حضور ﷺ کی غلاموں اور خدام پر رحمت و شفقت

ڈاکٹر انیلہ مبشر

حضرت محمد ﷺ نے حجۃ الوداع ادا کرتے ہوئے 9 ہجری میدان عرفات میں ایک فقید المثال خطبہ دیا جسے انسانیت کا عالمگیر منشور قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس خطبے میں آپ نے خاص طور پر انسانیت کے کمزور طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے آواز بلند کی۔ عصر حاضر میں گھریلو ملازمین پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ان کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس وقت کی متمدن دنیا یعنی سلطنت روما، قسطنطنیہ، ایران و مصر میں سماجی ناہمواری کا یہ عالم تھا کہ مراعات یافتہ طبقہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہا تھا اور دوسری طرف کمزور طبقہ جن میں غلام اور لونڈیاں خاص طور پر شامل تھیں، نہایت عسرت و خستہ حالی کی زندگی گزار رہا تھا۔ وہ کبھی اپنے آقا کے برابر حقوق حاصل نہ کر پاتے بلکہ ان کی زندگی اور موت اپنے آقا کی رہین منت تھی۔ یہی حال جزیرہ نما عرب کا بھی تھا۔ رحمۃ للعالمین رسول اللہ ﷺ نے اس کمزور طبقے کو قوی و مضبوط بنایا اور ان کا درجہ بلند کرکے دوسرے طبقات کے برابر قرار دیا۔ خطبہ میں آپ نے ارشاد فرمایا:

’’لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، انھیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، وہی پناؤ جو خود پہنتے ہو۔‘‘

حضرت محمد ﷺ کی بیشتر احادیث مبارکہ غلاموں کے حقوق سے متعلق ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ’’یارسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کردیا کریں۔‘‘ آپ نے فرمایا ہر روز ستر (70) بار معاف کردیا کرو۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص اپنے غلام کے منہ پر تھپڑ مارے اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کردے۔ حضرت ابو مسعود انصاریؓ کا بیان ہے کہ وہ اپنے غلام کو مار رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے دیکھ لیا تو فرمایا:

’’ابومسعود جان لو کہ تم کو جس قدر غلام پر اختیار ہے اس سے زیادہ اللہ کو تم پر اختیار ہے۔‘‘

حضرت ابو مسعود انصاریؓ نے عرض کیا میں نے اس کو رضائے الہٰی کے لیے آزاد کردیا۔ آپ نے فرمایا: ’’دیکھو اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ کی آگ تم کو جلاتی۔‘‘ آنحضرت ﷺ کو غلاموں کی بہبود کا اس قدر خیال تھا کہ عالمِ نزع میں وصیت فرمارہے تھے۔ ’’نماز اور غلام‘‘

رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ غلاموں پر کس قدر شفقت فرماتے۔ آپ کی ملکیت میں جو غلام آتے آپ انھیں آزاد کردیتے لیکن وہ آپ کے احسان و کرم اور حسن سلوک کے اثر سے آپ کا دامن عمر بھر نہ چھوڑتے اور آپ کی خدمت کو اپنے لیے سرمایہ سعادت سمجھتے تھے۔

حضرت زید بن حارثہؓ کو بچپن ہی میں غلام بناکر فروخت کردیا گیا ۔ آپ کی ذہانت و فطانت دیکھ کر حضرت خدیجہؓ نے آپ کو خرید لیا اور بطور تحفہ حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت زید بن حارثہؓ کی خوش بختی کہ انھیں کائنات کے سب سے عظیم انسان کی قربت اور تربیت میں رہنے کا موقع ملا۔ آپ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو نہ صرف آزاد کردیا بلکہ اپنا متبنیٰ بھی بناکر اپنے گھر کا ایک فرد قرار دیا۔ حضرت زیدؓکے والد کئی سالوں کی تلاش کے بعد اپنے بیٹے کو لینے مکہ مکرمہ پہنچے تو بیٹے نے والد کے ساتھ جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں نے اس عظیم شخصیت میں ایسی صفات پائی ہیں کہ اب ان سے جدا ہونا ہرگز پسند نہیں کرتا۔ حضرت زید بن حارثہؓ نے غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ حضور اقدس ﷺ کی خدمت گزاری کے ساتھ ساتھ وہ آپ ﷺ کے معاون خاص بھی بن گئے۔ مکہ کی گلیاں ہوں یا طائف کا بازار ہرجگہ زید بن حارثہ اللہ کے رسول کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہتے۔ ان کے جوشِ تبلیغ نے اسلام کو بہت قوت پہنچائی۔

حضرت زید بن حارثہؓ وہ شخصیت ہیں جن کا نام قرآن پاک میں موجود ہے۔ یہ فضیلت کسی اور صحابی کے حصے میں نہیں آئی۔ آنحضرت ﷺ نے انھیں جنگ موتہ میں لشکر اسلام کا سپہ سالار بنایا جس میں ان کی شہادت ہوگئی۔ اپنی حیات طیبہ کے آخری لشکر کو ان کے بیٹے اسامہ بن زید کی قیادت میں روم روازنہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کا فرمان تھا کہ زید بن حارثہؓ میرے محبوب ترین لوگوں میں سے تھے اور ان کے بعد اسامہ بن زید بھی میرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی ذاتِ اقدس نے اپنا خادم زید بن حارثہؓ کی بہترین تعلیم و تربیت کی جس سے ان کے لیے دین و دنیا کی بھلائی کے در وا ہوئے۔

مکہ کے حبشی النسل غلاموں میں عزت مآب حضرت بلال بن رباح اسلام کے موذن اول تھے۔ آپ کی والدہ حمامہ ایک اہم سردار مکہ امیہ بن خلف کی خادمہ و لونڈی تھی۔ حضرت بلال بھی ایک غلام کی حیثیت سے اپنے آقا امیہ بن خلف کے اونٹوں کی دیکھ بھال کرتے اور دوسرے غلاموں کی طرح دن بھر کی مشقت کے بعد انھیں تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور معمولی قسم کا کھانا دے دیا جاتا۔ حضرت بلالؓ نے اسلام کے اولین دور میں پیغام حق کو تسلیم کیا مگر اس جرم کی پاداش میں ان پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا۔ دہکتی زمین پر لٹاکر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیئے جاتے مگر حضرت بلالؓ اسلام سے دستبرداری کی بجائے احد احد کی صدا بلند کرتے۔ بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے حضرت ابوبکر نے لا الہ الا اللہ کے اس داعی کو ایک روایت کے مطابق پانچ اوقیے (دو سو درہم) ایک دوسری روایت کے مطابق سات اوقیے (دو سو اسی درہم) میں خرید کر اللہ کی رضا کے لیے آزاد کردیا۔

حضرت بلالؓ کو ہجرت مدینہ کے بعد یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ اللہ کے رسول کے ذاتی خادم مقرر ہوئے۔ حضرت بلالؓ ازواج مطہرات کے چھوٹے موٹے کام اور امور مہمان داری سرانجام دیتے۔ وہ آپ کے عہد دار اور خازن بھی تھے۔مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد آپ اسلام کے موذن اول مقرر ہوئے۔ دن میں پانچ وقت اپنی بلند اور دلکش آواز میں اذان دیا کرتے۔ یوم فتح مکہ پر آنحضرت ﷺ نے آپ کو عظیم الشان اعزاز بخشا کہ آپ نے بیت اللہ کی چھت سے اذانِ حق کی صدا بلند کی اور حسب نسب اور طبقاتی تقسیم کو پاؤں تلے روند ڈالا۔

حضرت عمر فاروقؓ حضرت بلالؓ کو اس قدر عزت و احترام دیتے کہ یا سیدنا بلال کہہ کر مخاطب کرتے یعنی بلالؓ ہمارے سردار و آقا ہیں۔

کچھ لوگوں نے شادی کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے حضرت بلالؓ سے متعلق مشورہ طلب کیا تو آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کی قدرو منزلت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ ’’تم میرے بلالؓ کو کیا سمجھتے ہو۔ میرا بلالؓ تو اہل جنت میں سے ایک ہیں۔ امام بخاری نے اس ضمن میں حدیث مبارکہ کو قلمبند کیا کہ شب معراج کے واقعات کے سلسلے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’میں نے بلال بن رباح کی جوتوں کی آہٹ جنت میں اپنے آگے سنی ہے۔‘‘

شادی کے بعد بھی حضرت بلالؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے معمولات میں کمی نہ آنے دی۔ سیدنا بلال ؓ کو جو قلبی تعلق اپنے آقا دو جہاں حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی سے تھا۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد مدینہ کو خیر باد کہا اور اذان کہنی بھی چھوڑ دی۔ آپ سے وجہ پوچھی گئی تو فرمانے لگے کہ اب میں اشھد ان محمدا رسول اللہ کہتے وقت کس کے چہرے کی طرف دیکھوں گا۔ الغرض آنحضرت ﷺ کی خاص تعلیم و تربیت سے خادم رسول دین و دنیا کی بھلائی سے بہرہ مند ہوئے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی سرپرستی میں آپ کو سماجی اور دینی طور پر جو اعلیٰ شرف اور عظیم رتبہ حاصل ہوا، اس اعزاز اور امتیاز کی تمنا ہر مسلمان کے دل میں تھی مگر یہ بلند مرتبہ صرف اور صرف خادم رسول حضرت بلالؓ کو حاصل ہوا۔

حضرت انس بن مالک آپ ﷺ کے خادمِ خاص تھے۔ آپ کی و الدہ حضرت ام سلیم نے ہجرت مدینہ کے بعد اپنے بیٹے کو دس برس کی عمر میں آپ ﷺ کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔ حضرت انسؓ رسول اللہ ﷺ کے عظیم اخلاق کا نمونہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی دس برس تک خدمت کی۔ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کبھی میرے کام پر نکیر فرمائی ہو اور مجھ سے یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا یا ایسا کیوں نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہوا تو آپ کی شخصیت پر اس کے مثبت اثرا ت مرتب ہوئے۔ حضرت انسؓ ان کی ہر سنت کی پیروی کرتے اور آپ کا اسوہ حسنہ اپنانے کی کوشش کرتے۔ خود رسول اللہ ﷺ حضرت انس بن مالکؓ سے بہت پیار کرتے تھے ان سے کوئی کوتاہی ہوجاتی تو انتہائی محبت اور پیار سے ان کی تربیت فرماتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے 2286 احادیث مروی ہیں جن میں سے 180 متفق علیہ ہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ کی والدہ نے آپ ﷺ سے اپنے بیٹے کے حق میں دعا کی درخواست کی۔ آپؓ نے ان کے لیے یہ دعا کی:

’’اے اللہ! انس کے مال و اولاد میں برکت عطا فرما۔‘‘

چنانچہ اس برکت کا اثر یہ ہوا کہ انس بن مالکؓ ہی کے الفاظ میں ان کے پاس مال و دولت کے انبار لگ گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کے ہر ناز و نعم سے نوازا۔ حضرت ابوہریرہؓ بلاشبہ امیرالمومنین فی الحدیث کے بلند مقام پر فائز ہیں۔ آپ اپنی والدہ کے ہمراہ غزوہ خیبر کے مواقعہ پر یمن سے مدینہ منورہ پہنچے۔ آپ کو قبول اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ کے وصال تک رہبر انسانیت کی خدمت گزاری کا موقعہ ملا۔ حضرت ابوہریرہؓ کا زیادہ وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دین سیکھنے میں گزرتا۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں رہنے اور حصول علم سے متعلق آپ خود بیان فرماتے ہیں کہ

’’لوگو! تم کہتے ہو کہ ابوہریرہؓ رسول اللہ ﷺ سے بکثرت احادیث بیان کرتا ہے تم لوگ جانتے ہو کہ میں ایک مسکین آدمی تھا مگر میں اپنے پیٹ سے بے فکر ہوکر اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر رہتا۔ مہاجرین بازاروں میں خریدوفروخت میں مصروف رہتے تھے اور انصار اپنے اموال و زراعت کی دیکھ بھال میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ایک دن میں اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا جو شخص میری بات ختم ہونے تک اپنی چادر پھیلائے رکھے گا پھر اسے سمیٹ لے گا۔ وہ مجھ سے سنی ہوئی بات کو ہرگز نہ بھولے گا۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اور اس کے بعد میں نے آپ سے جو کچھ سنا اسے کبھی نہ بھولا۔ یہاں تک کہ بنو امیہ کے خلیفہ مروان بن حکم نے احادیث مبارکہ کے سلسلے میں آپ کے حافظے کا امتحان لیا اور اسے قوی پایا۔

حضرت ابوہریرہؓ میں حصول علم کی بے پناہ لذت اور ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے آپ ﷺ ان پر خاص التفات فرماتے۔ ایک روز حضرت ابوہریرہ ؓنے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا۔ اللہ کے رسول ﷺ ! قیامت کے دن سب سے بڑھ کر آپ کی شفاعت کا حقدار کون ہوگا؟ ارشاد فرمایا ابوہریرہ! مجھے تمھارے شوق کے پیش نظر اندازہ تھا کہ اس بارے میں تم سے پہلے کوئی اور شخص یہ سوال نہیں کرے گا۔ بلاشبہ قیامت کے دن سب سے پہلے میری شفاعت سے فائدہ اٹھانے والا وہ شخص ہوگا جو خلوص دل سے لا الہ الا اللہ کہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کو رہبر انساننیت کی خدمت میں صرف چند سال گزارنے کا موقعہ ملا مگر حضور اقدس کے فیضان نظر کی بدولت آپ نے 5374 احادیث روایت کی ہیں جن میں 326 متفق علیہ ہیں۔ خدمت رسول ﷺ کی بدولت دین کے ساتھ دنیا بھی آپ پر مہربان ہوئی اور غریب و بے خانماں ابوہریرہ بصرہ کے گورنر بھی مقرر ہوئے۔ اگرچہ آپ نے اس منصب کو جلد خیر باد کہہ دیا۔ آنحضرت ﷺ کی تعلیم و تربیت نے آپ کو دین و دنیا میں باکمال بنادیا۔

مسلم انسانیت کے وصال کے بعد بھی غلاموں اور خادموں سے حسن سلوک کی روایات کو قائم رکھا گیا۔ رہبر انسانیت محمد رسول اللہ ﷺ نے غلاموں اور خادموں کے لیے جو ہدایات فرمائی ہیں۔ ان کا اطلاق آج کے دور کے خادموں اور گھریلو ملازمین پر بھی ہوتا ہے مگر افسوس کہ عصر حاضر میں ہم نے بہت سی اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران نے کروڑوں افراد کو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے اور دن بدن ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، چور بازاری اور اقربا پروری نے پسماندہ طبقات کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ غربت و افلاس کی چکی میں پسے والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ انھیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے ہنر سکھانے یا گھریلو ملازم بنانے پر مجبور ہیں تاکہ معاشی ضروریات کا بوجھ کم کیا جاسکے۔

دوسری طرف مراعات یافتہ طبقہ اسلامی تعلیمات اور اس کی حقیقی روح کو فراموش کرچکا ہے۔ اسلام نے معاشی وسائل اور مراعات کی منصفانہ تقسیم پر جو زور دیا ہے اس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے ہم آئے دن گھریلو ملازم بچوں اور بچیوں پر بدترین تشدد کی خبریں سنتے ہیں۔ ان سے بدکلامی اور طعن و تشنیع کی جاتی ہے اور جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں۔ جسمانی تشدد کی وجہ سے بچوں کی آئندہ زندگی کئی طبی مسائل سے دوچار ہوسکتی ہے اور انھیں بدترین ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ مگر خوشحال طبقہ تمام حقائق سے بے نیاز صرف اپنی ذاتی انا کی تسکین چاہتا ہے۔

ہمارا دینی اور اخلاقی تقاضا ہے کہ ہم گھریلو ملازمین سے نرم دلی اور خیر خواہی کا سلوک کریں تاکہ وہ مستقبل میں ذمے دار شہری اور کامیاب انسان بن سکیں۔ گھریلو ملازمین اور خدمت گاروں سے پیار، محبت اور شفقت بھرا رویہ اختیار کریں۔ ہمارے آقا اور ھادی حضرت محمد ﷺ کی سنت رہی ہے۔ محسن انسانیت نے دنیائے انسانیت کو اس کا حقیقی مقام عطا کیا۔ ظلم و جبر، طبقاتی تقسیم اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے انسانوں کو حریت، عزت اور مساوات کا پیغام دیا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان مسجودِ ملائک اور اشرف المخلوقات ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ گھریلو ملازمین کو وہ برابری، مساوات اور سماجی انصاف مہیا کریں جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے کیونکہ یہ ملازمین ہمارے رہین منت ہیں۔ ہم اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے انھیں دین کا صحیح فہم دیں۔ انھیں بندگی کا شعور اور خود آگہی کا درس اس طرح دیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور صراطِ مستقیم پر گامزن ہوجائیں۔ تعلیمی اداروں سے محروم ان بچوں کا تعلق قلم اور کتاب سے جوڑ دیں اور دن کا کچھ حصہ ان کی تعلیمی راہنمائی کے لیے وقف کردیں۔ انھیں قرآن و حدیث اور دین کے مسائل سے آگاہ کریں تاکہ وہ اراکین اسلام کی صحیح پاسداری کے قابل ہوسکیں اور صراط مستقیم پر چلتے ہوئے دین و دنیا کی کامیابی سمیٹ سکیں۔ تعلیم یافتہ افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی شرح خواندگی میں اضافہ کا موجب بنیں۔ ان نوخیز کلیوں کی کردار اور تربیت سازی میں کلیدی کردار ادا کریں تاکہ وہ مستقبل میں اسلامی اقدار و روایات کے امین و نگہبان ہوسکیں اور معاشرے کے فعال شہری بن کر دین و دنیا میں باعزت اعلیٰ مقام حاصل کرسکیں۔