سوال: والدین باقی اولاد کو محروم کر کے جائیداد ایک بیٹے کے نام کر دیں تو کیا حکم ہے؟
تفصیلی: میرے والدین نے اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے زمین میرے نام کردی تھی، باقی اولاد کو کچھ نہیں دیا تھا۔ انکی وفات کے بعد اب میرے بہن بھائی اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ میرا دعویٰ یہ ہے کہ ان کا حصہ نہیں بنتا۔ راہنمائی فرما دیں کہ کیا والدین کی واثت میں باقی بہن بھائی حصہ دار ہیں؟
جواب: آپ کے والدین نے باقی اولاد کو محروم کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی، وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس سلسلے میں جوابدہ ہیں۔ اسلام نے والدین کو سختی سے روکا ہے کہ وہ ساری نوازشات ایک بیٹے یا بیٹی پر نہ کریں، اگر اپنی زندگی میں کچھ وقف کر رہے ہیں تو ساری اولاد میں انصاف کریں۔ ایک صحابی نے اپنی اولاد میں سے کسی ایک بیٹے کو غلام دے دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ واپس لے لو کیونکہ انہوں نے باقی بیٹوں کو نہیں دیا تھا۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ:
أَنَّ أَبَاهُ أَتَی بِهِ إِلَی رَسُولِ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا فَقَالَ أَکُلَّ وَلَدِکَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ قَالَ لَا قَالَ فَارْجِعْهُ. (الصحیح بخاری)
ان کے والد ماجد انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو غلام دے دیا ہے۔ فرمایا کہ کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی (غلام) دیا ہے؟ عرض کی کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اس سے بھی واپس لے لو۔
ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے ایک بیٹے کو عطیہ دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ بنانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن الله تعالیٰ سے ڈرنے اور اولاد کے درمیان انصاف کرنے کا فرمایا، حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ وَهُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُولُ أَعْطَانِي أَبِي عَطِیَّةً فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَی حَتَّی تُشْهِدَ رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَأَتَی رَسُولَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ إِنِّي أَعْطَیْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِیَّةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَکَ یَا رَسُولَ اللهِ قَالَ أَعْطَیْتَ سَائِرَ وَلَدِکَ مِثْلَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَاتَّقُوا اللهَ وَاعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ قَالَ فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِیَّتَهُ. (الصحیح بخاری)
حضرت عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ وہ منبر پر فرماتے تھے کہ میرے والد ماجد نے مجھے ایک عطیہ دیا تو حضرت عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ نہ بناؤ۔ یہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے کہ میں نے اپنے بیٹے کو جو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما سے ہے ایک عطیہ دیا ہے۔ یا رسول اللہ! وہ مجھ سے کہتی ہے کہ آپ کو گواہ بناؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو ایسا ہی دیا ہے؟ عرض گزار ہوئے کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ پھر وہ واپس لوٹ آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت حاجب بن مفضل بن مہلب رضی اللہ عنہ کے والد ماجد نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ، اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ، اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ.
اپنے بیٹوں میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو۔
سنن ابو داود میں الفاظ یہ ہیں:
اعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ اعْدِلُوا بَیْنَ أَبْنَائِکُمْ. (أحمد بن حنبل، المسند)
اپنی اولاد میں انصاف کرو، اپنے بیٹوں میں انصاف کرو۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ والدین کو اولاد میں عدل وانصاف کرنا چاہیے نہ کہ کسی ایک کا حق تلف کر کے دوسروں کو ہبہ کر دینا چاہیے۔ نبی اکرمﷺ نے واضح فرما دیا کہ اولاد میں نا انصافی نہ کرو اور الله سے ڈرو تاکہ باقی اولاد اپنے حقوق سے محروم نہ ہو۔ گھر میں والد بطور سرپرست اپنی بیوی اور بچوں کا نگران ہوتا ہے، اگر والد اپنی نگرانی میں موجود افراد کے ساتھ ظلم کرے گا تو عند الله جوابدہ ہو گا کہ اُس نے اپنے ماتحت افراد کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ اگر اس نے کسی کی حق تلفی کی ہو گی تو گناہگار اور مستحقِ سزا ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَی أَهْلِ بَیْتِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِیَةٌ عَلَی أَهْلِ بَیْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْؤُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَی مَالِ سَیِّدِهِ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْهُ أَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ.
حضرت عبد الله ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبردار ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد (رعایا) کے بارے میں پوچھا جائے گا (یعنی ہر کوئی ذمہ داری کا جوابدہ ہو گا)۔ لہٰذا امام لوگوں کی طرف سے نگران ہے اور اس سے اُن لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو اُس کے ماتحت تھے اور ہر آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کے لیے نگران ہے اور اُس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا اور آدمی کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے او رہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اپنے ماتحت افراد کے حقوق میں خیانت کرنے والے شخص پر جنت حرام ہے۔ اگر والد اپنے ماتحت افراد کے حقوق میں خیانت کرے گا تو اسی حکم میں ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: عَادَ عُبَیْدُ اللهِ ابْنُ زِیَادٍ مَعْقِلَ بْنَ یَسَارٍ الْمُزنِيَّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِیهِ قَالَ مَعْقِلٌ: إِنِّي مُحَدِّثُکَ حَدِیثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم. لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي حَیَاةً مَا حَدَّثْتُکَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیهِ اللهُ رَعِیَّةً، یَمُوتُ یَوْمَ یَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِیَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ. (مسلم، الصحیح)
عبید اللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے مرض الموت میں ان کی عیادت کے لیے آیا تو حضرت معقل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تم کو ایک ایسی حدیث سنا رہا ہوں جس کو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے اور اگر مجھے یہ خیال ہوتا کہ میں ابھی کچھ عرصہ اور زندہ رہوں گا تو میں تم کو یہ حدیث نہ سناتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا حاکم بنایا ہو اور وہ اس کے حقوق میں خیانت کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا۔
ہماری رائے میں اگر آپ والدین کے ساتھ نیکی کرنا چاہتے ہیں اور ان کو آخرت کی سختیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کا ترکہ تمام اولاد میں تقسیم کریں۔ کیونکہ جو لوگ وراثت کا مال اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے مختلف حیلے بہانے کرتے ہیں اور دوسرے ورثاء کو وراثت سے محروم کرتے ہیں، اُن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا.
(الفجر، 89: 19-20)
اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے ہو۔ اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔
والدین کے ہبہ کے بعد اگرچہ قانوناً آپ کے بہن بھائی اس وراثت میں حصہ دار نہیں ہیں، تاہم درج بالا آیات و روایات اور عقل و اخلاق کی روشنی میں آپ انہیں وراثت میں شریک کریں۔ یہ آپ کی اپنے ساتھ اور اپنے والدین کے ساتھ بہت بڑی نیکی ہوگی۔
سوال: ورثاء میں بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ترکہ کی تقسیم کیا ہوگی؟
تفصیل: میرے والد کا انتقال ہو چکا ہے، ورثاء میں ان کی بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں بیٹیاں اور ایک بیٹا شادی شدہ ہیں۔ والد صاحب کے ترکہ میں ایک مکان اور ایک دوکان تھی۔ دوکان سے جو کرایہ آتا ہے وہ ایک بھائی ہی اپنے پاس رکھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کرایہ قانونِ وراثت کے مطابق تقسیم نہیں ہوتا اس لیے میں اس میں سے کسی کو حصہ نہیں دوں گا۔ براہِ مہربانی وضاحت کر دیں کہ اس کا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب:قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
(النساء، 4: 12)
پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان (بیواؤں) کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
اس حکمِ ربانی کے مطابق بیوہ کو کل ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ملے گا اور باقی جائیداد کے برابر چھ (6) حصے بنا کر دونوں بیٹوں کو دو دو حصے اور دونوں بیٹیوں کو ایک ایک حصہ دیا جائے گا۔ اس میں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
(النساء، 4: 11)
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
مرحوم کی وراثت میں جن حصہ داروں کا حق ہے وہ وراثتی مکان و دوکان کے کرایہ میں بھی حقدار ہیں۔ جب تک جائیداد تقسیم نہیں ہوتی اس سے ملنے والا کرایہ بھی اسی نسبت سے ورثاء میں تقسیم ہوگا جس نسبت سے وراثت میں ان کا حصہ ہے۔ جائیداد پر قبضہ کر کے دیگر حصے داروں کی حق تلفی کرنے والوں کے بارے میں قرآنِ کریم کا ارشاد ہے:
وَ تَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا.
(الْفَجْر، 89: 19-20)
اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اور حصہ داروں کو حصہ نہیں دیتے)۔ اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔
ان کا حال بروزِ قیامت یہ ہوگا:
يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي.
(الْفَجْر، 89: 24)
وہ کہے گا: اے کاش! میں نے اپنی (اس اصل) زندگی کے لئے (کچھ) آگے بھیج دیا ہوتا (جو آج میرے کام آتا)۔
اس لیے مذکورہ بھائی کو اللہ تعالیٰ کے فرمان سے آگاہ کریں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ سکے۔