرا تعلق ہے۔اس آیت کریمہ سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی قربت اور اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں یہ دراصل 12 مشارب اور چشمے ہیں جو اپنے مزاج، خصلتوں اور میلانات میں جدا جدا ہیں مگر ان کا سرچشمہ ایک ہوتا ہے۔ تصوف و معرفت اور سلوک میں کئی مزاج ہوتے ہیں، کسی کو اللہ رب العزت کی قربت طریقِ عشق سے ملتی ہے۔۔۔ کسی کو طریقِ معرفت اورطریقِ زہد و ورع سے ملتی ہے۔۔۔ کسی کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی روش سے ملتی ہے۔۔۔ علی ھذا القیاس یہ راستے جدا جدا ہیں۔ ان راستوں پر چلنے، گامزن ہونے اور مجاہدہ کرنے سے اللہ رب العزت اپنی قربت ضرور بالضرور عطا فرماتا ہے۔
امم پر نعمتوں کا نزول انبیاء اور صلحاء کے وسیلہ سے ہوتا ہے
یہاں ضمناً اس بات کو بیان کردوں کہ بنی اسرائیل اپنے اعمال و احوال کے حوالے سے جیسے بھی تھے مگر ان کا عقیدہ دیکھئے کہ اگر وہ لوگ چاہتے تو اللہ رب العزت سے براہِ راست بارش طلب کرلیتے کہ اے باری تعالیٰ ہمیں بارش عطا فرماتا کہ ہم سیراب ہوجائیں مگر انھوں نے اللہ سے براہ راست مانگنے کے بجائے اپنے برگزیدہ نبی سے درخواست کی کہ اے موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے آپ خود درخواست کریں تاکہ وہ آپ کے ذریعہ ہمیں پانی عطا فرمائے۔
اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو بنی اسرائیل کو براہ راست پانی کی نعمت سے سرفراز فرما دیتا مگر اس نے ایسا اس لیے نہیں کیا تاکہ لوگوں پر یہ واضح ہوجائے کہ خدا سے براہ راست حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ اس امت کے نبی اور رسول کے ذریعے اس کی نعمت حاصل کی جاتی ہے۔لہذا امت اس سبب اور واسطے کو کبھی نہ بھولے۔
یاد رکھیں! جو بھی نعمت کسی قوم یا جماعت کو ملتی ہے، وہ اس قوم کے رہنما اور رہبر کی وساطت سے ملتی ہے۔ اللہ رب العزت اس chain of command کے تحت اپنے احکامات جاری فرماتا ہے۔ بلاتشبیہ و بلامثال جس طرح قومی و نجی اداروں میں ایک Chain of Command ہوتی ہے، جس کی پاسداری ہر صورت لازمی ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت بھی اسی chain of command کی طرف ہماری توجہ مبذول کروارہا ہے کہ ہم جو کچھ متائے دنیا عطا کرتے ہیں تو وہ کسی کے ذریعے اور وسیلہ سے عطا کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یا:
إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي.
(المسند الجامع، 44: 224، الرقم: 14533)
بے شک عطا خدا کی ہے مگر تقسیم مصطفی ﷺ کی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ امم میں اللہ رب العزت نے انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کو اپنی امتوں کا پیشوا و رہنما بنایا اور ان کے ذریعے نعمتوں کا نزول فرماتا رہا لیکن جب نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہوگیا تو پھر اللہ رب العزت اپنی مخلوق پر نعمتوں کا نزول کس کے وسیلہ و واسطہ سے کرے گا؟ اس کا جواب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری یوں دیتے ہیں کہ بے شک انبیاء و رسل علیہم السلام کی تشریف آوری کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے، نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہوچکا ہے لیکن سلسلہ رشد و ہدایت ختم نہیں ہوا۔ اولیاء، صلحاء اور مجددین کی صورت میں امت کے رہنما و پیشوا کے آنے کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
وہ ہستیاں جنہوں نے اس راہِ عشق و محبت میں سفر کیا اور منزلیں حاصل کیں اور اس راہِ عشق و محبت کے اعلیٰ مقام و مرتبہ پر فائز ہوئیں، انھوں نے یہ مقام مجاہدہ و ریاضت سے حاصل کیا اور اس سلسلہ میں ہر طرح کی آسائش کو ترک کرتے ہوئے ہر امتحان میں کامیاب ہوئیں۔
شہنشاہ بلخ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ ایک رات اپنے محل کی چھت پر آرام فرمارہے تھے کہ اچانک ایک شخص اُن کے پاس محل کی چھت پر پہنچ جاتا ہے۔ آپ اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ کون ہے اور یہاں کیا کررہاہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کاایک پرانا آشنا ہوں۔ میرا اونٹ گم ہوگیا ہے، اس کی تلاش میں آیا ہوں۔ آپ نے جواب دیا کہ آپ نےبڑی عجیب بات کی ہے، محل کی چھت پر اونٹ کیسے تلاش کیے جاسکتے ہیں؟ اس نے کہا کہ اس سے بھی بڑی عجیب بات یہ ہے کہ آپ تخت و تاج میں خدا کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اس آرام و آسودگی کی زندگی میں خدا کے متلاشی ہو۔
یہ بات سن کر آپ نے اس شخص سے پوچھا کہ تو اپنا تعارف کروایا۔ اس نے کہا کہ میں اللہ رب العزت کا ایک فرشتہ ہوں اور آپ کو اس راہِ محبت و شوق کے راستے پر گامزن کرنے آیا ہوں، جو راستہ خدا سے ملاتا ہے۔یہ سن کر حضرت ابراہیم بن ادھمؒ نے تاج و تخت اور شہنشاہی والی زندگی ترک کردی اور 9 سال تک نیشاپورکے غاروں میں خلوت نشینی اختیار کیے رکھی۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
ریاضت و مجاہدہ کے بغیر محبتِ الہٰی کا حصول ناممکن ہے
ہمارا یہ مقام، کیفیت اور حال ہے کہ ہم آسودگی، آرام اور سہولت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم خدا کو پانے کی جستجو کررہے ہیں۔ اگر ہم نے اسی راہِ محبت و شوق کا مسافر بننا ہے اور اسی راہِ محبت و عشق پر گامزن ہونا ہے تو خلوت نشینی کو اختیار کرنا ہوگا۔ آج کے دور میں پہاڑوں اور غاروں میں خلوت نشینی مشکل اور ناممکن ہے۔ اب ہمارے لیے یہی فارمولا ہے کہ ہم اپنے دلوں کی غار میں خلوت نشینی اختیار کریں۔ اپنے دلوں میں ڈوب کر اللہ رب العزت کا ذکر کرتے کرتے اسے تلاش کریں۔
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے عرض کی کہ :
يا رب! أرنى أهل محبتك. فقال: يا داؤد! أئت جبل لبنان فإن فيه أربعة عشر نفسا. فيهم شبان وفيهم شيوخ وفيهم كهول فإذا أتيتهم فأقرئهم منى السلام وقل لهم إن ربكم يقرئكم السلام ويقول لكم ألا تسألون حاجة فإنكم أحبائى وأصفيائى وأوليائى أفرح لفرحكم وأسارع إلى محبتكم. فأتاهم داود عليه السلام فوجدهم عند عين من العيون يتفكرون في عظمة الله عز وجل فلما نظروا إلى داود عليه السلام نهضوا ليتفرقوا عنه.
(احیاء علوم الدین، باب:الشوق الی اللہ تعالیٰ، 4: 325)
باری تعالیٰ مجھے اپنے اہل اللہ، اہلِ محبت اور اہلِ شوق کا دیدار عطا فرما۔ اللہ رب العزت نے حضرت داؤد علیہ السلام سے حکم فرمایا کہ اے داؤد! لبنان کے پہاڑ پر چلے جاؤ، وہاں چودہ افراد ایسے رہتے ہیں جو میری محبت و عشق میں ڈوبے رہتے ہیں۔ ان میں کچھ عمر رسیدہ، کچھ نو عمر اور کچھ درمیانی عمر کے ہیں۔ جب تم اُن کے پاس جاؤ تو میری طرف سے انھیں سلام کہنا اور اُن سے کہنا کہ تمھارا رب تم پر سلام کہتا ہے اور وہ تمھیں کہتا ہے کہ تم مجھ سے اپنی حاجات کا سوال کیوں نہیں کرتے۔ بے شک تم میرے محبوب اور اولیاء ہو، میں تمھاری خوشی سے خوش ہوتا ہوں اور تمھاری محبت کی طرف رغبت رکھتاہوں۔
جب حضرت داؤد علیہ السلام ان تک پہنچے تو وہ سب اللہ رب العزت کا ذکر کررہے تھے اور اس کی عبادت میں مشغول تھے اور آنسو بہارہے تھے۔ جب آپ ان کی طرف بڑھتے ہیں تو وہ منتشر ہوجاتے ہیں۔
شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ لوگ اللہ کی محبت میں ڈوبےہوئے تھے، اس لیے وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمارا راز فاش ہوجائے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی عشق و مستی اور وارفتگی کے اس عالم سے کوئی آگاہ و آشنا نہ ہوجائے اور یہ راز خدا اور ان کے درمیان رہے۔
فقال داود إنى رسول الله إليكم جئتكم لأبلغكم رسالة ربكم فأقبلوا نحوه وألقوا أسماعهم نحو قوله وألقوا أبصارهم إلى الارض.
حضرت داؤد علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ مت گھبراؤ، جس کی یاد میں تم گم ہو، جس کی خشیت و خضوع میں ڈوبے ہوئے ہو، میں اسی محبوبِ حقیقی کی جانب سے تمھارے لیے ایک پیغام لے کر آیا ہوں۔ چنانچہ وہ تمام حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آگئے اور اپنی سماعتوں اور بصارتوں کو ان کی طرف متوجہ کرلیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے ان سے کہا:
إنى رسول الله إليكم يقرئكم السلام. ويقول لكم ألا تسألون حاجة ألا تنادونى أسمع صوتكم وكلامكم فإنكم أحبائى وأصفيائى وأوليائى أفرح لفرحكم وأسارع إلى محبتكم.
بے شک میں تمھاری طرف اللہ کا پیامبر بن کر آیا ہوں، وہ تمہیں سلام بھیجتا ہے۔
یہ سلام دراصل ان کی عبادات کی قبولیت کا پیغام تھا کہ انھوں نے راتیں اللہ کی یاد، جستجو، ذکر، آرزو اور تلاش میں بسرکیں۔ عشاق اور محبین کی یہی معراج ہے کہ جس سے محبت، پیار اور عشق ہو تو اس کی جانب سے ایک پیار بھرا پیغام اور ندا آجائے اور اس کی جانب سے ایک محبت بھرا سلام آجائے۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے تم سے یہ پوچھا ہے کہ کیا تمھاری کوئی حاجت ہےکہ تمہاری حاجت روائی کرسکوں۔۔۔ کوئی سوال ہےکہ میں وہ سوال پورا کردوں۔۔۔ میں تمھاری ندائیں، مناجات اور کلام بھی سنتا ہے۔۔۔ تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔ تمھاری خوشی میں میری خوشی ہے، جس بات پر تم خوش ہوتے ہو، میں اس پر خوش ہوتا ہوں۔۔ ۔ جو محبت تم مجھ سے کرتے ہو، تمہاری و ہ محبت، وارفتگی اور عشق بعد میں ہوتا ہے، میں تمہاری محبت سے پہلے خود تم سے محبت کرتا ہوں۔
قرآن مجید میں بھی اسی بات کو یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ.
(المائدۃ، 5: 7)
’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔‘‘
اس سے اندازہ ہوا کہ ہم پہلے خدا سے محبت نہیں کرتے بلکہ خدا پہلے ہم سے محبت کرتا ہے اور پھر ہمیں محبت کرنے کا اذن عطا فرماتا ہے تو ہم اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
پس حضرت داؤد علیہ السلام نے ان اولیاء کو یہی پیغام دیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرمارہا ہے کہ اے مجھ سے محبت کرنے والو! یہ مت سمجھنا کہ تم یونہی مجھ سے محبت کررہے ہو بلکہ تمھیں محبت کرنے کا اذن میں نے خود عطا فرمایا ہے اور اسی اذن اور توفیق کی وجہ سے تمہیں یہ سعادت نصیب ہوئی ہے۔ تم جو راتیں ان پہاڑوں پر بسرکررہے ہو، میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ رات بھر میری جستجو، آرزو اور میری یاد میں اس لیے گم رہتے ہو کہ تمھیں میرے دیدار کی تمنا اور ملاقات کا شوقِ ہے۔ میں اس شوق دیدار کی تڑپ، لگن اور چاہت سے باخبر ہوں اور میری خبر لینے کی وجہ سے ہی یہ تمھاری جستجو، آرزو اور تمنا قائم ہے۔ گویا یہ خدا کی نظرِ التفات کا ہی نتیجہ ہے کہ اس کے محبین اور عشاق کو یہ توفیق ملتی ہے کہ وہ اپنے خداکو یاد کریں اور اس کے دیدار سے متمتع ہوں۔حضرت داؤد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
فجرت الدموع على خدودهم.
اللہ رب العزت کا پیغام سن کے ان اولیاء کے رخساروں پر اشک کی جھڑی رواں ہوجاتی ہے۔
گویا اشک بہانا بھی اس کی قربت اور اس تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ اگر دل سخت ہوجائیں تو بکاء اور گریہ و زاری نصیب نہیں ہوتی۔ لہذا تقاضا یہی ہے کہ ہم اللہ رب العزت کی یاد میں راتیں بسرکریں، اس کی آرزو، جستجو اور اس کے شوقِ دیدار میں صبح و شام بسر کریں۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے ہمیں اپنی منزلِ مقصود مل سکتی ہے۔ اسی راستے پر گامزن ہونے کا درس تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دے رہے ہیں۔
خشیتِ الہٰی میں بہائے گئے آنسوؤں کی قدرو منزلت
خشیتِ الہٰیہ اور شوقِ دیدار میں بہائے گئے آنسوؤں کی قدرو منزلت اللہ کے ہاں بہت بلند ہے۔ جب آنسوؤں کے قطرے بہتے ہیں تو اللہ رب العزت ان قطروں کو رائیگاں نہیں جانے دیتا بلکہ اس سے دل کی بنجر زمین آباد ہوجاتی ہے۔ جب خدا ان دلوں پر اپنی نگاہِ التفات فرماتا ہے تو پھر ان دلوں سے عشق، معرفت اور شوقِ دیدارِ الہٰی کی نہریں بہہ نکلتی ہیں۔ چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اوران چشموں میں سے ایک چشمہ اللہ کی قربت کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔ ایک چشمہ معرفت کی طرف جاتا ہے۔۔۔ اور ایک چشمے سے خدا کا دیدار ملتا ہے۔ گویا یہ آہ و بکا اور خشیت بھی قربِ الہٰی کا ایک راستہ ہے اور تعلق باللہ کا اہم ذریعہ ہے۔ حدیث مبارک میں آتا ہےکہ:
كَانَ رَجُلٌ يُسْرِفُ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِيهِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِي ثُمَّ اطْحَنُونِي ثُمَّ ذَرُّونِي فِي الرِّيحِ فَوَاللهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَيَّ رَبِّي لَيُعَذِّبَنِّي عَذَابًا مَا عَذَّبَهُ أَحَدًا فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِهِ ذَلِكَ فَأَمَرَ اللهُ الْأَرْضَ فَقَالَ اجْمَعِي مَا فِيكِ مِنْهُ فَفَعَلَتْ فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ فَقَالَ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ يَا رَبِّ خَشْيَتُكَ فَغَفَرَ لَهُ.
(بخاری، الصحیح، باب ام حسبت ان اصحاب الکهف، 11: 300)
ایک ایسا شخص تھا جس نے گناہ و نافرمانی کے باعث اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ اپنے رب کے سامنے پیش ہو۔ اس شخص نے گناہ لغزش اور ظلم و زیادتی کے باعث اپنے بیٹوں سے وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میں اس قابل نہیں ہوں کہ مجھے زمین دفنایا جائے لہذا مجھے جلا دینا۔ پھر میری لاش کو ریزہ ریزہ کردینا۔ پھر میری راکھ کو ہواؤں میں اڑا دینا تاکہ میرا نام و نشان تک مٹ جائے۔ بیٹوں نے ایفائے عہد کیا اور مرنے کے بعد اپنے باپ کی لاش کو جلایا اور اس کی راکھ کو ہواؤں میں اڑا دیا۔
اللہ رب العزت نے زمین سے کہا کہ اس کے ذرات کوجمع کرو اور اسے میرے سامنے پیش کرو۔ جب وہ شخص اللہ کے سامنے پیش ہوا تو اللہ رب العزت نے اس سے فرمایا: تجھے کس چیز نے یہ کام کرنے پر آمادہ کیا۔۔۔؟ جو اب دیا اور کسی چیز نے مجبور نہیں کیا صرف خشیتِ الہٰی تھی کہ خیال آیا میں اپنے ہونے کو مٹادوں، اپنے وجود کو ختم کردوں۔باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرشتو! سن لو! کہ میں نے اسے بخش دیا ہے اورمعاف کردیا ہے۔
اگر ہم اپنا جائزہ لیں توکیا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس قابل ہیں کہ اپنے رب کے حضور پیش ہوسکیں۔ کیا ہم اس قابل ہیں کہ اللہ رب العزت اپنی نظرِ التفات ہماری طرف فرمائے۔ بیدم کہتے ہیں:
وہی دل ہے جو حسن و عشق کا کاشانہ ہوجائے
وہی سر ہے جو کسی تیغ کا نذرانہ ہوجائے
یہاں ہونا، نہ ہونا ہے اور نہ ہونا عین ہونا ہے
جسے ہونا ہو کچھ، خاکِ درِ جاناں ہوجائے
جو خاک در جاناں نہیں ہوتے، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں خاک بسر نہیں ہوتے، اللہ رب العزت انہیں کچھ عطا نہیں کرتا لیکن جو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں خاک بسر ہوجاتے ہیں، اللہ رب العزت ان کو سب کچھ عطا فرمادیتا ہے۔ حتی کہ لذتِ دیدار بھی عطا فرماتاہے۔ اگرہم بھی اس کے حضور جانے کے قابل نہیں ہیں تو صرف یہی راستہ ہے کہ اپنے نفوس کو اپنی خواہشات و شہوات کو حتی کہ اپنی ترجیحات کو ریزہ ریزہ کردیں۔ تب اللہ کا قرب نصیب ہوگا۔ جب ہم اللہ رب العزت کے حضور خود کو مٹادیتے ہیں۔ خود کو جلادیتے ہیں، اپنے وجود کو مسمار کردیتے ہیں اور معرفت و عشقِ خد امیں خود کو فنا کردیتے ہیں تو بقا نصیب ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے آنسوؤں کے قطروں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ: عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرِصُ فِي سَبِيلِ اللهِ.
(السنن الترمذی، باب ماجاء فی فضل الحرص فی سبیل اللہ، 4: 175)
دو آنکھیں ایسی ہیں جنہیں دوزخ کی آگ نہیں چھوسکتی:ایک وہ آنکھ جو اللہ رب العزت کی خشیت میں آنسو بہاتی ہے اور ایک وہ آنکھ جو اللہ رب العزت کی یاد میں جاگ کر راتیں بسر کرتی ہے۔سوال پیدا ہوتاہے کہ عشق میں آنسو تو گنہگار بھی بہاتے ہیں۔ دوزخ کی آگ ان آنکھوں کو مس کیوں نہیں کرسکتی؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان آنسوؤں کی نسبت بہت بلند ہے۔ ان کی نسبت کبھی عرش الہٰی سے ہوتی ہے اور کبھی عالمِ لامکاں سے ہوتی ہے۔۔۔ کبھی حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ سے ہوتی ہے۔۔۔ کبھی اللہ کے اولیاء و صلحاء سے ہوتی ہے۔ یہ قطروں کی نسبت پر منحصر ہے کہ وہ کتنا اعلیٰ و ارفع نسبت کے ساتھ گرا ہے۔ اس لیے خدا دوزخ کی آگ کو اجازت ہی نہیں دیتا کہ وہ ان آنکھوں کو مس کرسکے۔
پس ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ رب العزت کی یاد میں راتیں بسر کریں، اس کی آرزو، جستجو، اس کے شوقِ دیدار اور شوقِ ملاقات میں زندگی کا ہر لمحہ بسر کریں۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے منزلِ مقصود مل سکتی ہے۔