شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

پروفیسر حلیمہ سعدیہ

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

بلاشبہ اس عالم وجود میں ’’عمل‘‘ کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ عمل کی بنیاد پر ہی انسانی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ہے۔ عمل اچھا ہو تو حضرت انسان اللہ رب العزت کی عطا کردہ تمام نعمتوں کا حقدار قرار پاتا ہے اور عمل اگر برائی پر مشتمل ہو تو دین و دنیا کی رسوائی انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔ خیر اور شر دونوں ہی انسان کے لیے آزمائش بن کر اس کی دائمی پکڑ یا دائمی فلاح کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ کریم نے دونوں میں فرق کی شناخت کے لیے انسان کو شعور کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ اسی شعور کو سراہتے ہوئے حضرت اقبالؒ نے فرمایا:

تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا خدا کا ترجماں ہوجا

اللہ تعالیٰ کے نیک بندے جب احکامات الہٰی لوگوں تک پہنچاتے اور دین کا فہم اللہ کی مخلوق میں بانٹتے ہیں تو گویا عمل خیر کی بنیاد معاشرے میں مستحکم کی جاتی ہے لیکن اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ شیطان نے جو انسان کو بھٹکانے کا کام اپنے ذمہ لیا ہوا ہے اس میں کبھی پیچھے نہیں رہا۔ قدم قدم پر اللہ کے بندوں کو راہ ہدایت سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ ابلیس کی سرشت میں اللہ کریم کے نیک بندوں کو پریشان کرنا اور انہیں راہ حق سے ہٹانا اور باطل کی راہ دکھانا ہے اور شیطان کو اس کے مقصد میں کامیاب کرنے والے عوامل میں سب سے بڑے لالچ اور حسد ہیں۔ ’’حرص‘‘ انسان کو کبھی کلمہ شکر ادا کرنے نہیں دیتا اور ’’حسد‘‘ انسان کو دشمنی، قتل و غارت گری پر اکساتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ شیطان ’’لالچ‘‘ اور حرص و ہوس کے جذبے کو ابھار کر انسان کو گناہ کی راہ پر چلنے پر آمادہ کرلیتا ہے اور ’’حسد‘‘ کی آگ کو ایساتیز کرتا ہے کہ بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے۔ اور لالچ کی پٹی ایسی انسان کی آنکھوں پر چڑھتی ہے کہ عیش و عشرت اور ظاہری چمک دمک کی دوڑ میں الجھا انسان اپنی اصل حیثیت ہی بھول جاتا ہے اور اپنی حد سے تجاوز ہوتی خواہشات کی تکمیل کے لیے حلال و حرام کا فرق فراموش کربیٹھتا ہے۔

اللہ کے حکموں سے انکار کرتا اور لوگوں کا حق مارتا ہے اور یوں انسان شیطان کے ایسے بہکاوے میں آتا ہے کہ اپنے نفس کی تسکین کے لیے وہ بدعنوانی کا ر استہ اختیار کرلیتا ہے۔ اپنی حیثیت سے بالاتر ہوکر لوٹ مار، قتل و غارت، ڈاکہ زنی، چوری، رشوت اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے وہ چند روزہ زندگی کو الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا کرلیتا ہے۔ بدعنوانی میں مبتلا افراد کی دنیا بھی خراب ہوجاتی ہے اور آخرت بھی۔ غلط اعمال اور حقداروں کے حق کو مارنا، ان افراد کی زندگی کا سکون چھین لیتا ہے۔ حرام کی کمائی ہوئی دولت میں ظاہری چمک تو ہوتی ہے لیکن قلبی سکون و اطمینان کا شائبہ تک نہیں ہوتا اور بدعنوانی میں مبتلا افراد کی زندگی سے خوشی اور برکت ختم ہوجاتی ہے۔

بدعنوان شخص کی نہ تو دولت میں برکت و سکون باقی رہتا ہے اور نہ ہی اولاد کی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں۔ کرپشن کا یہ راستہ کسی ایک نقطے پر مرکوز نہیں رہتا۔ وسعتِ کائنات کی طرح یہ بھی دائرہ در دائرہ اپنا جال بچھاتے ہیں۔ گویا بدعنوانی ایک جال کی مانند ہے جس میں لالچ، طمع، حرص، جھوٹ، مکاری، فریب اور خودنمائی کے خوش نما نگینے جڑے ہیں۔ کم فہمی اور خودفریبی کے شکار لوگ، ان جھوٹے نگوں کی چمک دمک میں گمراہ ہوکر زندگی کے اصل حسن اور حقیقی مسرت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اور ان کے بگاڑ سے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی ہونے لگتی ہیں۔ معاشرتی بگاڑ اور انتشار اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ سچ اور جھوٹ کی پہچان کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بدعنوان معاشروں میں فرد اگر علم کی پیاس بجھانے نکلے تو جعلی ڈگریوں اور نام نہاد اکیڈمیوں کی نظرہوکر منزل مقصود تک پہنچ ہی نہیں پاتا اور اگر انصاف کی تلاش میں نکلے تو انصاف کرنے اور انصاف دلوانے والوں کو خود ہاتھ میں کشکول پکڑے انصاف کی بھیک مانگتے دیکھتا ہے۔ معاشروں کی یہ بدعنوانی جب عروج پر پہنچ جاتی ہے تو بڑے بڑے ہوٹلوں میں ثقافتی میلوں کے نام پر مختلف ملکوں کے کھانے پکتے اور کپڑے بکتے اور ضائع ہوتے ہیں لیکن ان ہی بلند ایوانوں کے سائے میں کچی بستیوں میں پلنے والے روٹی، کپڑے کے محتاج بچے بھوک سے تڑپنے اور بلکنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اپنی غریب و محتاج ماؤں کے ’’کھانا پکنے‘‘ کے کبھی نہ سچ ہونےو الے جھوٹ کو سنتے بھوکے پیٹ ہی خواب کی وادیوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔

معاشروں کی یہ بدعنوانی اہل اور قابل اور محنتی نوجوانوں کو ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے نوکریوں کی تلاش میں ناکام کرتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ ملازمتوں کے اشتہار تو اخبارات شائع ہوتے ہیں لیکن ان ملازمتوں کے حصول کے لیے ڈگریوں سے بھی بڑی شرط ’’وہ سفارشی پرچی‘‘ ہے جو ان قابل وذہین افراد کا حق چھین لیتا ہے۔

بدعنوان معاشروں میں فرد اگر روح کی تسکین کے لیے نکلے تو فرقوں اور تعویذ دھاگوں کی ایسی دلدل میں دھنس جاتا ہے کہ بچانے کو کوئی نہیں آتا۔ بیماری سے شفا پانے کے لیے مسیحاؤں کی تلاش میں نکلے تو مادہ پرست ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جن کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے۔ بیماروں کو شفا دینا نہیں۔ کوئی انصاف کے حصول کے لیے گھر سے نکلے تو انصاف کرنے والوں کو خود ہاتھ میں کشکول پکڑے انصاف ملنے کا منتظر پاتا ہے۔ حقدار کو حق پانے کے لیے لوگوں کا حق مارنا پڑتا ہے۔ برائی کی تشہیر کی جاتی ہے اور خیر کے پیغام کو دبایا جاتا ہے۔

سچ بولنا اور سچ سننا کسی کو پسند نہیں رہتا۔ قتل ہونے والا بھی مسلمان اور قتل کرنے والا بھی مسلمان۔ الغرض معاشروں کی بدعنوانی زندگی کا وہ سیاہ روپ بھی دکھا دیتی ہے جہاں ماں باپ اپنے بچوں کو برائے فروخت کی تختیاں گلے میں لٹکائے سڑکوں کے کنارے کھڑے نظر آتے ہیں۔

معاشروں کی بدعنوانی صرف قومی یا اجتماعی سطح پر نہیں ہوتی بلکہ یہ درحقیقت انفرادی سطح سے اٹھتی ہے پنپتی ہے اور پھر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کی تمام تر کوششوں کا آغاز انفرادی اصلاح سے ہی کیا جاتا ہے۔ خود ہی دیکھ لیجئے کہ تنزلی کا شکار معاشروں میں افراد کے گھروں میں سکون، برکت، ایثار، قربانی، باہمی میل جول جیسی خوبیاں باقی نہیں رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں ’’بیمار کی جلتی پیشانی پر ہاتھ رکھنے کوئی نہیں آتا۔‘‘ ’’بلکہ محض فون کال کرکے حال پوچھ لیا جاتا ہے۔‘‘

والدین کا ادب ، رزق حلال کی پہچان و اہمیت، ’’حقوق اللہ‘‘کے ساتھ ساتھ ’’حقوق العباد‘‘ جیسی بہترین صفات مفقود ہوتی نظر آتی ہیں۔ دنیاوی تعلیم کے لیے تو روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے لیکن شخصی تربیت اور دینی تعلیم اور بہترین معاشی و معاشرتی اقدار کو نسل نو تک پہنچانے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا جاتا۔ معاشرتی بدعنوانی سے پیدا ہونے والے مسائل کا شکار نوجوان بے روزگاری سے تنگ آکر یا خودکشی پر مجبور نظر آتا ہے اور یا پھر اپنی بہنوں کی ’’جہیز‘‘ کا انتظام نہ ہونے پر التوا کا شکار ہوتی شادی کو دیکھ کر اور اس پر بہن یا بیٹی کے سر میں اترتی چاندی سے پریشان ہوکر رزق حلال کی پہچان کھو بیٹھتا ہے۔

یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ اگر ہم دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم اور تربیت کا بھی خاطر خواہ انتظام کرلیں تو ہمارا نوجوان ’’اللہ پر توکل‘‘ اور ’’ایمان کی مضبوطی‘‘ کی دولت سے مالا مال ہونے کے سبب کبھی شیطان کے بہکاوے میں نہ آئے گا۔ بقول اکبر الہ آباد

ہم تو سمجھے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الہاد بھی ساتھ