ریاست پاکستان نے حالیہ دور میں معاشی و اقتصادی کسمپرسی کا ایک بہت درد ناک دور دیکھا ہے، جس سے نکلنا تقریباً نا ممکن سا لگ رہا تھا لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے ملکی عسکری و سیاسی قیادت کی انتھک محنت اور مخلصانہ کاوشوں کی بدولت پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے امید کی ایک نمایاں کرن نظر آئی ہے۔
اقتصادی و معاشی ترقی کے لیے چھ اہم ایسے نکات ہیں جن پر حکومت کو توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ہمارے 4 بڑے صوبے اقتصادی ترقی کے حوالے سے مقابلہ نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے 38 ڈویژن اور 100 سے زائد اضلاع آپس میں مقابلہ شروع کردیں تو ہماری معاشی حالت یقینی طور پر بہتر ہوگی اور ہمیں ذمہ دار حکومتیں دیکھنے کو ملیں گی۔
صوبائی حدود کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں صرف اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہر ڈویژن کا ایک منتخب کمشنر ہو اور ہر ضلع کا ایک منتخب میئر ہو جن کے پاس اختیارات بھی ہوں اور ذمہ داریاں بھی۔
وسائل کی تقسیم کے حوالے سے ذیلی قومی حکومتوں کو جو رقم تقسیم کی جاتی ہے اس کا 60 فیصد حصہ اضلاع کو دیا جائے اور اس رقم کا 20 فیصد ڈویژن اور صوبے کو فراہم کیا جائے۔ اسی طرح اضلاع کو میٹروپولیٹن خدمات کا مرکز بنایا جاسکتا ہے۔
تو ترقی کے لیے دوسرا ستون ایسی بااختیار مقامی حکومتیں ہیں جن کے پاس صحت، تعلیم، امن و امان اور زون وغیرہ کے اختیارات ہوں۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے مواقع موجود ہونے چاہییں جو ہماری حکومتوں کو ذمہ دار اور مؤثر بنائیں۔
ترقی کا تیسرا ستون چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہے اور مالیاتی خسارے کو ہماری شرح نمو سے کم کرنا ہے۔
خسارے کو کم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ عوامی ترقیاتی منصوبوں کو بڑے بین الصوبائی منصوبوں تک محدود کردیا جائے۔ دفاع سمیت موجودہ اخراجات کی شرح کو مہنگائی کی شرح سے کم کردیا جائے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ذیلی سطح پر 5 سالوں میں ہونے والی ادائیگیوں کو موجودہ 57.5 فیصد سے کم کرکے تقریباً 40 فیصد کردیا جائے۔ ساتھ ہی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مقامی حکوتوں کو بھی اپنی آمدنی بڑھانے کی اجازت دے دینی چاہیے۔یہاں بیرونِ ملک سے قرضے لے کر اور نجی سرمایہ کاری سے مالیاتی خسارے کی بھرپائی کی جاتی ہے۔ قرضہ لینا کوئی نہیں چاہتا اور نجی سرمایہ کاری کے نتائج کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
اسی لیے ہمیں مالیاتی اور شرح مبادلہ کی ایسی پالیسیوں کا انتخاب کرنا چاہیے جن سے کرنٹ اکاؤنٹ میں توازن قائم کیا جا سکے۔
ترقی کے تصور میں چوتھا ستون درآمدات کے برعکس برآمدات کے فروغ کے لیے پالیسی سازی ہے۔ ہماری برآمدات تین اہم وجوہات کی بنا پر کم ہیں:
- ایک یہ کہ ہم مناسب نرخوں پر توانائی کی بلاتعطل فراہمی نہیں کرتے۔ غریبوں تک دولت پہنچانے کے لئے سرمایہ داروں پر زکوۃ جیسے بہت سے اخراجات اسلام نے واجب کردیئے اور یہ بھی نہیں کہ اسے ان کی طرف سے احسان سمجھا جائے کہ سرمایہ دار غریبوں کو اپنے اس احسان کے ذریعہ دبائیں اور عاردلائیں بلکہ اسے ’’حق واجب‘‘ قرار دیا، جسے بزورقانون وصول کیا جاسکتا ہے۔ نیز اسلام نے غریبوں کی رعایت کرتے ہوئے زکوۃ کے علاوہ عشر، خراج، صدقات، کفارات، نفقات، وصیت اور میراث کے ذریعہ مالداروں کے تالاب سے غریبوں کے کھیتوں کی طرف مختلف نہریں جاری کردیں تاکہ پورا معاشرہ سرسبز و شاداب رہے اور آیت قرآنی (وابتغوا من فضل الله) اور (کلوا من الطیبات واعملوا صالحا) کے ذریعہ حلال آمدنی کے حصول پر توجہ دلاتے ہوئے اس کو صحیح مصرف اور اللہ کی راہ میں یعنی غریبوں پر خرچ کرنے کی تاکید بھی کردی
- دوسری یہ کہ ہمارا ملک غیر ملکی خریداروں کے لیے محفوظ نہیں سمجھا جاتا، جبکہ
- تیسری وجہ یہ ہے کہ ہماری کمپنیاں محفوظ مقامی منڈیوں میں فروخت کو ترجیح دیتی ہیں۔
پہلی دو وجوہات کا سبب تو گزشتہ 20 سالوں سے واضح ہے لیکن پھر بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ جبکہ تیسری وجہ کا حل یہ ہے کہ ان کمپنیوں پر اضافی ٹیکس عائد کیا جائے جو اپنی فروخت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی برآمد نہیں کرتیں جبکہ انہیں تو کسٹم ڈیوٹی میں بھی رعایت حاصل ہوتی ہے جو مقامی صنعت کاروں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مندرجہ بالا اقدامات اور برآمدات کے لیے ڈویژن کی سطح پر ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز کی تشکیل سے ہماری برآمدات میں یقینی طور پر اضافہ ہوگا۔
پانچواں ستون زرعی پیداوار کو بہتر بنانا ہے۔ ہم اپنے آپ کو زرعی ملک کہتے ہیں پھر بھی ہم صرف 8 ارب مالیت کی ہی گندم، کپاس، تیل، دالیں، لہسن، ادرک اور ایسی دیگر اشیا درآمد کرتے ہیں۔ ہماری فصل کی پیداوار نہ صرف چین بلکہ بھارت (جہاں حالات ہم سے مختلف نہیں) کی پیداوار سے بھی کم ہے۔
چونکہ ہماری آبادی میں سالانہ 50 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے جب تک کہ ہم اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں کریں گے تب تک ہمارے ملک میں خوراک کی قلت برقرار رہے گی۔ زرعی پیداوار میں اضافے سے کسانوں کی آمدنی بھی بڑھے گی اور یہ دیہی علاقوں میں غربت کم کرنے کا باعث بھی بنے گا۔
چھٹا اہم ستون تعلیم ہے پاکستان میں نظام تعلیم کی زبوں حالی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے پہلی حکومتی لاپروائی، غیر حقیقی منصوبہ بندی اور ملک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات ہیں۔ اُردو ، انگریزی میڈیم میں تقسیم بھی اس زمرے میں آتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ تمام اُردو میڈیم یا دوسرے الفاظ میں سرکاری اداروں میں تعلیم کا معیار بہت کم ہے اور تمام انگلش میڈیم یا پرائیویٹ اداروں کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔ بڑے شہروں میں پرائیویٹ سکول اپنی کارکردگی بہترین دکھاتے پائے جائیں گے مگر ان سکولز کو چھوٹے شہروں میں دیکھا جائے تو اکثر کی حالت سرکاری سکول جیسی ہی ہوتی ہے۔ دراصل پاکستان میں سکول سسٹمز ایک کاروبار بن چکا ہے جس کے پاس کچھ پیسہ اکٹھا ہوا وہ تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچنے لگتا ہے ذرا سوچئے کہ جب کاروباری ذہنیت کے لوگ اس میدان کے کرتا دھرتا ہوں تو معیاری تعلیم کی توقع فضول ہے
ہم تعلیمی نظام کو ایک صورت میں بہتر بنا سکتے ہیں کہ حکومت اپنی ترجیحات میں تعلیم کے فروغ کو سرِ فہرست رکھے۔ اس کے لئے نہ صرف مناسب بجٹ رکھا جائے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ بجٹ کا مناسب اور صحیح جگہ پر استعمال بھی کیا جائے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بجٹ یعنی وسائل کے باوجود محکمہ تعلیم کے افسران اور ملازمین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بہت سے سکولوں، کالجوں کی عمارتوں، کلاس رومز، فنی تربیت کی تجربہ گاہوں اور سپورٹس گرائونڈ کا بُرا حال ہوتا ہے۔ اس تناظر میں یہ ضروری ہےحکومت کو اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔اگر ممکن ہو تو ایسے سکولوں کا اجراء کیا جائے جہاں طلباء اور طالبات کومیٹرک تک تعلیم مکمل طور پرمفت دی جائے۔
صوبائی حدود کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں صرف اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہر ڈویژن کا ایک منتخب کمشنر ہو اور ہر ضلع کا ایک منتخب میئر ہو جن کے پاس اختیارات بھی ہوں اور ذمہ داریاں بھی، اس طرح غربت کا شکار عوام کو تعلیمی سہولتوں سے آراستہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر پرائمری تک مخلوط تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں تو کم از کم اداروں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ طلباء و طالبات کو تعلیمی سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کو گروس نیشنل پروڈکٹ کا نمایاں حصہ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔ دیگر ممالک مثلاً بنگلہ دیش میں کم از کم گروس نیشنل پروڈکٹ کا 2.2% ، بھارت میں 3-3% اور نیپال میں 3-2% خرچ ہوتا ہے۔لہٰذا پاکستان کو بھی گروس نیشنل پروڈکٹ کا %4 تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا تاکہ تعلیمی مسائل حل ہوسکیں۔
اقتصادی نظام اور اس کی راہ میں پیش آمدہ مشکلات کا حل جو اسلام نے پیش کیا ہے اس کو جاننے سے پہلے ذہن میں اسلامی معیشت و اقتصاد کا تصور واضح ہونا اور یہ بات معلوم ہونی از حد ضروری ہے کہ اسلامی اقتصاد و معیشت کس چیز کا نام ہے؟ اس کی کیا بنیادی خصوصیات ہیں؟ وہ کس طرح دوسری معیشتوں سے ممتاز ہے؟ کیونکہ جب تک یہ بات واضح نہ ہوگی اس وقت تک اقتصادی مسائل پر بحث و تحقیق اور ان کا کوئی حل منطقی طور پر درست نہیں ہوگا۔
اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے:
اسلامی معیشت یا بالفاظ دیگر ’’اسلام کے اقتصادی نظام‘‘ کے حوالے سے سب سے پہلی بات جو ذہن نشیں رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ اسلام درحقیقت ’’کیپٹل ازم‘‘ (سرمایہ دارانہ نظام) ’’یا سوشلزم‘‘ (اشتراکیت) کی طرح ایک ’’معاشی نظام‘‘ نہیں ہے، مجموعۂ قوانین اسلام ’’قرآن وسنت‘‘ میں وہ بنیادی تصورات تو ہیں جن پر بنیاد رکھ کر ایک معیشت و اقتصاد کی تعمیر کی جاسکتی ہے لیکن معیشت کے ایسے نظریات موجود نہیں ہیں جو ’’آدم ستھ‘‘ ’’مارشل‘‘ اور دوسرے ماہرین معاشیات کی کتابوں میں موجود ہیں ،کیونکہ اسلام اپنی ذات اور اصل میں معاشی نظام نہیں بلکہ وہ ایک نظام زندگی ہے ،جس کا ایک چھوٹا سا شعبہ معیشت و اقتصاد بھی ہے۔
اصل منزل تو آخرت کی ہے:
اسلام نے اگرچہ اقتصاد و معیشت کو اہمیت دی ہے، دنیاوی منافع کو قرآن میں ’’فضل‘‘ اور ’’خیر‘‘ کہا گیا ہے، رسول اکرم ﷺ نے حلال طریقے سے رز ق کے حصول کو طلب کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ (کنز العمال) فرما کر دوسرے درجہ کا اہم فریضہ قرار دیا ہے اور بے شک معیشت و اقتصاد اسلامی تعلیمات کا ایک بہت اہم شعبہ ہے جیسا کہ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’فقہ اسلامی‘‘ کی کسی بھی کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اس کے دو حصے معیشت سے متعلق ہی ہوں گے۔ لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام نے اسے مقصد زندگی قرار نہیں دیاہے، اور دوسرے معاشی نظاموں کی طرح انسانی زندگی کا بنیادی مسئلہ معیشت کو ہی نہیں بنایاہے، بلکہ اسلام نے یہ نظریہ پیش کیا ہےکہ انسان دنیا کو ایک عبوری دور سمجھے اور ساری کوششوں، ساری توانائیوں اور ساری جدوجہد کا محور دنیاوی زندگی کی معیشت کو ہی نہ بنائے؛ کیونکہ اس دنیا کے بعد ایک دوسری ابدی اور سرمدی زندگی آخرت کی شکل میں آنے والی ہے جس کی فلاح و بہبودگی درحقیقتانسان کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے۔
اسلام رہبانیت کا مخالف ہے:
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان صرف آخرت کی سوچ لے کر بیٹھ جائے، معیشت کو غیر کار آمد فضول سمجھنے لگے، اور زندگی بہتر بنانے کی سعی کو ناجائز سمجھ بیٹھے، اس لئے کہ دین محمدی کے بے شمار امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس نے یہ تعلیم دی ہے کہ انسان معیشت اور اقتصاد کو اختیار کرے ،اس سے فائدہ اٹھائے، اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنائے، لیکن نہ تو معیشت کو آخری مقصد زندگی اور بنیادی مطمع نظر قرار دے اور نہ ہی اس کے حدود سے تجاوز کرے۔
غریبوں تک دولت پہنچانے کے لئے سرمایہ داروں پر زکوۃ جیسے بہت سے اخراجات اسلام نے واجب کردیئے اور یہ بھی نہیں کہ اسے ان کی طرف سے احسان سمجھا جائے کہ سرمایہ دار غریبوں کو اپنے اس احسان کے ذریعہ دبائیں اور عاردلائیں بلکہ اسے ’’حق واجب‘‘ قرار دیا، جسے بزورقانون وصول کیا جاسکتا ہے۔ نیز اسلام نے غریبوں کی رعایت کرتے ہوئے زکوۃ کے علاوہ عشر، خراج، صدقات، کفارات، نفقات، وصیت اور میراث کے ذریعہ مالداروں کے تالاب سے غریبوں کے کھیتوں کی طرف مختلف نہریں جاری کردیں تاکہ پورا معاشرہ سرسبز و شاداب رہے اور آیت قرآنی (وابتغوا من فضل الله) اور (کلوا من الطیبات واعملوا صالحا) کے ذریعہ حلال آمدنی کے حصول پر توجہ دلاتے ہوئے اس کو صحیح مصرف اور اللہ کی راہ میں یعنی غریبوں پر خرچ کرنے کی تاکید بھی کردی ،چنانچہ قرآن و حدیث کو دیکھئے ان کی تعلیمات ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ سے بھری پڑی ہیں بلکہ اللہ کی راہ میں ضرورت سے زائد خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔
ترقی کا تیسرا ستون چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہے اور مالیاتی خسارے کو ہماری شرح نمو سے کم کرنا ہے۔خسارے کو کم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ عوامی ترقیاتی منصوبوں کو بڑے بین الصوبائی منصوبوں تک محدود کردیا جائے۔
غرض ایک طرف سرمایہ داری کی ناجائز آمدنی اور اشتراکیت کے ظلم و جور کو ختم کرکے اور دوسری طرف اس کے اخرجات میں اضافہ کرکے اسلام نے دولت کے بہاؤ کا رخ عام معاشرہ کی طرف پھیر دیا تاکہ خوشحالی ہی خوشحالی نظر آئے، معاشرہ سے غربت دور ہو انسان چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرے نہ امیر غریبوں کا خون چوسیں اور نہ ہی غرباء ’’بقاء حیات‘‘ اور ’’سد رمق‘‘ کے لئے ’’قوت لایموت‘‘ کو ترسیں۔ یہ ہے اسلام کا اتقصادی نظام کہ جس نے اسے اپنایا ترقی کرتا ہی چلاگیا اور جس نے اس کے علاوہ کوئی دوسری راہ تلاش کی ابدی تنزلی اسکا مقدر بن گئی۔