اسلام کے افکار دلیل کی قوت سے زندہ ہیں

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ.

(الشوریٰ، 42: 13)

’’دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف بپا مت کرو۔‘‘

دین اسلام زندگی گزارنے کے ایسے طریقے کا نام ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ اور سیرت انبیاء کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہو اور اس طریق حیات میں ہر دور کے انسانوں کی نجات ہے۔ رواداری کی زندگی یہ سیرت مصطفی ﷺ کا طرہ امتیاز اور انبیاء علیہم السلام کی روشن حیات کا حاصل ہے۔ دین اسلام تو سراسر رواداری، تحمل اور برداشت کا نام ہے۔ اسلام بطور نظام حیات اپنی ان ہی اعلیٰ اور ارفع اقدار کی وجہ سے عنداللہ مقبول ہے اور عند الناس بہترین زندگی کا صراط مستقیم ہے۔ باری تعالیٰ نے اسلام کے اسی طریق حیات کو تمام معیاری صفات حیات کا مرقع بنایا ہے اور انسانی حیات کی تمام تر اعلیٰ اقدار کا اسے جامع بنایا ہے اور ان بلند تر معیارات کی بنا پر اسلامی حیات کے ارفع ہونے کا اعلان یوں کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ.

(آل عمران، 3: 19)

’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘

اس دین میں انسانی رواداری اس قدر ہے کہ اس میں کوئی زور و زبردستی نہیں ہے۔ کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے۔ اسلام نے اپنے روادارانہ طرز عمل کی بنا پر کسی فرد کو بھی ایمان لانے پر مجبور نہیں کیا ہے اور کسی کو بھی اپنی پسند اور ناپسند کی بنا پر کفر کی طرف اور ظلم کی طرف نہیں دھکیلا ہے بلکہ اپنے بے پناہ رواداری کے جذبے کے ساتھ اپنے بڑے سے بڑے دشمن اسلام کو بھی ہر سطح اور ہر موقع پر انسانیت کی خاطر برداشت کیا ہے۔ ایمان کی قبولیت اور عام قبولیت کو انسان کی منشا اور سمجھ پر چھوڑ دیا ہے۔

فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ.

(الکهف، 18: 29)

’’جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔‘‘

صرف اتنا ضرور بتایا ہے کہ کفر کا راستہ ظلم کا راستہ ہے اور خدا کی خدائی سے ٹکرانے کا راستہ ہے اور یہ کفر ہی سب سے بڑا ظلم ہے۔

اِنَّـآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا.

(الکهف، 18: 29)

’’ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے۔‘‘

اسلام اپنے افکار و نظریات کو دلیل و حجت کی قوت سے ہر زمانے میں زندہ رکھتا ہے اور یہ اپنے افکار و نظریات کو تلوار کی طاقت پر دوسروں پر مسلط نہیں کرتا ہے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو قوت اختیار اور طاقت اقتدار کے ذریعے زبردستی اپنے اندر ضم نہیں کرتا ہے۔ یہی اسلام کا سب سے بڑا روادارانہ کردار ہے جس پر اسلام نے نص قطعی وارد کرکے اپنے ماننے والوں کو یوں پابند کردیا ہے۔

لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ.

(البقرة، 2: 256)

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔‘‘

اسلام نے خلق رواداری سکھاتے ہوئے دوسروں کے مذہبی شعائر کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ فَیَسُبُّوا اللهَ عَدْوً م ا بِغَیْرِ عِلْمٍ.

(الانعام، 6: 108)

’’اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔ ‘‘

ہر انسان خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اس کو فطرتی طور پر اپنے مذہب اور اپنی عبادت گاہ سے والہانہ عقیدت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ ظالمانہ اور مفسدانہ رویہ اختیار کرنے سے ان کے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور عداوت کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اور پھر ایسے لوگوں کو اپنے مذہب کے دفاع میں جب بھی موقع ملتا ہے تو ان کے جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور ہر طرح کے تشدد اور فساد پر اتر آتے ہیں۔ جس سے پورا شہر اور ملک دہشت، بدامنی اور فساد و فتنے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے رواداری کا خلق سکھاتے ہوئے قرآن نے یہ درس حیات دیا ہے تم ان کے جھوٹے خداؤں کو بھی گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ردعمل میں تمھارے سچے خدا کو جہالت اور لاعلمی کی بنا پر گالیاں دینے لگیں، خلق رواداری کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہے کہ تم اپنے سچے خدا کو اپنی احمقانہ چالوں اور اپنی جاہلانہ روشوں اور اپنی بدتمیزانہ عادتوں اور اپنی گستاخانہ باتوں اور اپنی افسانہ ساز تبلیغوں کے ذریعے اپنے سچے خدا کو دشنام طرازیوں کا محل نہ بناؤ۔

تم اگر اپنے سچے خدا کی شان سبحانیت، شان عظمت اور شان کبریائی کے ڈنکے نہیں بجاسکتے تو اپنے اخلاق و کردار کی اسفلیت سے اس کی شان اعلیٰ و ارفع کو شان تنزل اور شان اسفل نہ لاؤ۔ تم خلق رواداری کو رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے ہر قول سے اور ہر فعل سے اور ہر حال سے سیکھو اور آپ کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین سے سیکھو جن کو باری تعالیٰ نے نجوم ہدایت بنایا ہے۔

الصحابی کالنجوم بایهم قتدیتم اهتدیتم.

آؤ اس سلسلہ نجوم ہدایت کے فرد اولین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے خلق رواداری سیکھو۔ آپ نے کفار کے ساتھ روادارنہ عمل یہ اپنایا کہ ان کے مذہبی معاملات میں رواداری کے لفظ کو معنویت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

لایهدم لهم بیعۃ ولا کنیۃ ولا قصر من قصورهم التی کانوا یتحفون اذا نزل بهم عدولهم ولا یمنعون من ضرب النواقیس ولا من اخراج الصلبان فی عیدهم.

ان کے چرچ اور ان کے کلیسے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی ان کی کوئی ایسی عمارت گرائی جائے گی جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے حملوں میں قلعہ بند ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کو ناقوس اور گھنٹیاں بجانے سے روکا جائے گا اور نہ ہی ان کو اپنے مذہبی تہواروں کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکا جائے گا۔ (لابی یوسف، ص: 173)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا روادارانہ خلق ملاحظہ فرمائیں۔ آپ غیر مسلموں کے ساتھ خلق رواداری کا یوں برتاؤ کرتے کہ یہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیرالمومنین نے اہل ایلیا کو دی ہے اور یہ امان، ان لوگوں کی جان، مال، مذہبی عبادت گاہ گرجا اور صلیب اور ان کے تندرست اور بیمار حتی کہ ان کے تمام اہل مذہب کے لیے ہے۔ان کے کسی گرجا گھر میں کوئی سکونت اختیار نہیں کرے گا اور نہ ہی ان گرجا گھروں کو گرایا جائے گا اور نہ ہی ان کے احاطوں کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ نہ ہی ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کمی کی جائے گی اور نہ ہی ان کے مذہب کے بارے میں کسی قسم کا جبر کیا جائے گا اور نہ ہی ان کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔ (الفاروق، 2: 137)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اہل نجران کی طرف سے ان کے سردار کے ذریعے شکایت پر اُن کو وہ ساری زمین لٹادی جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو عطا کی تھی اور فرمایا اپنے عمال کو حکم جاری کیا اہل ذمہ کے ساتھ بھلائی کرو اور ان کے سارے حقوق پورے کرو۔ (کتاب الخراج، 27)

اور خلق رواداری، باب العلم، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے سیکھو، جب ان کے گورنر عمرو بن مسلمہ کے بارے میں کچھ غیر مسلموں نے ان کی سخت گیری اور سخت مزاجی کی شکایت کی تو آپ نے اپنے گورنر کو لکھا۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے علاقے کے غیر مسلموں کو تمہاری سخت مزاجی کی شکایت ہے اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ نرمی اور سختی دونوں سے کام لو لیکن اس بات کا خیال کرو کہ تمہاری سختی ظلم کی حد تک نہ پہنچ جائے اور ان کے خون سے اپنا دامن کو محفوظ رکھو۔

اسلام کا خلق رواداری مجادلہ احسن سے اور دفاع احسن سے تشکیل پاتا ہے۔ اس دنیا میں جتنا بھی ذخیرہ اخلاق ہے، اسلام کا خلق رواداری اس سارے ذخیرہ اخلاق میں نادر الوجود ہے اس اعتبار سے کہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب نے اپنے عقیدے اور مذہب کے دشمنوں کے ساتھ وہ عفو و درگزر اختیار نہیں کیا ہے جو صرف اور صرف اسلام نے اختیار کیا ہے اور اس کے ہزاروں عملی ثبوت تاریخ کے صفحات پر جلی قلم کے ساتھ ثبت ہیں۔ اسلام خلق رواداری کو فروغ دینے کے لیے اپنے دشمن کے ساتھ بھی حکمت و دانائی جدال احسن اور دفاع احسن کے رویے کو اپنانے کی یوں تعلیم دیتا ہے:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.

(النحل، 16: 125)

’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔‘‘

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ.

(فصلت، 41: 34)

’’اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔‘‘

خلق رواداری ہمیشہ دشمنوں، مخالفوں، منکروں، بدخواہوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزر، ہمدردی و غمخواری اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا ہے۔ اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ کس قدر ظلم و زیادتی کی ہے۔ ہر کوئی آگاہ ہے انھوں نے کئی بار آپ پر قاتلانہ حملے کیے۔ ایک مرتبہ تمام قبائل کے افراد نے مل کر آپ کو آپ کے گھر میں قتل کرنے کا مذموم ارادہ کیا۔ حتی کہ ان کے بے پناہ ظلم و ستم اور اندھی مخالفت اور بدترین عداوت اور مکروہ مخاصمت کی بنا پر آپ نے اپنا محبوب شہر اور خانہ کعبہ کو حکم ربانی کے تحت بصورت ہجرت الوداع کہہ دیا۔ لیکن 9 سال کے بعد جب اسی شہر میں آپ کا قبضہ ہوگیا اور آپ فاتحانہ شان کے ساتھ اس شہر مکہ میں داخل ہوئے تو شہر مکہ کا وہی ظالم اور جابر دشمن آپ کے سامنے بے بس اور بے سہارا اور عاجز و منکسر ہوکر کھڑا تھا۔ اپنی جان کی امان آپ کے اشارہ ابرو میں اور آپ کے حکم میں دیکھ رہا تھا، آج وہ اپنی دائمی اور مسلسل مخالفتوں اور عداوتوں کی بنا پر خود کو قتل کا مستحق سمجھ رہا تھا۔ ہر فاتح اپنے دشمن کے ساتھ اس موقع پر خون کی ندیاں خوب بہاتا ہے اور اپنے طویل بھڑکتے ہوئے انتقام اور اس کی آگ کو اچھی طرح ٹھنڈا کرتا ہے اور اپنے دشمن کو عبرت کا نشان بناتا ہے مگر سب انسانوں کے عظیم رہبر اور رہنما نے اپنے خلق رواداری کو اس موقع و محل انتقام میں بھی برقرار رکھا۔ اہل مکہ کی ملتجانہ اور ملتمسانہ طالب رحمانہ نگاہوں کو یہ جواب دے کر دنیائے انسانیت میں اپنے خلق عظیم کی گواہی اور شہادت اپنے جان کے دشمن سے بھی یوں ثبت کرائی:

لا تثریب علیکم الیوم یغفرالله لکم اذهبوا و انتم الطلقاء.

(ابن هشام، 2: 273)

’’آج تم پر کوئی الزام نہیں ہے۔ اللہ تمھاری غلطی معاف کرے جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘

وحشی، جو رسول اللہ ﷺ کے عزیز ترین چچا کا قاتل تھا اور ہند زوجہ ابو سفیان جس نے سیدنا امیر حمزہ کا سینہ مبارک چاک کیا تھا اور دل و جگر کو چبایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہر ایک اپنے دشمن کو اور اسلام کے دشمن کو معاف کردیا۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قتل حمزہ، کتاب الفضائل، ذکر ہند)

عکرمہ جو اسلام کے شدید ترین دشمن ابوجہل کا بیٹا ہے اور جس کی دشمنی اسلام ابو جہل سے کم نہ تھی اس کو بھی معاف کردیا۔ (موطا امام مالک، کتاب النکاح، باب نکاح المشرک)

عمرو بن وہب جس کو صفوان بن امیہ نے رسول اللہ ﷺ کے قتل کرنے کے لیے مامور کیا تھا اس کو بھی آپ نے معاف کردیا۔ (سیرت ابن ہشام، 2: 270)

ابو سفیان جو اسلام کا دشمن تھا سردار مکہ تھا فتح کے روز اس کو بھی معاف کردیا حتی کہ یہ اعلان کردیا جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا۔ اس کو بھی امان دی جائے گی۔ (بخاری و مسلم، فتح مکہ)

یہ سب مظاہر اسلام کے خلق رواداری کے ہیں، اس خلق رواداری کو ہر زمانے میں فروغ دینے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو یہ تعلیم سیرت دی ہے۔

ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو سب مل کر خدا کے بندے بن جاؤ اور آپس میں بھی بھائی بھائی بن جاؤ اور دوسری روایت میں فرمایا ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ (منھاج السوی)

اسلام کی اس تعلیم رواداری اور رسول اللہ ﷺ کی اس سنت رواداری اور اس خلق رواداری کو اس دور میں جس ذات نے اس کے تمام تر کامل معانی اور مفاہیم کے ساتھ زندہ کیا ہے، وہ ذات شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی ہے۔ خلق رواداری علم کی وسعت سے آتا ہے علم کی ملت سے یہ فروغ نہیں پاتا ہے۔ یہ خلق رواداری اخلاق حسنہ کے پیکر بننے سے آتا ہے، اخلاق سیئہ کو اپنانے سے میسر نہیں آتا ہے۔ یہ خلق رواداری کردار کی عظمت سے پھوٹتا ہے، داغ دار کرداروں سے جنم نہیں لیتا ہے۔ یہ خلق رواداری کسی عظیم منصب سے ظہور پذیر ہوتا ہے اور کسی خود ساختہ منصب سے عیاں نہیں ہوتا ہے۔ یہ خلق رواداری فیضان رسالتمآب کے بحر بے کناراں سے میسر آتا ہے اور یہ جہاں جاری ہوتا ہے اس کی پہچان اپنوں اور غیروں کی شہادتوں سے کروادیتا ہے، یہ خلق رواداری اس ذات سے پھوٹتا ہے جس کی زندگی کا مقصد ہر سطح پر دعوت دین اور تبلیغ حق ہو اور جس کی زندگی کا پل پل اصلاح احوال امت کے لیے وقف ہو، جس کی زندگی کا سب سے بڑا مشن تجدید و احیائے دین ہو اور جس کی زیست کی ایک ایک ساعت ترویج و اشاعت اسلام کے لیے وقف ہو۔ جس کی حیات کا ہر رخ اور جس کے قول و عمل کا ہر آئینہ اتحاد و یگانگت امت کی فکر کا نظارہ دے اور یہ خلق رواداری اسی کی ذات سے ظاہر ہوسکتا ہے جس نے خود کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر خود کو بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری میں ’’سفیر امن‘‘ دنیا بھر میں اپنے عظیم کردار کی قوت سے ثابت کرایا ہو۔

اور اس خلق رواداری کا پیکر مجسم وہی ذات ہوسکتی ہے جس نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا انسداد کیا ہو اور جس نے معاشرے میں ہر سطح پر امن کو فروغ دیا ہو اور اعتدال کی اعلیٰ قدروں کو ترویج دی ہو۔ جب ہم اس عصری معیار خلق رواداری کے ساتھ شیخ الاسلام کی ذات اقدس کو دیکھتے ہیں تو اپنے بھی اور بیگانے بھی ان کے خلق رواداری کی گواہی اور شہادت دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے خلق رواداری کے تحت اقامت دین اور احیائے اسلام کی جدوجہد کو صحیح معنوں میں ان اقیمو الدین کا حامل بنایا ہے۔ اپنی دینی دعوت کو ولا تتفرقوا فیہ کسی قسم کی فرقہ واریت میں ملوث اور مبتلا نہیں ہونے دیا ہے۔

انھوں نے اپنی دعوت کو دلیل اور علم کی قوت دے کر فمن شاء کی کھلی فضاؤں میں رکھا ہے اور اپنی دعوت کو آج تک لااکراہ کے درجے میں رکھا ہے۔ اپنی دعوت کے انکار سے کسی کو بھی اپنے فتویٰ کا نشانہ نہیں بنایا ہے اور اپنے فتویٰ کو کسی بھی فروع دین میں استعمال نہیں کیا ہے بلکہ ہمیشہ صرف اور صرف اپنے فتویٰ کو اصول دین میں اور وہ بھی بہت بڑی احتیاط کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ان کے خلق رواداری کی سب سے بڑی شہادت اور گواہی یہ ہے کہ دین کے ہر مسلک، ہر مکتب فکر اور ہر داعی کو اپنے قول و فعل میں اپنی تقریر و تحریر میں، اپنی گفتگو و بیان میں کسی کو بھی ذاتی عناد کی بنا پر تسبو کے عمل سے نہیں گزارا ہے بلکہ اپنے خلق رواداری کو اپنی ذات کے لیے اور اپنے رفقاء اور وابستگان کے لیے ولا تسبو کے دائرے میں مقید رکھا ہے۔

عصر حاضر کے دور فتن میں طرح طرح کے فرقوں اور طبقوں میں بٹنے والی امت کے احوال کی اصلاح کے لیے ایسے ہی منصب کی حامل ذات کو شیخ الاسلام کہتے ہیں جس کا خلق رواداری اپنے زمانے کے سب لوگوں سے افضل ہو اور سب لوگوں کے لیے قابل مثال ہو اور سب کے لیے قابل تقلید ہو، جس کا ہر ادارہ اسلام کی پہچان ہو، جس کا ہر ارادہ اسلام کی عظمت کا نشان ہو، جس کا ہر قول اسلام کی سربلندی کا عنوان ہو، جس کا ہر عمل اسلام کی عظمت کا پیغام ہو، جس کا ہر ایک تلمیذ، رفیق اور وابستہ اسلام کی سطوت اور شوکت کے قیام کا راہی ہو، جس کا آفاقی پیغام اقامت دین کا ہو، جس کی فکر احیائے اسلام کی ہو، جس کا جینا اور مرنا رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں اس عظیم مقصد کے لیے ہو۔

هُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهٖ.

(الفتح، 48: 28)

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے۔‘‘

مزید ارشاد فرمایا:

حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّهٗ ِللهِ.

(الانفال، 8: 39)

’’تم ان (ظلم و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (قیامِ اَمن کے لیے) جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے۔ اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘

اس فکر قرآن کی حامل ذات کو شیخ الاسلام کہتے ہیں جس کے دامن میں فرقہ واریت نہیں ہے، جس کی صحبت اخوت فی الاسلام ہے، جس کی سنگت الحب للہ کی خیرات ہے، جس کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں جو اس دور میں اسلام کی توانا آواز ہے اور جس کی فکر کا ایک ایک حرف اسلام کی سربلندی اور رفعت کی دعوت دیتا ہے۔ جس کی سینکڑوں کتب اور ہزاروں خطابات اسلام کی آفاقی تعلیمات کو گروہ اور مسلک کی محدود وفاداریوں سے بالاتر، اسلام کی آوازاور اسلام کا پیغام بن کر ہر ایک مسلمان کو دعوت فکر یوں دے رہے ہیں کہ

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.

(آل عمران، 3: 103)

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘

کلام یہ ہے کہ میرا قائد جو عظیم ہے میرا مربی جو بے مثال ہے، میرا معلم جو معلم عصر ہے، میرا راہنما جو باکمال ہے، میرا محسن جو بے نظیر ہے، ہمارا شیخ الاسلام جو عصر حاضر میں اسلام کی شناخت اور پہچان اور اسلام کی توانا آواز ہے جس کے علم و فکر کو خدا نے سمندروں کی وسعت دی ہے۔ جو عصر حاضر میں مزاج دین کو خوب جانتا ہے۔

سمندروں کی وسعت دل و نگاہ میں ہے
مزاج دین سے بے شک ہیں آشنا طاہر

میری زبان مزید بیان کرنے سے اور میری قلم مزید لکھنے سے خاموش ہے۔ اس لیے کہ فکر ہرکس بقدر ہمت اوست۔ میری قلم اور میری زبان شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کے لیے فقط اتنا اظہار ضرور کرنا چاہتی ہے۔

قلم خموش ہے لکھے تو کیا لکھے آخر
بیان و لفظ سے بے شک ہے ماوراء طاہر