ایک زمانہ تھا جب ہر سو ظلمت کا دور دورہ تھا۔ حیاتِ انسانی ظلمت و فساد اور جمود و تعطل کا شکار تھی۔ امن و سکون غارت ہو چکا تھا۔ شرافت و دیانت عنقا تھی۔ انسانیت سسک رہی تھی۔ جور و جفا اور ظلم و تعدی انسان کی بے بسی خندہ زن تھے۔عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی۔
عورت کو حقیر اور کم تر حیثیت کی حامل سمجھا جاتا اور کسی گھر میں بیٹی کا پیدا ہونا باعثِ شرمندگی سمجھا جاتا تھا۔ عورت سراپا مظلومیت کا پیکر تھی۔ اس وقت کا کوئی فرد بھی عورت کو اس کا صحیح حق دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہاں تک کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا۔
شبِ تیراں نے صبحِ تاباں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اور روشی کی کوئی کرن نہ تھی۔ ایسے میں رحمتِ خداوندی جوش میں آئی۔ عرشِ اعظم پر یہ مژدہ سنایا گیا کہ کائنات کا مقدر سنورنے کو ہے۔ پھر وہ سہانی گھڑی آئی، وہ لمحاتِ نوری آئے، وہ صبح طلوع ہوئی، دنیا والوں کی قسمت کا ستارہ چمکا۔ سر زمینِ مکہ سے وہ آفتابِ عالم طلوع ہوا کہ جس کی شعاعوں نے مشرق و مغرب کے گوشے گوشے کو بقۂ نور بنا دیا۔
وہ آئے روشنی بن کر شبستانِ محبت میں
اندھیرا ہی اندھیرا تھا اجالا ہی اجالا ہے
حضور پر نور، شافع یوم النشور، جناب احمد مجتبیٰ، محمد مصطفی ﷺ اس جہانِ رنگ و بو میں منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوئے۔ تو ہر طرف مسرت و شادمانی کی اک لہر دوڑ گئی کہ مختار نبی آگیا، وہ باعث تخلیق کائنات تشریف لے آیا جو غم و الم میں پھنسے ہوؤں کو آزادی و رہائی دلا کر راحت و آرام کے باغوں میں پہنچا دے گا۔
ہادی اسلام محمد مصطفی ﷺ نے عورت کو جو احترام اور مقام بخشا وہ اسے کسی مذہب، کسی ملک، کسی معاشرے، کسی تہذیب اور کسی قوم نے نہیں دیا۔ کیونکہ کسی بھی اور مذہب کے عقائد و اصول میں اتنی وسعت نہیں۔
اسلام نے عورت کو باعزت مقام اور معاشی تحفظ دیا، وراثت میں ان کا حصہ مقرر کیا، انہیں ماں، بیوی اور بیٹی کے حقوق دیے اور عورتوں پر ہر قسم کے تشدد اور استحصال سے منع کیا۔
دنیا کے دیگر معاشرتی و سیاسی نظام، حق کے احترام و ادائیگی کی اس بلندی و رفعت کی نظیر پیش نہیں کر سکتے جس کا مظاہرہ تعلیمات نبوی ﷺ میں نظر آتا ہے۔ اسلام کا فلسفہ حقوق دیگر نظام ہائے حیات کے فلسفہ حقوق سے بایں طور مختلف و ممتاز ہے۔
اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق عطا کرتے ہوئے وراثت کا حق عطا کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ کَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا.
(النساء، 4: 7)
مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔
اصولی طور پر لڑکا اور لڑکی دونوں وراثت میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے کے حقدار ہیں۔ اور کوئی شخص انہیں ان کے اس حق سے محروم نہیں کرسکتا۔
پھر قرآن کریم نے شوہر یا بیوی میں سے کسی کے بھی انتقال کی صورت میں اس کے مال وراثت میں سے دوسرے فریق ک حصہ بالتفصیل بیان کیا ہے۔ بیوی کے انتقال کی صورت میں خاوند کا حصہ بیان کرتے ہوئے کہا:
وَ لَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَآ اَوْ دَیْنٍ.
(النساء، 4: 12)
’’اور تمہارے لئے اس (مال)کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے)کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی)کے بعد۔
اور شوہر کی وفات کی صورت میں بتایا:
وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَآ اَوْ دَیْنٍ.
(النساء، 4: 12)
’’اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
یہ وہ حقوق تھے جو آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے متعین کردیئے مگر افسوس کہ آج پھر سے ہمارا معاشرہ زمانہ جاہلیت کے دور کی حدود کو چھونے لگا۔
ہمارا معاشرہ روح سے خالی جسم کی طرح، ایک مردہ معاشرہ بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں بہنوں اور بیٹیوں کو ان کے دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ وراثتی حقوق سے محروم کیا جانے لگا۔
ان حالات میں اللہ رب العزت نے ایسے مرد قلندر کو اس دنیا میں بھیجا کہ جسے قدرت نے قائد اعظمؒ کا عزم، علامہ محمد اقبالؒ کی فکر، عطاء اللہ شاہ بخاری کی زبان، ظفر اللہ خان کا قلم اور شاہ ولی اللہ کی تڑپ عطا کی اور بیشمار صلاحیتوں سے نوازا۔ جسے دنیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ یہ ان کا کمال ہی ہے کہ تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود انھوں نے قلیل عرصے میں حیرت انگیز ریکارڈ قائم کیے۔ جس کی نظیر ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔
ہمارا معاشرہ کہ جس کا عالم یہ ہے کہ عورت کو گھر میں تحفظ نہ باہر تحفظ، لالچ و حرص نے جب بھی مرد کے دماغ میں قبضہ جمایا اس نے تباہی و بربادی کی، نہ صرف گھر میں بلکہ پورے معاشرے کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ جائیدادوں کی وراثت کھا جانا، جائیدادوں کے لیے شادی نہ کرانا، اور اگر جوانی میں ہی ہوگی تو ہوگی ورنہ تو اپنا ایسا غلام بنانا کہ جانور بھی شرما جائے۔ کہیں زنجیروں میں جکڑکر پاگل بنانا اور کہیں فلاحی اداروں میں چھوڑ آنا۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اولاد کی تربیت میں بھی وہ کمال نہیں رکھتی کہ کوئی ٹیپو سلطان یا محمد بن قاسم ابھرے۔ اسمبلیوں میں کئی دفعہ خواتین کے حق میں تقاریر ہوئیں مگر 52 فیصد موجودگی بھی خواتین کو ان کا حق دلوانے میں ناکام رہی۔
تحریک منہاج القرآن جو ایک ہمہ جہت تحریک ہے جو ہر شعبہ زندگی میں اسلام کے اصولوں کے مطابق تبدیلی چاہتی ہے۔ اور یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی فکر، انتھک محنت اور جدوجہد ہی ہے کہ تحریک منہاج القرآن نے خواتین کے حقوق کے لیے جو کام کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
تحریک منہاج القرآن میں خواتین کی تعداد میں روز بروز اضافہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بانی تحریک نے تعلیم و تربیت اور حقوق پر خصوصی توجہ فرمائی۔
خواتین جو ملکی آبادی کا 53% ہیں ان کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی محبتیں اور شفقتیں بے مثال اور لازوال ہیں۔ تحریکی اور معاشرتی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں کہ جہاں شیخ الاسلام خواتین کو خصوصی مقام و مرتبہ نہ دیتے ہوں۔ حیات قائد ایسی مثالوں سے مزین ہے۔
شیخ الاسلام نے خواتین کو وراثتی، معاشی و معاشرتی حقوق حاصل کرنے اور ان کے دینی، علمی اور اخلاقی شعور کو بیدار کرکے، ان کو دینی و دنیاوی جد وجہد میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا۔ معاشرے کے اندر انھیں اپنے مقام و مرتبہ کو پہچاننے اور منوانے کا جذبہ دیا۔ شروع دن سے لے کر آج تک کر شیخ الاسلام نے پاکستان کی نصف آبادی ’’طبقہ نسواں‘‘کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ انھوں نے ہمیشہ خواتین کے حقوق کیلئے آواز بلند کی۔ خواتین کے حقوق کے لیے کنونشنز کیے، تحفظ نسواں ریلیز کا انعقاد کیا۔ امت کی بیٹیوں کو دینی اقدار، معاشی اور معاشرتی حقوق، سیرت و کردار اور تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا اسی مربی اور رہنما کا کام ہے جو ان کے ہاتھوں ایک انقلابی قوم کی تربیت چاہتا ہے اور انہیں باطل کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امت مصطفی ﷺ کی ڈوبتی ہوئی نائو سے نکلنے کا حوصلہ و مقصد سمجھتا ہے۔
قائد تحریک فکر و نظریات کو پروان چڑھانے کے لئے ہمیشہ خواتین کو مردوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں خواتین کے حقوق کے لیے مختلف این جی اوز کام کر رہی ہیں مگر ان کا استحصال اب بھی جاری ہے۔ ایسے میں شیخ الاسلام حقوق نسواں کے سب سے بڑے محافظ بن کر ابھرے۔ اس حوالے سے ان کا نظریہ اور تصور بہت روشن اور اسلام کے وضع کردہ اصولوں کے عین مطابق ہے۔
شیخ الاسلام خواتین کی عصر حاضر کی آزادی نسواں اور مغربی تہذیب کی مستعار غلامی کے حامی نہیں، بلکہ ان کا نظریہ بہت واضح، شفاف اور سیرت مصطفی ﷺ، سیرت فاطمۃ الزہراءj، سے ماخوذ ہے۔ آپ نہ تو عورت کی بد تہذیب آزادی کے قائل ہیں اور نہ ہی اسے گھر میں غلام بنا کر زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں، بلکہ عورت کے حقوق کی بحالی کے لیے ہمیشہ مصروف عمل رہے۔ تحفظ حقوق نسواں کی مد میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سینکڑوں خطابات و دروس دیئے۔ آپ فرماتے ہیں اسلام واحد الہامی مذہب ہے جس نے نہ صرف زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کو بااختیار بنانے کے تصور کی حوصلہ افزائی کی بلکہ اس مقصد کے لیے رہنما اصول بھی بیان کیے ہیں۔ اسلام میں خواتین کے حقوق کی تاریخ شاندار روایات سے بھری پڑی ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے قوانین یقیناً موجود ہیں لیکن انہیں حقیقت میں بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
تحریک منہاج القرآن خواتین کے حقوق اور شعور کی بیداری کے لیے مختلف پروگرامز اور کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے جن میں خواتین کے عالمی دن پر "حقوق نسواں کانفرنس" قابل ذکر ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1984ء میں عورت کی دیت کے مسئلہ پر اپنا مقالہ اور فتویٰ پیش کیا۔ عورت کی دیت مرد کے برابر قرار دی۔ جس پر بعض علماء نے آپ کی مخالفت کی۔ لہذا آپ نے 12 اکتوبر 1994ء کو مجلس مذاکرہ منعقد کرکے مخالف علماء کو بھرپور دلائل دے کر اپنے اس فتویٰ کو ثابت کر دیا۔
1996ء میں "تحفظ حقوق نسواں"کنونشن منعقد کیا جس میں بیجنگ میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں کی گئی قانون سازی کی مذمت کی گئی اور تحفظ ناموس نسواں اور حقوق نسواں کا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا گیا۔ جس میں عورتوں کے حقوق و فرائض اس طرح بیان کیے گئے کہ مغرب کی ترقی یافتہ تہذیب و معاشرت اس کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔
تحریکوں کی زندگی میں ایسے حقائق ایک انقلاب اور معاشرتی تبدیلی کا عندیہ ہوتے ہیں۔ جہاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی فکر و نظریہ اور خدمات ہیں وہیں دخترانِ اسلام کو چاہیے کہ وہ اس مشن کے ذریعے حالات کے دھارے کو موڑ کر روح انقلاب کو زندہ کریں۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو صحت و سلامتی کے ساتھ عمرِ خضر عطا فرمائے اور ہمیں تا دم آخر اس سنگت اور مشن کے ساتھ وابستہ رکھے کیونکہ ایسی نابغہ روزگار ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں جو گھسی پٹی راہوں پر چلنے کے بجائے اپنی قوت ارادی سے بڑے بڑے طوفانوں کا رُک موڑ دیتی ہیں۔ ان کے امتیازات ایک نہیں بلکہ بہت سے میدانوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ