دنیا میں مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں فلسفۂ اخلاق کی مختلف تعبیر یں کی گئی ہیں لیکن ایک امر خصوصی طور پر توجہ طلب ہے کہ بنیادی انسانی رویوں، میلانات، رجحانات اور کردار و اطوار میں مسلمہ آفاقی سچائیوں کو تقریباً ہر مذہب میں یکساں اہمیت حاصل ہے۔ مذہب کا اصل مقصد درحقیقت تصفیہ عقائد،تزکیہ نفس اور اخلاق حسنہ کی ترویج ہے۔ پاکیزہ اخلاق کے حامل افراد کی تشکیل کے بغیر کوئی بھی سماج ترقی اور فلاح کی راہ نہیں پاسکتا۔
دینِ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے جس کی تکمیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہوئی۔ اسلام دنیا بھر کے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اس میں اخلاقیات کے ایسے سنہری اصول موجود ہیں جن کی بنیاد پر اس نے ایک قلیل عرصے میں پوری دنیا کو متاثر کیا گویا اسلام کا نظامِ اخلاق پوری دنیا پر حاوی ہے۔ قرآن پاک میں اخلاق فاضلہ کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا.
(الشمس، 91: 9-10)
(کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور ناکام و نامراد ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو گناہوں کی میل سے ملوث کیا۔)
رسولِ اکرم ﷺ نے بھی اخلاقِ حسنہ پر بہت زور دیا ہے۔ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا بُعثتُ لِاُتِمّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ.
(احمد بن حنبل، المسند، 12: 512، رقم: 8952)
(میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کروں۔)
اخلاقِ حسنہ میں وہ تمام اعمال شامل ہیں جن کے ذریعے انسان کوشش کرتا ہے کہ مخلوق خدا کو فائدہ پہنچے اور معاشرے میں امن و سلامتی پیدا ہو اور معاشرہ صحیح خطوط پر ترقی کرے۔ اخلاق کو قرآن و حدیث میں اس تواتر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ پورا دین للہیت اور اخلاقیات کے ستون پر کھڑا محسوس ہوتا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں میں اخلاقی پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا ہے اور کوئی بھی اسلامی عمل اخلاق سے ماورا نہیں ہے۔ انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک انسان کے تمام فکری مدارج میں اسلام کا فلسفۂ اخلاق ایک توانا اور صحت مند روایت کے ساتھ موجود رہتا ہے۔
مختلف مکاتبِ اخلاق، قدیم وجدید فلاسفہ اور مذاہب عالم کے اخلاقی نظریات کے مطالعہ سے اخلاقیات کے بعض مسلمہ اصول ہر کسی کے ہاںیکساں اہمیت کے حامل ہیں جن پر قدیم یونانی فلاسفہ سے لے کر جدید اسلامی اور مغربی فلاسفہ اور جملہ مذاہب عالم متفق ہیں۔ یہ اخلاقی اصول مسلمہ آفاقی حیثیت کے حامل ہیں اور ان پر ہی فلسفۂ اخلاق کی پوری توجہ مرکوز رہی ہے لیکن چونکہ زمانی، زمینی اور نظریاتی اختلافات ہر جگہ موجود رہے ہیں اس لیے ان اخلاقی اصولوں کے حصول اور ان کے اطلاق کے طریقوں میں معمولی فرق اور اختلاف کا پایا جانا باعثِ تعجب نہیں ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کے بارے میں خود خالقِ کائنات نے فرمایا:
اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْم.
(القلم، 68: 4)
یعنی اے حبیب! بلاشبہ آپ اخلاق کے بڑے درجے پر فائز ہیں۔
ائمہ اسلام نے اپنے اپنے زمانوں میں اخلاق پر اپنے نظریات پیش کئے۔ امام غزالی، ابن مسکویہ، فارابی کے فلسفہ اخلاق مشہور ہوئے۔ عصر حاضر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عالم اسلام کی واحد علمی شخصیت ہیں جن کے افکار و نظریات زمانے سے ہم آہنگ قابل عمل اور نہ صرف مسلم معاشرے میں بلکہ پوری دنیا میںپذیرائی حاصل کرچکے ہیں۔زیر بحث مضمون میں آپ کے فلسفہ اخلاق پر مختصرا روشنی ڈالی گئی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا فلسفہ اخلاق:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے فلسفہ اخلاق کے بنیادی پہلو امن و محبت، تحمل و برداشت، احترام انسانیت اور عدم تشدد ہے۔ ان کے حصول کے ذرائع تقوی و طہارت، عشق رسول ﷺ علم اور صحبت ہے۔ آپ نے 08 دسمبر2018ء کو تحفیظ القرآن بغداد ٹاؤن لاہور میں طلباء و اساتذہ اور تحریک کے مرکزی عہدیداران سے اپنے خطاب فرمایا:
بیٹے اور بیٹیاں اپنے اندر، کردار، تقوی، اخلاقی اقدار، Moral values، Spiritual values، Ethical values اور Human values پیدا کریں آپ کی زندگیوں سے، آپ کی تعلیم سے امن وسلامتی اور محبت، تحمل و برداشت کی خوشبو معاشرے میں بکھرنی چاہئے۔ نفرت میں بدبو ہوتی ہے وہ نہیں آنی چائیے۔تنگ دل نہ ہوں۔ محبت والے بنیں، نفرت والے نہ بنیں۔ نرم بنیں سخت نہ بنیں باکردار بنیں بے کردار نہ بنیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تعلیمات کا مرکز یہی امن و محبت کا درس ہے۔ مذکورہ الفاظ آپ کے فلسفہ اخلاق کے نچوڑ ہیں جو سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی اولیں شاہکار تصنیف ’’اسلامی فلسفۂ زندگی‘‘ اخلاقی کمال کے ذیل میں رقم طراز ہیں:
انسان کی انفرادی زندگی کا نصب العین اخلاقی کمال ہے اور اخلاقی کمال عبارت ہے کامل بندگی سے، جس کی اعلیٰ ترین صورت رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ انفرادی سطح پر انسان کا مقصد حیات انسانِ مرتضیٰ یعنی ایسا انسان بننا ہے جس پر اُس کا رب راضی ہو۔
(اسلامی فلسفۂ زندگی، لاہور: منہاج القرآن پبلی کیشنز، بارِ نہم،1993ء، ص: 39۔40)
دین اسلام سراسر امن اور سلامتی کا دین ہے اور یہ یہ سلامتی دنیاوی و اخروی زندگی دونوں کے لیے ہے۔ سلامتی کے اصول کے خلاف کوئی بھی تعلیم ہو، اُس کا واسطہ اسلام سے ہرگز نہیں ہوسکتا۔قرآن کریم میں بارہا نیکی کی تاکید کی گئی اور شر اور ضرررسانی میں تعاون سے منع کیا گیاہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے فلسفہ اخلاق میں یہ بات نمایاں ہے کہ آپ پوری انسانیت کے لئے نرمی و سہولت کے قائل ہیں آپ انتہاء پسندی اور تشدد کو کفر سمجھتے ہیں۔ آپ نے اپنی کتاب اِسلام دین امن و رحمت میں لکھتے ہیں:
’’حضور نبی اکرم ﷺ کی ساری تعلیمات رحمت، شفقت، نرمی اور سہولت پر مبنی ہیں ان میں قطعاً کسی مقام پر شدت انتہائی پسندی اور مبالغہ پرستی کی گنجائش نہیں ہے چہ جائیکہ اس میں بربریت اور دہشت گردی کی گنجائش ہو جو سراسر کفر ہے۔‘‘
(اسلام دین امن و رحمت، ص: 243)
ارکان خمسہ کا کی روح اخلاق کو سنوارنا ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نزدیک ہماری عبادات کا اصل مقصد بھی اخلاق کو سنوارنا ہے۔ آپ کے نزدیک نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کا مقصد اخلاق کو سنوارنا ہے۔ آپ نے 17 جون 2017ء کو جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن میں اعتکاف کے موقع پر اپنے خطاب میں ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ نماز کے فرض کرنے کا مقصد بھی اخلاق سنوارنا ہے۔ اللہ پاک ہمارے سجدوں کا محتاج نہیں ہے۔ نماز انہی کی نماز ہے کہ جن کے اند تواضع آ جائے، انکساری آ جائے، تکبر ، بڑا پن، اکڑ نہ رہے، جھکنے والے بن جائیںوہ مخلوق پہ ظلم وجبر نہ کریں، مخلوق کی حق تلفی نہ کریں، شب و روز اللہ کو یاد رکھیں، مسکین اور محتاج کے لیے سراپا رحمت بنیں، مسافر کے لیے سراپا شفقت بنیں، بیواؤں اور یتیموں پر سراپا رحمت بنیں۔ اور مصیبت زدہ کے لیے ہمیشہ سہارا بنیں۔ نماز جن لوگوں کی سیرت میں، اخلاق میں، کردار میں یہ تبدیلی پیدا نہیں کرتی اُن کی نماز حقیقی نمازنہیں ۔
اسی خطاب میں آپ نے آیت کریمہ جس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْھٰی عَنِ الْفحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ.
(العنکبوت، 29: 45)
اور نماز قائم کیجیے، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔
اس کی ایک وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا: فواحش سے مراد صرف ایک بدکاری کا فعل نہیں ہے، اگر زبان گندی ہو گی تو وہ بھی فاحش میں آئے گا۔ برتاؤ گندہ ہو گا فواحش میں آئے گا، سوچ گندی ہو گی فواحش میں آئے گی۔ ہر وہ کام جو نظافت، لطافت اور شرافت کے معیار پہ نہیں ہے، جو حسین اور جمیل نہیں ہے، بھدا ہے، برا ہے، ناپسندیدہ ہے وہ عمل بے حیائی کا ہے وہ فحش کے اندر آتا ہے۔
تقویٰ اور حُسن خلق کا درجہ کمال ولایت ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نزدیک تقویٰ اور حُسن خلق کا درجہ کمال ولایت ہے۔ آپ نے 29 جون 2016ء کو جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن میں اعتکاف کے موقع پر معتکفین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
انسانی شخصیت کے اندر ظاہری علامات سے کسی کی ولایت کا پتہ نہیں چلتا۔ ولایت دراصل تقویٰ اور حسنِ خلق کا کمال درجے کے اجتماع کا نام ہے۔ ولی کا قلب سمندروں کی طرح وسیع ہوتاہے ۔ ولی کے اخلاق حسیں ہو جاتے ہیں۔ ولی کے اندر بخیلی اور کنجوسی نام کی کوئی شئے نہیں ہوتی۔ ولی وسیع الطبع ہو جاتاہے۔ ولی کریم ہوتاہے۔ وہ کسی سے نفرت نہیں کرتا ہر ایک سے محبت کرتاہے۔ ولی کسی سے بغض نہیں رکھتا وہ معاف کرنے والا ہوتاہے۔ ولی دینے والا ہو تاہے چھیننے والا نہیں۔ ولی گالی گلوچ نہیں کرتا دعائیں دیتاہے، پیار کرتاہے۔ ولی مہمان نوازی کرنے والا ہوتا ہے۔ ولی لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ لوگوں کو ہدایت دینے والا ہوتا ہے۔ لوگوں کی بھلائی سوچتا ہے۔ صلہ رحمی کرتا ہے۔ ان سارے معاملات کا تعلق اخلاق اور باطنی احوال کے ساتھ ہے۔ یہ امور کسی کے ماتھے پہ لکھے ہوئے نہیں ہوتے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ تقویٰ اور حسن خُلق کے اجتماع کا نام ہی ولایت ہے۔ جس شخص میں تقویٰ اور حسن خُلق کمال درجے میں جمع ہو جائیں وہ ولی ہے اور اِسی کا نام ولایت ہے۔ حضورe کی حدیث مبارک سے اسی بات کا ثبوت ملتا ہے۔
اخلاق کا اہم زاویہ ایثار و قربانی:
اخلاق کا اہم زاویہ ایثار و قربانی یعنی محتاجوں اور ضروت مندوں کو معاشی اور اقتصادی سہارا دینا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس عمل کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمان صرف اُسے کہا ہے جو شخص اپنی ذات میں دوسروں کے لئے خیر و سلامتی اور نفع بخش کا سبب ہو۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:
أَحَبُّ النَّاسِ إِلَی اللهِ أَنْفَعَهُمْ لِلنَّاسِ.
(سُلَیْمان بن أحمد الطَّبَرَانی، معجم الاوسط (القاهره: دارالحرمین، 2010ء)، حدیث: 4024، 4: 139)
یہ بھی شیخ الاسلام مدظلہ کے فلسفہ اخلاق کا حصہ ہے کہ آپ معاشرے کے ضروت مندوں اور محتاج لوگوں کو معاشی اور اقتصادی طور پر سنبھلنے کا بندوبست کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کی بنیاد اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ.
(الحشر، 59: 9)
اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مد ظلہ اخلاق کے اہم زاویے ایثار و عمل کا محرک حبِ الٰہی بتاتے ہیں، اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
کسی کی محبت میں ایثار و قربانی صبر آزما جدوجہد اور مصائب و شدائد کا خوشی سے برداشت کرنا محض محبوب کی رضا کی خاطر ہوتا ہے۔ اگر محبوب کو راضی کرنا پیشِ نظر نہ ہو تو کوئی کیونکر تکالیف کو دعوت دے گا اور اپنی جان و مال کی قربانی پر آمادہ ہو گا۔
(اسلامی فلسفۂ زندگی، لاہور: منہاج القرآن پبلی کیشنز، بارِ نہم، 1993ء، ص 40)
3 جولائی 2016ء کو عشرہ اعتکاف میں جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن لاہور میں اپنے خطاب میں آپ نے مذکورہ آیت سے استنباط کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں توجہ طلب لفظ ’’اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں‘‘ ہے۔ یہ نہیں کرتے کہ پہلے کھا لیں جو بچے وہ اُن آنے والوں کو دے دیں۔ نہیں، پہلے اُن کو دیتے ہیں اُن سے بچ جائے تو خود کھاتے ہیں۔ یہ معنیٰ ہے یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ کا۔
اسی خطاب میں حضور شیخ الاسلام مدظلہ نے فرمایا:
اگر صحابہ کرام کا طرزِ عمل یہ ہوتا کہ پہلے اپنی ضروریات پوری کر لیتے پھر بچے ہوئے سے مہاجرین صحابہ کی ضروریات کو پورا کرتے تو قرآن مجید کی یہ آیت کبھی نہ اترتی کہ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ اپنی جانوں پر بھی انہیں ترجیح دیتے ہیں۔
صحابہ کرام کا یہی طرزِ عمل پر اللہ پاک کی محبت کا باعث بنا۔ اور یہی اسلام کا فلسفہ اخلاق ہے کہ اگر خود بھوکا بھی ہو، محتاج بھی ہو، تنگ دست بھی ہو تب بھی اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا فلسفہ اخلاق صوفیاء کرام کے طرز عمل سے ماخوذ ہے۔ انہوں نے اسی خطاب میںاکابر اولیاء کرام کے اقوال بیان کرتے ہوئے ان میں سے حضرت سہل بن عبداللہ تستری کے ایک قول سے اس بات کو اخذکیا کہ جو شخص اپنی خوشیاں، اپنی راحتیں، اپنی مسرتیں، اپنی چاہتیں، اپنی ترجیحات اپنی جان پر خرچ کرنے کے بجائے رفقاء پر، دوستوں پر، احباب پر، اخوان پر خرچ کر دے وہ راهِ حق کا مسافر ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 27 جون 2016ء کو جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن میں اعتکاف کے موقع پر خطاب میں فرمایا: حسن خلق دل کی وسعت کا نام ہے۔ جس کا دل جتنا کھلا ہوتا چلا جائے وہ اتنا عظیم الخلق ہے۔
3 جولائی 2016ء کو عشرہ اعتکاف میں جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن لاہور میں اپنے خطاب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نصیحت کی کہ ہمیں اپنی طبیعتوں سے غصے کو نکلالنا ہے۔ اُس کی جگہ تحمل، حلم اور بردباری کو ڈالنا ہے۔ اپنی طبیعتوں سے تنگی کو نکالنا ہے، اُس کی جگہ فراخی اور وسعت ڈالنی ہے۔ اپنی طبیعتوں سے کڑھنا نکالنا ہے۔ اس کڑھنے سے آج تک کسی کو کچھ نہیں ملا۔حسد سے کسی کو کچھ نہیں ملا ۔ حسد کر کر کے لوگ زندگی گنوا دیتے ہیں مگر کسی کا کچھ بگڑتا ہی نہیں ہے۔ جس کے لیے حسد کر رہے ہیں اللہ اُس پر اور نعمتیں کرتا جاتا ہے۔ اُس پر اور کرم کرتا جاتا ہے لہٰذا یہ اپنی جان کو عذاب میں ڈالنا ہے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ اللہ کے کیے پر راضی ہو جاؤ۔ اللہ جس کو جو دے اُس کو اللہ کا امر سمجھ کے خوش ہو جاؤ پھر اللہ پاک آپ کو بھی دے گا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 27 جون 2016ء کو جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن میں اعتکاف کے موقع پر خطاب میں فرمایا: جس کا اخلاق حسین ہو گیا وہ عظیم ہو گیا۔ آپ نے ’’میں‘‘ کی خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ ’’ہماری زندگی اسی ’میں، نے برباد کر دی۔ ’میں، سے شروع ہوتے ہیں اسی ’میں، پہ ختم کرتے ہیں۔ اس لیے سفر طے نہیں ہوتا۔ میں بڑی توجہ کے ساتھ یہ بات سمجھانا چاہتا ہوں۔ اخلاق اُس وقت تک سنور نہیں سکتا جب تک میں کو نہ نکالیںاعلیٰ اخلاق کی طرف بڑھنے کا پہلا قدم ’میں، کو نکالنا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی تصنیف ’’حسن اخلاق‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’خلق عظیم حضور نبی اکرم ﷺ کی صفت عظمیٰ ہے آپ ﷺ نے اپنی تعلیمات میں ایمان کے بعد جن چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے ان میں سے ایک اخلاق حسنہ ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اصلاح اخلاق کا کام میری بعثت کے اہم مقاصد میں سے اور میرے پیغمبرانہ نقش کے خاص اجزاء میں سے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی زندگی اور اس کے نتائج میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوشگواری کے ساتھ گزرے گی اور دوسروں کے لئے بھی اس کا وجود رحمت اور سکون کا باعث ہوگا۔ اس کے برعکس اگر انسان کے اخلاق بُرے ہوں تو وہ خود بھی زندگی کے لطف و مسرت سے محروم رہے گا اور معاشرے میں جن جن سے اس کا واسطہ ہوگا ان کی زندگیاں بھی سکون سے محروم اور تلخ ہوں گی۔‘‘
اخلاقی اقدار کا حصول عشق رسول ﷺ سے ہی ممکن ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مد ظلہ العالی کے نزدیک دور حاضر میں اخلاقی اقدار کی احیاء عشق رسول سے ممکن ہے جس سے باہمی نفرت، حسد، رنجشوں کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تمام تعلیمات کا محور عشق رسول ﷺ ہی ہے۔ آپ کے ہر خطاب اور کتاب میں مرکزی حیثیت عشق رسول ﷺ کو حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی کتاب ’’عشق رسول استحکام ایمان کا واحد ذریعہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’پریشان امت کے دکھوں کا مداوا حضور کی محبت میں سرشار ہو کر سنت و اتباع رسول ﷺ کی طرف بلائے بغیر نا ممکن ہے۔ اس خزاں رسیدہ چمن امت میں بہاریں تب ہی جوبن پر آسکتی ہیں جب آج کے پریشان حال انسان اور بالخصوص نوجوان اپنے سینے سے عشق و محبت کے وہی تیر پھر پار کریں جن سے ابو بکر و عمر، عثمان و حیدر اور بلال و ابوذر نے اپنے دل چھلنی کئے تھے۔‘‘
آپ مزید لکھتے ہیں:
’’یہی عشق رسول ﷺ ہی تو تھا جس کی گرمی نے ان جاہل، اجڈ اور خونخوار وحشی صفت عربوں کی صدیوں پرانی رنجشوں اور کبر و نخوت کے خرمن کو جلا کر انہیں باہم شیر و شکر کر دیا۔ ‘‘
(عشق رسول استحکام ایمان کا واحد ذریعہ، ص: 24، 25)
عالمی سطح پر فروغ امن سلامتی:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مد ظلہ عالمی سطح پر امن کے داعی ہیں۔ آپ نے دہشت گردی کے خلاف فتوی دے اس کا عملی ثبوت دیا۔ آپ اپنے معرکۃ الآراء تصنیف ’دہشت گردی اور فتنۂ خوارِج‘ میں لکھتے ہیں۔اسلام اپنی تعلیمات اور اَفکار و نظریات(teachings and idealogy) کے لحاظ سے کلیتاً اَمن و سلامتی، خیر و عافیت اور حفظ و اَمان کا دین ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک مسلمان اور مومن صرف وہی شخص ہے جو نہ صرف تمام انسانیت کے لئے پیکرِ امن و سلامتی اور باعثِ خیر و عافیت ہو بلکہ وہ اَمن و آشتی، تحمل و برداشت، بقاء باہمی اور احترامِ آدمیت جیسے اوصاف سے متصف بھی ہو۔ مزید لکھتے ہیں:
اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو بھی پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔ قتلِعمد کی سزا موت ہے۔ مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے لیے شدید اور دردناک عذاب کی وعید ہے۔ جب اسلام کسی ایک فرد کے قتل حتی کہ اپنی جان کو بھی تلف کرنے کی اجازت نہیں دیتا، تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہزاروں شہریوں کے جان ومال کو تلف کرنے کی اجازت دے! لہٰذا جو لوگ نوجوانوں کو خون ریزی اور قتلِ عام پر اُکساتے ہیں اور جو نوجوان ایسے گمراہ لیڈروں کے کہنے پر خود کش حملوں میں حصہ لیتے ہیں، دونوں نہ صرف دنیا میں اسلامی تعلیمات سے اِنحراف کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی شدید عذاب کے حق دار ہیں۔
نسلِ نو اخلاقی معاملات میں انتہائی تذبذب کا شکار ہے جسے ختم کرنے کا واحد طریقہ ایک موثر اخلاقی فلسفہ ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے قرآن مجید اور سیرت طیبہ کی روشنی میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے خطابات اور کتابوں میں فلسفہ اخلاق بیان کردیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم شیخ الاسلام مدظلہ کے خطابات سے اور تصانیف سے استفادہ کریں اور ان کے فلسفہ اخلاق کے مطابق زندگی گزاریں اور ہمارے اندر جو کمزوریاں ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔