سانحہ ماڈل ٹاؤن پا کستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ جس کی پاکستان کی تاریخ
میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مورخہ 17جون 2024ء کو شہداء سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی دسویں
برسی ہے لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین اور شہداءکے لواحقین 10سال سے انسدادِ دہشت
گردی عدالت لاہور سے، لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان تک حصولِ انصاف کےلیے
مسلسل قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ 10سال کا عرصہ گزرجانے
کےباوجود بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین انصاف سے محروم ہیں۔
مورخہ 17جون 2014ء کو نواز، شہباز حکومت نے طے شدہ منصوبہ کے تحت ریاستی دہشت گردی
کے ذریعے منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے معصوم، نہتے اور بے گناہ کارکنان
کے خون سے ہولی کھیلی۔ اس سانحہ میں 14افراد شہید ہوئے، ان میں دو خواتین بھی شامل
تھیں جس میں سے ایک خاتون حاملہ تھی اور 100سے زائد افرادگولیوں سے زخمی ہوئےتھے۔ ایسا
المناک وقوعہ اس سے پہلے رونما نہیں ہوا جسے کئی گھنٹوں پوری قوم اور دنیا نے TV سکرینز
پربراہ راست دیکھا۔
نواز، شہباز حکومت نے پولیس کے ذریعہ پاکستان عوامی تحریک کے لوگوں کا قتل عام کیا
اور ظلم وریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ حکومت نے اعترافِ گناہ اور
مظلوموں کی اشک شوئی کے اقدامات کرنے کے بجائے پولیس کی مدعیت میں پاکستان عوامی تحریک
کے لوگوں پر ہی اسی دن مورخہ 17جون 2014ء کومقدمہ نمبر(510/14) تھانہ فیصل ٹاؤن لاہور
میں درج کردیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی وقوعہ کےبعدFIRدرج نہ کی گئی تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے
متاثرین نے FIRکے اندراج کے لیے جسٹس آف پیس کی عدالت سے رجوع کیا۔ جسٹس آف پیس نے
مورخہ 16اگست 2014ء کوایف، آئی، آرکے اندراج کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود پولیس
نےسانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی ایف، آئی، آرکا اندراج نہ کیا۔ ملزمان نے جسٹس آف
پیس کے حکم کے خلاف معزز عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کیا۔ معزز عدالت عالیہ لاہور نے
ملزمان کی پٹیشن (مورخہ 26/08/2014)کو خارج کردی۔ جس پر بالاخر پولیس نےبہ دل نخواستہ
مقدمہ نمبر (696/14) تھانہ فیصل ٹاؤن لاہور مورخہ 28/08/2014کو درج کردیا۔ مگر پاکستان
عوامی تحریک کے کارکنان پر 50سے زائد مختلف تھانوں میں ایف، آئی، آردرج کردی تاکہ
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین، گواہان، مضروبان شامل تفتیش نہ ہو سکیں۔
v بعد ازاں اس سانحہ پر حکومت نے ایک JIT تشکیل دی۔ اس JIT نےمقدمہ میں تفتیش، انتہائی
متعصبانہ، حقائق کے برعکس اور یکطرفہ کی۔ جو میڑیل، Evidenceمقدمہ کی تفتیش کو مکمل
کرنے کے لئے Collectکرنی تھی وہ نہ کی گئی۔
v تمام ریکارڈ، گورنمنٹ کے اداروں اور ان بااثر ملزمان کے زیر قبضہ تھا جس تک سانحہ
ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی رسائی ہر گز ممکن نہیں تھی مگر وہ ریکارڈ جس سےمقدمہ نمبر
510/14جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتا تھا اورمقدمہ نمبر 696/14سچا ثابت ہوتا تھا، وہ جان
بوجھ کر تفتیش کے ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا گیا۔
v اس JIT نےسرکاری ریکارڈ، میڈیا ریکارڈ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ریکارڈ، CDRاور
ٹی وی چینلز کے متعلقہ لوگوں کو بھی شامل تفتیش نہ کیا۔
v وہ تمام میڑیل اور شہادتیں جن کو تفتیش کا حصہ بنانا ضروری اور لازمی ہے، ان تک تاحال
مستغیثِ مقدمہ کی رسائی نہ ہے۔ یہ JIT پوری طرف ناکام رہی کہ ساری شہادتوں کو مسل کا
حصہ بنائے۔
v درست تفتیش کرنا، درست ٹرائل کرانا ہر شہری کا Statutory Right ہے جو اس کو آئین
اور قانون نے دیاہے۔
v یہ JIT کوئی بھی میڑیل شہادتیں صفحہ مسل پر نہ لائی ہے اور اس نے درست حقائق اورصحیح
شہادتوں کو چھپایا ہے جو کہ ان کے Partپر بددیانتی ہے۔
v اس JIT نے مذکورہ بالا سارا ریکارڈ جو مقدمہ کے درست فیصلہ کے لیے ضروری تھا، اُسے
عدالت میں جمع نہیں کروایا۔
اس JIT نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کسی زخمی، چشم دید گواہ کا کوئی بیان ریکارڈ نہ کیا بلکہ
جانبدارتفتیش کرکے تمام سانحہ کے مرکزی ملزمان سابق وزیر اعظم نوازشریف، موجودہ وزیر
اعظم میاں شہباز شریف، سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ ودیگران اورپولیس افسران
جو بطور ملزمان ایف آئی آر میں نامزد تھے، بدیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس JIT نے
ان ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی بلکہ ان تمام ملزمان کو کلین چٹ دے دی گئی اورسانحہ
ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی دادرسی نہ کی گئی۔
v اس صورت حال میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے پاس استغاثہ دائر کرنے کے علاوہ کوئی
چارہ نہیں تھا۔ لہذا عدالت میں چالان پیش ہونے کے فوری بعد انسداددہشت گردی عدالت لاہور
میں استغاثہ دائر کردیاگیا۔ استغاثہ کیس میں 56زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات مکمل
ہونے کے بعد مورخہ 7فروری 2017ء کو انسداددہشت گردی عدالت لاہور نے سانحہ ماڈل ٹاؤن
کیس میں 124ملزمان، کانسٹیبل سے لے کر آئی جی پنجاب تک، اس وقت کے DCOکیپٹن (ر)محمد
عثمان، اس وقت کے TMOنشتر ٹاؤن علی عباس بخاری، اس وقت کے ACماڈل ٹاؤن طارق منظور چانڈیو
کو بطور ملزمان طلب کرلیا تھالیکن 12ملزمان جن میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف،
رانا ثناءاللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ ودیگران جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی،
ان کو طلب نہ کیا تھا۔
v استغاثہ میں ٹرائل کورٹ ازخود فوجداری مقدمہ کی سماعت کے دوران شفاف ٹرائل کے لیے
بقیہ شہادت برآمدگی، فرانزنک اور ڈیجٹل وغیرہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتی ہے۔ بلکہ
صرف اور صرف غیر جانبدار JIT ہی شفاف ٹرائل کےلئے ان تقاضوں کو پورا کرسکتی ہے۔ اس
لئے 2018ء میں تنزیلہ امجد (مقتولہ سانحہ ماڈل ٹاؤن)کی بیٹی بسمہ امجد نے سانحہ ماڈل
ٹاؤن کی غیر جانبدارتفتیش کےلیے سپریم کورٹ ہیومن رائٹس کیس نمبر 69031/18میں نئی JIT
کے لئے درخواست گزاری جس کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ
نے مورخہ 5دسمبر 2018ء کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں سماعت کی اور شیخ الاسلام ڈاکٹر
محمد طاہرالقادری کے دلائل کی روشنی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی ازسرنو تفتیش کےلئے
نئی JIT بنانے کا فیصلہ ہوا۔
v مورخہ 3جنوری 2019ء کو پنجاب حکومت نے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں نئی JIT کا نوٹیفکیشن
جاری کردیا۔ سپریم کورٹ کے فلو ر پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کے لئے تشکیل پانے والی
نئی JIT نے مورخہ 14جنوری 2019ء سے لے کر 20مارچ 2019ء تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام
زخمی، چشم دید گواہان اور شہداءکےلواحقین کے بیانات ریکارڈ کر لئے تھے اور سانحہ ماڈل
ٹاؤن کے متاثرین کی طرف سے نئی JIT کے روبرو پہلی دفعہ تمام زبانی ودستاویز ی ثبوت
شہادتوں کی شکل میں پیش کردیے گئے اور اس طرح اس نئی JIT نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام
ملزمان سے بھی تفتیش مکمل کرلی تھی۔
v سربراہ JIT اے ڈی خواجہ نے لاہورہائی کورٹ میں جواب داخل کروایا۔ اُس ریکارڈ کے مطابق
نئی JIT نے 281بیانات ریکارڈ کیے اور 80%تفتیش مکمل کرلی۔ نئی JIT نےسانحہ ماڈل ٹاؤن
کے تمام ملزمان بشمول سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف، موجودہ وزیر اعظم میاں شہبازشریف،
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ PSOٹو وزیر اعلیٰ پنجاب، سابق
آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش مکمل کرلی تاکہ معلوم ہوسکے
کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا ہے ؟اس کے پیچھے کیا سازش کارفرما تھی ؟اس وقوعہ کے پیچھے کو
ن کون سازشی عناصر موجود ہیں ؟اور یہ سازش کہاں سے چلی؟ اور کس طرح اس سازش پر عملدرآمد
ہوا ؟
v اس نئی JIT کے ذریعے حقائق سامنے آنے کے خوف کے سبب فوری طور پر کچھ قوتیں متحرک
ہو گئیں اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان (رضوان قادرہاشمی SHOتھانہ فیصل ٹاؤن، مدعی
مقدمہ 510/14) اور خرم رفیق ہیڈ کانسٹیبل کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے JIT کی
تشکیل کا پنجاب حکومت کا نوٹیفکیشن 22مارچ 2019ء کو معطل کردیااور JIT کو سانحہ ماڈل
ٹاؤن کی مزید تفتیش کرنے سے روک دیا گیا۔
v JIT کے نوٹیفکیشن کی معطلی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے عبوری حکم مورخہ 22مارچ 2019ء
کے خلاف سپریم کورٹ اسلام آباد میں رجوع کیا۔ مورخہ 13فروری 2020ء کو سابق چیف جسٹس،
جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی، جس میں سپریم کورٹ نے 13فروری
2020ء کولاہور ہائی کورٹ کو ڈائریکشن دی کہ نیا بینچ تشکیل دے اور ترجیحاً تین ماہ
کے اندرفیصلہ کیاجائے۔ لیکن سپریم کورٹ کی تین ماہ کی ڈائریکشن کے باوجود بھی لاہور
ہائی کورٹ کے 7رکنی لارجربینچ نے فریقین کے دلائل جو عرصہ دراز سے مکمل ہوچکے ہیں،
اس کے باوجود تاحال فیصلہ نہیں کیا۔
یہ JIT جسے ہائی کورٹ نے معطل کررکھا ہے، سارا میڑیل Collectکرکے173 Crpc کی رپورٹ
عدالت میں بجھوائے تو تب ہی استغاثہ کی کاروائی میں وہ میڑیل طلب کیا جاسکتا ہے اور
اس بنیاد پر ہی سزاوجزاکا فیصلہ ہوسکتاہے۔ اس لیے اس JIT کی معطلی کا حکم ختم کرکے
اس کا اپنے کام کو مکمل کرنا لازم وضروری ہے تاکہ تمام ریکارڈ کو طلب کرکے صفحہ مسل
پر لایا جاسکے۔
v انسداددہشت گردی عدالت لاہورنے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں مرکزی ملزمان کو
طلب نہ کیا تو اس حکم کے خلاف مستغیث نے معزز عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کیا جو باآور
ثابت نہ ہوا اور مستغیث استغاثہ نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف عدالت عظمیٰ پاکستان
میں Crl.P.L.A No 1039/18دائر کردی، جو تا حال سماعت کے لیے مقرر نہ ہوئی ہے۔
v جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو مل گئی تھی۔ جس میں سانحہ
ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کرنے کا ذمہ دار 2014ء کی پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس
کو ٹھہرایا ہوا ہے۔ لیکن جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات جس میں
ملزمان کے بیان حلفی ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹس ودیگر دستاویزات
شامل ہیں، وہ تمام دستاویزات سانحہ کے متاثرین کو آج تک فراہم نہ کی گئی۔ ان تما م
منسلکہ دستاویزات کےحصول کے لیے 2018ء میں لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی ہوئی ہے
جو کہ ابھی تک لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
v انسداددہشت گردی عدالت لاہور نے ہمارے 5مرکزی ملزمان(سابق ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر)
محمد عثمان، سابق آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا، سابق ڈی آئی جی آپریشز رانا عبدالجبار،
سابق ایس پی ماڈل ٹاؤ ن لاہور طارق عزیز، سابق ٹی ایم او نشتر ٹاؤن لاہورعلی عباس بخاری
) کواستغاثہ کیس میں 265/kضابطہ فوجداری کے تحت بری کردیا ہے اورسانحہ کےمزید 8 ملزمان
نے بھی انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں بریت کے لیے 265/k ضابطہ فوجداری کے تحت درخواستیں
دے رکھی ہیں۔
اِن پولیس افسران کی بریت سے یہ امر متحقق ہوگیا ہے کہ انصاف کا نظام ظلم کا نظام بن
چکا ہے۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت ملزموں نے ٹرائل کورٹ میں بریت کی درخواستیں دی ہیں۔
اگر ملزمان ٹرائل کورٹ سے بریت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر اگر
جے آئی ٹی کو کام کرنے کی اجازت مل بھی گئی تو انصاف نہیں ہو سکے گا کیونکہ قانون کے
مطابق ایک کیس میں کسی پر دو بار مقدمہ نہیں چل سکتا۔ لگتا ہے یہ محض اتفاق نہیں ہے
بلکہ ایک پلاننگ کے ساتھ شہداء کے ورثاء کے ساتھ قانونی کھیل کھیلا جارہا ہے۔
v سپریم کورٹ کے حکم سے پنجاب حکومت کی طرف سے 14 جنوری 2019ء میں اے ڈی خواجہ کی سربراہی
میں تشکیل دی جانے والی نئی JIT جسے لاہور ہائی کورٹ نے 22مارچ 2019ء کو معطل کردیا
تھا، اس JIT کی بحالی سے ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن کےمتاثرین کو انصاف ملے گا۔
اس JIT کو معطل کرنے کی دلیل یہ پیش کی گئی تھی کہ چونکہ پہلے سے ہی اس سانحہ پر ایک
JIT موجود ہے جو اپنی تفتیش کرچکی ہے (حالانکہ اُس پہلی JIT ) نے مکمل طور پر متعصبانہ
طرزِ عمل اختیار کیا اور متاثرین کے بجائے ملزمان کی پشت پناہی کی اور ہم اس پر پہلے
ہی دن سے عدم اعتماد کا اظہار کرچکے تھے) جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیکشن 19انسداددہشت گردی
ایکٹ 1997ء کے تحت ایک سے زائد JIT بنانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہے۔ جب تک کسی مقدمہ
کا فیصلہ نہ ہو جائے، اس وقت تک دوبارہ تفتیش ہو سکتی ہے، اگر عدالت میں مقدمہ کا چالان
اور فردِ جرم بھی عائد ہو جائے تو بھی دوبارہ تفتیش سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔
غیر جانبدار تفتیش سے ہی انصاف کا عمل ٹریک پر آئے گا۔ کسی بھی مقدمہ کے انصاف کے
لیے شفاف تفتیش کا ہونا ضروری ہے۔ شفاف ٹرائل اس وقت تک ناممکن ہے جب تک شفاف تفتیش
نہ ہو۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ شفاف ٹرائل تو دورکی بات ابھی تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے
متاثرین کو غیرجانبدار تفتیش کا حق جو عدالت عظمیٰ نے دیا تھا اور JIT کی تفتیش جو
آخری مراحل میں تھیں، معزز عدالت عالیہ لاہور نے اس کو روک کر تاحال اس پر آج تک
کوئی فیصلہ نہ دیا ہے۔ معزز عدالت عالیہ لاہوراور معزز عدالت عظمیٰ پاکستان میں زیر
سماعت درخواست ہائے کے فیصلہ کے بغیر ٹرائل کو جاری رکھنا انصاف کا قتلِ عام ہے۔
JIT کی بحالی سانحہ ماڈل ٹاؤن کےانصاف کےلئے اشد ضروری ہے۔ کیونکہ اصل ملزمان نوازشریف،
شہبازشریف، رانا ثناءاللہ، ڈاکٹر توقیرشاہ اور دیگر ملزمان جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ
بندی کی تھی ان کو استغاثہ کیس میں ناکافی شہادت کی بنیاد پر انسداددہشت گردی عدالت
اور لاہور ہائی کورٹ نے بحیثیت ملزم طلب نہیں کیاتھا۔ کیونکہ استغاثہ کی دائرگی کے
وقت جو شہادتیں اس وقت دستیاب تھیں، وہ استغاثہ کیس میں دے دی گئیں تھیں لیکن کچھ ایسی
شہادتیں جن میں ان کا براہ راست ملوث ہوناپایاجاتا ہے، وہ تمام کی تمام شہادتیں نواز،
شہباز حکومت جانے کے بعد اور جسٹس باقرنجفی کمیشن رپورٹ آنے کے بعد میسرآئی تھیں۔ وہ
تمام کی تمام شہادتیں نئی JIT کو فراہم کردی تھیں۔ اس سے پہلے جتنی بھی انوسٹی گیشن
ہوئی تھی، وہ حقائق کے برعکس، جانبداراور یکطرفہ ہوئی تھیں۔ پہلی والی JIT نے جتنی
بھی انوسٹی گیشن کی تھی، وہ صرف اور صرف ملزمان کو بچانے اور اصل حقائق کو چھپانے کےلئے
کی تھیں تاکہ اصل حقائق منظر عام پر نہ آسکیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حصولِ انصاف کی جدوجہد کو 10سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی
قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کی ذاتی دلچسپی اور راہنمائی
میں انسداددہشت گردی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک مسلسل قانونی چارہ جوئی پوری طاقت،
عزم، استقامت کے ساتھ جاری وساری ہے۔ اور ان شاءاللہ تعالیٰ اُس وقت تک جاری رہے گی
جب تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین اورشہداء کے لواحقین کو انصاف نہیں مل جاتا اور اس
سانحہ میں ملوث عناصر کیفرِ کردار تک نہیں پہنچ جاتے۔