اسلام اور اقامتِ عدل و انصاف

ڈاکٹر حافظ محمد سعداللہ

انسانی تاریخ اور مشاہدہ اس بات پر گواہ ہے کہ کوئی معاشرہ اور دستورِ حکومت نظامِ عدل وانصاف کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے شریعتِ اسلامیہ نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اسے سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ حتی کہ اسے حکومت کے اولین فرائض میں شمار کیا ہے۔اسلامی ریاست کے ہر شہری کو خواہ وہ مسلمان ہو یا ذمی، حاکم ہو یامحکوم، امیر ہو یا غریب، بڑا ہو یا چھوٹا، انصاف مہیا کرنا اور اس کے حقوق کا تحفظ کرنا، اسلامی حکومت کا کوئی احسان نہیں بلکہ اس کا بنیادی اور اساسی فرض ہے۔ عدل و انصاف کے معاملے میں قرآن و سنت نے اپنے ماننے والوں کو کتنی تاکید کی، کتنی باریک بینی سے ہدایات دیں، قاضی کے لیے کتنی احتیاط کرنے کاحکم ہے اور عدالت کے سلسلے میں کتنے سنہری اصول و ضوابط مقررکیے ہیں؟ ان کا مطالعہ آج بھی حدیث و فقہ کی کتابوں میں موجود کتاب القضاء اور کتاب الشہادۃ وغیرہ میں کیا جاسکتا ہے۔

عدل کا معنی صرف مساوات اور برابری نہیں بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ بغیرکسی افراط و تفریط کے وہ معاملہ کرنا جس کا وہ مستحق ہے جبکہ ظلم کے معنی ہیں:

وضع الشئی فی غیر موضعه.

(المنجد، تحت مادہ ظلم، دارالمشرق، بیروت، ص: 674)

کسی چیز کو اس کے اصل مقام کے علاوہ دوسرے مقام پر رکھنا۔گویا حقدار کی حق تلفی کرنا، اس کا حق دبا لینا، کسی دوسرے کودے دینا یا اس کی ادائیگی میں کمی اور تاخیر کرنا وغیرہ سب ظلم میں داخل ہے۔

اسلام قانون عدل و انصاف کے معاملے میں سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس معاملہ میں کسی کے حسب و نسب اور جاہ ومرتبہ کو نہیں دیکھتا۔ عام چھوٹے بڑے لوگ تو ایک طرف رہے، سربراہِ مملکت اور خلیفۂ وقت کو بھی کوئی امتیاز اور استثناء حاصل نہیں۔ اس کے خلاف کوئی دعویٰ دائر ہوتا ہے تو اسے بھی عدالت کے کٹہرے میں مدعی کے برابر کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر مدعا علیہ غیر مسلم اور قاضی کا دشمن بھی ہے تو محض اس وجہ سے اس کے ساتھ ناانصافی نہیں کی جاسکتی کہ وہ غیر مسلم یا دشمن ہے۔ فرمان الہٰی ہے:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ.

(المائدۃ، 5: 8)

’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اللہ سے ڈرا کرو! بے شک اللہ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے۔‘‘

جس قوم یا جماعت سے مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان کے دشمنی ہوگی، ظاہر ہے وہ دشمنِ اسلام قوم کفار اور غیر مسلموں ہی کی ہوگی۔ تو گویا آیت میں اس امر کی تاکید آگئی کہ دشمنانِ اسلام کے ساتھ بھی ناانصافی اہلِ ایمان کے شایان شان نہیں۔ دنیا کا کون سا قانون ایسا ملے گا جس نے اپنے باغیوں اور مخالفوں بلکہ معاندین تک کے حقوق کی یہ رعایت رکھی ہو۔

فقہاء و مفسرین نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے:

دلت الآیۃ علی ان کفر الکافر لا یمنع من العدل علیه.

(قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، 2: 73)

یہ آیت اس امر پر دلیل ہے کہ کافر کا کفر اس کے ساتھ عدل کرنے سے مانع نہیں۔

انسانی نفسیات کے مطابق شدتِ غضب میں اپنے آپ پر قابو رکھنا عموماً مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے تاکید فرمادی گئی کہ جو غصہ تمہارے دلوں میں کفار اور دشمنانِ اسلام کے خلاف ہے وہ کہیں تمھیں ان کے مقابلے میں زیادتی پر آمادہ نہ کردے۔

اسلام میں سربراہِ حکومت، گورنروں، وزراء، اعلیٰ حکام اور عامۃ الناس سب کے لیے ایک ہی قانون اور ایک ہی نظامِ عدالت ہے۔ کسی کے لیے کوئی قانونی امتیاز نہیں اور بڑے سے بڑا بھی قانون کی گرفت سے مستثنیٰ نہیں

تمام اسلامی تعلیمات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام اور اسلامی ریاست کا سب سے بڑا مقصد ہی دنیا میں عدل وانصاف کا قیام ہے۔ انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں سلطنتوں کے بانیوں کا مقصد قیامِ سلطنت، ملک گیری اور ہوسِ زر و اقتدارکے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن اسلام جو سلطنت قائم کرنا چاہتا تھا وہ خود مقصود بالذات نہ تھی بلکہ اس کے ذریعہ فرمانِ الہٰی کے مطابق ایک ایسا عادلانہ نظام قائم کرنا مقصود تھا جس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور دوست دشمن سب کے ساتھ کسی بھی قسم کے رنگ و نسل، مذہب و مسلک کی تمیز کے بغیر عدل و انصاف ہو۔

عدل وانصاف کا یہی اسلامی تصورکالے گورے، عربی، عجمی، ملکی، غیر ملکی، حاکم محکوم، دوست دشمن سب کو ایک صف میں کھڑا کردیتا ہے۔ آج عدل و انصاف کے علمبردار عالمی ادارے بھی عدل و انصاف نہ ہونے اور دوہرے معیار کی وجہ سے بے جان ہوکر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف ہم اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ عہد نبوی اور خلفاء راشدین کے ادوار تو اپنی مثال آپ ہیں، اس کے بعد کے زمانوں میں بھی شاید ہی کوئی ایسا واقعہ نہ ملے جس میں کسی غیر مسلم یا دشمن قوم کے فرد کو اسلامی عدالت نے کسی حق سے محض اس لیے محروم کردیا ہو اور صرف اس وجہ سے اس کے ساتھ ناانصافی کی ہو کہ یہ غیر مسلم ہے۔ اس کی ایک دو نہیں سیکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ مسلمان عدالتوں نے عدل وانصاف کے معاملے میں ہمیشہ حق و ناحق ہی کو مدنظر رکھا ہے۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف خود دشمن اقوام کو بھی تھا۔ چنانچہ ایک گواہی ملاحظہ ہو:

فتح خیبر کے بعد حسبِ معاہدہ وہاں کی پیداوار کی تقسیم کے لیے حضور نبی اکرمﷺ نے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔ وہ وہاں گئے اور تخمینہ کرکے ہر کھجور کے درخت سے ایک خاص مقدار وصول کرنا چاہی تو اس پر یہودیوں نے کہا کہ یہ تو زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو میں اسے دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہوں، تم لوگ جو حصہ لینا چاہو، لے لو۔ اس انصاف پسندی سے یہود اس قدر متاثر ہوئے کہ سب کے سب یک زبان ہوکر پکار اٹھے:

ھذا الحق وبہ تقوم السماء والارض قدرضینا ان ناخذہ بالذی قلت.

(ابوداؤد، السنن، کتاب البیوع، باب فی المساقات، 2: 129، رقم: 3409)

عدل وانصاف اور حق اسی کا نام ہے اور اسی انصاف سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ جو کچھ آپ نے کہا، ہم اس کے قبول کرنے پر راضی ہیں۔

ایک روایت کے مطابق محصل مذکور نے کہا کہ اگرچہ تم میرے نزدیک ساری مخلوق سے زیادہ مبغوض ہو، اس کے باوجود میں تم پر ظلم نہیں کروں گا تو انھوں نے کہا:

لھذا قامت السموات والارض.

(الموطا، محمد بن حسن، شیبانی، ص: 357)

(اسی انصاف سے آسمان اور زمین قائم ہیں)

ہر انسان کے ساتھ ہر معاملہ میں بغیر کسی مذہبی و نسلی امتیاز و تخصیص کے نیکی، بھلائی اور عدل وانصاف کرنا اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔ ارشاد الہٰی ہے:

لَا یَنْهٰکُمُ اللهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْهِمْ اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.

(الممتحنۃ، 60: 8)

’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘

دشمنانِ اسلام کے ساتھ بھی ناانصافی اہلِ ایمان کے شایان شان نہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں ملے گا جس میں اپنے باغیوں اور مخالفوں بلکہ معاندین تک کے حقوق کی یہ رعایت رکھی گئی ہو

اس آیت کریمہ کے سیاق و سباق میں کفار کی دوستی اور موالات سے اہلِ ایمان کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اس ارشاد کے متعلق یہ غلط فہمی ہوسکتی تھی کہ یہ ممانعت ان کے کفر کے باعث ہے، اس لیے ان آیات میں اس امر کی وضاحت فرمادی گئی کہ کفار سے عدمِ موالات کا حکم ان کے کفر کے باعث نہیں بلکہ اہلِ اسلام سے ان کی عداوت، بغض اور ظالمانہ روش کے سبب ہے۔ جو کفار اہلِ اسلام کے ساتھ اس قسم کا معاندانہ رویہ نہیں رکھتے، ان کے ساتھ احسان و انصاف کرنے کے معاملے میں کوئی ممانعت نہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آیت میں ’’بر‘‘ (بھلائی) اور ’’قسط‘‘ (انصاف) دو چیزوں کا ذکر آیا ہے تو مناسب تھا کہ یہاں دونوں نیکیوں کے کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ صرف عدل کرنے والوں ہی کی محبوبیت کا ذکر کیوں آیا۔۔۔؟

اس کا جواب یہ ہے کہ صلۂ رحمی اور اس قسم کی دیگر نیکیاں نفس پر اتنی بھاری نہیں ہیں جتنی عدل وانصاف ہے۔ بالخصوص جبکہ اس کا تعلق کفار سے ہو۔ کمزوروں کو سہارا دے دینا، محتاجوں کی مدد کردینا اور اپنے کافر ماں باپ کے ساتھ صلہ رحمی کردینا زیادہ مشکل کام نہیں ہیں۔ انسانی فطرت کے اندر ان کے لیے نہایت قوی محرکات موجود ہیں لیکن عدل وانصاف کا حق ادا کرنا اور وہ بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔

(تدبر قرآن، امین احسن اصلاحی، تفسیر سورۃ الممتحنۃ، 8: 334)

علماء اسلام کے نزدیک عدل وانصاف کتنا ضروری ہے اور اسلام میں اس کا کیا مرتبہ و مقام ہے؟ اس کا اندازہ درج ذیل فتویٰ سے لگایا جاسکتا ہے جسے ابن الطقطقی نے ایک اسلامی حکمران کے اندر درکار ضروری خصالِ خیر اور اوصافِ حمیدہ کی وضاحت کے ضمن میں بیان کیا ہے:

جب ہلاکو خان نے بغداد کو 756ھ میں فتح کرلیا تو اس نے حکم دیا کہ علماء دین سے یہ فتویٰ پوچھا جائے کہ عدل کرنے والا کافر بادشاہ افضل ہے یا ظلم کرنے والا مسلمان بادشاہ۔۔۔؟ پھر اس نے اس مقصد کے لیے مستنصریہ میں علماء کو جمع کیا۔ جب علماءِ دین کو اس فتویٰ کے بارے میں معلوم ہوا تو جواب دینے سے رک گئے۔ علماء کی اس مجلس میں اس زمانے کے نامور عالم رضی الدین علی بن طاؤس بھی موجود تھے جنھیں ان کے علمی مرتبہ و مقام کی بنیاد پر انتہائی قابلِ تعظیم و احترام سمجھا جاتا تھا۔ جب انھوں نے علماء کی اس ہچکچاہٹ کو دیکھا تو فتویٰ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ظلم کرنے والے مسلمان بادشاہ پر عدل کرنے والے کافر بادشاہ کی فضیلت کا فتویٰ دیتے ہوئے اس پر اپنے دستخط ثبت فرمائے۔ ان کے بعد دیگر علماءِ دین نے بھی اس فتویٰ پر اپنے اپنے دستخط کردیئے۔

(الفخری فی الآداب السلطانیہ والدول الاسلامیہ، مکتبہ التجاریۃ، الکبرٰی، ص: 11)

دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسی فاتح قوم نہیں گزری جو بزور شمشیر فتح شدہ کوئی علاقہ محض اس لیے خالی کردینے پر تیار ہو کہ جنگ کے دوران فاتح قوم سے کوئی عدل وانصاف کے منافی حرکت سرزد ہوگئی ہو۔ اس قسم کی مثالیں اسلامی حکومتوں نے پیش کی ہیں اور اس عروج اور عالمی سیاسی غلبہ کےو قت پیش کی ہیں، جب دنیا کی ہر طاقت ان کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے اور دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا حکمران ان کا راستہ روکنے کی جرأت نہیں کرسکتا ہے۔ ذیل میں اس کمال عدل وانصاف کی ایک منفرد مثال ملاحظہ ہو:

اموی دور کے مشہور سپہ سالار اسلام قتیبہ بن مسلم نے وسطی ایشیاء کے علاقہ سمرقند پر حملہ کیا تو اہلِ سمر قند نے جزیہ کی ایک مخصوص مقدار پر ان سے صلح کرلی۔ اس جنگ میں مفتوح قوم میں سے کسی آدمی کی عزت و آبرو پر آنچ آتی ہے نہ کسی کی جائیداد اور مال و دولت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور نہ اخلاق و کردار سے ہٹ کر کوئی غیر اخلاقی حرکت کسی فوجی سے سرزدہوتی ہے۔ لیکن اس فاتحانہ داخلے کے موقع پر بعض شرائطِ جنگ کی پاسداری کرنے میں کوتاہی ہوگئی جو محض رسمی نوعیت کی تھیں۔

جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے تو اہل سمرقندکا ایک وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرضداشت پیش کی کہ قتیبہ بن مسلم کا ان کے شہر میں داخلہ اور وہاں مسلمانوں کو ٹھہرانا دھوکے کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ یہ چیز معاہدہ میں داخل نہ تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے ان کی شکایت سن کر وہاں کے اپنے عامل کو لکھا اور حکم دیا کہ وہ ان کے لیے ایک قاضی مقرر کرے جو ان کی شکایت کا جائزہ لے۔ اگر قاضی وہاں سے مسلمانوں کے نکالنے کا فیصلہ دے تو وہاں سے نکل جاؤ۔ چنانچہ عامل نے اس کیس میں جمیع بن حاضر الباجی کو قاضی مقرر کیا۔ مقدمہ کی سماعت کے بعد قاضی نے حکم دیا کہ مسلمان شہر سے نکل جائیں اور دوبارہ اہل سمرقند سے اعلان جنگ کریں۔ مگر اہل سمرقند نے دوبارہ جنگ کو پسند نہ کیا اور اپنے درمیان مسلمانوں کے قیام پر رضا مندی ظاہر کردی۔

(بلاذری، ابوالحسن احمد بن یحیٰ، فتوح البلدان، ص411)

اسلام کے قانون عدل میں یہ بات بھی داخل ہے کہ سربراہِ حکومت، گورنروں، وزراء، اعلیٰ حکام اور عامۃ الناس سب کے لیے ایک ہی قانون اور ایک ہی نظامِ عدالت ہے۔ کسی کے لیے کوئی قانونی امتیاز نہیں۔ کوئی بڑے سے بڑا قانون کی گرفت سے مستثنیٰ نہیں۔ عدل و انصاف کے معاملے میں اسلامی ریاست کے خلفاء اور قاضیوں نے جو مثالیں قائم کی ہیں۔ ان کی نظیر دنیا کے کسی مذہب، قانون اور آئین میں نہیں پائی جاتی۔

انسانی نفسیات کے مطابق شدتِ غضب میں اپنے آپ پر قابو رکھنا عموماً مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے تاکید فرمادی گئی کہ جو غصہ تمہارے دلوں میں کفار اور دشمنانِ اسلام کے خلاف ہے وہ کہیں تمھیں ان کے مقابلے میں زیادتی پر آمادہ نہ کردے

ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے باتیں کررہے تھے کہ ایک یہودی آیا اور بولا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر دعویٰ کرنے آیا ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایاکہ ابوالحسن! سامنے کھڑے ہوکر جواب دو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اٹھے تو ان کے ماتھے پر شکن تھی۔ دعویٰ سناگیا تو مدعی جھوٹا ثابت ہوا۔ وہ چلا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب آپ کو کھڑے ہوکر جواب دینے کو کہا گیا تو آپ چیں بہ جبیں تھے۔ کیا یہودی کے برابر کھڑے ہوکر جواب دینا پسند نہیں کرتے تھے؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: یہودی کے برابر کھڑے ہونے میں چیں بہ جبیں ہونے کا سوال نہ تھا مگر جب مجھے ابوالحسن کہہ کرکھڑے ہونے کو کہا گیا تو کنیت سے پکارنا نشانِ عزت ہے، خیال ہوا کہ یہودی یہ نہ سمجھے کہ عدالت کو مدعا علیہ کا خاص لحاظ ہے، اسی لیے مدعی کے مقابلہ میں عزت کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، اگر وہ ایسا سمجھ لیتا تو ہماری عدالت پر دھبہ لگتا۔

(قاضی سلیمان منصوری پوری، 3: 369)

اسلام میں عدلیہ کو دی جانے والی طاقت اختیارات اور آزادی اسلامی نظام کے محاسن و مفاخر میں سے ایک ہے۔ لہذا اسلام کے منصفانہ عادلانہ اور مبنی برحق نظامِ عدالت میں تمام مظلوموں اور زیادتی کے شکار لوگوں کو خواہ وہ کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں، اس بات کی ضمانت حاصل تھی کہ ظالم سے انصاف اور غاصب سے ان کا حق دلایا جائے گا۔ اگرچہ ظالم اپنی تمام تر ہیبت و قوت سمیت خود خلیفہ ہی کیوں نہ ہو۔