سیدی شیخ الاسلام کی شخصیت جامع اوصاف و کمالات کا مجموعہ ہے۔ آپ کی شخصیت کے ان گنت گوشے ہیں جن کو اگر صفحات کی زینت بنایا جائے تو کئی کتب لکھی جا سکتی ہیں اور بلاشبہ آپ کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر تاحال ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کئی مقالہ جات اور سیکڑوں کی تعداد میں آرٹیکلز منطرِ عام پر آچکے ہیں۔ آپ آسمانِ علم و حکمت میں چمکتے سورج کی مانند جلوہ گر ہیں جس کی روشن کرنیں کائنات کے ذرے ذرے کو منور کررہی ہیں۔ آپ کی حیاتِ مقدسہ اس شعر کی مصداق ہے:
میں نخل ہوں وفا کا، محبت ہے پھل مرا
اس قول پر ہے شاہد عادل عمل مرا
عصرِ حاضر شیخ الاسلام وہ عظیم ہستی ہیں جو کائناتِ ہست و بود میں امن و آشتی اور محبت و مودت کے چراغ چہارِ دانگِ عالم میں روشن کر رہی ہے۔ ایسی عظیم ہستی کے بارے میں لکھنے کی جسارت گویا سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ہے۔ آج آپ کی ولادت کی خوشی میں ہدیہ تبریک اور بارگاہِ خداوندی میں ہدیہ تشکر پیش کرنے کے لیے اپنی عاجزانہ کاوش بطور نذرانہ پیش کر رہی ہوں۔ گو یہ تحریر اپنی وقعت و حیثیت میں کم علمی اور کم مائیگی کے احساس سے لبریز ہے مگر فقط اک وہ امید دامن گیر ہے جو آتشِ نمرود کو بجھانے کے لیے اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لیے ایک چڑیا کے دل میں تھی کہ
مجھے معلوم ہے کہ اس قطرہ سے آگ نہیں بجھے گی مگر آگ بجھانے والوں میں نام آ جائے گا۔
اور دربارِ مصر میں یوسف کے خریداروں میں ایک اَٹی سے یوسف خریدنے کی خواہش اُس بڑھیا کے دل میں جاگزیں تھیں کہ
میں جانتی ہوں اس اَٹی سے یوسف نہیں ملے گا مگر اس کے خریداروں میں نام آجائے گا۔
آج وہی کیفیت اس ناچیز کے قلب میں بھی موجزن ہے کہ میری یہ تحریر شاید علم اور تحقیق کے معیارات پر پوری نہ اترے مگر اپنے مُرشد و مربی اور ہر دل عزیز شیخ کے چاہنے والوں کی صف میں اس عاجز کا شمار ہو جائے گا۔ بروزِ محشر بخشش کا سامان تو ہو جائے گا کہ مولا تیرے ولی اور عاشق سے نسبت ہے تُو لاج رکھ لے، کیوں کہ تیرے محبوب نبی ﷺ کی زبانِ اقدس سے اولیاء اللہ کی نسبت احادیث مقدسہ کو سنا اور پڑھا تھا کہ تو اپنے ولیوں سے محبت کرنے والوں کی لاج نبھاتا ہے۔
عاشقِ ساقیٔ کوثر
محبتِ حقیقی ایک لازوال جذبہ ہے اور اگر اس جذبہ کو پروان چڑھایا جائے تو یہ عشق کی وادیوں میں داخل ہوجاتاہے اور عشق ایک ایسی کیفیت ہے جو عاشق کو اپنے محبوب کے رنگ میں ڈھال دیتی ہے، اُس کی زندگی کے ہر عمل سے عشق کی جھلک نظر آتی ہے گویا عاشق فنا فی المعشوق ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام کو جیسے میں نے سمجھا کے موضوع کی مناسبت سے سیدی شیخ الاسلام کی سب سے نمایاں خوبی اور صفت عشقِ الٰہی اور عشقِ مصطفی ﷺ ہے۔ آپ عاشقِ مولا اور عاشقِ ساقی کوثر ﷺ ہیں، یہ پہلو آپ کی پوری زندگی پر محیط و غالب ہے۔ آپ کی کُل حیات نہ صرف اس کی عکاسی کرتی ہے بلکہ آپ نے عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں بھی جاگزیں کر دیا ہے۔ اسی طاقت کو آپ علمی، معاشی، معاشرتی اور نظریاتی سطح پر ہر برائی کے سدِ باب کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ہر سطح پر کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں گویا آپ اپنے حال و قال اور عمل سے اقبال کے اس پیغام کی عکاسی کر رہے ہیں:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اجالا کر دے
آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عشق کا انوکھا انداز متعارف کرایا۔ آپ نے آقائے دوجہاں ﷺ کی خدمت میں درود و سلام کے نذرانے پیش کرنے کا ایک باقاعدہ سلسلہ شروع کرایا اس مقصد کے لیے گوشہ درود قائم فرمایا۔ آپ کا یہ اقدام اپنے محبوب آقا ﷺ سے محبت کا ایک انداز ہے وہ کریم آقا جن کا درود گزار خود خدا بھی ہے اور ملائیکہ بھی۔
مادیت پرستی کے اس دور میںجب اُمت بارگاہِ مصطفوی ﷺ سے دوری کا عذاب جھیل رہی تھی، اطاعت و عشقِ رسول ﷺ کے جذبات ماند پڑ رہے تھے، ذاتِ مصطفی ﷺ جو اُمتِ مسلمہ کی توجہات کا محور و مرکز اور نکتہ اتحاد تھا؛ اسے باعثِ نزاع بنانے کی مذموم کوششیں ہو رہی تھیں، ان حالات میں امت کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دینے اور اسے پار لگانے کے لیے اور امت کے اپنے نبی ﷺ سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو بحال کرنے میں شیخ الاسلام نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ آپ نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے نوجوانانِ اُمت کے دلوں کی ویران بستیوں کو آباد کرتے ہوئے ان میں محبت و عشقِ مصطفی ﷺ کے چراغ فیروزاں کیے، انہیں والضحیٰ چہرے کا متوالا بنانے اور زلفِ عنبریں کا اسیر کرنے کے لیے محبت و عشق کی وادیوں کا مسافر بنایا؛ انہیں اس قابل بنایا کہ ان کی زبانوں سے یہ التجا نکلتی ہے:
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیؓ سوزِ صدیقؓ دے
گویا آپ نے نوجوانانِ امت محمدی ﷺ کے شعور کو اس انداز سے بیدار کیا کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے عشق میں مست اور دیوانہ بھی ہیں اور آپ ﷺ کے دینِ مبین کی سر بلندی میں باہوش و حواس خدمت میں بھی مصروف ہیں۔ اگر عشق میں جان وارنے کی بات آئے تو لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں کرتے اور کفر و طاغوت کے ایوانوں میں صدائے حق بلند کرنے کی بات آئے تو دشمنانِ اسلام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ فریضہ بھی ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ غیرت و حمیت کے پیکر یہ نوجوان آپ کی صحبتِ باصفا نے تیار کیے ہیں۔ گویا:
غذا شعور کو ملتی ہے تو جو لب کھولے
خرد کے نور کا موسم ہیں صحبتیں تیری
آپ کی ساری زندگی شرق تا غرب دنیا کے ہر کونے میں عشقِ مصطفی ﷺ کے احیاء اور فروغ میں بسر ہوئی ہے۔ یورپ کی چکا چوند میں مادیت کے بتوں کے سامنے سر بسجود لاکھوں نوجوان، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو اٹھا کر آپ نے صاحبِ گنبدِ خضراء کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ ان کا جینا مرنا، شب و روز کی محنتوں اور مشقتوں کا حاصل اب مصطفوی تحریک ہے۔
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں تیرا نام رہے
عشق و محبت کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اسی کا ذکر کثرت سے کرے ، اُسی کے گُن گائے، اُسی کے گیت الاپے، اُسی کے ترانے لبوں پہ سجائے۔ عشق حقیقی اور محبتِ حقیقی کا حق اس سے کئی گنا بڑھ کر ہے کہ عاشق اپنے محبوبِ حقیقی کا ہی نام جپے، اُسی کے نام کا پرچار کرے۔ اس تناظر میں شیخ الاسلام کی ہستی کو اگر دیکھا جائے تو آپ عاشقِ مولا اور عاشقِ محبوبِ مولا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی کا ہر رخ اس امر کا ثبوت دے رہاہے کہ:
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں تیرا نام رہے
آپ کی گفتگو ہو، تحریر ہویا عمل ہو ہر ایک پہلو سے عشقِ رسول ﷺ کا رنگ جھلکتا ہے۔
تقویٰ اور پرہیزگاری کا مرقع
شیخ الاسلام ایک متقی اور پرہیز گار انسان ہیں۔ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ خدا کی یاد سے معمور ہے۔ آپ کی ساری زندگی عبادت و ریاضت اور مجاہدات سے بھری ہے۔ نمازِ تہجد اور دیگر نفلی عبادات بچپن کے اس دور سے آپ کی زندگی کا حصہ ہیں جب عام بچوں کو فرض نمازوں کی ادائیگی اور اہمیت کا شعور بھی نہیں ہوتا۔ آپ فرماتے ہیں کہ بچپن کا زمانہ یاد نہیں جب نمازِ تہجد شروع کی تھی۔ قارئینِ کرام! ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ کو عبادت کا ذوق و شوق اور روحانی لذتوں کا احساس ورثہ میں ملا ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ سادگی، صبر و رضا، ہمت و جرات کا پیکر تھیں۔ انہوں نے اپنے بچے کی روحانی و جسمانی پرورش و نگہداشت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ آپ کے والدِ گرامی اپنے دور کے عظیم المرتبت صوفی تھے۔ شیخ الاسلام اپنے بچپن میں جب رات کو بیدار ہوتے تو اپنے والد محترم کو مصلّے پر سجدہ ریزی اور اپنے خالق و مالک سے راز و نیاز میں محو دیکھتے۔ ایسے خوبصورت ماحول میں پرورش پانے اور پروان چڑھنے والی ہستی کو آج دنیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نام سے جانتی ہے۔ آپ نے تقویٰ و پرہیزگاری کی یہ لازوال دولت اپنے آباء سے وراثت میں پائی ہے، آج اسی دولت کو آپ تحریکِ منہاج القرآن کا عظیم الشان پلیٹ فارم قائم کر کے حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت میں بھی تقسیم فرما رہے ہیں:
خدا کے خوف سے معمور ساعتیں تیری
گرفت گریہ شب میں خلوتیں تیری
تو میرے عہد کی پہچاں ہے میرے قائد!
اُفق اُفق پہ لکھی ہیں حکایتیں تیری
آپ نے نوجوانانِ ملت کو یاد خدا و مصطفی ﷺ میں رونے اور انہیں منانے کا قرینہ سکھایا ہے۔ ان کی جبینوں کو رات کے پچھلے پہر بارگاہِ خدا میں سجدہ ریزی سے آشنا کیا ہے۔ انہیں زندگیوں کا مصرف بتایا ہے۔ تزکیہ نفس اور نورِ معرفت کے چراغ وابستگان کے قلوب میں منور کیے ہیں۔ بے جا دنیاوی خواہشات سے توجہ ہٹا کر رخ دیدارِ الہٰی اور عشقِ مصطفی ﷺ کی طرف موڑا ہے۔
یہاں سوئے منزل نظر کس نے بخشی
جوانوں کو آہِ سحر کس نے بخشی
کبھی بحرِ قرآن سے گوہر نکالے
اشارات و اسرار لفظوں میں ڈھالے
دینِ مصطفی ﷺ کا حقیقی خادم
ہوسِ دنیا نے آج کے انسان کو بے حس اور مفاد پرست بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ کوئی جاہ و منصب کے پیچھے مارا مارا پھر رہا ہے تو کوئی جھوٹی انا کا قیدی ہے۔ انفرادی و اجتماعی ہر دو سطح پر اُمتِ مسلمہ کا ہر فرد اس سے متاثر ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ایسی ہستیاں خال خال نظر آتی ہیں جو خدمتِ دین میں اخلاص اور للّٰہیت کے ساتھ مصروفِ کار ہوں۔ اس پس منظر میں اگر شیخ الاسلام کی ذات کا جائزہ لیا جائے تو آپ بلاشبہ دینِ مصطفی ﷺ کی سرفرازی و سربلندی کے لیے اس شعر کے مصداق:
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔ آپ کی شخصیت میں کمال درجے کا استغناء پایا جاتاہے۔ آپ کا مزاج درویشانہ ہے۔ درویش کسی جاہ و منصب اور دنیاوی مال و متاع کے محتاج نہیں ہوتے وہ اللہ کے سوا کچھ پاس نہیں رکھتے، وہ دنیا میں کسی چیز کے مالک نہیں بنتے، کسی چیز کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرتے، انہیں جو کچھ ملا ہو اسے خدا ہی کی ملکیت جانتے ہوئے خود دستبردار رہتے ہیں۔ یہی وہ جھلک ہے جو شیخ الاسلام کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ آپ ہر دنیاوی غرض و لالچ سے پاک فقط اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں۔ آج کے دور میں شیخ الاسلام دینِ مصطفی کا حسین استعارہ ہیں۔ آپ نے دنیائے عالم کے سامنے اسلام کا امن و سلامتی اور اخوت و مودت والا حقیقی چہرہ روشن کیا ہے۔
صحبتِ مردِ باصفا
عصرِ حاضر میں خدائے عظیم کا انعام شیخ الاسلام کا وجودِ مسعود ہے۔ بلاشبہ راہِ حق کے سالکین و متلاشیان کے لیے آپ ولی کامل ہیں۔ آپ کے در پہ عشق و معرفتِ خدا و مصطفی ﷺ کی لازوال دولت نصیب ہوتی ہے۔ آپ کی صحبتیں قرونِ اولیٰ اور سلف صالحین کی یاد دلاتی ہیں۔ آپ کی صحبت میںعلم و حکمت کے ایسے نایاب گوہر نصیب ہوتے ہیں جو مطالعہ کتب سے نہیں ملتے۔ ان کی گفتگو کا ایک ایک حرف علم و حکمت کا نچوڑ ہوتا ہے۔
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
امینِ ولایت علی علیہ السلام
آپ نے مولائے کائنات اور اہلِ بیت اطہار کے دفاع اور عظمت و فضیلت کے باب میں درجنوں کتب اور لاتعداد خطابات فرمائے ہیں۔ آپ امینِ ولایتِ علی علیہ السلام ہیں۔
ہمیشہ وردِ زباں ہے علیؓ کا نام اقبال
کہ پیاس رُوح کی بجھتی ہے اس نگینے سے
پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہ گار بوترابی ہے
محافظِ فیضِ غوثِ قطبِ جلّی
امینِ فیضانِ غوثِ اعظمؒ
دنیا پرستی اور مادیت پسندی نے جہاں زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے وہی زندگی کا روحانی پہلو بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تصوف و روحانیت کا وہ رخ مادیت کی زد میں نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے جو قرونِ اولیٰ اور سلف صالحین کے زمانے میں نظر آتا تھا۔ آج تصوف کو محض تعویذ اور پھونکوں کے ذریعے مسائل حل کرنے کے عمل تک محدود کر دیا گیا ہے۔ شریعت اور طریقت کو الگ کر کے تصوف کے نام پر ڈھونگ رچائے جاتے ہیں۔ ایسے پُرفتن دور میں تصوف کی درست تعلیمات کا تحفظ اور احیا شیخ الاسلام نے ممکن بنایا۔ غوثِ اعظم شیخ عبد القادر جیلانی کی تعلیماتِ تصوف کو عام کیا۔ عصرِ حاضر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری حضور غوثِ اعظم شیخ عبد القادر جیلانی کی تعلیمات کا عکس ہیں۔ آپ محافظِ فیضانِ غوثِ اعظم ہیں۔ تصوف و روحانیت کی حقیقی صورت جو غوثِ پاک کی تعلیمات سے ہمیں ملتی ہے اس دور میں اس کی عملی تصویر شیخ الاسلام نے پیش کی ہے۔
خطیبِ بے مثل
شیخ الاسلام اپنے زمانے کے خطیبِ بے مثل ہیں۔ آپ کو قدرت نے وہ اعجاز نطق دیا ہے جس کی تاثیر ذہنوں کے ذریعے روح میں اترتی جاتی ہے۔ زبان و بیان کو جب دلائل برہانی سے مزین کر کے آپ لب کھولتے ہیں تو مخاطب کا تفاخر علمی دم بخود ہو کر ان کی رفعتِ علمی کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ آپ نے خطابت کے مروجہ اندازِ بیان کو مسترد کرتے ہوئے ایک تجدیدی اندازِ خطابت متعارف کرایا جس کی بنیاد علمی و تحقیقی دلائل پر استوار کی اور مخاطب کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ نے دین کی تعلیمات کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا۔
آپ کو بیک وقت دنیا کی کئی زبانوں پر ملکہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرق تا غرب دنیا کے ہر کونے میں آپ نے انتہائی احسن انداز میں اپنے پرائے سب کو دینِ اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ آپ کے حسنِ بیان اور اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر ہزارہا افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
نظامِ مصطفوی و انقلاب کا داعی
وہ عہد حاضر و موجود کا بےمثل خطیب
آپ کے اندازِ تکلّم، الفاظ کے چنائو، معانی میں گہرائی وگیرائی، موثر اندازِ بیاں اور وسعتِ علمی نے لوگوں کو آپ کے خطابات کا گرویدہ کر دیا ہے۔ آپ نے خطابت کے شعبے کو ہمہ جہت، ہمہ رخ اور ہمہ پہلو متاثر کیا۔
حوصلہ میری ارضِ وطن کا
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ اپنے دور کے مروجہ نظامِ سیاست سے بیزار ہیں۔ آپ محمدی اور حسینی سیاست کے قائل ہیں۔ جو عوام کی فلاح و بہبود، عدل و انصاف کی فراہمی، حق کی تبلیغ، اخلاقی اقدار کی پاسداری کی ضامن ہے۔ آپ نے سیاست کا وہ رخ پاکستانی عوام کے سامنے پیش کیا جو دینِ اسلام کے عین مطابق ہے۔ آپ غرباء کے حقوق کی جنگ پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں آپ کے ساتھ آپ کے کارکنان و وابستگان اور ہر دردمند دل رکھنے والا انسان شامل ہے جو اس فرسودہ اور باطل نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آپ دن رات عوام کے حقوق کے لیے کوشاں ہیں ۔ گویا آپ اپنے حال و قال سے یہ کہہ رہے ہیں:
خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
شیخ الاسلام شجاعت و بہادری اور جواں مردی کا پیکر ہیں۔ آپ کی ذات ارضِ وطن کا مان اور حوصلہ ہے۔ خدا گواہ ہے کہ آج اگر ملکِ پاکستان کی کوئی پہچان دنیا میں موجود ہے تو وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کی ذات بابرکات ہے۔
شخصیت میں اعتدال و توازن
شیخ الاسلام کی شخصیت میں توازن اور اعتدال کمال درجے کا پایا جاتا ہے۔ ایک طرف آپ کی زندگی میں ہر قدم پر نظم و ضبط اور اُصولوں کی پاسداری کا عنصر غالب نظر آتا ہے اور دوسری طرف انتہائی سادہ، نرم خُو اور خوش مزاج طبیعت کے انسان بھی ہیں۔ گویا عدل اور احسان دونوں رخ آپ کی شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں۔ مزاحمتوں اور مخالفتوں کی پرواہ کیے بغیر آپ ہر سو پرچمِ حق بلند کر رہے ہیں۔
تری قامت کی درازی کا گِلہ ہے سب کو
ورنہ شہر میں لوگوں سے ترا جھگڑا کیا ہے!
حاصلِ کلام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کی عظیم المرتبت شخصیت اور حیاتِ مقدسہ کے تمام پہلوؤں کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکن اور دشوارترین امر ہے۔ آپ کی زندگی کے ان گنت گوشے ایسے ہیں جو ابھی زبان و بیان کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دورِ فتن میں اس فہم و بصیرت سے نواز رکھا ہے جو اپنے زمانے کی فراستِ علمی کے مقابلے میں شانِ امامت کی سزاوار ہے، وہ اجتہادی بصیرت عطا کر رکھی ہے جس سے مسائل کا حل خود بخود نکلتا چلا جاتا ہے اور وہ مجتہدانہ شان ارزاں کی ہے جس کے سامنے معاصرین کا طمطراق خوشہ چینی پر مجبور ہو جاتا ہے۔عصرِ حاضر میں دین کی تجدیدو احیاء کا سہرا آپ کے سر ہے۔ آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شروع دن سے آج تک تجدید و احیاء دین کے عظیم مصطفوی مشن کی تکمیل کے لئے وقف ہے۔ عالمی سطح پر حقیقی اسلامی تعلیمات اور امن و محبت کے فروغ کے لئے کی گئی محنت اور جہد مسلسل کے تناظر میں شیخ الاسلام کی زندگی کا ہر آنے والا دن، مہینہ اور سال نئے ریکارڈز مرتب کرتا اور اہلِ علم و عرفاں کی آنکھوں کو خیرہ کرتا نظر آتا ہے۔ گویا آپ کو اپنے محبوب آقا ﷺ کے وسیلہ سے خدائے لم یزل کے وعدہ ورفعنا لک ذکرک کا براہِ راست فیض نصیب ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمتوں اور مخالفتوں کی شدت کے باوجود شیخ الاسلام دینِ مبین کے پرچم کو شرق تا غرب بلند کررہے ہیں۔ دین کی مٹی ہوئی قدروں کو ازسرِ نو زندہ کررہے ہیں، آپ دنیائے عالم میں اخوت و بھائی چارے، محبت و مودّت اور وحدت و اتحاد کے علم بردار ہیں، آپ حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے غریبوں اور بے کسوں کا سہارا ہیں۔
بھلائی مانگتا سب کی
دعا کا سائباں تم ہو
سفیرِ امن عالم تم
محبت کی اذاں تم ہو
آپ اسلام کو درپیش چیلنجز کو بھانپتے ہوئے پوری حکمت و بصیرت کے ساتھ حق کا چراغ لے کر نہ صرف خود آگے بڑھ رہے ہیں بلکہ ایک قافلہ عشق و انقلاب کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ آپ سفینہ ولایت کے سمندروں میں منزلوں کے ہمرکاب ہیں۔آپ نے حضور ﷺ کی امت کے نوجوانوں کی اخلاقی و روحانی تربیت اس انداز سے کی ہے کہ ان کے ظاہر و باطن سے مصطفویت کا رنگ جھلکتا ہے، ان کے سینوں میں ادب و عشقِ رسالتِ مآب ﷺ کے چراغ روشن کیے ہیں، انہیں شب زندہ دار بنایا ہے، انقلاب کی اک نئی جستجو اور خو عطا کی ہے۔ آپ سے وابستہ ہر فرد اک جوش و ولولے اور لگن کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔
آپ کی زبان و قلم نے اسلامی نظام علم و عمل کے وہ چراغ روشن کر دیئے ہیں جو آئندہ صدیوں میں بھی تاریک راستوں پر روشنی بکھیرتے رہیں گے۔
ہر حال میں ہر دور میں زندہ رہوں گا
میں زندہ و جاوید ہوں پائندہ رہوں گا
تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں آئندہ رہوں گا
بلاشبہ اس دور میں شیخ الاسلام کی ہستی اُمتِ مسلمہ کے لیے خداوندِ عالم کا عظیم تحفہ ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس تحفۂ خداوندی کی قدر کریں اور خود کو اپنے شیخ کے نقشِ قدم پر چلاتے ہوئے ان کے قلب و نظر کو ٹھنڈک اور سکون بہم پہنچانے کا بااحسن و خوبی اہتمام کریں۔ بارگاہِ ایزدی میں بصد ادب و احترام اور عجز و انکساری کے ساتھ یہ التجا ہے اپنے محبوب ﷺ کے وسیلہ جلیلہ کے صدقے سے ہماری سنگت و صحبت کو دوام اور استقامت نصیب فرمائے اور بروزِ حشر اپنے شیخ کی سنگت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شفاعتِ کبریٰ سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین بجاہِ سید المرسلین ﷺ