شیخ الاسلام کا اصلاحِ معاشرہ میں علمی و عملی کردار

آسیہ منظور

ہر قوم کی ترقی و کامرانی کا راز افراد معاشرہ کی بہتر کارکردگی اور اصلاح پر منحصر ہے۔ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

معاشرہ افراد سے بنتا ہے ہر فرد کا وجود معاشرے کا مرہونِ منت ہوا کرتا ہے۔ لہذا اصلاح معاشرہ کے بغیر کوئی قوم عروج و سربلندی حاصل نہیں کرسکتی۔

جب بھی امت مسلمہ روبہ زوال ہونے لگتی جب بھی اسلامی اقدار مٹنے دین کی حقیقی روح مٹنے لگتی دین سے دوری اور اخلاقی و روحانی قدریں پامال ہونے لگتی۔ عالمی سطح پر مسلمان مقصدیت کے فقدان کی وجہ سے بے وقعت، بے توقیری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتے اور مسلم معاشرہ، معاشی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی میدان میں زوال پذیر ہونے لگتا تو قانون قدرت ہے کہ وہ دین کی نصرت و اعانت کے لیے ہر عہد میں ایسی نابغہ روزگارہستی پیدا فرماتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حالات کے دھارے اور طوفان کے رخ موڑ کر انسانیت کی تقدیر بدل دیتی ہے۔ اس علم و حکمت، دانش و بصیرت سے پوری انسانیت فیض حاصل کرنی ہے۔ تاریخ میں ایسی متعدد ہستیوں کا ذکر موجود ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے حفاظت دین کا کام لیا ہر دور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اس کار تجدید و احیائے اسلام اور اصلاح معاشرہ کے لیے اپنے عہد میں کام کیا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے اس پندرھویں صدی ہجری کی عظیم تجدیدی تحریک کا کام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کو سونپا گیا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے انہی منتخب بندوں میں سے ایک ہیں جن کا وجود امت کے خزاں رسیدہ چمن میں نوید بہار بن کر آتا ہے اور مایوسی و جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی کرن بن کر آتا ہے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اللہ تعالیٰ نے اس دور کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمیں یقین ہے کہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت اور راہنمائی کے لیے بھی منتخب فرمالیا ہے۔ آپ کی فکری و علمی فتوحات و خدمات سے قطع نظر زیر نظر مضمون میں آپ کی سماجی و فلاحی اور اصلاح معاشرہ میں عملی کاوشوں کا مختصراً جائزہ لیا جائے گا۔

اصلاح معاشرہ کے لیے آپ کی خدمات کا احاطہ کرنا اگرچہ اس ایک مضمون میں ممکن نہیں کیونکہ شیخ الاسلام کا کردار ہمہ جہت ہے جہاں آپ نے فکر و فلسفہ اور نظریاتی اصولوں کی پاسداری کی۔ معاشرے کی بگڑی قدروں کو پامال ہونے سے بچایا بے راہ روی، دین سے دوری اور اخلاقی و روحانی اقدار سے بیگانگی کو ختم کرنے کے لیے مکمل راہنمائی فراہم کی وہاں بچوں سے لے کر جوانوں اور مردوں سے خواتین تک ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد معاشرہ کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات بھی کیے۔

بچوں کی اصلاح و تربیت:

آج کے بچے ہمارا کل کا مستقبل ہیں پاکستانی معاشرے میں بہت کم ایسے لیڈر ہیں جن کے منشور اور لائحہ عمل میں پیدائش سے لے کر 12 سال کے بچوں کی فکری و نظریاتی اور اخلاقی و روحانی بنیادوں پر تربیت باقاعدہ طور پر شامل ہو۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ عظیم مصلح اور ریفارمر ہیں جنہوں نے بچوں کی اصلاح و تربیتی امور کے لیے ایگرز (نظامت برائے امور اطفال) کا باقاعدہ آغاز کیا ایگرز کا اولین مقصد نئی جنریشن میں اسلامی قدروں کا فروغ اور ان کی شخصیت و کردار کی تکمیل ہے۔ ملک بھر میں بچوں کی ہمہ جہت تربیت اور کردار سازی کے لیے سٹڈی سرکلر، اخلاقی تربیت کی عملی ورکشاپس جونیئر اسلامک ٹریننگ کیمپس، کیلی گرافی کلاسز، بچوں کی دعائیں، بچوں کی محافل میلاد، سمر کیمپس،سنڈے سکولز، درود سرکلر اور بچوں کی سوسائٹیز قائم کی گئی ہیں۔ ان پروگرامز کے تحت خطابت، تقاریر اور نعت و قرات کے مقابلہ جات کرواکر بچوں کو ایک اچھا باعمل مسلمان اور محب وطن مفید شہری بنانے کی سعی جمیلہ کی جارہی ہے۔

نوجوانوں کی اصلاح و تربیت:

کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

نوجوان قوم کے معمار ہوتے ہیں نوجوان طبقہ ہی ہر قوم کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا عظیم کارنامہ نوجوانوں کے سیرت و کردار کی اصلاح ہے۔ آپ بھی علامہ اقبال کی طرح نوجوان مسلم کو خواب غفلت سے جھنجھوڑتے ہوئے خود داری اور بیداری شعور کا پیغام دیتے ہیں۔آپ نے بے مقصد زندگیوں کو بامقصد بنادیا ہے، بے راہ روی کا شکار نوجوان آپ کی صحبت و سنگت سے ہدایت پر گامزن ہوگئے۔ ان کے فکرو نظر کو انقلاب آشنا کردیا۔ نوجوانوں کی سوچوں کے دھارے بدل گئے۔ ان کی پیشانیوں کو سجدے کی لذت سے آشنا کیا۔ ان کے دین و ایمان کو تحفظ دیا ہے۔ ان کی سیرت و کردار پر مصطفویت کی چھاپ لگادی انھیں آداب بندگی سکھائے۔ انھیں عشق ساقی کوثر کے جام پلائے انھیں دنیا کی رنگ رلیوں اور لہو لعب سے نکال کر راہ حق پر گامزن کیا۔ فلموں، گانوں کے کلچر سے نکال کر نعت و ذکر کی محفلوں کا شیدا بنادیا۔

نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

الغرض اس حوالے سے حرف وعظ و نصیحت اور خطاب و تحریر پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے لیے منہاج القرآن یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا منہاج یونیورسٹی، شریعہ کالج بھی نوجوانوں کی اصلاح کے لیے یکساں کوشاں ہیں۔

شیخ الاسلام اور اصلاح معاشرہ میں خواتین کا کردار:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اصلاح معاشرہ میں خواتین کے کردار کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں انھوں نے خواتین کے کردار اور ان کی اصلاح و تربیت کو خصوصی توجہ کا مرکز بنایا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے خواتین کو فکری و نظریاتی اور علمی و عملی جدوجہد میں شریک کار بنانے کے لیے 5 جنوری 1989ء کو منہاج القرآن ویمن لیگ کی بنیاد رکھی جہاں خواتین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا گیا جس کے تحت دنیا بھر میں خواتین ہر شعبہ زندگی بالخصوص تعلیم و تربیت، قیام امن اور اصلاح معاشرہ میں اپنا متحرک کردار ادا کررہی ہیں۔ یہ اعزاز بھی شیخ الاسلام اور تحریک منہاج القرآن کو ہی حاصل ہے کہ انھوں نے اسلامی تہذیب کی درخشندہ روایات کے مطابق خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ سماجی، معاشی، قانونی اور سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ خواتین میں خود اعتمادی، قیادت سازی اور کردار کی پختگی جیسے اوصاف اجاگر کرکے انھیں ہر شعبہ زندگی میں مناسب اور معتدل انداز میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ خواتین کو وہ تمام حقوق فراہم کیے جو اسلام نے انھیں دیئے۔ آج دیگر مذہبی جماعتیں تو کیا سماجی و سیاسی جماعتوں اور تحریکوں میں بھی اس کی مثال نظر نہیں آتی آج منہاج القرآن ویمن لیگ خواتین کی سب سے بڑی تعلیمی و تربیتی تحریک ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ امت مسلمہ میں بیداری شعور اوراصلاح احوال خواتین کی تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ خواتین کے لیے ایسے تعلیمی ادارہ جات کا قیام عمل میں لائے کہ جہاں علوم اسلامیہ کے ساتھ خواتین کو جدید علوم سے بھی آراستہ کیا جاسکے۔

منہاج یونیورسٹی، منہاج کالجز اور سکولز قائم کیے۔ دختران اسلام کا مجلہ اور الہدایہ جیسے پراجیکٹس کے ذریعے خواتین میں بیداری شعور اور دینی و اخلاقی قدروں کی بحالی کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ شیخ الاسلام نے خواتین کو جس پروقار انداز میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا ڈھنگ دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اپنے تو اپنے اغیار بھی اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شیخ الاسلام کی 40 سالہ مجددانہ کاوشوں اور انتھک جدوجہد نے معاشرے پر جو اثرات مرتب کیے ہیں۔

نیکی و تقویٰ کے ماحول کو فروغ:

شیخ الاسلام کی تمام سعی جمیلہ کا بنیادی مقصد ایک ایسے مثالی اسلامی معاشرہ کی تشکیل ہے جو قرآنی منہاج اور اسوہ رسولa پر مبنی ہو گزشتہ 40 برس قبل جب معاشرہ محفل ذکر، شب بیداری، اجتماعی مسنون اعتکاف، نفلی اعتکاف، تربیتی کیمپس، روحانی اجتماعات جیسے کاموں سے ناواقف تھا اس دور میں شیخ الاسلام نے اپنی مجددانہ جدوجہد کا آغاز دروس تصوف اور ماہانہ شب بیداریوں سے کیا۔ سالانہ مسنون اعتکاف میں ہزارہا افراد 24 گھنٹے عبادت و بندگی میں مصروف رہتے ہیں۔ آنسوئوں اور توبہ کی اس بستی میں اعتکاف کے روحانی مزے لوٹنے و الے خوش نصیب جب معاشرے میں لوٹتے ہیں تو ان کے فکر و عمل کے دھارے بدل چکے ہوتے ہیں۔ کتنے بے نمازی آپ کی صحبت سے نماز کے پابند ہوتے نظر آتے ہیں۔ شیخ الاسلام کے خطابات اور تصانیف نے معاشرے کے اندر صالحیت، تقویٰ اور عبادت و بندگی کے کلچر کو فروغ دیا۔ لاکھوں دلوں میں عشق الہٰی اور عشق رسولa کی شمعیں روشن کیں جنہوں کو سجدوں کی لذت سے آشنا کیا۔ اس پرفتن دور میں لاکھوں افراد کے کردار و عمل میں اس قدر تبدیلی پیدا کرنا یہ سب شیخ الاسلام کی مجددانہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

عملی تصوف و روحانیت کو فروغ:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری معاشرے کی ترقی اور اصلاح کے لیے ایسے روحانی الذہن اور راسخ العقیدہ افراد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جن کی فکرو عمل پر للہیت غالب ہو جن کی زندگی کا مقصد فقط رضائے الہٰی کا حصول اور دین کی سربلندی ہو۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب نے عملی تصوف و روحانی اقدار کو از سر نو بحال کرنے کا عزم کیا۔

بدقسمتی سے ہمیں ایک ایسے دور زوال کا سامنا ہے جس میں تصوف و روحانیت کی جگہ مادیت پرستی اور مفاد پرستی کا دور دورہ ہے۔ شیخ الاسلام نے روحانی مراکز اور خانقاہی نظام جو کہ علم و حکمت سے نہ صرف دور بلکہ رسم و رواج اور توہمات کا گڑھ بنتے چلے جارہے تھے۔ ان کی بنیاد قرآنی تعلیمات، اسوہ حسنہ کی پیروی اور شریعت کے مکمل اتباع پر استوار کی اور تصوف کو محض رسم نہیں بلکہ عملی روحانی نظام کے طور پر پیش کیا۔ نوجوانوں کو رقص و سرور کی محفلوں کی بجائے محفل سماع اور محفل نعت و ذکر کا خوگر بنادیا۔ تقویٰ و طہارت، ظاہر و باطن کی پاکیزگی اور شریعت کے کامل اتباع کانام تصوف ہے۔ آپ نے شریعت کی خلاف ورزی کو تصوف کے ناموافق قرار دیا۔

یورپ میں مسلم معاشرے کی تربیت میں عملی کردار:

شیخ الاسلام نے یورپ اور مغرب کے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے ایمان کے تحفظ اور اسلامی اقدار کو فروغ دینے، نسل نو کے ایمان کو بچانے اور ان کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے ایک منظم پلیٹ فارم عطا کیا۔ 100 سے زائد ممالک میں تنظیمات کے لیے دفاتر قائم کیے۔ بیرونی دنیا میں 90 سے زائد ممالک میں مساجد، اسلامک سینٹرز اور دینی تعلیم کے مراکز قائم کیے جہاں بچوں اور ان کے والدین کے لیے روزانہ اور ہفتہ وار حلقہ درود و فکر، ماہانہ اجتماعات، محافل میلاد، الہدایہ تربیتی کیمپس، سیمینارز اور پروگراموں کا ایسا جال بچھایا کہ نوجوان نسل کو دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے مکمل ماحول میسر آیا۔

منہاج یونیورسٹی کے سینکڑوں سکالرز کو دنیا بھر میں بھجواکر یورپ میں مسلمانوں کی اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا مستقل بندوبست کیا۔ شراب خانوں، کلبوں اور سینما ہائوسز خرید کر اسلامک سینٹرز بنادیئے۔

تیری دانش نے کیا چشم جہاں کو خیرہ
تیرے افکار نے اسلام کو جدت دی ہے

دورِ پُرفتن کے بگڑتے معاشرتی رویوں کی اصلاح:

اس دور فتن میں بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل لوگوں کے بگڑتے رویوں اور معتدل فکر کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ تین چار دہائیوں سے معاشرے میں اس قدر تنگ نظری، تعصب اور منافرت تھی کہ فکری اعتبار سے مختلف عقیدہ اور مسلک رکھنے والوں کو مسلمان ہی تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ دوسرے مسلک اور عقیدے کو گالیاں دینا اپنے عقیدے کو حق سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں شیخ الاسلام نے 1980ء سے اتحاد امت کا درس دیا۔ منہاج القرآن کے دروازے ہر ملک اور عقیدے رکھنے والوں کے لیے کھلے رکھے۔ مذہبی انتہا پسندی کی جگہ اعتدال و توازن اور محبت کا پیغام دیا۔ آپ نے مناظرانہ کلچر کا خاتمہ کردیا۔ اس کے خاتمے کے لیے مکالمہ (سوال و جواب) کے کلچر کو فروغ دیا۔ ہر مسئلے کو قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت کیا۔ یوں تنگ نظری اور تعصب کا خاتمہ ہوا۔

معاشرے سے فرقہ واریت کے خاتمہ میں کردار:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے امن، رواداری اور محبت کی ایسی شمع جلائی کہ کل تک ایک دوسرے کو کافر و مشرک کہنے والے آج سیاسی و مذہبی جدوجہد ایک پلیٹ فارم پر کرنے میں خوشی محسوس کررہے ہیں۔ یہ شیخ الاسلام کی ذات ہی تھی جنھوں نے کبھی تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ناموس صحابہ کی صورت میں منافرت پھیلانے والے ہر فتنے کا تدارک کیا۔ جنھوں نے کبھی دفاع شان علیؓ کی صورت میں گستاخی اہلِ بیت کے فتنے کا خاتمہ کیا تو کبھی دفاع صحابہ میں شان ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ کی صورت میں صحابہ کی بارگاہ میں کھلنے والے دروازوں کو بند کیا۔ اگر گزشتہ نصف صدی کی پاکستانی تاریخ سے شیخ الاسلام اور منہاج القرآن کا اخوت بھائی چارے سے امن، آشتی پر مبنی کردار نکال دیا جائے تو یقینا ملکی اعتبار سے امن و محبت کا یہ دور ہمیں کبھی نہ میسر آتا۔

دہشت گردی کے خاتمہ میں شیخ الاسلام کا کردار:

موجودہ دور کے فتنوں میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو جس فتنہ سے ہوا وہ دہشت گردی ہے، مذہبی انتہا پسندی بڑھتے بڑھتے دہشت گردی تک پہنچ گئی اور عالم کفر نے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش شروع کردیں۔ اس سنگین صورتحال میں مجدد عصر حاضرشیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات ہی نے اس صدی کے سب سے بڑے فتنے کے تدارک کے لیے عالمی میڈیا پر سینکڑوں انٹرویوز اور دنیا بھر میں ہزاروں کانفرنسز، اجتماعات میں لیکچرز اور دہشت گردی و فتنہ خوارج کے خلاف فتوے اور دہشت گردی کے خلاف 28 کتابوں پر مشتمل امن نصاب کے ذریعے تن تنہا مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ پاکستانی معاشرے میں آپ نے پوری قوت سے دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی، دہشت گردوں سے مذاکرات کی مخالفت کی اور انہیں طاقت سے کچلنے سے متعلق رہنمائی دی اور اس طرح فتویٰ سے فکری راہنمائی لے کر افواج پاکستان اور عوام پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا نہایت جرات کے ساتھ مقابلہ کیا اس سے نجات حاصل کی۔

شیخ الاسلام کا فلاحی و سماجی کردار:

اصلاح معاشرہ کے لیے جتنے بھی ریفارمر اور مصلح آئے انھوں نے معاشرے کے پس ماندہ اور ضرورت مند طبقہ کے لیے گرانقدر فلاحی و سماجی خدمات سرانجام دیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے معاشرتی فلاح و بہبود کی اسی اہمیت کے پیش نظر 1989ء میں منہاج القرآن ویلفیئر فائونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ جس کے تحت ملک بھر میں بے شمار فلاحی پراجیکٹس پر کام ہورہا ہے جس میں آغوش کمپلیکس جو یتیم بے سہارا بچوں کے لیے اعلیٰ سطح کا تعلیمی و فلاحی منصوبہ ہے۔ آغوش لاہور میں 250 سے زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ سیالکوٹ اور کراچی میں بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں پانی کی فراہمی کے لیے واٹر پراجیکٹس کے تحت کل پاکستان میں 6000 پمپ لگائے گئے ہیں۔ اسی طرح منہاج ویلفیئر فائونڈیشن گزشتہ 15 سال سے یتیم اور بے سہارا غریب بچیوں کی شادیاں ترجیحی بنیادوں پر کروارہی ہے۔ دلہن کو بنیادی ضرورت کی تمام چیزیں دی جاتی ہیں اب تک 2855 شادیاں کروائی جاچکی ہیں۔ عید گفٹس اور گوشت کی تقسیم بھی کی جاتی ہے۔فری آئی سرجری کیمپ کا انعقاد کروایا جاتاہے ہر سال اجتماعی قربانی پر منہاج ویلفیئر فائونڈیشن کے تحت ہوتی ہے۔ غریب اور مستحق خاندانوں کی ماہانہ کفالت کی جاتی ہے۔ سیلاب زدگان اور زلزلہ سے متاثرین کو بڑھ چڑھ کر مدد فراہم کی گئی ان کے قائم کیے گئے تعلیمی مراکز، کالجز، یونیورسٹیز اور سکولز میں ہزاروں لوگوں کو روزگارمہیا کرکے معاشی استحکام کا بندوبست کیا گیا۔

شیخ الاسلام کی سیاسی خدمات اور اصلاح معاشرہ:

پاکستانی سیاست میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکرو فلسفہ نے معاشرے پر بہت دور رس اثرات مرتب کرنے کے لیے آپ نے پہلی مرتبہ عوام الناس کو آئین پڑھایا، بدعنوان سیاستدانوں کو بے نقاب کیا۔ 1990ء اور 2002ء کے الیکشن ہوں یا 23 دسمبر 2012ء کا عوامی اجتماع ہر موقع پر عوام کو ان کے آئینی حقوق سے آگاہ کیا۔ 2013ء اور 2014ء کے دھرنوں میں تقریباً 6 ماہ مسلسل تمام ٹی وی چینلز کے ذریعے عوام الناس کو آئین پاکستان کے پہلے 40 آرٹیکلز کا شعور دیا۔ فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف سب سے پہلے جس نے جرات کے ساتھ آواز بلند کی وہ بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات ہے۔آج پاکستان کے ہر ٹی وی چینل کا ہر اینکر اور تجزیہ نگار اگر نظام کی تبدیلی کی بات کرتا ہے تو یہ سب درحقیقت ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جرات و بہادری کا تسلسل ہے۔ اگر یہ ظالمانہ نظام بے نقاب ہو اور قوم کا اس پر اعتماد اٹھ رہا ہے تو یہ بھی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بیداری شعور مہم اور سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

آپ نے بانگ دہل اس موجودہ ظالمانہ فرسودہ انتخابی نظام کو غلط اور باطل سسٹم قرار دے دیا۔ نظام کی تبدیلی اور مصطفوی انقلاب اس فرسودہ نظام انتخاب کو تبدیل کیے بغیر ممکن نہیں۔ حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کیا حکمرانوں کی کرپشن نااہلی اور ظلم کے مٹانے کی وجہ سے آج عوام کی زبان پر ہیں۔

الغرض فرد سے معاشرہ اور معاشرے سے بین الاقوامی سطح تک بچے سے نوجوانوں تک مرد سے عورتوں تک معاشرے کے ہر طبقہ فکر کے افراد کے لیے شیخ الاسلام نے فکری و عملی، دینی اور مذہبی، اخلاقی و روحانی، معاشی و معاشرتی اور سیاسی و قانونی زندگی کے تمام پہلوئوں کے لیے قرآن و سنت کے مطابق مکمل راہنمائی فراہم کی ہے اور معاشرے کی اصلاح اور احیائے امت مسلمہ کا بیڑا اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور فیضان گنبد خضریٰ کے توسل سے ہر میدان میں کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔