مرتبہ: نازیہ عبدالستار
برسوں سے میری زندگی کا مقصد آپ کی زندگی میں آپ ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ تعلق حبی کو زندہ کرنا رہا ہے ایک زمانہ تھا آقا علیہ السلام کی ذات کی نسبت سے اعتقاد کو خطرہ تھا آپ ﷺ کے ساتھ تعلق کمزور ہورہا تھا۔ ہر طرف انتشار تھا۔ حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ اس تعلق حبی کو مضبوط کرنے کی جدوجہد میں اللہ تعالیٰ نے وہ کامیابی دی کہ انتشار ختم ہوگیا۔ تحریک منہاج القرآن وہ پلیٹ فارم ہے جس میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے نمائندگان آتے اور میلاد مصطفی ﷺ مناتے ہیں اور شان مصطفی ﷺ کا دفاع کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام کی تعلیمات کا پرچار کرتے ہیں۔ میں آپ کو تعلق خلقی کا درس دینا چاہتا ہوں تاکہ آقا علیہ السلام سے تعلق خلقی قائم ہوجائے۔ آقا علیہ السلام کی ذات سے پہلا تعلق صوری تھا جس سے آقا علیہ السلام سےمحبت قائم ہوتی ہے۔ اس محبت سےحضور علیہ اسلام کے ساتھ حضور ﷺ کی تعظیم کی سمجھ آتی ہے۔ آپ ﷺ کی سنت کی مطابعت ہوتی ہے آپ ﷺ کے دین کی نصرت پر محنت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا تعلق تھا جس پر بنیاد رکھی گئی تاکہ آقا علیہ السلام کے ساتھ محبت کےر شتے میں جڑ جائیں۔
حضور ﷺ کی ذات سے تعظیم و تکریم کے رشتہ میں جڑ جائیں۔ دین و سنت کے ساتھ جڑ جائیں یہ تعلق صوری تھا آگے تعلق معنوی کی طرف لے جانا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ میں فنا ہوجائیں۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کوانسانی و بشری سطح پر احوال عطا فرمائے۔ میں چاہتا ہوں کہ خوش مزاجی خوش طبعی اعلیٰ خصائل اعلیٰ برتاؤ اعلیٰ آداب کا رنگ آپ پر چڑھ جائے اور آپ رفتہ رفتہ اخلاق محمدی ﷺ میں فنا ہوتے چلے جائیں۔ بدخلقیاں جو ہماری طبیعتوں کو خراب کرتی ہیں۔ ہمارے مزاج و عادات کو بھگاڑتی ہیں۔ ہماری زندگی کے طور طریقے کو بگاڑتی ہیں۔ ان سب بگاڑوں کو ختم کرنے کا وقت ہے۔
اس لیے جب تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی تھی وہ زمانہ اور تھا اس وقت اس کی ضرورت بھی تھی ماحول بھی تھا۔ لوگوں میں اس کی طلب بھی تھی تڑپ بھی تھی۔ 43 سال عرصہ گزرنے کے بعد حالات بدل گئے نسلیں بدل گئیں۔ زمانے بدل گئے ماحول بدل گیا۔ لوگوں کے طور طریقے بدل گئے۔ سیاسی بگاڑ نے زندگیاں بربادکردیں، اب زندگی میں بگاڑ ہے۔ اقتصادی و معاشی زندگی میں بگاڑ ہے۔ معاشی زندگی کا اتنا زیادہ دباؤ ہے کہ وہ حلال و حرام کا فرق بھی مٹا رہا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور تباہ حالی کا اتنا دباؤ ہے کہ انسانوں میں انسانیت ختم ہورہی ہے۔ طبیعتوں کے اندر سے حلم بردباری اور برداشت ختم ہوچکی ہے۔ رشتوں کا لحاظ اور حیاء ختم ہورہاہے۔ حلال و حرام کی تمیز مٹ گئی ہے۔
حقوق و واجبات کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ فرد کے حقوق اور جماعت کے حقوق میں خلل واقع ہوگیا ہے۔ حیوانیت اور انسانیت میں توازن نہیں رہا فکر اور وجدان میں کوئی تعلق نہیں رہا۔ دنیا اور آخرت کے الگ الگ تقاضے ایک دوسرے سے متصادم ہوگئے ہیں۔ عقل نور وحی کوقبول نہیں کر رہی ہے۔ عقل دین کی بات سننے کے لیے تیار نہیں کیونکہ عقل پر بڑے فتنوں کا دباؤ ہے۔ سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا ، سیاسی، سماجی اقتصادی، علاقائی حالات پریشان کن ہیں۔ انسان اپنے نفس کا حق ادا کرے مخلوق کا حق ادا کرے یا رب کا حق ادا کرے۔ سمجھ خلل کا شکار ہوگئی انسان، توکل، احسان، دوسروں سے بھلائی، سچائی ، پاکیزگی اورخوش خلقی کی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔ حالات میں اتنی جھجناہٹ آگئی ہے۔ اس نے انسان سے انسان کی انسانیت چھین لی ہے۔
مسلمان سےمسلمانیت چھین لی ہے۔ ہر شخص محسوس کرتا ہے کہ وہ حالت جنگ میں ہے امن اٹھ گیا ہے۔ دلوں، روحوں ، ذہنوں مزاجوں میں امن نہیں رہا سلامتی نہیں رہی۔ اس کے برعکس فکر و عمل کو انتہا پسندی، دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان حالات میں ہمارے اوپر واجب ہے ہم زندگی کے اگلے راستہ کا تعین کریں۔ وہ محمدی اخلاقیات کا راستہ ہے۔ اہداف وہی ہیں۔ یہ اہداف چار ستونوں پر قائم ہیں۔ یہ عمل تجدید ہے۔ جب دین کی قدریں مٹ رہی ہوں اس وقت انسان اپنی نیکی اور اصلاح کو محفوظ رکھ لے۔ اپنی زندگی میں خیرکو محفوظ رکھ لے۔ دوسرے آگ میں جلتے رہیں گناہ کے سیلاب میں تباہ ہوتے رہیں توایسا شخص کامل مسلمان نہیں ہوتا۔ اسے جہاں اپنی مسلمانی بچانی ہے وہاں دوسروں کی مسلمانی بھی بچانی ہے۔ جہاں اسے اپنی زندگی میں نیکی اور اصلاح کو محفوظ کرنا ہے وہاں دوسروں کی زندگی میں نیکی اور اصلاح کو بھی محفوظ رکھنا ہے۔ جس طرح اسے اپنے آپ کو نیکی پر قائم رکھنا اسی طرح دوسروں کو نیکی پر قائم رکھنے کی جدوجہد کرنی ہے۔ اس کا معنی دعوت ہے۔ انسان خود کو خیر کی دعوت دے اور دوسروں کو بھی خیر کی دعوت دے۔ خود کو بھی شر سے بچائے ہر دوسرے شخص کو بھی شر سے بچائے۔ اس دور میں ہر ایک کو داعی اور بہن اور بیٹی کو داعیہ بننا ہے۔ دعوت ایک جماعت اور طبقے پر منحصر نہیں ہوگی۔ ہر شخص داعی ہے۔ اس فریضہکو زندہ کرنا ہے۔ یہ حکم ہر فرد انسانی کے لیے ہے جس نے کلمہ پڑھ لیا ہے جس نے اللہ کی توحید کا اقرار کرلیا ہے جس نے آقا علیہ السلام کی رسالت کو قبول کرلیا ہے جس نے خود کو اسلام کے سپرد کردیا ہے۔ ہر اس شخص پر ایک دائرے تک دعوت فرض ہوگئی ہے۔ یہ عمل تجدید ہے جس کو زندہ کرنا ہے اس کا منہاج چار طریقوں پر ہوگا۔
1۔ الدعوت بالقرآن
2۔ التربیہ بالخلق
3۔ الترسیخ بالعلم
4۔ الاصلاح بالحدیث وسنۃ
دعوت قرآن کے ذریعے دیں لوگ اپنی زندگیوں کو قرآن سے جوڑلیں۔ تربیت کریں اخلاق کے ساتھ خوش خلقی، دھیمے پن، نرمی اور اخلاق محمدی ﷺ کے ساتھ خواہ اولاد کی تربیت ہے، خواہ، طلبہ، بھائی بہن،معاشرہ خواہ سامعین ہیں۔ اپنی دعوت میں علم کے ساتھ رسوخ پیدا کریں۔ اپنی زندگیوں میں حدیث و سنت کے ساتھ اصلاح پیدا کریں یہ عمل تجدید کا منہاج ہے۔ ہم آقا علیہ السلام کے ساتھ تعلق معنوی میں جڑ جائیں۔ آپ ﷺ کےاخلاق محمدی میں فنا ہوجائیں۔ ہر ایک کا خلق آقا علیہ السلام کے خلق کا نظارہ پیش کرے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے۔ حضرت جابرؓ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ قیامت کے دن وہ لوگ میرے زیادہ محبوب ہوں گےجن کے اخلاق سب سے زیادہ عظیم ہوں گے۔ ایک جگہ فرمایا کن کےاخلاق اچھے ہوں گے۔ جن کے پہلو لوگوں کی خدمت کے لیے تواضع کے ساتھ بچھے ہوں گے۔ جن میں خود پسندی نہیں ہوگی۔ دوسرے کے لیے حقارت نہیں ہوگی۔ تنگ نظری نہیں ہوگی بلکہ ان کےپہلو بچھے رہیں گے خدمت وانکساری کے لیے۔ دوسروں کی بھلائی کے لیے، دوسروں کی تکلیف دور کرنے کے لیے۔ پھر آقا علیہ السلام نے اس کی اور وضاحت فرمائی۔ یہ بچھے پہلو والے کون ہوں گے جو خلق خدا سے محبت کریں گے۔ ان کی طبیعت، محبت اور چاہت سے بھری ہوگی کہ لوگ بھی ان سے محبت کریں گے۔ وہ محبت کریں گے بھی اور محبت کیے جائیں گے۔ (الصحیح ابن حبان، جامع ترمذی)
یہ پیمانہ ہے، یہ پیمانہ نہیں ہے آپ خودکہیں گے کہ میرے اخلاق بہت اچھے ہیں۔ اخلاق یہ ہے کہ آپ لوگوں کی منفعت میں کتنے بچھے ہوئے ہیں۔ اس کی علامت یہ ہے کہ آپ کے دل میں لوگوں کی محبت کیا ہے۔ ہر شخص کہہ سکتا ہے میں خلق سے محبت کرتا ہوں آپ کا دعویٰ قبول نہیں ہے فرمایا: عمل تب قبول ہوگا، کیا لوگ بھی آپ سے الفت کرتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ آپ متواضع ہیں لوگ کہتے ہیں کہ یہ خوش خلق ہے، طبیعت میں مہربان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ طبیعت میں بہت نفع بخش ہے۔ لوگ آپ سے الفت کریں تو یہ آپ کی ان سے الفت کرنے کی علامت ہے۔
برسوں سے میری زندگی کا مقصد آپ کی زندگی میں آپ ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ تعلق حبی کو زندہ کرنا رہا ہے ایک زمانہ تھا آقا علیہ السلام کی ذات کی نسبت سے اعتقاد کو خطرہ تھا آپ ﷺ کے ساتھ تعلق کمزور ہورہا تھا۔ ہر طرف انتشار تھا۔ حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ اس تعلق حبی کو مضبوط کرنے کی جدوجہد میں اللہ تعالیٰ نے وہ کامیابی دی کہ انتشار ختم ہوگیا
حدیث مبارکہ میں ہے:
افشو سلام و اکل الطعام و الصلوا ارحم.
آپ کے کلام سے لوگوں کو امن و سکون ہے آپ نے دیکھنا ہے کتنے لوگوں کو مجھ سے راحت پہنچتی ہے۔ لوگ محسوس کریں کہ اس شخص کی گفتگو سے اس کی ذات کوراحت ملتی ہے، سکون ملتا ہے پھر وہ آپ کی طرف آئے۔ پھر گفتگو کرے اس انداز میں جس میں ملائمت ہو نرمی ہو، سختی نہ ہو۔ اطعام الطعام لوگوں کو کھانا کھلائیں ان کی ضروریات پر خرچ کریں۔ اس مہنگائی کے عالم میں اطعام الطعام واجب ہوگیا ہے۔ جب وسائل کم ہوجاتے اور معاشی تنگی ہوجاتی آقا علیہ السلام فرماتے۔ ایک شخص کا کھانا دو لوگوں کو دیا جائے، دو کا کھانا چار کو دیا جائے اور چار کا کھانا آٹھ کو دیا جائے۔ کھانا تقسیم کیا جائے۔ آپ ﷺ نے اشعرین کے لیے فرمایا: اشعرین کا قبیلہ مجھ سے ہے اور میں ان سے ہوں۔
آقا علیہ السلام سے پوچھا آقا اس کی وجہ کیا ہے۔ اتنا کرم کسی سے فرمائیں کہ میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہے۔ اس کا سبب یہ فرمایا جب ان کے گھروں میں سے بعض لوگوں کے ہاں کھانا پینا ختم ہوجاتا ہے معاشی تنگی آجاتی ہے تو یہ سارے لوگ اپنے گھروں سے کھانا نکال لیتے ہیں۔ ایک جگہ ڈھیرکردیتے ہیں۔ برابری کےساتھ سب گھروں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ اپنے گھروں اور خاندانوں میں کسی کو بھوکا نہیں رہنے دیتے۔ اپنے کھانا، لقمے تقسیم کردیتے ہیں۔ صلہ الارحام بعض لوگ بڑا صدقہ خیرات کرتے ہیں۔ باہر روزے کی افطاریاں بڑے دھوم دھام سے کرتے ہیں۔ مگر ان کے خونی رشتے بھوک کے ساتھ مررہے ہوتے ہیں۔ بہن، بھائی، اعزہ و اقارب انہیں کھانا میسر نہیں ہے وہ زندہ رہنے کے لیے حرام خوری اور حرام کاری پر مجبور ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ لوگ دین ذبح کررہے ہیں ایمان کاٹ رہے ہیں۔ اس صورت میں باہر کی خیراتیں کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ سب سے پہلے اپنے خونی رشتوں کو محتاجی سے نکالیں۔ پانچویں نمبر پر فرمایا رات کے اندھیروں میں نماز پڑھنا۔
اللہ رب العزت نے اپنا حق پانچویں نمبر پر بیان کیا چاروں حق اپنی مخلوق کے بیان کیے۔ اپنے بندوں کے حق پہلے رکھے تاکہ ان کی زندگی سے مشکلات ختم ہوں۔ ان کو راحت ملے۔ یہ ہے پیمانہ محمدی ﷺ اخلاقیات کا۔ اگر محمدی پیمانہ زندگی میں آجائے اور محمدی اخلاق میں رنگ جائیں۔ تب تعلق معنوی حاصل ہو گا۔ آپ قلباً، معناً جڑ گئے یعنی حضور علیہ السلام کی محبت آپ کے سامنے رہے۔ آپ ﷺ کی مطابعت و احکام سامنے رہیں۔ اوامر و نواہی سامنے رہیں۔ دوسری صورت یہ ہے آپ ﷺ کے اخلاق آپ ﷺ کی زندگی میں چھا جائیں۔ آپ اپنی طبیعت سے نکل جائیں۔ اخلاق محمدی اختیار کریں۔ اپنے مزاجوں کی سختیاں ترک کر دیں۔ طبیعتوں کی تنگیاں ترک کر دیں۔ طبیعتوں کے بغض و عناد ختم کر دیں۔ یہ بشری نفسی شیطان کی طبیعتیں ہیں جو نفرت، انتہا پسندی پیدا کرتی ہے۔ ایک دوسرے سے دور لے جاتی ہیں۔ انسان انا میں رہتا ہے انا سے نکلیں اور عالمیت میں داخل ہوں۔ میں سے نکلیں، جو شخص اپنے آپ کو نہیں دیکھتا خلق خدا کو دیکھتا ہے۔ خدا ہر وقت اس کو دیکھتا ہے ایک دن میں ستر ستر بار اس کے دل کو دیکھتا ہے۔
ہمیں جس اخلاق محمدی میں فنا ہونا ہے میں اس عمل تجدید کی بنیاد رکھ رہا ہوں ہر شخص کو عمل تجدید کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ اس کے چند نمونے دینا چاہتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں جب پہلی وحی نازل ہوئی اس موقع پر حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کی ایک جھلک بیان کی۔ سیرت کیا ہے؟ آپ ﷺ کے اخلاق ہیں یہ پہلا بیان ہے۔ جو آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ بیان دیتی ہیں جو پندرہ سال آپ ﷺ کے ساتھ گزار چکی ہیں جو آپ ﷺ کے لیل و نہار کو دیکھ چکی ہیں۔ یہ بیان وہ پبلک کو نہیں دے رہیں بیوی پبلک میں اپنے شوہر کے اخلاق کو بیان کرتے ہوئے اپنے شوہر کی عزت رکھتی ہے۔ جب کہ یہ بات گھر کے اندر خلوت میں ہورہی ہے تیسرا کوئی شخص سننے والا نہیں ہے۔ سچی تصویر بیان کرتی ہیں۔ آپ ﷺ خونی رشتہ داروں کےساتھ ہمیشہ بھلائی کرتے ہیں۔ آپ ﷺ ہمیشہ سچی بات کرتے ہیں۔ کمزوروں، ناداروں، یتیموں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں۔ غریبوں، فقیروں کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کرتے اور ان کی مدد فرماتے ہیں۔ ہر مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں، مشکلات میں ان کی مددفرماتے ہیں جو شخص مصیبت میں پڑا جائے آپ ان کی مدد فرماتے ہیں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا نقشہ آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ نے کھینچا ہے۔ 15 سال زوجیت میں رہنے کے بعد زوجیت کا مشاہدہ دیا ہے۔ حضور ﷺ کے اخلاقیات کو اپنے اندر دیکھنا ہے کیا یہ اخلاقیات ہمارے اندر ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو کس کا رنگ ہم نے لیا ہے۔ کون سا تعلق ہے؟ کون سا معیار ہے؟ لہذا ہمیں حضور ﷺ کے اخلاق میں فنا ہونا ہوگا۔ حضور ﷺ کے اخلاق و آداب کا رنگ چڑھا ناہوگا تب معاشرہ مصطفوی معاشرہ بنے گا۔
حضرت جعفر بن طیارؓ نجاشی کے دربار میں ایک بیان دیتے ہیں۔ اے شاہ حبشہ ہم جاہل لوگ تھے مردار کھاتے تھے۔ ہم بتوں کو پوجتے تھے بے حیائی کے کام کرتے تھے۔ رشتہ داریاں توڑتے تھے، پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے۔ ہمارے معاشرے میں ہر طاقتور کمزور کو کھا جاتا تھا۔ کسی کی حق کی پرواہ نہیں تھی نہ کسی کی عزت کی پرواہ تھی نہ جان نہ مال نہ کوئی حیا تھا نہ شرم ہم اسی طرز زندگی پر چلے آرہے تھےحتی کہ اللہ رب العزت نے ہم میں اپنا رسول ﷺ مبعوث فرمایا۔ ہم جس کے حسب و نسب کو بھی جانتے تھے۔ صادق و امانت کو جانتے تھے۔ ان کی عفت و عصمت کو جانتے تھے۔ اب شاہ حبشہ پوچھتا ہے انھوں نے تمھیں آکر کیا مذہب دیا۔ کیا تعلیم دی حضرت جعفر نے کہاوہ آئے اور انھوں نے ہمیں کہا بتوں کی پوجا چھوڑ دو ایک خدا کی عبادت کرو۔ (المسند امام احمد)
حضرت جعفر بن طیارؓ اپنا قول یہاں سے بھی شروع کرسکتے تھے یہ ترتیب سمجھے بغیر ہمیں اخلاق محمدی ﷺ کی سمجھ نہیں آسکتی۔ ہمارا سارا زور ظاہر پر ہے۔ نبی کریم ﷺ آئے انھوں نے ہمیں حکم دیا سچی بات کرنی ہے جھوٹ نہیں بولنا۔ امانت ادا کرنی ہے۔ خونی رشتوں کے ساتھ بھلائی کرنی ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے۔ حرام و ناجائز کاموں سے بچنا ہے، قتل و غارت اور خون خرابے سے بچنا ہے، جان کا تحفظ کرنا ہے، بے حیائی و برائی کے کاموں سے بچنا ہے، یتیم کا مال کھانے سے بچنا ہے، پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے بچنا ہے۔ دس چیزوں جو معاملات کی ہیں حقوق انسانی کی ہیں۔ اخلاقیات کی ہیں گیارہویں مقام پر فرمایا ایک اللہ کی عبادت کرنی ہے، کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا یہ ترتیب بیان فرمائی۔ آقا علیہ السلام کا انسانوں کی کردار سازی میں کتنا دھیان تھا آپ ﷺ کی ترجیحات کتنی زیادہ تھی۔ صحابہ کرامؓ نے جو حضور ﷺ کو سمجھا آپ ﷺ کے دین کو سمجھا آپ ﷺ کی زبان مبارک اور عمل مبارک سے وہ فہم کیا تھا وہ فہم میں اب تک منتقل کرنا چاہتا ہوں۔
جب تک یہ فہم ہمارے دل و دماغ میں نہیں آئے گا اور اپنی زندگی میں اتار نہیں لیتے امن و سکون کا سر چشمہ نہیں بن سکتے ہم خیر نہیں پا سکتےآپ ﷺ کی حیات مبارکہ کے چند عملی نمونے درج زیل ہیں۔ حضرت جبیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں بعض اوقات ہم اچھے اخلاق اپناتے ہیں جب حالات کا دباؤ آتا ہے اور مشکلات آتی ہیں وہ پریشانی میں جھنجلاتا ہے جو آج پاکستان کا حال ہے پھر وہ متزلزل ہو جاتا ہے وہ جو اپنے کردار کو سنبھال کر چل رہا ہوتا ہے، نہیں چل سکتا ذہن و دل میں سکون کی کیفیت تھی وہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔
جب آپ ﷺ غزوہ حنین سے واپس لوٹےارد گرد کے بدو آپ ﷺ سے مال غنیمت لینے کے لیے آپ ﷺ کی طرف دوڑے آپ ﷺ کو گھیر کر ایک درخت کے ساتھ لگا دیا انھوں نے آپ ﷺ کی چادر چھین لی آقا علیہ اسلام نے اس موقع پر فرمایا میں آپ کو اتنا دوں گا کہ آپ مجھے کبھی بخیل نہیں سمجھو گے فرمایا: میری چادر تو واپس کر دوکیا انسانیت ہے اورخوش طبعی ہے غصہ نہیں، ناراض نہیں ہوئےاس برداشت و حلیمی کو زندگی میں پیدا کرنا ہےاس کے بغیر جلنے سے نہیں بچ سکتے آگ آپ نے نہیں جلائی کسی اور نے جلائی ہے اگر آپ سارے معاشرہ کی آگ نہیں بجھا سکتے تو اپنے اندر کی آگ تو بجھائیں یہ تبھی ہو گا جب اس طرح کی طبیعت پیدا کریں گے۔
اس طرح ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں ایک بدو آیا اس نے آقا علیہ السلام سے کیا عرض کیا: میرے حالات خراب ہیں میری مدد کریں۔ آقا علیہ السلام نے اس کی مدد کردی اس نے جو مانگا عطا کر دیا آقا علیہ اسلام نے اس سے پوچھا کہ اس کی ضرورت پوری ہو گئی کہ نہیں جو کچھ میں نے دیا ہے راضی ہے کہ نہیں اس نےنہیں مزید کہا آپ نے میرے ساتھ کوئی اچھائی نہیں کی۔ اتنے میں جو صحابہ کرامؓ کھڑے تھے۔ وہ غضب ناک ہوگئے اتنی بے ادبی سے منع کرنے کے لیے اس کی طرف دوڑے۔ آقا علیہ السلام نے منع کردیا۔ اسے لے کر گھر چلے گئے اندر جاکر گھر میں جو کچھ تھا وہ بھی اسے دے دیا۔ اتنا دے دیا کہ اس کی جھولی بھر دی پھر پوچھا خوش ہواس نے کہا ہاں اب خوش ہوں۔ جب آپ ﷺ نے جو پہلی بار دیا کہ وہ بھی کم نہیں تھا کیونکہ وہ کم دینے والے نہیں تھے۔
43 سال عرصہ گزرنے کے بعد حالات بدل گئے نسلیں بدل گئیں۔ زمانے بدل گئے ماحول بدل گیا۔ لوگوں کے طور طریقے بدل گئے۔ سیاسی بگاڑ نے زندگیاں بربادکردیں، اب زندگی میں بگاڑ ہے۔ اقتصادی و معاشی زندگی میں بگاڑ ہے۔ معاشی زندگی کا اتنا زیادہ دباؤ ہے کہ وہ حلال و حرام کا فرق بھی مٹا رہا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور تباہ حال اتنا دباؤ ہے کہ انسان سے انسان کی انسانیت ختم ہورہی ہے۔ طبیعتوں کے اندر سے حلم بردباری اور برداشت ختم ہوچکی ہے
پہلی بار بھی دیا ہو گا تو اس کا گھر بھردیا ہوگا۔ اس شخص کے زاویے سے دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس کی ضرورت پوری ہوگئی کہ نہیں۔ اس کی پریشانی کا حل چاہتے ہیں۔ اس نے کہا نہیں گھر جاکر اور دیا پھر اس نے کہا مطمئن ہو خوش ہو۔ اس سے عجیب تر آپ ﷺ نے گھر کے اندر اس سے پھر فرمایا: میں نےتمھیں دے دیا تم خوش ہوگئے مگر جو بات تم نے پہلے کہی تھی۔ صحابہؓ نے سنی ان کے دل میں آپ ﷺ کے بارے میں ملال آگیا ہے۔ اب وہ اچھی رائے نہیں رکھتے۔ میں چاہتا ہوں ان کی رائے بھی آپ کے بارے میں اچھی ہوجائے اور ان کا ملال بھی دور ہوجائے۔ یہ بات جو مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں راضی ہوں یہ بات ان کو کہہ دو تاکہ ان کے دلوں میں بھی بوجھ ختم ہوجائے۔ آپ کے بارے میں بری رائے ہی نہ رہے۔ آپ کی عزت بھی برقرار رہے اس کو سخاوت نفس کہتے ہیں۔ ایک سخاوت مال ہے۔ سخاوت نفس آپ ﷺ اپنی نفس میں بھی کسی کی طبیعت کا بوجھ برداشت نہیں کرتے۔ کسی کے دوسرے کے بارے میں برا خیال بھی برداشت نہیں کرتے۔
حضرت زید بن سہنا ایک صحابی ہیں یہودیوں کے عالم تھے بعد میں اسلام قبول کرلیا وہ بیان کرتے ہیں کہ سچے پیغمبر کی جتنی علامات تھیں ساری میں نے آپ ﷺ کے چہرے میں دیکھ لیں۔ ایک علامت رہ گئی تھی وہ یہ کہ اگرکوئی اللہ کا سچا نبی ہے اگر کوئی اس کے ساتھ بیہودگی کے ساتھ پیش آئے تو اس میں بردباری برقرار رہتی ہے۔ دوسری بات اگر کسی شخص کی بے ہودگی بڑھتی چلی جائے، ان کی بردباری بڑھتی چلی جاتی تھی یا رک جاتی ہے۔ کیونکہ ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا۔ لوگ بے ہودگی کی بات کریں گے تو یہ بردباری بڑھاتے چلے جائیں گے۔ حتی کہ ان کی بردباری ان کے بے ہودگی پر غالب آجائے۔ میں اس علامت کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اس علامت کو دیکھنے کے لیے میں انتظار میں رہا۔ وہ اپنی کہانی سنارہے ہیں۔ ایک شخص آیا اس نے کہا یارسول اللہ ﷺ میں اپنے قبیلے کے لوگوں کو کہا اگر آپ اسلام قبول کریں۔ رسول اللہ ﷺ تمھارے گھر مال و دولت سے بھردیں گے۔ میں نے وعدہ کرلیا ہے۔ اب وہاں بڑا سخت قحط آگیا ہے۔ مجھے ڈر ہے وہ اسلام چھوڑ کرنہ چلے جائیں۔ آپ ﷺ مجھے کھانا، پینا دیں تاکہ میں قبیلے میں جاکر بانٹوں۔ اب آقا علیہ السلام کے پاس اس وقت پیسے تو نہیں تھے۔ آپ ﷺ نے کسی کو کہا کوئی ہے مجھے قرض دے دے میں اس قبیلے کو کھانا بھجوادوں۔ 80 دینار آقا علیہ السلام نے قرض لے کر کھانا اس قبیلے کو بھجوایا۔ ایک مہینے کے بعد قرض مانگنا بنتا ہے دو تین دن گزرے تھے کیونکہ میں نے چیک کرنا تھا۔
آپ ﷺ جنت بقیع میں کسی جنازے پر تشریف لے گئے۔ صحابہ بھی ساتھ تھے جب جنازے سے فارغ ہوئے آپ ﷺ ایک دیوار کے پاس کھڑے ہوگئے۔ میں آپ ﷺ کے پاس چلا گیا میں نے آپ ﷺ کی چادر کھینچ لی۔ میں سخت لہجے کے ساتھ بڑی بے ہودگی کے ساتھ کہا۔ اے محمد ﷺ میرا قرض واپس کیوں نہیں کرتے۔ پھر میں نے کہا ابوالمطلب کی ساری اولاد ایسی ہے سب کا یہی حال ہے قرض کھا جاتے ہیں۔ واپس نہیں کرتے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کھڑے تھے جلال میں آگئے۔ خدا کے دشمن اگر آقا علیہ السلام کھڑے نہ ہوتے تمھارا سر اڑا دیتا۔ تمھیں شرم نہیں آتی کیا بات کررہے ہو؟ آقا علیہ السلام نے تبسم فرمایا۔ فرمایا عمر! اس کو ساتھ لے جاؤ نبوی خزانے سے اس کا پورا قرض بھی ادا کردو اور 20 صاع اور بھی بڑھا کر دے دو۔
حضرت زید بن سنہاؓ نے پوچھا اے عمر مجھے زیادہ کیوں دے رہے ہو؟ مجھے آقا علیہ السلام نے حکم دیا ہے۔ اس پر عمر سے پوچھا اے عمر! مجھے پہچانتے ہو میں کون ہوں؟ انھوں نے کہا میں نہیں پہچانتا۔ انھوں نے بتایا میں زید بن سہنا ہوں حضرت عمر نے کہا جو اتنا بڑ اعالم ہے۔ تم نے عالم ہوکر ایسا رویہ کیوں اختیار کیا؟ درست بات ہے توقع نہیں تھی۔ میں نے اتنی بے ہودگی اس لیے کی کہ یہ سچا پیغمبرہے یا نہیں۔ میں ان کی بردباری کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔ ان کاحلم دیکھنا چاہتا تھا جب میں ان کا یہ عالم دیکھا تو میں پہچان گیا یہ اللہ کا سچا رسول ہے۔ اے عمر! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں میں ایمان لے آیا۔ اللہ میرا رب ہے۔ اسلام میرا دین ہے اور محمد ﷺ میرے نبی ہیں۔ بردباری اخلاق کی روح ہے۔ اخلاق کی کنجی ہے جب کہ ہم غصہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری طبیعت جلالی ہے جلال کا کتنا برا استعمال ہے۔
ہم نیکی کا کام کرتے ہیں اور کسی کی چھوٹی سی خطا برداشت نہیں کرسکتے۔ اگر لوگوں کا برتاؤ سختی ہے لیکن جواب میں سختی نہیں آنی چاہیے۔ جب آقا علیہ السلام کے اخلاق کے آئینے میں خود کو دیکھیں۔ آئینے میں خود اپنے اخلاق کو دیکھیں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ دین کے داعی مبلغین دیکھیں کوئی جوڑ ہے مزاج محمدی ﷺ کے ساتھ کوئی نسبت ہے اخلاق محمدی ﷺ کے ساتھ۔ اگر اخلاق محمدی کا رنگ نہیں چڑھا تو ہم نے حاصل کیا کیا ہے؟