قربانی کے احکام و مسائل اور فلسفہ و حکمت

ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی

یہ کائنات جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، اس کے سفرِ تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے حصۂ عبادات میں جب ہم قربانی کے باب پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے ہی خالقِ کائنات نے اپنی تمام مخلوقات میں سے اشرف المخلوقات انسان کو جن عبادات کی ادائیگی لازم قرار دی ہے، اُن میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور قربانی کی عبادات شامل ہیں، اگرچہ مختلف شرائع و ادوار میں ان کی شکل و صورت اور ادائیگی کے طریقے مختلف رہے ہیں۔ دین محمدی جو جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا تسلسل اور ان کی ادائیگی کی آخری اور کامل و اکمل صورت گری و عملی اظہار کا نام ہے اس کے نظامِ عبادات میں بھی ان جملہ عبادات کو اساسی عبادات کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے تمام اہلِ اسلام کو بعض شرائط کے ساتھ ان کی بجا آوری کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔ ان عبادات کی ادائیگی پر انعاماتِ الہٰیہ کا وعدہ دیا گیا ہے اور ترک کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت تنبیہات اور عقوبات کی وعید سنائی گئی ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم قربانی کی عبادت سے متعلق چند معروضات اپنے قارئین کی ضیافتِ علمی کے طور پر پیش کرتے ہیں:

امام اصفہانی قربانی کا شرعی مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

والقربان: مایتقرب به الی الله وصارفی التعارف اسما للنسیکة التی ھی الذبیحة.

(المفردات راغب، ص: 399)

قربان سے مراد ہر وہ (چیز یا عمل ہے) جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے مگر تعارف کے اعتبارسے نسیکہ یعنی ذبیحہ کے لیے مخصوص ہوگیا ہے۔ قربان؛ قریب ہونے کے معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے مگر اب جب قربان بولا جاتا ہے تو ا س سے مراد وہ ذبیحہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

قربانی کا تاریخی پس منظر

قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی تاریخ پرانی ہے۔ اس کا واضح ثبوت سورۃالمائدۃ میں مذکورہ حضرت آدمe کے دونوں بیٹوں کے قربانی کرنے کا واقعہ ہے، ان میں سے ہابیل کی قربانی قبول ہوجانے اور قابیل کی قربانی قبول نہ ہونے کا بیان ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ.

(المائدۃ، 5: 27)

’’ (اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے جب دونوں نے (اللہ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی۔‘‘

قرآن مجید نے اس حقیقت کو واضح کردیا کہ انسان کو زمین پر بھیجنے کے ساتھ ہی قربانی کا حکم بھی دے دیا گیا تھا اور یہ بھی بتادیا گیا تھا کہ قربانی جیسا عمل جس میں جانور کا خون بہایا جاتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اسی وقت شرفِ قبولیت پاتا ہے جب وہ دل کے تقویٰ اور اخلاصِ نیت سے کی جائے۔ اسی تصور کو واضح کرتے ہوئے قرآن مجیدمیں فرمایا گیا ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰـکِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.

(الحج، 22: 37)

’’ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

قرآن مجید قربانی کے تاریخی پس منظر کو اس طرح بیان کرتا ہے:

لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا هُمْ نَاسِکُوْهُ.

(الحج، 22: 67)

’’ہم نے ہر ایک امت کے لیے (احکامِ شریعت یا عبادت و قربانی کی) ایک راہ مقرر کر دی ہے، انہیں اسی پر چلنا ہے۔‘‘

دنیائے عالم میں پائے جانے والے مذاہب میں سے تین مذاہب یہودیت، مسیحیت اور اسلام کو عام طور پر ابراہیمی مذہب یا الہامی و آسمانی مذاہب تسلیم کیا جاتا ہے، ان تمام میں قربانی کا تصورپایا جاتا ہے:

  • عہدنامہ جدید کی انا جیل اربعہ میں سے ایک اہم ترین کتاب لوقا کی انجیل میں ہے کہ:

جیسا کہ خداوند کی شریعت میں لکھا ہے کہ ہر ایک پہلوٹا خداوند کے لیے مقدس ٹھہرے گا اور خداوند کی شریعت کے اس قول کے موافق قربانی کریں کہ قمریوں کا ایک جوڑا یا کبوتر کے دو بچے لاؤ۔

(لوقا، ب: 2، جملہ: 25)

  • یہودی نظریہ کے مطابق قربانی کے گوشت کوجلادیا جاتا ہے۔ گوشت جل جانے کو قربانی کی قبولیت اور نہ جلے تو قربانی کے رد ہوجانے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کو سوختنی قربانی بھی کہا جاتا ہے۔مزید یہ کہ قربانی یہودی مذہب میں عبادت میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں یہود میں مختلف قسم کی قربانیاں متعارف ہیں، مثلاً: سوختنی قربانی، خطاء کی قربانی، جرم کی قربانی۔

(قادری، عبدالرشید، ڈاکٹر، ادیان عالم، دانیال اکیڈمی، لاہور، 2022ء، ص321)

  • ایک انگریز ماہر مذاہب لیوس مور اپنی کتاب میں لکھتا ہے:

دنیا کے تمام قدیم اور جدید مذاہب میں قربانی سب سے زیادہ مشترک وظائف میں سے ایک ہے۔ پوری تاریخ میں لوگوں کو دیوتاؤں، روحوں، بدروحوں اور آباء و اجداد کے لیے تقریباً ہر قابل ِتصور چیز کی قربانی دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اکثر قربانیاں حیوانات کی ہوتی ہیں۔ جنہیں ذبح کیا جاتا ہے اور پھر دیوتاؤں کے سامنے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔

(لیوس مور، مذاهب عالم کا انسائیکلو پیڈیا، نگارشات، لاهور، ط، اول، 2005ء، ص: 29)

  • رشید احمد امریکی اقوام میں قربانی کے بارے میں لکھتے ہیں:

امریکی اقوام میں قربانی کی مختلف صورتیں پائی جاتی ہیں۔ انسانی قربانی کا رواج میکسیکو میں بہت عام ہے۔ حیوانات کی قربانی خونی اور آتشیں دونوں طرح سے دی جاتی ہے۔ خونی قربانی کی صورت میں گوشت قربانی کرنے والے خود کھالیتے ہیں۔ قربانی کے لیے کتوں کو دوسرے جانوروں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ کتے دو یا تین یا پانچ کی تعداد میں بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں۔

(رشید احمد، تاریخ مذاہب، زمرد پبلی کیشنز کوئٹہ، ط، آٹھویں، 2005، ص: 43)

مذکورہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور بائبل و دیگر کتب کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ عبادت کے طور پر قربانی کا عمل ابتدا ہی سے الہامی و غیر الہامی مذاہب کے عباداتی امور کا ایک اہم عمل رہا ہے۔ اگرچہ اہلِ اسلام کے علاوہ دیگر اقوام اپنی دیگر عبادات کی طرح اس عبادتِ قربانی کو بھی ترک کر بیٹھی ہیں اور آج ان کے اندر یہ عمل مفقود ہے جبکہ مسلمان ہر ذوالحجہ کے مخصوص ایام (10، 11، 12) میں اپنے جانور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ذبح کرتے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔

دینِ اسلام میں وجوبِ قربانی کی دلیل

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ.

(الکوثر، 108: 2)

’’پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکرّہے)۔‘‘

یہاں اللہ تعالیٰ نے ’’انحر‘‘ فرمایا ہے جو متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے لیکن مفسرین کرام نے یہاں پر اس کو عام طور پر قربانی کے معنی میں لیا ہے۔ امام راغب اصفہانی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فصل لربک وانحر: ھو حث علی مراعاۃ ھذین الرکعتین وھما الصلوۃ ونحرالھدی وانہ لابدمن تعاطیھما فذلک واجب فی کل دین وفی کل ملۃ.

(اصفهانی، المفردات، کتاب النون، ص: 485)

اللہ تعالیٰ کے ارشاد فصل لربک وانحر میں نماز اور قربانی پر ابھارا گیا ہے اور ان دونوں کو ادا کرنا ضروری ہے اور یہ ہر دین وملت میں واجب رہی ہیں۔

دین اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ بندۂ مومن کا ہر عمل خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، ظاہری ہے یا باطنی، اس کا مطلوب و مقصود صرف اور صرف رضائے الہٰی کا حصول ہونا چاہیے نہ کہ دنیوی نام و نمود اور شہرت و ناموری کی نفسانی خواہش۔ اس لیے قربانی کا عمل جو اگرچہ ایک جانور کے جسم پر واقع ہوتا ہے مگر جب ایک مطیع و فرماں بردار مسلمان اپنی حق حلال کی کمائی سے یہ جانور خریدتا ہے تو دین اسلام اسے اس امر کی خصوصی تاکیدکرتا ہے کہ اے بندۂ خدا! تیرا ہر عمل تیرے خالق و مالک کی رضاو خوشنودی کے لیے ہی ہونا چاہیے۔ اس میں اگر کوئی اور غرض شامل ہوگئی تو تیرا اتنا بڑا عمل اور تیرا خرچ کردہ پیسہ ضائع ہوجائے گا۔ اسی لیے حضور سید عالم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ.

(الانعام، 6: 162)

’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی زندگی کے شب و روز کا ایک ایک لمحہ اس طرح سے گزرنا چاہیے کہ وہ اپنے مولا کی رضا کا طالب بن کر شاہراهِ حیات پر گامزن رہے۔ ’’میری زندگی اور میری موت‘‘، فرمانے میں یہی حکمت پوشیدہ ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام میں دین و دنیا کی ثنویت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ یہ محض بندوں کا پیدا کردہ ایک مغالطہ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ قربانی کے عمل کےذریعہ اللہ تعالیٰ اسی تصور و احساس کو ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ زکوٰۃ و صدقات (عبادت مالیہ) کی ادائیگی میں بھی درس پوشیدہ ہے کہ مال کمانے کے لیے اگرچہ بندے نے مشقت اٹھائی ہے لیکن اس کو خرچ کرنے کے لیے نعمتِ مال عطا کرنےو الے مالکِ حقیقی کی ہدایات و احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس طرح اس کا مال کمانا اور خرچ کرنا دونوں ہی عبادت بن جائیں گے۔

قربانی: ارشاداتِ نبوی کی روشنی میں

شریعتِ اسلامیہ میں اوامر و نواہی کے ثبوت کے مصادر اصلیہ دو ہی ہیں:

  1. کتاب اللہ
  2. سنت رسول اللہ ﷺ

قرآن مجید سے قربانی کی شرعی حیثیت، اس کی حکمت و اہمیت جان لینے کے بعد اب دوسرے مصدر ِ شریعت احادیثِ نبویہ کی روشنی میں اس حکمِ الہٰی کی اہمیت و افادیت ملاحظہ ہو:

1۔ عشرہ ذی الحجۃ کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:

ما من ایام احب الی اللہ ان یتعبدلہ فیھا من عشر ذی الحجۃ بعدل صیام کل یوم منھا بصیام سنۃ وقام کل لیلۃ منھا بقیام لیلۃ القدر.

(مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلوۃ، الفصل الثانی، ج: 1، رقم: 1471)

عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر کوئی دن نہیں جن میں عبادت کرنا اللہ کے نزدیک محبوب تر ہو، اس عشرہ کے ہر دن کے روزے ایک سال کے روزوں کے برابر ہیں اور اس کی ہر رات کا قیام (عبادت) شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔

2۔ قربانی بھی ذوالحجہ کی 10، 11، 12 تاریخ کو کی جاتی ہے، جس کے متعلق ارشادفرمایا:

ماعمل ابن آدم من عمل یوم النحراحب الی اللہ من اھراق الدم وانہ لیاتی یوم القیامۃ بقرونھا واشعارھا واظلافھا وان الدم لیقع من اللہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بھانفسا.

(سنن، الترمذی، کتاب الاضاحی، باب ماجاء فی فضل الاضحیۃ، رقم: 1493)

قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ مسلمان کا کوئی عمل پسند نہیں ہے۔ قربانی کا جانور قیامت کے روز اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوجاتا ہے۔ پس تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔

3۔ جب نبی اکرم ﷺ نے قربانی کی فضیلت بیان فرمائی اور اس کی رغبت دلائی تو اس پر صحابہ کرامl نے خدمتِ اقدس میں سوال کیا:

یارسول اللہ! ما ھذه الاضاحی؟ قال سنۃ ابیکم ابراهیم، قالوا: مالنا منھا؟ قال: بکل شعرۃ حسنۃ. قالوا یارسول الله فالصوف؟ قال بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ.

(سنن ابن ماجه، ابواب الاضاحی، باب ثواب الاضحیۃ، رقم الحدیث: 3128)

یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا: تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ عرض کیا: ہمارے لیے اس میں کیا ہے؟ (یعنی کیا ثواب ہے؟) فرمایا: ہر بال کے بدلے ایک نیکی (یعنی جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی)۔ صحابہ نے عرض کیا: تو اون؟ (دنبہ، چھترا کی اون ہوتی ہے) تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے۔

4۔ قربانی کا جانور اگرچہ دوسرے سے بھی ذبح کروایا جاسکتا ہے مگر اپنے ہاتھ سے اپنا جانور ذبح کرنا یعنی اس کے گلے پر چھری پھیرنا زیادہ افضل عمل ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

ضحیٰ رسول اللہ ﷺ بکبشین املحین اقرنین، ذبحھما بیدہ وسمی وکبر، قال رایتہ واضعا قدمہ علی صفاحھما و یقول بسم اللہ واللہ اکبر.

(صحیح بخاری، کتاب الاضاحی، باب التکبیر عندالذبح، رقم : 5565)

رسول اللہ ﷺ نے دو سینگ والے مینڈھے اپنے دست مبارک سے ذبح کیے اور بسم اللہ واللہ اکبر کہا۔ (انس) کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو دیکھا کہ اپناقدم ان کے پہلوؤں پر رکھا اور بسم اللہ واللہ اکبر کہا۔

اسلام میں قربانی کی اہمیت

دین اسلام میں ذی الحجۃ کے مقررہ دنوں میں قربانی کرنے کی اہمیت ان احادیث مبارکہ سے جانی جاسکتی ہے:

1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

من وجد سعۃ فلم یضح فلا یقربن مصلنا.

(سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی، باب الاضاحی، واجبۃ ھی ام لا، رقم: 3123)

جو طاقت رکھتے ہوئے قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔

2۔ حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عید بقر کے دن ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

ان اول مانبدا به فی یومناھذا ان نصلی ثم نرجع فنحر فمن فعل ذلک فقد اصاب سنتنا ومن ذبح قبل ان نصلی فانما ھو لحم عجله لاھله لیس من النسک فی شیء.

(صحیح بخاری، کتاب الاضاحی، باب سنۃ الاضحیۃ، رقم: 5560)

آج کے دن سب سے پہلا کام جو ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ ہم نماز (عید بقر) پڑھیں پھر واپس آکر قربانی کریں۔ سو جس نے یہ کرلیا اس نےہمارا طریقہ پالیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کیا سو وہ گوشت تھا، جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی تیار کرلیا، اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ

من کان ذبح قبل ان یصلی فلیذبح اخری مکانھا.

(النسائی، السنن، کتاب الضحایا، باب الضحیۃ قبل الامام، رقم: 4403)

جس نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کرلیا وہ (نماز عید پڑھ کر اس کی جگہ) دوسرا (جانور) ذبح کرے۔

3۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ قیامِ مدینہ کے دوران آپ ﷺ کامعمول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اقام رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ عشر سنین یضحی.

(جامع الترمذی، ابواب الاضاحی، باب الدلیل علی ان الاضحیۃ، رقم: 1507)

رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمارہے اور قربانی کرتے رہے۔

4۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہر سال عید بقر کے موقعہ پر دو جانور ذبح کرتے تھے جب ان سے اس کا سبب پوچھا گیا توانھوں نے فرمایا:

ان رسول اللہ ﷺ اوصانی ان اضحی عنہ فانا اضحی عنہ.

(ابوداؤد، السنن، 3: 227، رقم: 2790)

رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے قربانی دوں، سو میں آپ ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔

امت کی طرف سے قربانی

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایمان افروزحدیث ملاحظہ ہو۔ فرماتی ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا۔ جوسیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اورسیاہی میں دیکھتا ہو (مطلب یہ کہ اس کے پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں) وہ قربانی کے لیے حاضر کیا گیا۔ فرمایا: عائشہ رضی اللہ عنہا ! چھری لاؤ، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرو۔ میں نے تیز کردی پھر آپ نے چھری پکڑی، مینڈھا لٹایا، اسے ذبح کیا اور پھر فرمایا:

بسم اللہ اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن امۃ محمد.

(مسلم، الصحیح، 3: 1557، رقم: 1967)

الہٰی! یہ (مجھ) محمد، آلِ محمد اور امتِ محمدیہ کی طرف سے قبول فرما۔

احمد، ابوداؤد اور ترمذی نے مذکورہ حدیث کو ان الفاظ کے اضافہ کےساتھ یوں روایت کیا ہے:

اللهم ھذا عنی وعمن لم یضح من امتی.

(جامع الترمذی، ابواب الاضاحی، باب مایقول اذا ذبح، رقم: 1521)

اے اللہ! یہ میری طرف سے اور میرے ان امتیوں کی طرف سے قبول فرما جو قربانی نہیں کرسکے۔

جو نہ بھولا ہم غریبوں کو رضا
ذکر اس کا اپنی عادت کیجئے

مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ دینِ اسلام میں ہر صاحبِ استطاعت عاقل، مقیم، بالغ، مرد، عورت پر قربانی کرنا واجب ہے۔

عید قربان اور قربانی میں درس

عید قربان اور اس موقع پر اہلِ اسلام کے عملِ قربانی میں ہماری انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی و بین الاقوامی زندگی کے لیے جو درس پوشیدہ ہے، اس کو ذیل میں نکات کی صورت پیش کیا جاتا ہے تاکہ ہم اس میں غوروفکر کرکے اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھال سکیں:

1۔ عید اور قربانی کے اس سالانہ تہوار کے موقع پر ہمیں ہر طرف خوشی و مسرت اور مبارکبادی کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے سے بدامنی، دہشت گردی، فرقہ واریت، گروہی تعصبات، باہمی نفرت و عداوت کے جاہلی جذبات و تصورات کو اپنے دل ودماغ اور فکرو عمل سے نکال کر ان کی جگہ باہمی اخوت و محبت بھائی چارہ، رواداری، تحمل و برداشت کے پاکیزہ انسانی تہذیبی رویوں کو فروغ دیں گے۔

2۔ قربانی کا گوشت خواہ رشتہ داروں کو دیا جائے یا غرباء میں بانٹا جائے، یہ عمل ہر قسم کی لالچ اور منفعت سے پاک ہوتا ہے۔ بظاہر ان کا اس گوشت میں کوئی حق نہیں تھا مگر اس کے باوجود ان کو پہنچانا ہمیں اس بات کادرس دیتا ہے کہ آئندہ ہم معاشرے میں رہتے ہوئے کسی کا حق غصب نہ کریں بلکہ دینِ اسلام کی سنہری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے معاشرے میں ایسی اقدار کو فروغ دیں کہ جس سے معاشرے میں حقوق و فرائض کا ایک متوازن ماحول پیدا ہو اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔

3۔ قربانی ہمیں اس امر کا درس دیتی ہے کہ جس طرح ہم نے اپنے خون پسینہ کی کمائی ہوئی دولت سے جانور خرید کر اس کو ذبح کرتے ہیں اور اس کا گوشت اپنے پرائے سب میں تقسیم کردیتے ہیں، آئندہ عملی زندگی میں بھی عہد کریں کہ ہم اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت یہاں تک کہ اپنی جان کی نعمت کو بھی محض اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے اس کی مخلوق کی خدمت کریں گے۔

4۔ ہم رضائے الہٰی کے حصول کے لیے ہر قسم کی ریاکاری سے بچتے ہوئے ہر عمل کو انتہائی خلوص سے سرانجام دیں۔

5۔ عید قربان کے موقع پر حسبِ توفیق کھانا پکاکر محلے داروں اور قرب و جوار میں رہنے والے غرباء کو کھلانا چاہیے۔ اس سے وہ غرباء دل سے دعائیں بھی دیں گے اور ان کے دلوں میں اغنیاء و امرا کے لیے محبت بھی پیدا ہوگی۔ اس سے معاشرے میں طبقاتی تقسیم کی حوصلہ شکنی ہوگی اور باہمی پیار و محبت کے جذبات بھی فروغ پائیں گے، نفرتیں ختم ہوں گی اور الفتیں بڑھیں گی۔

6۔ قربانی کی صورت میں پیسہ خرچ کرنے سے قلب و باطن سے دنیوی مال و دولت کی ہوس و حرص، لالچ اور مزید طلب کی خواہش ختم ہوجائے گی اور دل دنیا کی محبت سے خالی ہوکر اپنے خالق و مالک کی محبت و اطاعت کی جلوہ گاہ بنے گا۔

چند ضروری فقہی مسائل

قربانی کا لغوی معنی، شرعی مفہوم، تاریخی پس منظر اور فرامین نبویہ کی روشنی میں اس کی اہمیت و فضیلت جان لینے کے بعد اب قربانی کے جانور اور قربانی کے گوشت اور دیگر مختلف پہلوؤں کے حوالے سے چند ضروری احکام و مسائل ملاحظہ ہوں تاکہ ہر مسلمان پوری احتیاط اور کامل اطمینانِ قلبی کے ساتھ اس واجب کی ادائیگی سے عہدہ برآہوسکے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔

علماء قربانی کا شرعی حکم واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

خروج عن عھدۃ الواجب فی الدنیا الوصول الی الثواب بفضل اللہ تعالیٰ فی العقبیٰ.

(فتاویٰ عالمگیری، 5: 294)

دنیا میں واجب کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا اور آخرت میں اللہ کے فضل سے اجر و ثواب پانا۔

صدرالشریعہ حضرت مولانا محمد امجد علی اعظمی قربانی کی فقہی تعریف اس طرح کرتے ہیں:

مخصوص جانور کو مخصوص دنوں میں پہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔

(بہار شریعت، 15، ص82، ممتاز اکیڈمی لاہور)

واجب اور نفلی قربانی

بنیادی طور پر قربانی کی دو قسمیں ہیں:

  1. واجب
  2. نفلی

1۔ واجب قربانی کی پھر تین قسمیں ہیں:

(1) وہ قربانی جو غنی او رفقیر دونوں پر واجب ہے جیسے نذر مانی ہوئی قربانی۔ نذر پوری ہوجانے کی صورت میں یہ امیر اور غریب جس نے بھی نذر مانی ہے، اس پر یہ قربانی واجب ہے۔

(2) دوسری قربانی وہ ہے جو فقیر پر واجب ہے۔ مالدار پر واجب نہیں۔ یہ قربانی کا جانور خریدنے کےساتھ واجب ہوتی ہے۔ یوں اگر فقیر قربانی کی نیت سے قربانی کا جانور خریدے کہ وہ اس کی قربانی کرے گا تو اس پر اس کی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ اس طرح اس فقیر نے جانور قربانی کی نیت سے خرید کر خود پر قربانی واجب کرلی ہے۔ جس کی ادائیگی اس پر لازم ہے جیساکہ نذر کے طور پر کسی چیز کو مقررکرلینے کی صورت میں اس کا پورا کرنا واجب ہے۔

(3) قربانی کی تیسری قسم وہ ہے کہ امیر پر واجب ہے اور فقیر پر واجب نہیں جیسے عیدالاضحیٰ کی قربانی۔ یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر ادا کرنے اور جدالانبیاء سیدنا ابراہیمe کی سنت کو زندہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ قربانی کی اس تیسری قسم کا فلسفہ و حکمت یہ ہے کہ اصل میں یہ روزِ قیامت پل صراط کی سواری، گناہوں کے کفارے اور مغفرت کا وسیلہ و ذریعہ ہوتی ہے۔

2۔ قربانی کی دوسری قسم نفلی قربانی ہے۔ ایسا فقیر اور ایسا مسافر جس کی طرف سے قربانی کی نذر پائی جائے اور نہ قربانی کی نیت سے جانور کی خریداری پائی جائے پھر بھی وہ قربانی کرے تو اس کی قربانی نفلی ہوگی۔ اس لیے کہ اس صورت میں وجوبِ قربانی کا سبب اور شرط دونوں ہی موجود نہیں ہیں۔ اس لیے اس مسافر اور فقیر کی قربانی نفلی ہوگی۔

قربانی کے جانور اور ان کی عمر

شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے درج ذیل جانوروں کی قربانی مقرر فرمائی ہے۔ ان کے علاوہ کسی اورجانور کی قربانی جائز نہیں، اگرچہ وہ حلال جانور ہی کیوں نہ ہو۔

اونٹ، اونٹنی: جو پانچ سال پورے کرے اور چھٹے سال میں قدم رکھ چکا ہو۔

بیل، گائے، بھینس: دو سال سے کم نہ ہو اور تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو۔

بکرا، بکری: ایک سال کی عمر پوری ہو، اس سے کم عمر کی قربانی جائز نہیں۔

دنبہ، مینڈھا، بھیڑ: ایک سال کی عمر کا ہو، ہاں اگر وہ چھ ماہ کا ہے اور اتنا صحت مند، طاقتور، قدوقامت رکھتا ہوکہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔

جانوروں سے متعلق اہم مسائل

قربانی کے جانور کے لیے لازمی ہے کہ وہ خوبصورت، توانا، سالم الاعضاء، ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک ہو۔ ہاں البتہ اگر عیب اس قدر معمولی اور تھوڑا سا ہو کہ جو دیکھنے والے کو بآسانی نظر نہ آئے تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔ چند عیوب جن کے پائے جانے کی وجہ سے اس جانور کی قربانی جائز نہیں۔ ذیل میں ذکر کیے جاتےہیں:

1۔ جانور فحش عیب سے پاک ہو یعنی اندھا، کانا کہ اس کا کانا پن ظاہر ہو۔ ایسا لنگڑا کہ اس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ اگر ایسا عیب اس جانور میں پایا گیا تو اس کی قربانی جائز نہیں۔

2۔ اتنا کمزور کہ اس کی ہڈیوں میں گودہ باقی نہ بچا ہو اور وہ خود چل کر قربان گاہ تک نہ جاسکتا ہو۔

3۔ اس کے دونوں یا ایک کان کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی کرنا بھی جائز نہیں۔

4۔ کان، دم، ناک کا کچھ حصہ کٹا ہو اور کچھ موجود ہو تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر کٹا ہوا حصہ زیادہ ہے اور تھوڑا باقی بچاہے تو اس کی قربانی جائز نہیں۔

5۔ بکرے، مینڈھے، دنبے کےکان اگر فطری و پیدائشی طور پر چھوٹے چھوٹے ہوں تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔

6۔ ایسا جانور جس کے جسم پر زخم ہو اور اس میں کیڑے پڑگئے ہوں اور ا س سے بدبو آرہی ہو یا اس قدر گہرا زخم ہو کہ اس کی ہڈیاں نظر آئیں تو ان سب صورتوں میں سے کوئی ایک بھی صورت پائی جائے تو اس جانور کی قربانی جائز نہیں۔

7۔ جانور کا سینگ اگر مینگ (جڑ) تک ٹوٹا ہوا ہے تو اس کی قربانی جائز نہیں لیکن اگر تھوڑا سا ٹوٹا ہے اور اس سے جانور کا عیب دار ہونا ظاہر نہیں ہوتا تو اس کی قربانی کرنا جائز ہے۔

عیب دار جانور کی قربانی ناجائز ہونے کی عقلی دلیل

بیمار اور عیب دار جانور کی قربانی جائز نہ ہونے کی شرعی دلیل تو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے لے ردی اور گھٹیا چیز نہ دو، جو تم خود لینا پسند نہیں کرتے۔ جبکہ حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے عیب دار جانور جیسے کانا، لنگڑا، اندھا اور اتنا کمزور کہ جو خود چل کر قربان گاہ تک نہ جاسکے، اس کی قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ان شرعی دلائل کے علاوہ ایسے جانور کی قربانی جائز نہ ہونے کی عقلی دلیل یہ بھی ہے کہ انسان خود نفسیاتی طور پر ایسے جانور کو جو اگرچہ زندہ ہی ہو اس کا خریدنا اوررکھنا پسند نہیں کرتا۔ چہ جائیکہ اس کا گوشت کھانا۔ پھر اگرچہ ایسا جانور اس کو بلاقیمت بطورِ تحفہ ہی کیوں نہ پیش کیا جائے، وہ طبعی طور پر خوش دلی کے ساتھ اس کو لینا پسند نہیں کرتا۔ پس جو چیز انسان خودخریدنا یا بلاقیمت تحفتاً لینا نہیں چاہتا تو وہ اللہ کی راہ میں دینا کیوں کر جائز ہوگا؟ اس لیے نقل و عقل دونوں اس امر کے متقاضی ہیں کہ بیمار، لاغر، کمزور، خارش زدہ، ایسا زخمی کہ اس کے زخم میں کیڑے پڑچکے ہوں اور اس کی ہڈیاں نظر آنے لگیں تو اس کی قربانی کرنا جائز نہیں۔

قربانی میں شراکت

شریعت نے قربانی کے لیے جو جانور مقرر کیے ہیں وہ تین قسم کے ہیں:

1۔ بکرا، بکری، دنبہ، چھترا، بھیڑ، ایک آدمی کی طرف سے ایک جانور ذبح کیا جائے گا۔ ایک جانور میں ایک سے زیادہ قربانی کرنے والے شریک نہیں ہوسکتے۔ ان میں شراکت کی صورت میں کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔

2۔ گائے، بھینس، بیل نر و مادہ میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے والے سات لوگ شریک ہوسکتے ہیں۔ ہاں شرکاء کے حصوں کی تعداد مختلف ہوسکتی ہے۔ مثلاً: ایک آدمی کے دو حصے، دوسرے کے تین حصے ہوں اور دو آدمیوں کا ایک ایک حصہ ہو۔ ہاں حصہ برابر ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک حصہ میں دو لوگ شریک ہوگئے تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک کو ساتویں حصہ سے کم حصہ ملے گا۔

3۔ اونٹ میں بھی کل سات شرکاء قربانی میں حصہ دار ہوسکتے ہیں جیسا کہ اوپر گائے وغیرہ کی شراکت کے بارے میں واضح کیا گیا ہے کہ ساتوں شراکت داروں کا حصہ برابر ہونا چاہیے۔

ایک اہم مسئلہ: گائے اور اونٹ کی قربانی میں شریک تمام لوگوں کی نیت، عبادت و قربتِ الہٰیہ ہونا ضروری ہے۔ اگرکسی ایک کی نیت بھی قربت و عبادت کی نہ ہوئی بلکہ محض گوشت زیادہ لینا مقصود ہوا اور یہی اس کی نیت ہوئی تو پھر کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔یہاں یہ امر بھی جاننا ضروری ہے کہ بچے کا عقیقہ اور ولیمہ کی نیت سے گائے، بیل اور اونٹ کی قربانی میں شامل ہوگیا تو چونکہ یہ دونوں امور بھی نعمتِ اولاد ملنے اور نعمتِ نکاح حاصل ہونے پر اظہارِ تشکرکرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی قربت اور اس کی عبادت کا ذریعہ ہیں تو اس صورت میں بھی قربانی کرنا درست اور جائز ہے۔

(ابوبکر علاؤالدین الکاسانی، بدائع الصنائع، ج5: 173)

مسئلہ: ایک گھر کے جتنے افراد صاحبِ نصاب ہیں (ساڑھےسات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے برابر نقدی کا ایسا مالک ہونا جو دین سے فارغ ہوا) ان سب پر الگ الگ قربانی کرنا واجب ہے۔ سب گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی نہیں۔ قربانی شرائط کے پائے جانے کے ساتھ ہر ایک پر ایسے ہی واجب ہے جیسے نماز اور روزہ ہر ایک پر الگ الگ لازم ہے ۔ مرد و عورت دونوں پر واجب ہے۔

گوشت کی تقسیم

سنن نسائی اور دیگر کتب حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کے گوشت کوتین حصوں میں تقسیم کیا جائے:

1۔ ایک حصہ اپنے اہل خانہ کے لیے

2۔ ایک حصہ رشتہ داروں اور دوست احباب کے لیے

3۔ ایک حصہ غرباء، مساکین اور سائل حضرات کے لیے

قربانی کے گوشت کی تین حصوں میں تقسیم ایک مستحب امر ہے۔ اگر قربانی کرنے والا کثیرالعیال بھی ہو اور غریب بھی ہو تو ان صورتوں میں وہ سارا گوشت بھی گھر والوں کے لیے رکھ سکتا ہے مگر اس کے باوجود تین حصوں میں تقسیم کرنا ایک افضل عمل ہے۔ اس لیے غریبوں کو عید بقر کی حقیقی خوشی اسی وقت ملے گی جب وہ اور ان کے بچے بقر عید کے موقع پر گوشت کھاکر خوش ہوں گے اور پھر اگر وہ غرباء قربانی کرنے والے کے خونی رشتہ داربھی ہوں تو ان کو قربانی کا گوشت دینے سے دہرا ثواب ملے گا۔ غریب کو گوشت دینے کا اور صلہ رحمی کرنے کا بھی ثواب ملے گا۔ اس لیے بہتر اور افضل عمل یہی ہے کہ گوشت کو تقسیم کرکے ہر ایک تک اس کا حصہ پہنچایا جائے۔