انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ اپنا اخلاقی وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک معروف قول ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں ۔تاریخِ انسانی میں بڑے بڑے ظالم آئے جنہیں اپنے خدا ہونے کا زعم تھا اور پھر وہ نشانِ عبرت بنا دئیے گئے۔ انصاف انسانی معاشروں کا جوہرِ حیات ہے، انصاف کے بغیر امن، استحکام، خوشحالی،اعتدال ورواداری کی اعلیٰ انسانی اقدار کو قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ نظامِ عدل طاقتور اور کمزور، زبردست اور زیر دست، قاتل اور مقتول، امیر اور غریب کے مابین قانون کے مطابق انصاف کرتا ہے اور طاقتور کو ظلم کرنے پر سزا اور کمزور کو ظلم سے بچاتا ہے۔ جب ظالم اورمظلوم کے درمیان سے قانون اور نظامِ عدل کی دیوار ہٹ جاتی ہے تو معاشرے جنگل کی طرح ہو جاتے ہیں جہاں طاقتور اپنی بھوک مٹانے کیلئے کمزور کو جب چاہے، جہاں چاہے اور جس وقت چاہے نگل جاتا ہے۔ جنگل اور انسانی معاشروں کے مابین فرق صرف قانون کی حکمرانی اور نظامِ عدل کا ہے۔
قرآن مجید قیامت تک کے لیے ایک زندہ و جاوید کتابِ ہدایت ہے۔ اس الوہی کتاب میں انسانوں کو زندگی گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ عطا کیا گیا ہے اور ایسی ہدایات دی گئی ہیں کہ جنہیں نظر انداز کرنے سے تباہی اور بربادی جنم لیتی ہے ۔اللہ رب العزت نے اس کتابِ ہدایت کے ذریعے کچھ ایسے اصول عطا کیے ہیں جن پر عمل درآمد کرنے میں انسانیت کا بھلا اور خیر ہے۔ جو افراد اور معاشرے ان اصولوں کو نظر انداز کریں گے، ان کی زندگیاں بے سکون ہو کر رہ جائیں گی۔ ان اصولوں میں سے ایک بڑا اصول ہر حال میں انصاف کرنے اور گواہی دینے کا ہے ۔کتابِ ہدایت میں جہاں نظامِ عدل کی شفافیت پر زور دیا گیا ہے، وہاں اربابِ عدلیہ کے لیے بھی کچھ احکامات صادر کیے گئے ہیں۔ کتابِ ہدایت میں منصف کی تکریم کو بھی دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے یہ اصول دے دیا ہے کہ انصاف کے بول بالا کے لئے منصف کی عزت و تکریم پر کوئی کمی بیشی گوارہ نہیں۔ کائناتِ ارضی کے پہلے منصف و محتسب حضور نبی اکرم ﷺ ہیں۔ قیامت تک کے لیے جتنے بھی منصف اس منصب پر فائز ہوں گے وہ بطورِ منصف پیغمبرِ حق کے نائب ہیں۔
- منصف کی تکریم کے حوالے سے اللہ رب العزت نے سورہ النساء میں فرمایا کہ وہ شخص ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا جو آپﷺ (منصفِ اعلیٰ) کے صادر کیے گئے فیصلے کو بہ خوشی قبول نہ کرے۔
- اللہ رب العزت نے سورہ المائدہ میں منصف کی ذمہ داریوں کا تعین بھی فرما دیا۔ فرمایا: اے نبی مکرم آپ اس کتاب کے مطابق فیصلے کریں،کسی کی خواہشات کی پیروی میں نہیں۔ یعنی قرآن مجید میں دو ٹوک یہ اعلان کردیاگیا ہے کہ منصف عدل کرتے وقت انصاف کے تقاضوں کو ہر پہلو اور ہر جہت سے یقینی بنائے گا اور فیصلہ کرتے وقت کسی کی خواہش، کسی کے خوف، کسی کے لالچ اور ڈر کو آڑے نہیں آنے دے گا۔
- ایمان والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو اور انصاف کرتے وقت اور گواہی دیتے وقت صرف اللہ کو دھیان میں رکھو۔ منصف کا کنڈکٹ اور گواہ کی گواہی صرف اللہ کے لئے ہے۔
- اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف وحی کرتے ہوئے حکم فرمایاکہ یہ بات عام فرمادیں کہ اللہ نے مجھے تمہارے درمیان عدل وانصاف کیلئے بطور عادل مبعوث کیا یعنی پیغمبرِ امن و سلامتی کی ایک شان اور وصف اُن کا عادل ہونا ہے۔
- اللہ رب العزت نے سورہ البقرہ میں فرمایا کہ ایک دوسرے کے مال کو ناحق مت کھایا کرواور اپنا کام نکلوانے کے لئے بطورِ رشوت حاکموں تک پہنچانا بھی ایک بڑا گناہ ہے۔ یعنی رشوت لے کر غلط فیصلے دینا یا غلط کو ٹھیک قرار دینا تو ناقابلِ معافی جرم ہے ہی اگر کوئی شخص مرضی کا فیصلہ حاصل کرنے کے لئے یا اپنا کام نکلوانے کے لئے دولت کا استعمال کرتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک ایک بہت بڑے گناہ اور جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔
- نظامِ عدل اور انصاف کی اہمیت پر کتابِ ہدایت کا ایک ایک حرف آبِ زر سے لکھنے اور قلب و ذہن میں نقش کرنے کے لائق ہے۔ اللہ رب العزت نے منصف کے تقرر کے حوالے سے بھی کچھ ہدایات دی ہیں:
- سورۃ النساء میں حکم دیا کہ ایسے شخص کو منصف بناؤ جو امانت دار ہو اور ایسے لوگوں کو حاکم بناؤ جو ہر حال میں عدل و انصاف پر قائم رہیں اور لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کی بنیاد پر فیصلے کریں۔ انصاف کے عمل میں سازش، غلط بیانی کو بھی بہت بڑا گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں ہم خود کو حق پر ظاہر کرنے کے لئے جائز و ناجائز کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسے افراد اگر خود کو مسلمان اور ایمان والا سمجھتے ہیں تو وہ ذہن نشین کر لیں کہ اُن کا یہ عمل اللہ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ اور قابل گرفت ہے۔
- عدل و انصاف کی اہمیت کے حوالے سے اللہ رب العزت نے سورۃ المائدہ میں ایک فکر انگیز اور چشم کشا ہدایت بھی دی ہے کہ منصف انصاف کرتے وقت کسی دشمن کی دشمنی کو بھی آڑے نہ آنے دے۔۔ اللہ نے فرمایا: مجھے عدل کرنے والے بہت پسند ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ پہلے والی اُمتیں جو تباہ ہو گئیں، اُن کے تباہ ہونے میں ایک علت یہ بھی تھی کہ وہ طاقتوروں کو جرم کا ارتکاب کرنے پر معاف کر دیتی تھیں جبکہ کمزور کی پوری گرفت کی جاتی تھی۔
عدل و انصاف کی اہمیت کے اعتبار سے قرآن و سنت کے مذکورہ دلائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انصاف کے معاملے میں کسی کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ناانصافی سے معاشروں میں تباہی اور بگاڑ تو آتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ روزِ قیامت اللہ رب العزت بھی کڑی گرفت کریں گے۔ انصاف ہی کمزوروں اور محروموں کی ڈھارس اور طاقت ہے۔ جب انصاف ناپید ہوتا ہے تو کمزور کی آہیں اور سسکیاں عرش تک بلند ہوتی ہیں اور پھر انصاف سے محروم معاشرے اللہ کی خیر و برکات سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔
17 جون کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء 10ویں برسی منائیں گے۔ یہ 10 واں سال بھی انہیں انصاف سے محروم کی صورت میں گزارنا پڑرہا ہے۔ ملکی تاریخ کا یہ واحد قتل و غارت گری کا کیس ہے کہ جس کی تاحال غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تفتیش بھی نہیں ہو سکی اور غیر جانبدارانہ تفتیش نہ ہونے کی وجہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس میں انصاف کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی بلکہ کچھ مہینوں سے صورت حال اور بھی دگرگوں ہو گئی ہے کہ انصاف میں تاخیر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزمان بریت کی درخواستیں لے کر پہنچ گئے ہیں اور ایک ایک کر کے بری ہورہے ہیں۔ یہ طرزِ عمل انصاف کا قتل ہے۔ حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور نظامِ عدل کی یہ آئینی، و قانونی اور انسانی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوموں کو انصاف دے اور انصاف کرتے وقت طاقتوروں کے خوف کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ یہ آئینی تقاضا ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت کا حکم بھی ہے۔ دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت ہمیں عدل و انصاف کی راہ پر گامزن کرے تاکہ ہمارے احوال درست ہو سکیں۔