ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا۔
(طہٗ، 20: 124)
’’اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لیے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا۔‘‘
اب اس آیہ کریمہ میں لفظ ’’ذکر‘‘ ہماری فکر کو سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ بعض ائمہ مفسرین نے ذکر سے مراد قرآن حکیم اور اس کی تعلیمات کو مراد لیا ہے اور بعض نے اس سے اسلام کی مجموعی تعلیمات کو مفہوم کیا ہے اور بعض ائمہ نے اس سے رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ اور آپ کے اسوہ حسنہ کو مراد لیا ہے کہ جس فرد اور قوم نے اللہ کی ہدایت کے اس چشمے سے بے نیازی کا مظاہرہ کیا اور اس قوم نے برے اور قبیح اعمال کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنا لیا اور وہ فرد و قوم برے عمل اور حرام فعل میں مبتلا ہوگئی۔
وہ فرد و قوم جس نے سادہ زندگی ترک کرکے تعیش پسند زندگی اختیار کرلی، جس نے قناعت کی زندگی کو چھوڑ کر حرص کی زندگی کو اپنالیا۔ جس نے حال و اسباب کی تلاش میں محنت کی بجائے غفلت کی زندگی اپنالی، جس نے دنیا کی حرص و لالچ کو اپنا مطمع نظر بنالیا اور جس نے اپنے دل کو صرف اور صرف غم روزگار کا ٹھکانہ بنالیا۔ ایسا فرد اور ایسی قوم کبھی بھی آسودہ حال نہیں ہوسکتی اور اس فرد اور قوم کی زندگی کبھی بھی تنگی سے فراخی میں نہیں بدل سکتی اور اس کی زندگی کا اندھیرا کبھی بھی روشنی میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ ملکی معیشت کسی بھی فرد اور قوم کی زندگی کا نام ہے ضنکاً کے متعدد معانی ہیں۔ اس سے مراد کسی فراد اور قوم کی زندگی میں تنگی مراد ہے اور اسی طرح کسی بھی فرد اور قوم کی زندگی میں سختی مراد ہے۔
(زاد المیسر، ج: 5، ص: 330)
معشتۃ ضنکا کا معنی یہ بھی ہے جس کی طرف قرآن حکیم میں یوں اشارہ کیا گیا ہے:
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ.
(البقرة، 2: 61)
’’اور ان پر ذلّت اور محتاجی مسلط کر دی گئی۔‘‘
ان کے قبیح اور مجرمانہ افعال کی وجہ سے ان پر ذلت اور غربت مسلط کی گئی ہے اور وہ اپنے برے اعمال کی وجہ سے غضب الہٰی کا شکار ہوئے اور انھوں نے اپنی آرزوؤں کی پرستش کی تھی اور انھوں نے احکامات الہٰیہ کو ترک کیا تھا اور اپنی زندگیوں سے ان کو دور کیا تھا اور اپنی باطل خواہشات کو اپنی زندگی کا مرکز و محور بنایا تھا اور اپنے نبی و رسول کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا تھا اور اللہ کی آیات کا کھلم کھلا انکار کیا تھا اور اپنی معاشرتی زندگی میں ہر برائی کو اختیار کیا تھا، جب کوئی فرد اور قوم اپنے وجود میں ہر برے عمل کی پہچان بن جائے تو ایسے فرد اور قوم کی منزل اس کی معیشت کی خرابی اور تنگی میں ہے۔
تاریخ انسانی میں جب بھی کسی فرد اور قوم نے عظیم جرائم اور قبیح ترین افعال کو ہی اپنی زندگی میں اپنایا ہے تو اس فرد اور قوم کا انجام اس کی معیشت اور اس کی انفرادی اور اجتماعی حیات کی ہلاکت کی صورت میں نظر آیا ہے اور قرآنی الفاظ ذلت و مسکنت اللہ کی رحمت سے محرومی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اللہ کے غضب اور لعنت میں گرفتار ہونے کی طرط مشعر نہیں۔ آج کے دور میں جس چیز نے ہماری ملکی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ افراد زر ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے جبکہ زر کی اپنی قوت خرید میں مسلسل کمی ہوتی چلی جاتی ہے۔
جدید معاشی نظام میں بالخصوص زر اعتباری کے رواج کی وجہ سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ آج کے دور میں افراط زر کے مسئلے نے ایک عالم گیر حیثیت اختیار کرلی ہے۔ افراط زر کا مسئلہ آج ایک اجتماعی نوعیت کا مسئلہ بن گیا ہے بلکہ یہ مسئلہ عمومی اور عالمی سطح کا بن گیا ہے۔ آج ہمارے روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ روپے کی قدر میں تنزلی اورکمی کا یہ وصف اس کا ایک لازمی اور مستقل حصہ بن گیا ہے۔ ماضی میں کرنسی زیادہ تر قیمتی دھاتوں سے بنائی جاتی تھی۔ اس لیے زر کی قدر مستحکم رہتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ سونا اور چاندی کی اپنی ذاتی قدر اور اپنی ذاتی منفعت بھی تھی جو اس کی قوت خرید کو مستحکم رکھتی تھی جبکہ آج کاغذی کرنسی کی صورت رکھتے ہیں۔
ان کی حیثیت زر اعتباری کی ہے ان کی اپنی ذاتی کوئی قدر نہیں ہے۔ ماضی میں اشیاء کا مبادلہ براہ راست اشیاء سے بھی ہوجاتا تھا۔ جس کو بارٹر سسٹم کہتے ہیں۔ اس لیے افراط زر کا مسئلہ اس وقت پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ماضی میں اشیاء کی قیمتیں فطرتی طور پر بڑھتی تھیں، کبھی ان کی قیمتیں بڑھ جاتی تھیں اورکبھی فطرتی طور پر کم ہوجاتی تھیں جبکہ آج کل افراط زر کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ ماضی میں اشیاء کی قیمتوں میں اجتماعی طور پر اضافہ نہیں ہوتا تھا بلکہ انفرادی سطح پر کسی شے کی قیمت میں اضافہ یا کمی ہوجاتی تھی۔
(ڈاکٹر محی الدین ہاشمی، موخر ادائیگیوں پر افراط زر کے اثرات، ص: 37)
جبکہ آج کے دور میں اشیاء کی قیمتوں میں اجتماعی سطح پر اور حکومتی سطح پر مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آج کے دور میں اشیاء کی رسد کی مستقل اور مسلسل کم ہورہی ہے۔ جبکہ ان کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔ طلب و رسد میں کمی و بیشی کا رجحان بھی افراط زر میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ آج اشیاء کی طلب و رسد میں فطرتی عوامل کے ساتھ ساتھ خود ساختہ اور مصنوعی عوامل کا بھی ایک موثر کردار ہے جس کی وجہ سے افراط زر کا مسئلہ درپیش ہے۔ افراط زر کے مسئلے نے ہمارے رویے کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کی عددی مقدار مسلسل بڑھ رہی ہے جبکہ اس کی قوت خرید مسلسل اور روز بروز کمزور پڑ رہی ہے۔
ہر روز روپیہ غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں مسلسل انحطاط اور زوال کا شکار ہورہا ہے۔ اس کی مسلسل گراوٹ اور اس کی مستقل تنزلی قوم کی مسلسل گراوٹ اور مستقل تنزلی کی علامت بنتی جارہی ہے۔ ہمارا قومی اور بین الاقوامی وقار مسلسل کم ہورہا ہے اور ہم مستقل اور مسلسل ایک بھکاری قوم کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر رہے ہیں۔ ہم اقوام عالم میں ایک مفلوک الحال قوم بنتے جارہے ہیں۔ دنیا میں ہماری حیثیت ایک فقیر اور بھکاری کی سی ہورہی ہے۔
ہم اپنے ملک طرح طرح کی اور ہر ضرورت کی اشیاء پیدا کرنے کی بجائے قرضوں کے حصول میں مگن ہیں۔ ہم دنیا سے قرضے لے کر ان کی اشیاء خریدنا چاہتے ہیں۔ پاکستان ہر پاکستانی کے گھر کی طرح ہے، ہم 76 سال سے اس گھر کو قرضوں پر چلارہے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ اس گھر میں ہم رہ رہے ہیں مر ہمارے سارے اخراجات کوئی اور برداشت کرتا ہے۔ ہمیں اپنی ضرورت کی جب بھی کوئی چیز خریدنی ہوتی ہے تو ہم ادھار لیتے ہیں اور اس ادھار پر بھاری سودا ادا کرتے ہیں۔ ہمارے گھر پاکستان کو چلانے والا کبھی کوئی عام وردی میں آتا ہے۔ کبھی کوئی خاص وردی میں آتا ہے۔ دونوں نے اس گھر پاکستان کو چلانے کی بہت کوشش کی ہے۔ کسی نے اس گھر پاکستان کو چلانے کے لیے قرض لیا ہے اور کسی نے اس گھر پاکستان کو بسانے کے لیے امداد لی ہے۔ یہ گھر پاکستان 76 سالوں سے مسلسل اور مستقل غیروں کے قرضوں اور غیروں کی امداد پر چل رہا ہے۔
ہم نے 76 سال سے اس گھر پاکستان کو بغیر قرضوں اور امداد کے چلانے کے لیے اپنے تئیں سوچ بچار بھی بہت کی ہے۔ مگر ہم کامیاب نہیں ہوسکے۔ ہم غیروں کے قرضے ادا نہ کرنے کی وجہ سے آج بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ہم ملک میں ہر شعبے میں زیادہ اشیاء پیدا کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں اشیاء مسلسل کم ہورہی ہے اور نوٹ زیادہ سے زیادہ ہورہے ہیں۔ ہم بے شمار نوٹ لے کر جاتے ہیں اور تھوڑی سی اشیاء لے کر آتے ہیں۔ ہمارے اس گھر پاکستان میں اپنی اشیاء کی رسد کم ہورہی ہے جبکہ زر اور روپے کی بہتات ہورہی ہے۔
اس لیے قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں تیزی کے ساتھ داخلی بے سکونی بڑھ رہی ہے اور داخلی امن خراب ہورہا ہے۔ بھوک و افلاس بہت تیزی کے ساتھ اپنے انھیدرے اور اپنے ڈھیرے ہمارے گھروں میں ڈال رہی ہے۔ پیٹ کی بھوک ہم سے اخلاقی ایمانی اور اسلامی اقدار چھین رہی ہے۔ پیٹ کی حاجت و ضرورت پوری کرنے کے لیے آج ہم کسی برائی کو برائی ہی نہیں جانتے ہیں اور کسی شر کو شر ہی نہیں سمجھتے ہیں اور کسی قانون کی پاسداری کو اپنی ذمہ داری ہی محسوس نہیں کرتے ہیں اور ہم اپنی بھوک کو مٹانے کے لیے اپنے ساتھ کے گھر اور اپنے شہر میں نقب لگاتے ہیں، چوریاں کرتے ہیں۔ ڈکیتیاں کرتے ہیں، حرام خوری کرتے ہیں، جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ناحق دوسروں کے مال کو غصب کرتے ہیں۔ دوسروں کی عزتوں کو لوٹتے ہیں۔
ہمارے گھر پاکستان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ اس گھر پاکستان کے بے شمار افراد مہنگائی کے باعث بیروزگار ہیں۔ یہ کام کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے کام کرنے کے مواقع نہیں ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے باعزت روزگار شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی ابتدائی مالی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ چور نہیں بننا چاہتے حالات ان کو چور بننے پر مجبور کررہے ہیں۔ یہ ڈاکو نہیں بننا چاہتے گھر کی غربت اور مال کی شدید حاجت ان کو ڈاکو بنارہی ہے۔ یہ اپنے گھر پاکستان کو زمانے کے اندھیروں میں بھی روشن کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے لیے اس گھر کے دیے کا تیل بہت ہی مہنگا کردیا گیا ہے۔ یہ امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں مگر کوئی غیر مری قوت ان کا امن چھین رہی ہے۔ یہ محبت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں مگر کوئی ان کو مسلسل نفرت دے رہا ہے۔
یہ عزت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں مگر کوئی مسلسل ان کی عزت کو تار تار کررہا ہے۔ یہ محنت کرنا چاہتے ہیں مگر کوئی ان کو محنت کرنے کے مواقع فراہم نہیں کررہا ہے۔ یہ آزاد اور عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں کوئی مسلسل ان کو غلام بنارہا ہے۔ یہ اپنی زمین اور اپنی محنت چاہتے ہیں مگر کوئی مسلسل ان کو عاری اور مزارے بنائے ہوا ہے۔ یہ اپنی چھوٹی سی فیکٹری لگانا چاہتے ہیں مگر کوئی ان کو مسلسل مزدور بناکر رکھنا چاہتا ہے۔ یہ اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں مگر فیصلوں کے ایوان کا دروازہ ان پر بند ہے۔ اس لیے کہ ان کے پاس حرام کا سرمایہ نہیں ہے۔ یہ اپنے علاقے کے چور اور ڈاکو نہیں ہیں۔ یہ قوم کے لٹیرے اور ڈاکو نہیں ہیں۔ یہ اس قوم کے وڈیرے اور جاگیردار نہیں ہیں۔ یہ اس قوم کے سرمایہ دار نہیں ہیں، یہ مال میں غریب ہیں، ان کی زندگی بھی غریب کی سی ہے ان کی معاشرت بھی غریب ہے اور ان کی سیاست بھی غریب ہے۔ غریب بہر صورت غریب ہی ہوتا ہے۔ اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
اس غریب نے آج اگر اپنی حالت بدلنی ہے اپنی ذات، اپنی قوم اور اپنے ملک کو عظیم بنانا ہے تو اپنی حالت کو بدلنے کا اس کو خود فیصلہ کرنا ہے۔ اس کو بے عمل رہنے کی بجائے محنت سے عمل کرنا ہوگا۔ اس کو بیروزگار رہنے کی بجائے اپنا روزگار خود پیدا کرنا ہوگا۔ اپنی کمزوری کو طاقت میں خود بدلنا ہوگا۔ اپنی بیماری کو صحت میں لانا ہوگا، اپنی بے کسی کو اپنی طاقت بنانا ہوگا اور اپنی مجبوری کو قوت بنانا ہوگا، اپنی غلامی کو آزادی میں بدلنا ہوگا۔ اپنی کسمپرسی کو عظمت کا نشان بنانا ہوگا۔ اپنے کمزور ارادے کو قوی ارادے میں ڈھالنا ہوگاکچھ نہ کرے کو کچھ کرے کی سوچ میں بدلنا ہوگا۔ اپنی فکر کو صحیح سمت دینا ہوگی۔ اپنے عمل کو صحیح قابل میں ڈھالنا ہوگا۔ اپنی غیر ذمہ داری کو احساس ذمہ داری میں تبدیل کرنا ہوگا۔ اپنی بے شعور زندگی کو باشعور زندگی بنانا ہوگا۔ اپنی نالائقی کو لیاقت میں بدلنا ہوگا۔ اپنی بے صلاحیتی کو صلاحیت کا رنگ دینا ہوگا۔ اپنے بے حمیتی کو حمیت کا روپ دینا ہوگا۔ اپنی ذلت کو عزت کا لباس پہنانا ہوگا۔ اپنی بے توقیری کو نشان توقیر بنانا ہوگا اور اپنی بے حیثیتی کو قابل حیثیت میں بدلنا ہوگا۔ اپنی لاچارگی کو زمانے کا چارا ساز بنانا ہوگا۔ اپنی نااتفاقی کو قوی اتفاق میں لانا ہوگا۔
انفرادی منفعت پر اجتماعی منفعت کوترجیح دینا ہوگی۔ پوری قوم کی عزت کو اپنی عزت بنانا ہوگا۔ ذاتی وقار پر قوی وقار کو ترجیح دینا ہوگی اور ذاتی سوچ پر قومی سوچ کو فائق جاننا ہوگا۔ ان پڑھ کو تعلیم و شعور دینا ہوگا، غیر ذمہ دار کو ذمہ دار بنانا ہوگا۔ خائن کو امانت دار بنانا ہوگا، منصب دار کو صا حب احساس بنانا ہوگا، قوت اقتدار کے مالک شخص کو قوم کا مہرباں اور رحمدل بنانا ہوگا اور حاکم وقت کو قوم کا خیر خواہ بنانا ہوگا اور قوم کے محافظ کو اس کی ساری انسانی اور اسلامی اقدار کا پاسباں بنانا ہوگا۔
اگر ہم خود کو نہ بدلیں گے تو ہم کبھی بھی نہ بدلیں گے، سارا زمانہ بدل جائے گا، ساری قومیں بدل جائیں گے، سارے ملک بدل جائیں گے، مگر ہمارا ارادہ نہ بدلنے کا ہے اس لیے ہم نہیں بدلیں گے اور اگر ہم نے بدلنے کا انفرادی اور اجتماعی ارادہ کرلیا تو ہم کو دنیا کی کوئی قوت بدلنے سے روک نہیں سکتی۔ کوئی طاقت ہمارے بدلنے کے عزم میں حائل نہیں ہوسکتی، ہم پوری قوم اگر محنت نہ کریں تو ہمیں کبھی بھی عزت نہیں مل سکتی۔ ہم اگرملک کی حالت نہ بدلیں تو کوئی ہمیں بدل نہیں سکتا۔
اگر ہم بحیثیت قوم کرپشن کو برا نہ جانیں تو کوئی قوم ہمیں اس کو برا جاننے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ اگر ہم کرپشن کو ختم نہ کرنا چاہیں تو دنیا کی قوت ہم سے کرپشن ختم نہیں کراسکتی۔ ہم اگر ملک کی حالت نہ سنوارنا چاہیں تو کبھی بھی اس کی حالت سنور نہیں سکتی۔ اگر ہم ملک و قوم کی تقدیر نہ بدلنا چاہیں تو کوئی دوسری قوم و ملک اس کی تقدیر بدل نہیں سکتے۔ ہمیں اغیار کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے اور ہمیں دشمنوں کی چالوں کا توڑ کرنا ہے۔ ہمیں اپنے زندہ قوم ہونے کا ثبوت اپنے زندہ اقدامات سے خود دینا ہے۔ اقوام عالم میں ہماری عزت، ہماری خود انحصاری میں ہے، ہمارا قومی وقار، ہماری معیشت کی بقا اور استحکام میں ہے۔ ہماری قومی قوت، ہمارے سیاسی اور معاشی استحکام میں ہے، ہماری طاقت قوم کے مکمل اعتماد میں ہے۔
پاکستان میں بسنے والے باشندے اگر دنیا کے نقشے میں ایک باعزت قوم بن کر جینا چاہتے ہیں تو اس کا ایک قرآنی ضابط ہے ان کو از خود بدلنا ہوگا۔ اس لیے باری تعالیٰ نے صراحتاً قیامت تک یہ اعلان کردیا ہے کہ
اِنَّ اللہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.
(الرعد، 13: 11)
’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘
اس لیے ہم اپنی زبان میں بھی قرآنی فکر کو اس شعر کے ذریعے بھی اقوام کے عروج اور زوال کو فلسفے کو جانتے رہتے ہیں کہ:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
آج افراط زر نے دنیا ہائے معیشت میں بڑے بڑے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ افراط زر یہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب ملک میں اشیاء اور خدمات کی رفتار طلب زیادہ ہوجائے جبکہ ملک میں مجموعی پیداوار کم ہوجائے یوں ملک میں اشیاء اور خدمات کی رسد کم ہوجاتی ہے اور ان کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے قوم کو مسئلہ افراط زر سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس کے متعدد عوامل ہیں کبھی اشیاء کی پیداوار میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے، کبھی ٹیکسوں کی مقدار بڑھادی جاتی ہے۔ کبھی اشیاء کو پیدا کرنے کے لیے بجلی نایاب ہوتی ہے یا اس کی قیمت میں بے پناہ اضافہ کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اشیاء کی پیداوار کا عمل رک جاتا ہے۔
ملک میں انڈسٹری بند ہونے لگتی ہے، فیکٹری میں پیدا ہونے والی اشیاء کی لاگت بڑھ جاتی ہے اور ان کی قیمت میں اضافے سے ان کی طلب کم ہوجاتی ہے۔ یوں ان کی رسد کم ہوجاتی ہے فیکٹری و انڈسٹری نقصان اٹھانے لگتی ہے۔ بالآخر وہ فیکٹری اشیاء کو پیدا کرنے کا عمل ترک کردیتی ہے۔ اس لیے کہ اشیاء کو پیدا کرنے کے اخراجات زیادہ آتے ہیں اور ان سے منافع کم حاصل ہوتا ہے۔ حتی کہ اشیاء کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ منافع بھی خسارے میں بدل جاتا ہے، کوئی بھی عقلمند شخص خسارے کی تجارت نہیں کرتا ہے۔ یوں افراط زر کی وجہ سے ملک کی معیشت کا چلتا ہوا پہیہ جام ہوجاتا ہے۔ معیشت کی ترقی رک جاتی ہے معاشرے میں بیروزگاری پھیل جاتی ہے۔ بیروزگاری مختلف معاشرتی جرائم کو جنم دیتی ہے۔
(ڈاکٹر محی الدین ہاشمی، موخر ادائیگوں کے افراط زر پر اثرات، ص: 38)
یوں معاشرے میں اچھے انسان برے انسانوں کی شکل میں دکھائی دینے لگتے ہیں۔ امانت دار بددیانت بن جاتے ہیں۔ حلال کے طالب حرام کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ معاشرے کا امن تیزی سے بدامنی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ فیکٹریاں بند ہوجاتی ہیں۔ مزدور ہڑتالوں پر نکل آتے ہیں۔ ملک میں امن و امان کا مسئلہ پید اہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ حکمرانی اور حکومت یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے اس لیے کہ حکومت کرنے کی ذمہ داری درحقیقت ہر پاکستانی گھر کی کفالت کی ذمہ داری نبھانے کی ہے۔ ہر فاقہ کش کی بھوک مٹانے کی ذمہ داری ہے، ہر بیروزگار کو روزگار دینے کی ذمہ داری ہے، ہر بے علم کو علم دینے کی ذمہ داری ہے اور بیمار کا علاج کرانے کی ذمہ داری ہے اور ہر بے چھت اور بے گھر کو چھت دینے اور گھر فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے۔ ریاست کے ہر فرد کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:
’’اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوک سے مرگیا تو کل قیامت کے روز عمر سے اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔‘‘
ہر دور میں حاکم وقت کی ذمہ داری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری اپنی ذات سے بھی بڑھ کر ہے، اس ذمہ داری کو لینے والا خود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اضافی احکام کا اپنے آپ کو مکلف بناتا ہے، یہ ذمہ داری جبراً نہیں دی جاتی ہے اور یہ ذمہ داری خود انسان قبول کرتا ہے۔ اس لیے قیامت کے روز اپنے ذاتی فرائض کے علاوہ قومی فرائض کے حوالے سے بھی وہ جوابدہ ہوگا۔
افراط زر اور زر کاغذی کا جب سے دنیا میں ظہور ہوا ہے۔ اس کی purchasing power قوت خرید میں اس تخلیق کے بعد مسلسل گراوٹ آتی رہی ہے اور اس میں کمی کا رجحان مسلسل بڑھتا رہا ہے۔ ہر آفت، ہر جنگ، ہر مصیبت اور ہر بدامنی اس کی قدر کو کم کیا ہے اور اس کی مقدار اور اس افراط زر کی شرح کو بڑھایا ہے۔ خود حکومتوں کی ناقص پالیسیاں بھی افراط زر کو مسلسل بڑھاتی رہی ہیں۔ افراط زر کو کبھی برآمدات میں اضافے کے نام پر بڑھایا گیا اور کبھی قدر زر میں کمی کرکے ٹیکسوں کے نیٹ ورک کو وسعت دینے کے نام پر افراط زر کو زائد کیا گیا، کبھی ملک میں اشیاء پیدا نہ کرنے کی غفلت کی بنا پر اس کو بڑھایا گیا۔
برطانوی معیشت دان کیز Keynes اس کی یوں نشاندہی کرتا ہے کہ تاریخ میں قدر زر کی بڑھتی ہوئی ابتری کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے دو بڑے محرکات ہیں۔ ایک حکومتوں کا افلاس ہے اور دوسرا مقروض طبقے کا اعلیٰ سیاسی اثر و رسوخ ہے اور قدر زر میں کمی کرکے ٹیکسوں کی وصولی کا طریقہ کار حکومتوں میں اس وقت سے رائج ہے جب سے روم نے افراط زر کو دریافت کیا ہے۔ (Keynes JMM. Treat on monetary reform, 4)
بعد ازاں اس نظریے پر بھی حالات نے اضافہ کردیا ہے کہ افراط زر کبھی حکومتوں کی مداخلت کے بغیر بھی ہوتا ہے ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے ملک کو بدامنی کا سامنا ہوجائے، پیداواری سرگرمیاں کم ہوجائیں یا ختم ہوجائیں، اشیائے ضروریہ ناپید ہوجائیں ملک میں ضروریات زندگی کی پیداوار کم ہوجائے، روزمرہ کی اشیاء دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑیں۔ گندم، سبزیاں، پھل اور دیگر ترقی کی علامت والی اشیاء دوسرے ممالک سے مسلسل درآمد کرنا پڑیں تو افراط زر کی مقدار مسلسل بڑھتی رہے گی، زر اعتباری سے آج کے دور میں بہت زیادہ بے اعتمادی پیدا ہوچکی ہے اس کی ماضی میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
خود پاکستان کی تاریخ ہمارے زر اعتباری، روپے کے حوالے سے یہ ہے کہ 1947ء میں ایک امریکن ڈالر کے مقابلے میں 3 روپے ملتے تھے یہاں سے ہم نے اپنے روپے کی قدر کا سفر شروع کیا تھا۔ بجائے اس کے یہ قدر قائم رہتی اور مستقل مستحکم رہتی اور مزید آگے بڑھتی مگر روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گرتی رہی ہے اور اب ایک ڈالر کے مقابلے میں 3 سے 300 تک جاکر گرچکی ہے اور ابھی تک تھمنے کی صورت نہیں ہے۔ درحقیقت یہ پاکستانی روپے کی قدر دنیا کی کرنسیوں کے مقابلے میں ہی نہیں گررہی ہے بلکہ اس قوم، اس وطن اور اس کے باسیوں اور باشندوں کی قدر بھی مسلسل گر رہی ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کا پست ہونا آج کے دور میں اس قوم کی صلاحیتوں اور قابلیتوں اور ان کے نظام حکومت اور ان کے کاروبار و تجارت زراعت و صنعت اور ان کے کل نظام حیات کا پست ہونا ہے۔
خدارا روپے کی قدر کو مزید گرنے سے بچاؤ اس قوم کو سنبھالو اور اس روپے کی قدرمیں اضافہ کرو اس ملک کی معیشت کو بحال کرو۔ اس کے نظام حکومت کو درست کرو اس کے حکومتی ڈھانچے میں جہاں جہاں کرپشن ہے اس کا سختی سے کلیتاً خاتمہ کرو اور اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنےوالے ہر بدعنوان اورکرپٹ شخص کو عبرت کا نشان بناؤ۔ بلاشبہ اس افراط زر کے اثرات اور مفاس بہت زیادہ ہیں۔ یہ ملک کے قرضوں کو بڑھتا ہے یہ قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتا ہے۔ یہ ملک بیروزگاری پیدا کرتا ہے، یہ لوگوں کی قوت خرید کم کرتا ہے۔ یہ اقوام عالم میں قوم کی قدر گھٹاتا ہے۔
یہ روپے کی قدر کو بھی بے حال اور کمزور کرتا ہے۔ یہ معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ فیکٹریاں بند کراتا ہے صنعتوں پر تالے لگاتا ہے۔ زراعت کو بے آباد کرتا ہے، یہ عمل لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کرتاہے۔ یہ طویل معیادی (Long term) معاہدوں پر کاری ضرب لگاتاہے۔ ان کو روبعمل ہونے سے روکتا ہے، افراط زر سے بچتیں saving شدید متاثر ہوتی ہیں اور وہ افراد جو بڑھاپے کی عمر میں ہوتے ہیں جو کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جن کو بے روزگاری کا سامنا ہوتا ہے جن کو بچوں کی تعلیمی کفالت کرنا ہوتی ہے اور جن کو بچوں کی شادیوں کی ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے اور جن کو اپنے رہنے کے لیے مکان تعمیر کرنا ہوتا ہے۔ وہ افراط زر کے طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ان کی مالی حالت پہلے سے زیادہ کمزور ہوجاتی ہے۔ ان کا سفر امارت سے غربت کی طرف بڑھنے لگتاہے۔ ان کی قوت خرید مسلسل کم ہوتی جاتی ہے۔ زر کی بے قدری اور افراط زر معاشرے کو مسلسل معاشی گرداب میں پھنسا کر رکھتا ہے جس سے نہ صرف سارا ملک، ساری قوم اور اس کا ایک ایک فرد متاثر ہوتا ہے۔
(محی الدین ہاشمی، موخر ادائیگیوں کے افراط زر پر اثرات، ص: 38)
افراط زر کے نقصانات سے بچنے کے لیے لوگ اپنے سرمائے کو املاک بنانے میں صرف کردیتے ہیں اور ان سے قیمتی اجناس خریدنے لگتے ہیں۔ اسی طرح کی غیر پیداواری چیزوں میں اپنے سرمائے کو کھپانے لگتے ہیں، پیداواری چیزوں میں ان کی سرمایہ کاری رک جاتی ہے۔ یوں معاشی سرگرمیاں ملک میں سرد پڑ جاتی ہیں۔ افراط زر کی وجہ سے مقرر آمدنی والے لوگ اور معاشرے کے متوسط طبقات بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ افراط زر کی سب سے زیادہ زر ان ہی طبقات پر پڑتی ہے۔
یوں افراط زر معاشرے میں طبقاتی تقسیم کے عمل کو بڑھادیتا ہے، انسانوں کو انسانوں سے جدا اور دور کرادیتا ہے۔ کم اور معینہ آمدنی والا طبقہ مسلسل بدحالی کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے جبکہ سرمایہ دار اور جاگیردار طبقات کے لوگ افراط زر کے نقصانات سے خود کو محفوظ کرلیتے ہیں بلکہ غیر ملکی بنکوں میں اپنی رقوم رکھ کر روپے کی قدر میں کمی کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی دولت میں راتوں رات بے پناہ اضافہ کرلیتے ہیں۔ غرضیکہ افراط زر سے ملک و قوم کی معاشی سرگرمیاں بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور ایسے تمام مالی معاہدات جن میں روپے کی ادائیگی مستقبل میں ہو وہ اس سے خوب متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں زمینوں اور پلاٹوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے، عمارتوں کے کاریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ملازمین کی تنخواہیں اپنی قدر میں شدید کمی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ زکوٰۃ کا نصاب بڑھ جاتا ہے، حدود اور دیتوں کی شرعی مقداروں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ موخر مالی معاہدات بیع سلم اور بیع النسیر میں زیادتی ہوجاتی ہے، مہر موجل بڑھ جاتا ہے۔ انشورنس کی ادائیگیاں کم ہوجاتی ہیں بچتوں اور امانتوں کے سرٹیفیکیٹ میں کمی ہونے لگتی ہے۔
(ڈاکٹر محی الدین ہاشمی، موخر ادائیگیوں پر افراط زر کے اثرات شرعی نقطہ نظر، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ص: 38)
خلاصہ کلام
ہم پاکستانی معیشت کو اسلامی تعلیمات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور اس کے چند پہلوؤں کا اس محدود وقت میں مطالبہ کرتے ہیں۔ بلاشبہ اسلام ہمیشہ افراد معاشرہ کی اصلاح اور فلاح کی بات کرتا ہے اور فرد کا حکومت کے ساتھ تعلق مضبوط کرتا ہے اور معاشرے میں ایک فرد کے دوسرے فرد کے ساتھ تعلقات محکم کرنے کا تصور دیتا ہے اور اپنے افراد معاشرہ کے سامنے فقیدالمثال معاشی نظام پیش کرتا ہے جس میں ربو کو حرام قرار دیتا ہے، جوئے کی ممانعت کرتا ہے اور ظلم و استحصال سے کسی کا مال ہتھیانے سے سختی سے منع کرتا ہے اور محکوم اور مجبور لوگوں کے معاشی استحصال سے سختی و شدت سے روکتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ کسی بھی معاشی نظام میں زر ایک ایسی شے ہے جو لوگوں کے معاشی معاملات کو منضبط کرتی ہے بائع ومشتری اور آجر و آجیر کا باہمی تعلق زر کی قدر پر ہی منحصر ہے۔ اس لیے معاشرے میں عدل و انصاف کو قائم رکھنے کے لیے اور ظلم و نزاع کو ختم کرنے کے لیے اشیاء کی قیمت کا مقیاس اور معیار ایسے زر پر ہو جس پر ثبات و قرار ہو اور جس کی مالیت ہر حال میں مستحکم رہے۔ اس لیے قرآن نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا:
وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلاَحِھَا.
(الاعراف، 7: 85)
’’اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور زمین میں اس (کے ماحولِ حیات) کی اصلاح کے بعد فساد بپا نہ کیا کرو۔‘‘
اسی طرح سورہ ھود میں حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہیں:
وَ یٰـقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ.
(ھود، 11: 85)
’’اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو۔‘‘
اس آیہ کریمہ میں نجس سے مراد دراہم اور دنانیر میں کمی کرنا ہے۔ ان کی قدر کو قطع کرنا ہے۔
(ابن عربی، احکام القرآن، 7: 1063، ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، 6 2)
یہی وجہ ہے امام ابن قیم اس مسئلہ میں بیان کرتے ہیں:
والثمن ھو المعیار الذی بہ یصرف تقویم الاموال فیجب ان محدودا مضبوطا لایرتفع ولا ینخضض.
(ابن قیم، اعلام الموقنین، 2: 156)
’’زر ایک ایسا معیار ہے جس سے اموال کی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے زر کی اس قدر میں ثبات ہو اور اگر عام اشیاء اور معاہدات فسادات کا شکار ہوجائیں گے۔‘‘
اس لیے زر کی قدر میں استحکام سے ہی لوگوں کا بھلا اور نفع ہے۔ امام ابن تیمیہ اس حوالے سے بیان کرتے ہیں:
ینبغی للسطان ان یغرب لهم فلوسا تکون بقیمة العدل فحه معاملاتھم من غیر ظلم لهم ولا یتجر ذوالسلطان فی الفلوس اصلا.
(ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، 29، 169)
’’حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ ایسی کرنسی کا اجراء کرے جو لوگوں کے معاملات میں موجب عدل ہو اور ظلم کا کوئی پہلو اس میں نہ ہو حاکم وقت کے لیے یہ بات قطعاً ناجائز ہے کہ کرنسی کی قدر کو بڑھا کر اپنے لیے اسے ذریعہ آمدن بنائے۔‘‘
اور اسی حقیقت کا اظہار ہمیں حدیث رسول ﷺ سے بھی میسر آتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کرنسی کی قدر میں خواہ مخواہ اور اس کی اہمیت میں بلا جواز قطع و برید سے بھی منع فرمایا ہے۔ امام احمد بن حنبل اور امام ابوداؤد روایت کرتے ہیں:
نھی رسول اللہ ﷺ ان تکسر سکۃ المسلمین الجائزۃ بینهم الا من باس.
(ابوداؤد، سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی کسرالدراہم ، 3: 271، رقم الحدیث 3449)
’’رسول اللہ ﷺ نے شدید ضرورت کے بغیر مسلمانوں کے مابین رائج سکے کی قطع و برید سے منع فرمایا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مسلم فقہاء اور معاشی ماہرین نے سکےو کرنسی کی قدر میں بلاجواز کمی سے سختی سے منع فرمایا ہے اور اس کی کڑی سزا تجویز کی ہے۔ قاضی ابویعلیٰ بیان کرتے ہیں کہ حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ کرنسی سے متعلق بے اعتدالیوں سے بے خبر نہ رہے بلکہ ان ج رائم کے محرکات کی تفتیش کرکے ذمہ دار عناصر کو سخت سزا دے اور انہیں نمونہ عبرت بناکر بازاروں میں گھمائے اور ان کو محبوس رکھا جائے اور کسی معتمد ماہر فن کو کرنسی کے معاملات کی دیکھ بھال پر مامور کیا جائے تاکہ لوگوں کی دینی اور دنیوی مصلحتوں کو پورا کیا جاسکے۔
گویا زر کی قدر میں کمی اور افراط زر یہ سب کے سب قرآنی لفظ ’’نجس‘‘ کے حکم میں آتے ہیں، اس لیے کرنسی کی قدر میں کمی یہ حاکم اور رعایا دونوں کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگوں کے مالوں کو ناجائز طریقے سے کھانا اور ہڑپ کرنا ہے اور یہ عمل اکل اموال الناس بالباططل کے میزان پر تلتا ہے۔
اس لیے امام سیوطی فرماتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان معروف معاملات کو کالعدم قرار دینا حاکم وقت کے لیے مکروہ عمل ہے۔ (سیوطی، الحاوی للفتاوی، 1: 100)
افراط زر عصر حاضر میں قرآنی لفظ لایجسس کی ایک عملی شکل ہے اس سے اگرچہ لوگوں کے اموال میں ظاہری اعتبار سے کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا ہے مگر ان کے اموال کی مالیت میں معنوی کمی آتی ہے۔ جیسے آج کل اشیاء کے عرق اور جوہر کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کشید کرلیا جائے تو ان اشیاء کی ظاہری صورت میں کوئی تبدیلی نہ دکھائی دے گی جبکہ ان کی حقیقی قدر میں کمی واقع ہوچکی ہوگی۔ اسی طرح آج کی حکومتیں افراط زر کے ذریعے لوگوں کے اموال کی قوت خرید کو کشید کرلیتی ہیں اور ان کی قوت خرید میں کمی کردیتی ہیں جس سے زر کی ظاہری معیت تو قائم رہتی ہے مگر اس کی قدر Value گرجاتی ہے۔ یوں حکومت لوگوں کے مال کی حفاظت کامل سے غفلت کی مرتکب ہوتی ہے اور عمل سوء کا ارتکاب کرتی ہے جو کہ شرعاً معقول عذر کے بغیر جائز نہیں ہے۔
(ڈاکٹر محی الدین ہاشمی، موخر ادائیگیوں پر افراط زر کے اثرات، ص: 48)
غرضیکہ پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اس Fiscal policy مالیاتی پالیسی ہمیشہ مستحکم رہے اور اس کی کرنسی وقتی اتار چڑھاؤ سے محفوظ رہے اور افراط زر کے عوامل کو امکانی حد تک کم کیا جائے تاکہ لوگ اپنے حقوق اور فرائض کو ظلم و نجس سے محفوظ رکھ سکیں۔ معیشت کے باب میں اسلامی تعلیمات کے یہی روشن نکات اور اقدامات ہیں۔
آج وطن عزیز پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج معاشی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ہماری معیشت عدم استحکام سے دوچار ہے معاشرے کے عام افراد کچھ لوگوں کے جرائم اور گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگوں کا عمل استحصال دوسروں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کررہا ہے۔ یہ وطن، یہ ملک، یہ خطہ، یہ پاکستان ہمارے گھر کی طرح ہے۔ گھر اور قبیلے کا سربراہ اور سردار اگر معاملہ فہم ہو، صلاحیت اور قابلیت کی اعلیٰ صلاحیتوں سے مزین ہو اور اصول حکمرانی اور نگہبانی امور سے کامل آگاہ ہو اور اپنے گھر اور خاندان کے ہر گھر میں خوشحالی دیکھنا چاہتا ہو۔ ہر شخص کی زندگی میں سکون و اطمینان دیکھنے کا خواہشمند ہو سب کی عزت کا محافظ ہو سب کے لیے مہربان و مشفق ہو سب کے گھروں میں چولہا جلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہو۔ سب کو باعزت زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتا ہو، تبھی قوم اس کے لیے جانثار ہوگئی اور اپنے پیارے وطن کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہوگئی، یہی وہ تمنا ہے اور یہی وہ خواہش ہے جو پاکستان کا ہر باسی احمد ندیم قاسمی کی زبان سے اپنی زبان پر یوں لاتا ہے:
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبز اگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو