شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ہمہ جہت شخصیت کی ترکیب تو بظاہر تین الفاظ کا مجموعہ ہے مگر محسوس یوں ہوتا ہے کہ اس ترکیب کی مصداق شخصیت نہ صرف غیر معمولی ذہانت و فطانت، بصیرت و دانائی اور علم و ثقاہت کی مالک ہوتی ہے بلکہ وہ ظاہری علوم کے ساتھ باطنی و روحانی مقامات پر بھی فائز ہوتی ہے۔ وہ قدرت کی عطا کردہ نورِ علم و معرفت کے ساتھ تشنگانِ علم کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی روحانی توجہات سے متوسلین کی روحانی و باطنی ضروریات کو بھی پورا کرنے کی اہل ہوتی ہے۔ گویا وہ شخصیت ظاہری علوم و معارف کی متنوع جہات میں یدِ طولیٰ رکھنے کے ساتھ ساتھ باطنی و روحانی جہات کی بھی جامع ہوتی ہے۔ ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنا نہ صرف مشکل بلکہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
محررہ اپنی کم مائیگی کے باوجود ہر سال 19 فروری قائد ڈے کے موقع پر اپنے شیخ و مربی سیدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کے گلستانِ حیات میں کھلنے والے پھولوں میں سے کسی ایک پھول کی خوشبو بکھیرنے کی ادنیٰ جسارت کرتی ہے۔ زیر نظر آرٹیکل بعنوان ’’نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام کو جن بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے نوازا ہے۔ ان خوبیوں میں سے ایک خوبی آپ کی شخصیت میں موجود غیر معمولی جاذبیت و روحانی کشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو سلیم الفطرت انسان آپ سے ملتا ہے، آپ کی صحبت میں بیٹھتا ہے، گفتگو سنتا ہے، وہ نہ صرف آپ کا وارفتہ و گرویدہ ہو جاتا ہے بلکہ آپ کے اخلاقی و روحانی اوصاف اس کے قلب و باطن پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔
قارئین کرام! ناممکن ہے کہ کوئی شخص اخلاص کے ساتھ آپ سے ملے اور وہ آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر نہ ہو۔ اس لیے کہ آپ کی نگاہ بڑی نکتہ رس، نبض شناس اور عمیق ہوتی ہے۔ پریشان کن حالات میں لوگ آپ کی مجلس میں آتے ہیں، تو اتنا پرسکون ہو جاتے ہیں کہ جیسے وہ کسی طویل صحرائی سفر کرنے کے بعد کسی ٹھنڈے نخلستان کے سائے میں پہنچ گئے ہوں۔ کیونکہ آپ اپنے مخاطب کی پریشانی کا حل اور اس کی پیچیدہ سے پیچیدہ گتھی کو آسان ترین انداز میں سُلجھانے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔المختصر! آپ اخلاقِ حسنہ اور حسین ترین خوبیوں کا مرقع ہیں، گویا آپ بادشاہ صفت درویش ہیں۔
دنیا بھر میں موجود تحریک منہاج القرآن کے وابستگان، کارکنان اور رفقاء ایسے سیکڑوں واقعات کے گواہ، عینی شاہد اور خود مدعی ہوں گے کہ آپ کی رہنمائی، کوشش اور دعاؤں کے سبب اُن کے پیچیدہ اور لاینحل مسائل لمحوں میں حل ہو گئے۔
ایسے ہی رفقاء اور وابستگان کے چند ذاتی واقعات معزز قارئین کی نظر کر رہی ہوں کہ کس طرح اُن کے لیے شیخ الاسلام کی دعا بارگاہِ اُلوہیت میں درجۂ قبولیت پر فائز ہوئی اور کس طرح آپ کی روحانی توجہ اُن کے لیے سایۂ عاطفت بنی۔
شورکوٹ سے محترمہ شوقیہ تبسم:
تحریک منہاج القرآن اور قائد تحریک سے اپنی وابستگی یوں بیان کرتی ہیں:
1998ء میں تائیدِ ایزدی سے پہلی بار مجھے منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اجتماعی طور پر منعقد ہونے والے اعتکاف میں حاضری کا شرف نصیب ہوا۔ شیخ الاسلام خواتین اعتکاف گاہ میں جب تشریف لائے تو دورانِ گفتگو آپ نے اعتکاف گاہ میں مختلف مقامات سے تشریف لانے والی خواتین کے مختلف شہروں کے نام لینے شروع کیے، اسی لمحہ میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ شورکوٹ تو مشہور شہر نہیں ہے، آپ اس کا نام کیوں لیں گے۔ اسی سوچ میں گم تھی کہ میری خوشی اور حیرت کی انتہا نہ رہی، شیخ الاسلام نے پوچھا کہ کیا کوئی بہن شورکوٹ سے بھی آئی ہے۔
بس وہ ایک لمحہ تھا جس نے میرے ذہن کو مسحور اور قلب کو منور کر کے میری زندگی بدل دی۔ دس روزہ اعتکاف میں شیخ الاسلام کی روحانیت سے لبریز قوتِ گفتار نے مجھ خاکسار کو زمانوں کا سفر طے کروا کے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ دس روزہ اعتکاف سے گھر واپس آنے کے بعد بھی آپ کے خطابات اور ذکر و فکر کی محافل کے اثرات میرے قلب و باطن میں محسوس ہوتے رہے اور یوں مجھ پر روحانی فیضان کا در وا ہوا۔
ایک رات خواب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کو کھجوروں کے ایک خوبصورت باغ میں دیکھا۔جب آنکھ کُھلی تو خوشی ناقابل بیان تھی۔ پھر پورا دن اس سوچ میں ڈوبی رہی کہ اتنا خوبصورت باغ کونسا ہو سکتا ہے؟ سمجھ نہ آئے کہ کس سے پوچھوں کیونکہ اس وقت مرکز سے میرا رابطہ نہ تھا اور نہ کوئی ایسا ذریعہ تھا کہ شیخ الاسلام سے پوچھتی۔ بس دن رات اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی مولا میری مدد فرما۔ کچھ عرصہ گزرا دوبارہ شیخ الاسلام کو خواب میں دیکھا اور عرض کیا حضور خواب میں، میں نے آپ کو کھجوروں کے ایک خوبصورت باغ میں دیکھا ہے۔ کیا وہ بغداد شریف کا باغ ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، وہ مسجد نبوی کا باغ ہے۔
پھر وہ خوبصورت لمحہ آیا، وقت نے کروٹ بدلی اور خواب نے حقیقت کا روپ دھارا۔ دسمبر 2019ء میں، مسجد نبوی میں شیخ الاسلام کی معیت نصیب ہوئی۔ اسی لگن، شوق، والہانہ عقیدت اور فرط جذبات سے میں نے شیخ الاسلام کو اپنے دونوں خواب سنائے آپ مسکرا دئیے اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازا پھر میں نے نہایت ہی مضطرب ہو کر اپنے بھائی کے لیے دعا کروائی، جو نشے کی لت میں مبتلا ہو چکا تھا۔ آپ نے دعا فرمانے کے ساتھ ساتھ بھائی کا علاج کروانے کی تلقین کی۔
پھر اگلے سال عابد بھٹی صاحب مدینہ طیبہ میں شیخ الاسلام سے جنت البقیع میں ملے اور میری درخواست پیش کی کہ ہم علاج کروا چکے ہیں مگر کوئی افاقہ نہیں، مزید دعا کی درخواست ہے۔ آپ نے سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی بارگاہ میں کھڑے ہو کے گنبدِ خضریٰ کی طرف اپنا رُخ فرما کر دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دئیے۔ الحمد للہ! اس مسیحا کے لبوں سے بھائی کے لیے نکلی ہوئی دعا بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی۔ آپ کے فیضانِ نظر سے بھائی بالکل صحت یاب ہو گئے ہیں اور میرا یقین کامل ہو چکا ہے کہ شیخ الاسلام ولی کامل ہیں۔ آپ کی دعائیں قبول ہوتی اور آپ کی نگاہ شفا بانٹتی ہے۔ آپ دکھی دلوں کے مسیحا، روحوں کی تسکین اور دلوں کا سرور ہیں۔ آپ ایسے قائد ہیں جو ہمارا غرور، ہمارا فخر اور ہمارے دلوں کی دھڑکن ہیں۔
نارووال سے محترمہ آصفہ صفدر:
شیخ الاسلام کی عظیم انقلابی شخصیت کی مجلس کا حال یوں بیان کرتی ہیں:
جنوری 2001ء میں بلدیاتی الیکشن کی تیاریوں کے سلسلہ میں شیخ الاسلام پاکستان کے مختلف اضلاع میں سیاسی دورہ جات کے سلسلہ میں نارووال تشریف لائے۔ آپ نے بھرپور شفقت فرماتے ہوئے مقامی اکابرین سے بنفس نفیس ملاقات فرمائی۔ اسی دوران مجھے بھی اپنے علاقہ کے معززین کے ساتھ شرف زیارت نصیب ہوئی، اکابرین نے سیاسی صورتحال کے تناظر میں آنے والی مشکلات کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: انقلابی جدوجہد کی راہ میں مزاحمتوں اور رکاوٹوں کا حائل ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے۔ آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا آپ ﷺ نے دین کی سربلندی کے لیے اپنے دندانِ مبارک شہید نہیں کروائے؟ کیا آپ ﷺ نے طائف کے بازاروں میں پتھر نہیں کھائے؟ کیا آپ ﷺ کے جسم اطہر کو لہو لہان نہیں کیا گیا؟ آپ کا انداز بیان اس قدر پُر اثر اور سحر انگیز تھا کہ مجھ پر رقت طاری ہونے لگی۔
اتفاقِ سعید کی بات ہے کہ عین اُسی وقت براہ راست شیخ الاسلام کی نگاہ التفات میری طرف اٹھی اور آپ نے فرمایا: کیا آپ مصطفوی مشن میں میرا ساتھ دیں گی؟ میں یہ منظر دیکھ کر ضبط نہ کر سکی اور آنکھوں کے دونوں چھپڑ کھول دیے کہ جتنے آنسو بہہ سکتے ہیں شوق سے بہیں۔ اُس وقت میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ مرتے دم تک اس مرد قلندر کے مشن کا ساتھ دوں گی اور میں نے آپ کے لہجے میں موجود حرارت کو اپنا جوش و جذبہ جانا اور اپنا تن من دھن لٹانے کا عہد کیا۔
اس دن سے آج تک الحمد للہ مصطفوی مشن کے ہر مقامی اور مرکزی معرکہ میں صف اول میں موجود رہی ہوں۔ سکیورٹی کے فرائض انجام دیتے ہوئے، سردیوں کی منجمد کرتی راتیں ہوں یا گرمیوں کی حبس زدہ راتیں، حکومت وقت کی طرف سے بربریت کا ساماں ہو یا روحانی و تربیتی اجتماعات، منہاج القرآن ویمن لیگ کا کام ہو یا کالج کی ہاسٹل وارڈن کا ہر قسم کی مسافتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قائد تحریک کی آواز پر ہمیشہ لبیک کہا ہے اور اب منہاج گرلز کالج میں کنٹرولر امتحان کی ذمہ داری سر انجام دے رہی ہوں۔ بلاشبہ یہ سب ہمتیں، طاقتیں اور حوصلے اسی توجہ اور التفات کے طفیل ہیں جو آج سے دو دہائیاں قبل مجھے نصیب ہوئیں۔ جو دنیا اور آخرت کا توشہ ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہمارے روحانی، مذہبی اور سیاسی قائد ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس دور میں ہم گناہ گاروں کو آپ جیسی عظیم ہستی کی سنگت میں مصطفوی مشن کی نوکری میسر ہے۔
ڈاکٹر سعیدہ شاہد سومرو:
جو کہ جرمنی کی میڈیسن کمپنیز میں ریسرچ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والی پاکستانی نثراد جرمن سائنسدان خاتون کا ہے۔ ان کے بقول ان کی بے رنگ اور بے وقعت زندگی اُس وقت رحمت خداوندی سے بھر گئی جب بفضل خدا ان پر مجدد وقت کی نگاہ پڑ گئی تھی۔ ان کی ۴5 سالہ زندگی میںشیخ الاسلام سے چند منٹوں پر مشتمل صرف دو ہی ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک اُس وقت جب انہوں نے 1998ء میں ایم ایس سی کیمسٹری میں پنجاب یونیورسٹی سے مجموعی طور پر پہلی پوزیشن پر گولڈ میڈل اوربہترین کارکردگی پر قائد اعظم گولڈ میڈل حاصل کیا۔ تو حضور شیخ الاسلام نے انہیں اپنے دستِ مبارک سے وہ میڈلز پہناتے ہوئے ناصرف خوشی کا اظہار فرمایا بلکہ مزید علم کے زینے طے کر کے ملک کا نام روشن کرنے کی دعا دی بس وہ ایک نگاہ تھی مرشدِ کامل کی جس نے ان کے اندر علم کی جستجو کے ایسے چراغ جلا دیئے کہ حالت یہ ہو گئی۔
اس کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
اس واقعہ کے ٹھیک 15 سال بعد دوبارہ شیخ الاسلام کی زیارت اور ملاقات ہوئی جب اٹلی میں ایک تقریب کے دوران محترمہ نے تعارف کروایا کہ میں جرمنی کی فلاں کمپنی میں ریسرچ فیلو ہوں تو شیخ الاسلام نے فرمایا: کیا آپ وہی نہیں ہیں جن کو میں نے میڈلز پہنائے تھے اور میڈلز پہنانے کا پورا واقعہ بھی بیان فرمایا۔ اُس وقت ان کے ساتھ ان کے شوہر بھی تھے جو کہ ایک مسلم جرمن فارماسٹ ہے وہ تحریک اور قائد تحریک سے یکسر نا آشناء تھے۔ وہ یہ سن کر ششدر رہ گئے کہ شیخ الاسلام کو قدرت نے اس قدر قوت حافظہ عطا کیا ہے کہ وہ پندرہ سال قبل ہونے والی ملاقات میں نہ صرف اس شخص کو بلکہ اس کے ساتھ ہونے والے پورے واقعہ کو بھی من و عن بیان کر سکتے ہیں۔ اس دوسری ملاقات نے دونوں کی زندگی کو اس طرح بدل دیا کہ وہ آج نہ صرف یوکے، جرمنی میں اپنے ہائی لیول حلقہ احباب میں تحریک اور قائد تحریک کا پیغام پہنچا رہے ہیں بلکہ ان کی صاحبزادی اور صاحبزادہ ایگرز میں باقائدہ پروگرام کنڈکٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان واقعات کی تفصیل اُن کے اپنے قلم سے اسی شمارہ کے آخر میں انگریزی کے مضمون میں ملاحظہ فرمائیں۔
لاہور سے محترم نسیم الغنی:
جو کہ اپنے دور میں یوتھ لیگ کے ’’غنی کمانڈو‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ شیخ الاسلام جیسی عظیم المرتبت قیادت سے اپنی ذہنی و قلبی اور ظاہری و باطنی وابستگی پر فخر کرتے ہوئے اپنا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:
یہ اس دور کی بات ہے جب میں گجرات میں رہائش پذیر تھا۔ میں نے شیخ الاسلام کو براہ راست نہ کبھی سُنا اور نہ دیکھا۔ کسی دوست نے آڈیو کیسٹ سننے کے لیے دی ’’ذکر اور اقسام ذکر‘‘ یہ میری پہلی آڈیو تھی۔ جس نے میرے اعمال و افعال اور اخلاق کو بدل کے رکھ دیا۔ اس کے بعد شیخ الاسلام کے خطابات کو سننا میرا معمول بن گیا۔ ان خطابات سے جہاں مجھے اکثر اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات ملنے لگے، وہیں میری سوچ اور فکر کو بھی جلا ملنے لگی۔ پہلے زندگی فقط ذات کی حد تک محدود تھی، بعد ازاںشیخ الاسلام کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے کا شعور پیدا ہوا اور میں نے لوگوں کو ان کی کیسٹس سننے کے لیے دینا شروع کیں۔ اسی دوران اللہ رب العزت کا مُجھ پر خاص کرم ہوا اوربالآخر وہ گھڑی بھی آ پہنچی جب 1985ء میں پہلی بار میں نے شیخ الاسلام کو بالمشافہ دیکھا بھی اور سنا بھی۔ پھر حالت یہ ہو گئی کہ
اپنی ہستی سے بھی آخر ہو گیا ہوں بے گانہ میں
ان سے جب جاکر ہوئی حاصل شناسائی مجھے
یہی لمحہ میری زندگی کا حاصل تھا۔ اس کے بعد جب تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے منعقد ہونے والے پہلے اجتماعی اعتکاف میں شرکت کی تو میرے قلب و روح کو مزید ایک نئی زندگی اور تازگی میسر آئی۔ اعتکاف کے دس دنوں کا ایک ایک لمحہ میرا سرمایۂ حیات ٹھہرا۔ میں نے ان دس دنوں میں جو کچھ بھی سیکھا وہ میں سالوں پر محیط زندگی میں نہ سیکھ سکا۔
12 جولائی 2010ء میں اعتکاف کی 25 ویں شب شیخ الاسلام نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جو اس تحریک کا سچا رفیق ہے، اس مشن کے لیے سچی محبت رکھتا ہے اور دن رات جانفشانی اور پوری وفاداری کے ساتھ مشن کے امور سرانجام دیتاہے تو وہ حضور سیدنا غوث الاعظم کا مرید ہے اور اگر حضور غوث الاعظم نے قیامت کے دن اپنے جوڑوں، اپنی کملی اور اپنے مریدوں کی صف میں مجھے شامل کیا، تواللہ کی عزت کی قسم! میرے رفقاء بھی میرے ساتھ وہیں کھڑے ہوں گے۔ مذکورہ گفتگو سے میرے دل میں خیال آیا کہ شیخ الاسلام مجھے روز قیامت کیسے پہچانیں گے کیونکہ میں آپ سے کبھی ملا ہی نہیں تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ شیخ الاسلام دن رات اللہ اور اس کے رسول کے مشن کے لیے کام کر رہے ہیں اور دنیاوی اغراض کی نیت سے آپ سے ملنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ حالانکہ میری دلی آرزو ہمیشہ سے رہی کہ میں آپ سے ملاقات کروں اور اپنی والدہ کے لیے دعا کرواؤں۔
2 سال کا عرصہ بیت گیا اور مجھے شیخ الاسلام کی اعتکاف 2010ء والی گفتگو اکثر و بیشتر یاد آتی اور میں یہی سوچتا رہتا شیخ الاسلام روزِ قیامت مجھے کیسے پہچانیں گے کہ یہ نسیم الغنی میرا رفیق ہے۔ ایک دن بازار میں ایک تحریکی ساتھی سے ملاقات ہوئی تو دورانِ گفتگو اس نے بتایا کہ اسے شیخ الاسلام روحانی طور پر ملتے رہتے ہیں اور بہت کچھ نوازتے رہتے ہیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ غنی تو کتنا نالائق ہے کہ ابھی تک تو محروم ہے۔ نہایت مضطرب ہو کر میں خود پر افسوس کرتا رہا اور اسی سوچ اور پریشانی میں گھر پہنچ کر اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
اسی ادھیڑ بن میں نجانے کب مجھے اونگھ آ گئی اور مجھے خواب میں شیخ الاسلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ جامع مسجد منہاج القرآن میں اجتماعی روحانی اعتکاف ہو رہا ہے اور میں بھی اس اجتماع میں شامل ہوں۔ شیخ الاسلام خدمتِ دین کے موضوع پر خطاب فرما رہے ہیں اور خطاب کے دوران شیخ الاسلام فرمانے لگے کہ اس تحریک سے وابستہ دن رات خلوصِ نیت سے کام کرنے والے دیرینہ ساتھی میرے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ بہت سے ساتھی کھڑے ہوئے لیکن حسبِ عادت میں نے اپنا سر اپنے آگے بیٹھے شخص کے پیچھے چھپا کر نیچے کر لیا۔ اسی اثنا میں شیخ الاسلام کی آواز نے مجھے چونکا دیا، آپ فرما رہے تھے کہ غنی کہاں ہے؟ وہ بھی تو ہمارا پُرانا ساتھی ہے۔ اب خود شیخ الاسلام کی پکار پر کھڑا نہ ہونا بے ادبی تھی۔ اس لیے میں بھی کھڑا ہو گیا۔ جب میں کھڑا ہوا تو شیخ الاسلام سٹیج سے اُتر کر صفوں کو چیرتے ہوئے میرے پاس آئے اور مجھے سینے سے لگا لیا، اس کے بعد پہلے میرے دائیں پھر بائیں رخسار پر بوسہ دیا اور میرا ماتھا چوم کر مجھے کہنے لگے اب خوش ہو؟ سوچا نہ کرو۔ یہ کہہ کر آپ واپس سٹیج کی طرف چل پڑے۔
اسی دوران مجھے خیال آیا کہ شیخ الاسلام خود میرے پاس آئے ہیں تو میں والدہ محترمہ کے لیے دعا ہی کروا لیتا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ شیخ الاسلام چار پانچ قدم چلنے کے بعد فوراً واپس پلٹے اور کہنے لگے کیا سوچ رہے ہو؟ میں نے کہا حضور! میری والدہ انتقال فرما گئی ہیں ان کے لیے دعا فرما دیں۔ شیخ الاسلام فرمانے لگے نسیم الغنی دو سال قبل جب آپ کی والدہ کا انتقال ہوا میں نے اُسی وقت دعا کر دی تھی، آپ مجھے آج بتا رہے ہو۔ آپ کے ان الفاظ نے مجھے چونکا دیا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے منوں بوجھ جسم سے اتر گیا ہو۔ (توفیقِ ایزدی سے 20 سال سے مسلسل اعتکاف کرنے کی سعادت ملی ہے ) مجھے آج بھی اس خواب کے یاد آنے سے انجانی سی خوشی محسوس ہوتی ہے اور میری رگوں میں دوڑنے والے خون میں تلاطم پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح شیخ الاسلام نے مجھے مخاطب کیا ان کی مسحور کُن آواز آج بھی میرا تعاقب کرتی ہے اور میرے جذبات کو جلا بخشتی ہے۔ بحمدہ تعالیٰ! شیخ الااسلام کی نگاہِ خاص سے اس دن سے آج کے دن تک میں حتی المقدور اس مشن کا کام کر رہا ہوں اور ہر قسم کے نامساعد اور ناسازگار حالات میں استقامت کے ساتھ اپنے جذبوں کا یہ سفر جاری و ساری رکھے ہوئے ہوں۔
معزز قارئین! ایسے بہت سے روح پرور واقعات ہیں جو ہزارہا افراد اپنے سینوں میں لیے بیٹھے ہیں۔ اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہم علمی اور فکری زاویۂ نگاہ سے اس عشق و مستی کے مسافر کے عہد میں سانسیں لے رہے ہیں جو عصرِ حاضر میں پوری انسانیت کے قلب و روح پر دستک دے کر روحانی مسیحا کا کردار ادا کر رہا ہے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ کچھ دمِ غنیمت جان کر ہم اپنے قلب و باطن کا قبلہ درست کر لیں۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے اور ہم کفِ افسوس ملتے ہوئے یہ کہتے رہ جائیں کہ آج اس ملک میں کروڑوں آنکھیں ہیں مگروہ نورانی اور روحانی چہرے نہیں رہے جنہیں دیکھ دیکھ کر ٹھنڈک حاصل ہوتی تھی، آج بھی کان ہیں مگرحکمت و دانائی کی باتیں سننے کو ترس گئے ہیں، آج ہمارے ارد گرد بھیڑ ہے لیکن سامنے کامل مرشد نہیں، آج بھی ہر ایک کے پاس وافر وقت ہے مگر وہ صحبتِ صلحاء نہیں، جنہیں اختیار کر کے گدائے راہ آفاق نگاہ بن جایا کرتے تھے وہ صالحین کہاں جن کے ہم نشین ہمسایہ جبرئیل امین بن جایا کرتے تھے۔
لہٰذا مجددِ وقت کے ساتھ مضبوط وابستگی اور ان کی تعلیمات سے بہرہ ور ہونے کے لیے بذریعہ کتاب اور خطاب اُن کے ساتھ اپنا تعلق اس طرح قائم کریں کہ ہمارا ظاہر و باطن عشق الٰہی اور عشق مصطفی ﷺ کے اس سر چشمے سے سیراب ہو جائے اور ہمارا عمل سنت نبوی کے سانچے میں ڈھل جائے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کو عمرِ خضر عطا فرمائے۔ آپ کا سایۂ عاطفت تادمِ آخر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور آپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کو اُس کے مقاصد میں کامیاب و کامران فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔
نوٹ: جو قارئین تحریک اور قائد تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی کا یا کوئی اور ایسا انمول واقعہ بیان کرنا چاہتے ہیں جس نے ان کی بے مقصد زندگی کو بامقصد بنا دیا تو برائے مہربانی اس ای میل پر fareedasajjad@gmail..com اپنے واقعات بھجوائیں تاکہ محررہ اسے اپنے آئندہ آرٹیکل میں شامل کر سکے۔