اولڈ ہومز ہماری اسلامی معاشرتی اقدار

سمیہ اسلام

ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے اور اسلام میں والدین کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے۔ والدین کا احترام اور ان کا خیال رکھنا اولاد پر ہر حال میں فرض ہے اور جہاں تک تعلّق انکا کہنا ماننے کا ہے تو اسلام میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ کی ذات میں شراکت کے سوا والدین کا ہر حکم ماننا اولاد پر لازم و ملزوم ہے۔ یہہاں تک کہ والدین کافر ہی کیوں نا ہوں اولاد پر انکا احترام فرض ہے۔

اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں اپنی عبادت و بندگی کے متصل بعد انسان کو والدین کیلئے حُسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق ومالک تو رب کائنات ہے جس نے زمین بنائی، ہوا، پانی، سورج، چاند، ستارے وغیرہ پیدا کیے۔ آسمان سے بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریاتِ زندگی زمین سے وابستہ کر دیں اور انسان کی پیدائش اور پرورش کا ظاہری سبب اسکے والدین کو بنایا۔ ماں راتوں کو جاگ کر اپنا آرام اپنے بچے پر قربان کرتی ہے اور باپ اپنے بیٹے اور اسکی ماں کی اخراجات پورے کرنے کیلئے دن بھر محنت و مزدوری کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالی نے والدین کے دل میں اُنکی اولاد کیلئے بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھا ہوتا تو یقیناً بچے کی صحیح معنی میں پرورش و تربیت نہ ہو پاتی۔ اب اگر یہی بچہ بڑا ہو کر اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یار ومددگار چھوڑ دے، اُن کیساتھ حُسن سلوک سے نہ پیش آئے، ان کی گستاخی و بے ادبی کرے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم کیا ہو سکتا ہے۔

دینِ اسلام میں والدین کیساتھ حُسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے، اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان فرمایا ہے۔ یعنی مخلوقِ خدا میں حقِ والدین کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی ہے، اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور اُنہیں اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے، والدین سے بدسلوکی کرنے والے بدنصیب کو رحمت الٰہی اور جنت سے محروم قرار دیا ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشادِ ربانی ہوتا ہے کہ

وَ اعْبُدُوْا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا.

ترجمہ! اور اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

(النسآء: 36)

اس آیت میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے اپنا حق ذکر فرمایا اور وہ یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرنا اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اسکے بعد والدین کا حق ذکر فرمایا کہ اُن سے اچھا برتاؤ کرنا، پھر اسکے بعد رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور پڑوسیوں وغیرہ کا حق ذکر فرمایا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے حق کے بعد سب سے پہلا حق والدین کا ہے، یعنی حقوق العباد میں سب سے مقدم حقِ والدین ہے۔

یہ بات اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ والدین کا درجہ بہت بڑا ہے لیکن افسوس کے آج ہمارے معاشرے میں اولڈ ہومز کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین کو بوجھ سمجھا جا رہا ہے ترقی کی دوڑ میں آج لوگ اپنے ماں باپ کو ہی بھول گئے ہیں اگر چین کی مثال لے لی جائے جو کہ ترقی میں آج دنیا میں سب سے آگے ہے وہاں والدین کو بوجھ سمجھ کے اولڈ ایج ہومز میں چھوڑدیا جاتا ہے اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اولاد پلٹ کے ماں باپ کا حال احوال تک پوچھنے نہیں آتی یہ صورت حال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ وہاں کی حکومت نے یہ قانون پاس کردیا ہے کہ ماہ میں ایک دفع والدین سے اولڈ ایج ہومز میں آ کر ملاقات کرنا لازمی ہے اگر چین کی تاریخ دیکھی جائے تو وہاں ترقی سے پہلے والدین سے محبّت کا یہ عالم تھا کہ وہ لوگ اپنے محرومین بزرگوں کی مورت بنا کے انکی یاد میں بڑی عقیدت سے اسے رکھتے تھے اورآج ترقی کی دوڑ میں رشتوں کو ہی پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے آج ہمارے معاشرے میں بھی یہی ہو رہا ہے ہم ترقی اور پیسہ کمانے کے پیچھے اپنی جنّت کو ہی بھول بیٹھے ہیں۔

وہ بھی کیا خوبصورت زمانہ تھا جب بوڑھے والدین کو بوجھ نہیں بلکہ گھر کی رونق اور ان کے دم سے برکت کا تصور عام تھا، جب والدین غصے میں بولتے تھے تو بچے سر جھکا کر سنتے تھے اور آگے بولنے کا تصور بھی نہیں تھا، ہر فیصلے میں نہ صرف ان کی تجویز کو اہمیت دی جاتی تھی بلکہ ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں ان کی رائے بھی لی جاتی تھی۔

پھر وقت بدلنے لگا ‘ہماری سوچ ’بدل گئی ‘ روایات تہذیب دم توڑتی گئی، کیونکہ ہم نے مغرب کی تہذیب کو اپنانا شروع کر دیا حتٰی کہ ہم اتنے بے حس ہو گئے کہ کئی کئی بچے مل کر بھی بوڑھے ماں باپ کو سنبھال نہیں پاتے، ان والدین کو جنہوں نے اپنی ساری زندگی ان کے نام کر دی ہوتی ہے، اپنی جوانی کو ان بچوں کی پرورش میں پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ ـاولاد اپنے ان والدین کو دو وقت کی روٹی، پیار، عزت و احترام اور چھت مہیا نہیں کر پاتے جنہوں نے اپنی نیندیں اپنے خواب اور اپنی خواہشات اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے قربان کر دیئے ہوتے ہیں۔

اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ نہ صرف تعریف کے قابل ہے بلکہ وقت کی اہم ضرورت بھی تھا، تاکہ کوئی بھی چاہے ماں ہو یا باپ در بدر نہ ہو سکے، جب زندگی کی صعوبتیں سہہ کر بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچیں تو کم از کم اپنے آخری دن سکون سے ایک چھت کے نیچے گزار سکیں۔

ہمارا مذہب اسلام ہمیں اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کر کے دنیا و آخرت میں کامیابی کی ترغیب دیتا ہے۔ ہماری آخری اور مقدس کتاب قرآن پاک میں واضح لفظوں میں والدین کی خدمت اور نیک سلوک کا ذکر کیا گیا ہے۔

قرآن پاک میں والدین کو اُف کہنے اور جھڑکنے سے منع کیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ” اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا نہ انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضح کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ ‘‘

اولڈ ایج ہوم کا رجحان اب زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی کئی وجوہات سامنے آتی ہیں روزگار کے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اولاد کو گاؤں’ شہر یا ملک سے باہر جانا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ والدین کو ساتھ لے کر جانا ممکن نہیں ہوتا ایسی صورتحال میں والدین اکیلے رہ جاتے ہیں ایسے میں بھی دو صورتحال سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ جو لوگ مالی لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں اور ان کے اپنے گھر ہوتے ہیں وہ اپنے گھروں میں رہ جاتے ہیں اور بچے باہر سے خرچہ بھیجتے ہیں اور گزر بسر بہتر ہو جاتی ہے لیکن اس میں بھی اکیلے والدین کا رہنا مشکل ہوتا ہے اور اگر ماں یا باپ میں سے کوئی ایک رہ جائے تب بھی ان کو اس عمر میں تنہائی کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے ظاہر ہے عمر کے اس حصے میں اکیلے گھر میں رہنا اور اپنے وسائل کا انتظام کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

ابھی کچھ دن پہلے میری نظروں سے ایک وڈیو گزری جس میں ایک ادھیڑ عمر کی خاتون کے پاس گاڑی تو تھی لیکن وہ لوگوں سے مدد کے لئے کہہ رہی تھی اور پیسے مانگنے پر مجبور تھی کسی راہ چلتے نے وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنا تو مناسب سمجھا لیکن اس کے دکھ اور تکلیف کو جاننے کی کوشش نہیں کی، کہ مانگنے کا عمل جو دنیا کا سب سے مشکل اور حقیر کام ہے وہ خاتون اس عمر میں کرنے پر مجبور کیوں اور کیسے ہوئی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی مالی طور پر مستحکم نہیں ہے تو وہ والدین کو اولڈ ایج ہوم میں ڈال کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو کر نوکری اور بہتر مستقبل کے لئے بیرون ملک چلا جاتا ہے ان کو ماہانا پیسے بھجوانے کا وعدہ کر کے اپنی مشکل آسان کر دیتا ہے اب والدین سالہا سال اپنی اولاد کا چہرہ دیکھنے کو تڑپتے رہتے ہیں۔

پھر دیکھا گیا ہے کہ آج کل کی لڑکیاں ساس سسر کا وجود گھر میں برداشت نہیں کرتیں یا ان کی خدمت کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتیں ایسے حالات میں بھی گھر کے سکون کی خاطر والدین کو اولڈ ایج ہومز میں جانا پڑتا ہے تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو اور بہو اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے ایک اور وجہ جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ شہروں میں گھر چھوٹے ہوتے ہیں اور کرایہ زیادہ لہٰذا والدین کو ساتھ رکھنا اولاد کو مشکل لگتا ہے۔

سب سے مشکل اور تکلیف دہ عمل یہ ہے کہ آجکل اولڈ ایج ہومز کو صرف کاروبار کی حیثیت کے طور پر لیا جاتا ہے جہاں ان کی دیکھ بھال کا مناسب انتظام نہیں ہوتا اور بوڑھے والدین جو عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جہاں ان کو جذباتی طور پر زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے وہ نظر انداز ہوتے ہیں ظاہر ہے اپنی اولاد جیسا پیار تو کوئی بھی نہیں دے سکتا۔

عام طور پر یہ ادارے فلاحی ہوتے ہیں ان کو حکومت کی سپورٹ حاصل نہیں ہوتی لہذا وہ جگہ رہنے کے قابل نہیں ہوتی اور سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ ہمیں ان اداروں کی مدد کرنا چاہیے اگر کوئی خالی گھر ہو جس کے مکین ملک سے باہر رہتے ہوں وہ اپنے گھر کو اولڈ ایج ہوم میں بدل سکتے ہیں اسی طرح جو ماں یا باپ میں سے اکیلا رہ گیا ہو یا جن کی اولاد نہ ہو اور وہ اکیلے رہنے پر مجبور ہوں ایسی صورت میں وہ اپنے ساتھ ایسے لوگوں کو رکھ سکتے ہیں جو بے سہارا ہوں اس طرح دونوں فریقین کو سہارا میسر آجائے گا اور ان کو جینے کی وجہ مل جائے گی۔

آئے روز سننے میں آتا ہے کہ فلاں گھر میں اکیلے رہنے کہ وجہ سے بوڑھے ماں یا باپ کی موت ہو گئی اور محلے یا سوسائٹی میں کسی کو علم نہ ہو سکا ـ یہ ایک دل دہلا دینے والا عمل ہے۔ وہ والدین جنہوں نے اپنے آرام کی پرواہ کئے بغیر ہماری پرورش کی اور ایک آواز پر لبیک کہا ان کو ایسی بے بسی کی زندگی گزارنی پڑے ـ یہ ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے اردگرد خیال رکھیں کہ کوئی ایسے اکیلے اور ضرورت مند نہ ہو جن کو ہماری مدد کی ضرورت ہو۔

اولاد کو بھی چاہیے کہ اپنے بوڑھے والدین کا خیال رکھیں کیونکہ انھی کے سبب وہ اس دنیا میں آئے اور کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کی تلقین کی وہاں والدین کی شکر گزاری کا بھی حکم دیا ہے۔ سورۃ لقمان میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ” میرا شکریہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو ‘ میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ ‘‘

والدین کی خدمت ہمارا فرض ہے انکی دن رات خدمت کر کے بھی ہم انکی محبّت، شفقت، محنت اور قربانیوں کا حق ادا نہیں کر سکتے اولڈ ایج ہومز کی موجودگی تو کیا اسکا تصور بھی ہمارے معاشرے میں نہیں ہونا چاہیئے خدارا اپنے فرض سے منہ نہ موڑیں اگر والدین خفا ہیں تو انہیں منا لیں اگر اولڈ ایج ہومز میں ہیں تو معافی مانگ کے گھر واپس لے آئیں دنیا میں ہر رشتے کا نعم البدل موجود ہے سوائے ماں اور باپ کے رشتے کے والدین کی زندگی میں ہی انکی قدر کریں ورنہ بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔