فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی ﷺ

فرمانِ الٰہی

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ کَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَاَصْلَحَ بَالَهُمْ. ذٰلِکَ بِاَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا اتَّبَعُوْا الْبَاطِلَ وَاَنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّھِمْ ط کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللهُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَهُمْ. فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ط حَتّٰی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَاِمَّا مَنًّا م بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا ذٰلِکَ ط وَلَوْ یَشَآءُاللهُ لَا نْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلٰـکِنْ لِّیَبْلُوَاْ بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ ط وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ.

(محمد، 47: 2 تا 3)

’’اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد (ﷺ) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے اللہ نے ان کے گناہ ان (کے نامۂِ اعمال) سے مٹا دیے اور ان کا حال سنوار دیا۔ یہ اس لیے کہ جن لوگوں نے کفر کیا وہ باطل کے پیچھے چلے اور جو لوگ ایمان لائے انہوں نے اپنے رب کی طرف سے (اتارے گئے) حق کی پیروی کی، اسی طرح اللہ لوگوں کے لیے ان کے احوال بیان فرماتا ہے۔پھر جب (میدانِ جنگ میں) تمہارا مقابلہ (متحارب) کافروں سے ہو تو (دورانِ جنگ) ان کی گردنیں اڑا دو (کیونکہ انہوں نے اِنسانیت کا قتل عام کیا اور فساد انگیزی کے ذریعے اَمن برباد کیا)، یہاں تک کہ جب تم انہیں (جنگی معرکہ میں) خوب قتل کر چکو تو (بقیہ قیدیوں کو) مضبوطی سے باندھ لو، پھر اس کے بعد یا تو (انہیں) احسان کرتے ہوئے (بلا معاوضہ چھوڑ دو) یا فدیہ (یعنی معاوضۂ رہائی) لے کر (آزاد کر دو) یہاں تک کہ جنگ (کرنے والی مخالف فوج) اپنے ہتھیار رکھ دے (یعنی صلح و امن کا اعلان کر دے)۔ یہی (حکم) ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے (بغیر جنگ) انتقام لے لیتا مگر (اس نے ایسا نہیں کیا) تاکہ تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائے، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے گئے تو وہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا ‘‘

فرمانِ نبوی ﷺ

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللہَ قَالَ: مَنْ عَادَی لِي وَلِیّاً، فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيِ بِشَيئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْهِ، وَمَا یَزَالُ عَبْدِي، یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحَبَبْتُهُ: کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي یَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي یُبْصِرُ بِهِ، وَیَدَهُ الَّتِي یَبْطِشُ بِھَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي یَمْشِي بِھَا، وإنْ سَأَلَنِي، لَأُعْطِیَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي، لَأُعِیْذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيئٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ، یَکْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَهُ مَسَائَتَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

(المنهاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ، ص: 644،645)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندۂ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں۔ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔‘‘