معذور لوگوں کو special people کہا جاتا ہے۔ 3 دسمبر کو معذوروں کا عالمی دنیا پوری دنیا میں منایا جانا اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ معذور افراد بھی انسانی معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد معذور افراد کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنا اور معاشرے میں ان کی اہمیت و افادیت کو منوانا ہے کیونکہ تمام انسان خواہ وہ صحت مند ہوں یا کسی معذوری میں مبتلا ہوں سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے برابر انسانی حقوق کے حامل ہوتے ہیں۔ معذور افراد کی داد رسی کے لیے اقوام متحدہ نے 1992ء میں اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایک عالمی تحقیق کے مطابق دنیا میں اس وقت 6 سو ملین افراد معذور ہیں یعنی پوری دنیا میں ہر دس میں سے ایک انسان معذور ہے جن میں سے 80 فیصد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ ترقی پذیر ممالک معذور افراد کو معاشرے کی تعمیر و ترقی میں شامل ہونے کے مواقع فراہم نہیں کرتے اور انہیں معاشرے میں ہر قسم کی سرگرمیوں سے دور رکھا جاتا ہے۔
معذور افراد کون ہوتے ہیں؟
معذور افراد ایسے لوگو ں کو کہا جاتا ہے جو پیدائشی طور پر یا کسی حادثہ کی وجہ سے کسی جسمانی بیماری یا دماغی عارضے میں مبتلا ہوجائیں اور فطری طرز زندگی کو نہ اپنا سکیں۔ معذوروں کا عالمی دن منانا اصل میں یہ سمجھ بوجھ پیدا کرنا ہے کہ کس طرح ایسے افراد کو معاشرے کا حصہ بنایا جائے اور ان کے کردار و افعال سے فائدہ اٹھایا جائے اور ایسے افراد کو بھرپور زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں اور ان کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے۔
معذوروں کا عالمی دن منانے کا مقصد:
معذوروں کا عالمی دن منانے کا مقصد تمام ثقافتی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں میں معذور افراد کے مصائب سے آگہی کو فروغ دینا ہے اور معاشرے کی ترقی کی تمام سطحوں پر ان کے حقوق، فرائض اور بہبود کی نشاندہی کرنا ہے ہر سال میں اس دن کو منانا اس بات کی دلیل ہے کہ معذور افراد معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ اس لیے معاشرے کے فروغ اور ترقی میں انہیں شامل ہونے کے یکساں مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد ایسے افراد کی مختلف شعبوں میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنا بھی ہے تاکہ وہ احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوسکیں۔ ترقی پذیر ممالک میں ایسے افراد کا تناسب بہت زیادہ ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک ایسے افراد کو سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا علاج معالجہ کروانے کا اہتمام بھی سرکاری سطح پر کرتے ہیں۔ عالمی دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ رنگ، نسل اور ذات سے بالاتر ہوکر ایسے افراد کی بحالی میں بھرپور کردار ادا کیا جائے۔
معذوری اور صحت مند زندگی:
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 65 کروڑ کے قریب افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ اس وقت ساری دنیا میں تقریباً 2 کروڑ نومولود بچے ماؤں کی کمزوری اور دوسری وجوہات کی بناء پر معذور پیدا ہوتے ہیں۔
معاشرے میں معذوروں کو مناسب اہمیت نہیں دی جاتی کچھ لوگ صرف ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ لوگ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں اور عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی معذور ہے تو یقیناً وہ دوسروں پر بوجھ ہے حالانکہ یہ سب درست نہیں ہے۔ تھوڑی سی محنت اور کوشش سے ایک معذور انسان بھی اپنی زندگی کو عام لوگوں کی طرح گزار سکتا ہے۔
معذور افراد معاشرے کے مخصوص رویوں کی وجہ سے مختلف نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں اور الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے افراد کی ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کو کم کرنے اور انہیں معاشرے کا فعال اور کارآمد رکن بنانے کے لیے ان کی صحت کی مناسب دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ معذور افراد کی صحیح تربیت، انہیں صحیح مواقع فراہم کرنا اور ان کے لیے بہترین انداز میں کوشش کرنا انہیں پراعتماد بناتا ہے۔ مساوی حقوق کی فراہمی انہیں معاشی اور سماجی طور پر مضبوط بناتی ہے۔
معذوری اس بات کی نشاندہی نہیں کرتی کہ کوئی شخص صحت مند ہے یا نہیں ہوسکتا۔ ہر ایک انسان کے لیے صحت مند رہنا ضروری ہوتا ہے۔ صحت اچھی ہونے کی وجہ سے ہی انسان ایک متحرک اور فعال شہری کی حیثیت سے معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ صحت مندی کے لیے صرف بیماری کا ٹھیک ہونا ہی کافی نہیں بلکہ صحت مند فیصلے کرنے اور بیماری سے بچنے کے لیے درکار مہارت اور معلومات کا ہونا بھی شامل ہے۔ معذور افراد کے لیے صحت مند ہونا ہی انہیں درد، ڈپریشن اور بعض نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں سے بچانے کا باعث ہوتا ہے۔
اسلام تکریم انسانیت کا علمبردار دین ہے چونکہ معذور افراد معاشرے میں اپنی شناخت اور وقار کے لیے خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس لیے اسلام نے اس بارے میں خصوصی تعلیمات عطا کی ہیں۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ معذوروں کو نظر انداز کرنے یا انہیں معاشرے میں قابل احترام مقام سے محروم رکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ معذور افراد معاشرے میں اپنی شناخت اور وقار کے لیے خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں اور یہی وقار اور توجہ ان کی صحت مند زندگی کا راز ہے۔
معذوری کی اقسام و وجوہات:
معذور افراد کی بحالی اور انہیں کارآمد بنانے کے لیے ان کی معذوری کی اقسام اور وجوہات کو جاننا از حد ضروری ہوتا ہے۔ معذوری میں جسمانی اور ذہنی معذوری دونوں شامل ہوتی ہیں۔ بنیادی طور معذوری ایک ایسا جسمانی اور ذہنی نقصان ہے جو کسی بھی انسان کے لیے مخصوص کاموں کو انجام دینے اور اپنے گردو پیش میں رابطوں کو مشکل بناتا ہے۔ ایسے لوگوں کی معذوری ان میں نفسیاتی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ معذوری کی بہت سی اقسام اور صورتیں ہوتی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ بصری معذوری
2۔ بولنے کی معذوری
3۔ سماعت کی معذوری
4۔ حرکت کرنے کی معذوری
5۔ ذہنی معذوری
6۔ چلنے پھرنے کی معذوری
7۔ سیکھنے کی معذوری
8۔ لکھنے، پڑھنے کی معذوری
9۔ دوسروں کے ساتھ رابطہ کرنے کی معذوری
اس کے علاوہ بھی بہت سی معذوریاں ہوسکتی ہیں اور ایک ہی قسم کی معذوری والے دو افراد بالکل مختلف اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کی نفسیاتی الجھنیں مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ معذوریاں پوشیدہ یا غیر واضح ہوتی ہیں۔ جن کی وجہ سے نفسیاتی اور ذہنی الجھنیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔
معذوری میں سب سے اہم جسمانی معذوری ہوتی ہے جس میں بہرا پن، اندھا پن، جذباتی طور پر منتشر ہونا، قوت سماعت کی خرابی، دانشوارانہ معذوری، ایک ساتھ کئی معذوریاں، بولنے اور زبان کی معذوری، دماغی چوٹ کی صورت میں ہونے والی معذوری وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں 1981ء میں پہلی بار معذوری کے متعلق قانون سازی کی گئی ہے جس میں 2015ء میں ضروری ترامیم کی گئیں اور 2020ء میں معذور افراد کے لیے Broader disability rights act پاس کیا گیا۔ جس کے مطابق معذور افراد کے لیے سرکاری نوکریوں میں 3 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔
معذور افراد کے حقوق:
معذور افراد کو معاشرے میں مساوی حقوق اور مواقع دیئے جانے چاہئیں۔ ایسے افراد کے اہم حقوق بتاتے ہوئے اقوام متحدہ نے کہا کہ انسانی عزت نفس اور وقار پر خصوصی افراد کا وراثتی حق تسلیم کیا جانے لگا۔ ۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی برادری، قبیلے،ذات یا نسل سے ہو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو ایک عام انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔
1۔ معذور افراد کا یہ حق بھی ہے کہ وہ خود انحصاری کی منزل کے حصول کے لیے جن ذرائع یا سہولیات کے محتاج ہوں وہ انہیں مہیا کی جائیں اور ان کی وہ دیکھ بھال کی جائے جو ان کی زندگی کو آسان اور موثر بناسکے۔
2۔ ایسے افراد کو طبی، نفسیاتی اور دیگر علاج تک رسائی دینا بھی ان کا اہم حق ہے۔ ضرورت کے مطابق انہیں بحالی مراکز میں داخل کروایا جائے یا ان ہسپتالوں تک لے جایا جائے جہاں ان کا علاج ممکن ہو۔
3۔ معاشی اور معاشرتی تحفظ بھی معذور افراد کے بنیادی حقوق میں سے ایک اہم حق ہے جس کے بعد ایسے افراد معاشرے کے مفید، پیداواری اور اہم رکن ثابت ہوسکیں۔ انہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہنے اور تمام سماجی و تخلیقی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
4۔ معذور افراد کو کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک، بے جا ہرزہ سرائی، مارپیٹ اور تشدد سے بھی محفوظ رکھا جائے انہیں ظالم معاشرے کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے بلکہ ہر خطرے سے ان کی حفاظت کے اقدامات کرنا بھی ان کا اہم حق ہے۔
5۔ معذور افراد کی عزت اور قدر کو تسلیم کرنا چاہیے۔
6۔ ملازمت، رہائش، سہولیات اور خدمات اور مختلف اداروں میں ممبر شپ میں ان کا برابر کوٹہ ہونا چاہیے۔
7۔ کام پر معذور ملازمین بالکل ان ہی مواقع اور عنایتوں کے مستحق ہیں جیسے کہ صحت مند ملازمین ہوتے ہیں۔ کچھ مواقع پر انہیں مخصوص بندوبست یا مطابقت پذیری کی ضرورتی ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی ملازمت کی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دے سکیں۔
8۔ معذور گاہکوں، کرائے داروں، تاجروں کو بھی مساوی سلوک، سہولیات اور خدمات تک مساوی رسائی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
9۔ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بھی معذوروں کو مناسب مواقع اور حقوق دینا بھی ان کا بنیادی حق ہے۔
معذور افراد معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں:
اگر کسی انسان کو اگر کوئی جسمانی یا ذہنی معذوری لاحق ہوجائے تو وہ کسی نہ کسی حد تک یا پھر مکمل طور پر بے بس ہوجاتا ہے۔ ایسے خصوصی افراد کو انسانی ہمدردی کے تحت معاشرے کا بیش قیمت سمجھنا چاہیے۔
بعض اوقات معذور افراد کی مدد اور دیکھ بھال کے ذریعے انہیں معاشرے کا ایسا فعال انسان بنایا جاسکتا ہے جو اپنی صلاحیتوں سے دنیا کو حیران کرسکیں لیکن ایسے لوگوں کو بے مقصد اور بے کار سمجھ کر ان سے دوری اور فاصلہ رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے معذور افراد مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں اور الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ فطری اصولوں کے پیش نظر اگر انہیں بھی اشرف المخلوقات سمجھ کر ان سے ہمدردی اور پیار کا رویہ رکھا جائے، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے اور انہیں ان کی جسمانی صلاحیتوں کے مطابق کوئی ہنر سکھادیا جائے تو یہ لوگ معاشرے کا قیمتی رکن بن جاتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں شامل ہوکر صحت مندانہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاکر انہیں فعال زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنا چاہییں۔
معذور افراد کا علاج معالجہ اور معذوری کی روک تھام:
معذور افراد کا علاج معالجہ ان کا بنیادی حق ہے معذوری سے پید اہونے والے اثرات اور نفسیاتی بیماریوں کی روک تھام صحت مند معاشرے کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ خرابی کے آغاز (پہلا درجہ کی روک تھام) کو کم کرنے اور فعال حد (دوسرے درجے کی روک تھام) میں اس کی پیشرفت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ معذوری (تیسرے درجے کی روک تھام) میں فعال حد کی منتقلی کو روکنے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں۔
معذور افراد کا علاج کرتے وقت ان کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا چاہیے۔ اس سے ان کے علاج میں آسانی پیدا ہوتی ہے ایسے افراد کے علاج کے وقت زبان کا استعمال نہایت سادہ ہونا چاہیے۔ مختلف طریقوں کے استعمال سے معذور افراد کی زندگیوں کو بہتر کیا جاسکتا ہے جس میں سب سے اہم ان کے صحت مندانہ رہن سہن اور طرز زندگی کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کرنا ہے ایسے افراد کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مربوط نظام صحت تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
معذور افراد کی صحت کے حالات کو بہتر بنانے، خرابیوں سے بچنے اور ان کے لیے معاشرتی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات سرکاری سطح پر ہونے چاہئیں انہیں ایسی سہولتیں اور آسائشیں فراہم کی جائیں جن کی وجہ سے انہیں کام کرنے میں آسانی ہو۔ ایسے افراد کے معاشی معاملات کو بہتر بنانے اور مالی مشکلات کو کم کرنے کے لیے قومی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسے افراد کی متعلقہ معذوری کے پیش نظر انہیں ایسے آلات مہیا کیے جائیں جن سے ان کی روزمرہ زندگی میں آسانی پیدا ہوسکے۔ ان کی معذوری کی وجہ سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے۔ ان رکاوٹوں کی روک تھام کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان سے متعلقہ پہلو کو مدنظر رکھ کر منصوبہ بندی کی جائے ایسے آلات منتخب کیے جائیں جو معذور افراد کے لیے مددگار ہوں۔ رکاوٹیں صرف جسمانی نہیں ہوتیں بلکہ معذوری کی روک تھام کے لیے اقدامات میں یہ بھی شامل ہے کہ معاشرے میں ان رویوں کو بھی کنٹرول کیا جائے جو معذور افراد کی قدر و قیمت کو کم کرتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو محدود کرتے ہیں کیونکہ ان رویوں کی وجہ سے معذور افراد مختلف ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
معذور افراد کے لیے نہ صرف ملازمت کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں بلکہ کچھ مواقع پر کسی فرد کی ملازمت کی ذمہ داریوں میں تبدیلی لانا، دوبارہ تربیت کرنا یا ملازمت کو بقدر ضرورت تبدیل کرنا بھی اہم ہوتا ہے۔
معذور افراد کے فرائض:
معذور افراد کے بہت سے حقوق ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ معاشرے میں رہتے ہوئے ان کے فرائض بھی ہوتے ہیں جنہیں ادا کرنے میں ہی ان کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ معاشرے کا معذور فرد ہونے کے ناطے معذور فرد کا فرض ہے کہ:
1۔ وہ اپنے ایمپلائر، مالک مکان، یا خدمت فراہم کرنےوالے کو آگاہ کریں کہ ملازمت کی ذمہ داریوں، رہائش یا فراہم کردہ خدمات کی معذوری سے وابستہ ضروریات کیا ہیں؟ انہیں کس موقع پر کس قسم کی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔
2۔ جہاں ضرورت ہو اپنی معذوری سے وابستہ ضروریات کے بارے میں معلومات متعلقہ ادارے یا افراد کو فراہم کریں۔
3۔ ممکنہ مطابقت پذیری کے حل کی تلاش میں خود بھی حصہ لیں۔
اسلام میں معذوروں کے حقوق:
اسلامی تعلیمات زندگی کے ہر گوشے پر حاوی ہیں۔ عام افراد کے علاوہ اسلام نے معذوروں کو بھی خصوصی حقوق عطا فرمائے ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ خصوصی توجہ کا حق:
اسلام نے زندگی کے ہر معاملہ میں ہر فرد کو بلاتمیز رنگ و نسل یا سماجی مرتبہ کے مساوی حیثیت عطا کی ہے۔ یہ عام معاشرتی رویہ ہے کہ معذور افراد کو زندگی کے عام معاملات اور میل جول میں نظر انداز کرنے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ مشرکین کے سرداروں کو تبلیغ دین فرمارہے تھے کہ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتومؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپﷺ نے اپنی مصروفیت کے پیش نظر ان کی طرف توجہ نہ فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے سورہ عبس نازل فرمائی جس میں ارشاد ہوا کہ:
عَبَسَ وَتَوَلّٰی. اَنْ جَآئَہُ الْاَعْمٰی. وَمَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی. اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْریٰ.
(عبس، 80: 1۔4)
’’ان کے چہرۂ (اقدس) پر ناگواری آئی اور رخِ (انور) موڑ لیا۔ اس وجہ سے کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا (جس نے آپ کی بات کو ٹوکا)۔ اور آپ کو کیا خبر شاید وہ (آپ کی توجہ سے مزید) پاک ہو جاتا۔ یا (آپ کی) نصیحت قبول کرتا تو نصیحت اس کو (اور) فائدہ دیتی۔‘‘
ان آیات مبارکہ میں معذوروں کے حقوق کا دفاع کیا گیا ہے اور حضورﷺ کے توسط اور وسیلے سے امت کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ معذور افراد دیگر افراد معاشرہ کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ اس لیے دوسرے افراد کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے اور عزت اور وقار و مرتبے کا تعین سماجی یا معاشرتی حیثیت کو دیکھ کر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے لیے ذاتی کردار، تقویٰ، اصلاح طلبی اور نیکی کے جذبے کو معیار بنایا جائے۔
2۔ قانون معاشرت کے نفاذ میں استثناء کا حق:
اسلام نے دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح معاشرتی زندگی کے لیے بھی قانون اور نظام عطا کیا ہے۔ روزمرہ رہن سہن اور رشتہ داروں اور دوست احباب کے گھروں میں آنے جانے کے لے واضح ضابطے عطا کیے گئے ہیں۔ لیکن معذوروں کو ان ضوابط سے استثناء حاصل ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓـی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْم بُیُوْتِکُمْ اَوْبُیُوْتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْبُیُوْتِ اُمَّھٰتِکُمْ اَوْبُیُوْتِ اِخْوَانِکُمْ اَوْبُیُوْتِ اَخَوٰتِکُمْ اَوْبُیُوْتِ اَعْمَامِکُمْ اَوْبُیُوْتِ عَمّٰتِکُمْ اَوْبُیُوْتِ اَخْوَالِکُمْ اَوْبُیُوْتِ خٰلٰتِکُمْ اَوْمَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ اَوْصَدِیْقِکُمْ.
(النور، 24: 61)
’’ اندھے پر کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے اور نہ خود تمہارے لیے (کوئی مضائقہ ہے) کہ تم اپنے گھروں سے (کھانا) کھا لو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموئوں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا جن گھروں کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں (یعنی جن میں ان کے مالکوں کی طرف سے تمہیں ہر قسم کے تصرّف کی اجازت ہے) یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (کھانا کھا لینے میں مضائقہ نہیں)۔ ‘‘
3۔ جہاد اور دفاعی ذمہ داریوں سے استثناء کا حق:
قرآن مجید میں جہاد کو دین کا اہم رکن قرار دیا گیا ہے اور جو اس سے راہ فرار اختیار کریں ان کے لیے درد ناک عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن معذور افراد کو اس ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ
لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ.
(النور، 24: 61)
’’جہاد سے رہ جانے میں نہ اندھے پر کوئی گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی گناہ ہے اور نہ ہی بیمار پر کوئی گناہ ہے۔ ‘‘
گویا اسلام نے معذوروں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے مستثنٰی ہیں لیکن اس کے باوجود اسلام معذور افراد کو معاشرے کا قابل احترام اور باوقار حصہ بنانے کی تلقین کرتا ہے اور انہیں کسی بھی شعبے میں نظر انداز کرنے سے منع کرتا ہے۔ ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے انہیں استثناء دیا گیا ہے۔
حاصل کلام:
معذور افراد معاشرے کا اہم رکن ہوتے ہیں ان کے ساتھ خصوصی شفقت، محبت، رواداری کا درس قرآن و سنت کا اہم حصہ ہے۔ ان کی معذوری میں ان کا ساتھ دینا، ان کی دیکھ بھال کرنا، معذوری کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنا، انہیں معاشرے میں مساوی حقوق اور مواقع فراہم کرنا معاشرے کے اہل افراد کی اہم ذمہ داری ہے کیونکہ اگر معذور افراد کی معذوری کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں مختلف ہنر اور مہارتیں سکھادی جائیں اور انہیں عزت و احترام دیا جائے تو وہ معاشرے کے فعال اور اہم رکن ثابت ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے معذوریوں کے باوجود دنیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا اور اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر ان کے ساتھ تعاون کیا جائے اور بہترین مواقع فراہم کیے جائیں تو یہ عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔