شیخ الاسلام کا مجتہدانہ کردار

سعدیہ کریم

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک نابغہ روزگار شخصیت ہیں ان کا مجتہدانہ کردار اسلام کے ماتھے پر ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے وہ ایک فرد نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کی تاریخ کے عہد حاضر کے موسس اور روشن مستقبل کی نوید ہیں۔ ان کے مجتہدانہ کردار کا تذکرہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ اجتہاد کیا ہے؟ اور مجتہد کون ہوتا ہے؟

اجتہاد کا مفہوم:

اجتہاد عربی زبان کے لفظ ’’جہد‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ’’کوشش‘‘، ’’محنت‘‘ اور ’’مشقت‘‘۔

اس مفہوم کے لحاظ سے ہر وہ کام جس کے کرنے میں انتہائی محنت اور مشقت طلب ہو اور جس کے لیے بہت کوشش کی جائے اسے اجتہاد کہتے ہیں اگر کسی بھی کام کے کرنے میں محنت اور مشقت نہ پائی جائے تو وہ اجتہاد نہیں ہوتا۔

اجتہاد کی تعریف:

درج بالا مفہوم کی روشنی میں اجتہاد کی تعریف یوں کی جائے گی:

’’شرعی احکام کو معلوم کرنے کے لیے ایسی انتہائی کوشش کی جائے کہ اس سے زیادہ کوشش کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہو۔‘‘ علامہ زرکشی لکھتے ہیں:

’’استنباط کے طریقے سے کسی شرعی عملی حکم کو پانے میں طاقت صرف کرنے کا نام اجتہاد ہے۔‘‘

اجتہاد کا دائرہ کار متعین ہونا چاہیے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ کون سے ایسے امور و معاملات ہیں جو اجتہاد کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور وہ کون سے امور ہیں جن میں اجتہاد نہیں ہوسکتا۔

مجتہد کون ہوتا ہے؟:

مجتہد سے مراد ایسا شخص ہے ’’جس میں اجتہاد کی صلاحیت موجود ہو یعنی احکام شرعیہ عملیہ کو ان کے تفصیلی دلائل سے مستنبط کرسکتا ہو۔‘‘

اجتہاد کے لیے شرائط:

علمائے اصول فقہ نے اپنی کتاب میں بعض ایسی شرائط ذکر کی ہیں جن کا مجتہد میں ہونا بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر عبدالکریم زیدان لکھتے ہیں کہ مجتہد میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا انتہائی ضروری ہے:

  1. کتاب اللہ کی معرفت رکھتا ہو۔
  2. سنت رسول ﷺ کی گہری واقفیت ہو۔
  3. علم اصول فقہ کا ماہر ہو۔
  4. مواقع اجماع کا علم رکھتا ہو۔
  5. مقاصد شریعت سے آگاہ ہو۔
  6. عربی زبان کا ماہر ہو۔
  7. اجتہاد کی فطری استعداد موجود ہو یعنی اس کے پاس لطیف ادراک، ذہن کی پختگی، عمدہ بصیرت، حسن فہم اور قوی حافظہ ہو۔

مذکورہ بالا شرائط کی روشنی میں اگر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان تمام اوصاف سے مزین ہیں اور یہ ان تمام شرائط پر بدرجہ اتم پورا اترتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں انھیں قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے مجتہدانہ کردار کا زمانہ معترف ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار و نظریات میں اجتہاد خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے علمی و فکری جمود کے ایک ایسے دور میں اجتہادی فکر کے فروغ کا آغاز کیا جب امت افراط و تفریط کا شکار ہوچکی تھی اور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کی وضاحت دین اسلام کے بنیادی ارکان سے دور تھی۔ امت مسلمہ کی درست رہنمائی کے لیے انھوں نے اسلام کے فلسفہ اجتہاد اور اس کے دائرہ کار کو ہر خاص و عام میں متعارف کروایا اور اس کی عملی صورت دنیا کے سامنے پیش کی۔

ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ اجتہاد کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نہ تو تقلید کی جائے اورنہ ہی اکابرین اور اسلاف کے علمی سرمایہ سے لاتعلقی برتی جائے بلکہ ان کے افکار اور خدمات کی روشنی میں دینی علمی سرمایہ سے استفادہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ افکار و نظریات میں جدید و قدیم علوم کی یکسانیت نظر آتی ہے۔

شیخ الاسلام کا مجتہدانہ رویہ:

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی فکر کی بنیاد قرآنی تعلیمات پر رکھی ہے۔ احوال امت اور عملی کیفیات کو سیرت مصطفوی کے آئینے میں ڈھالنے کی سعی کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صالحیت اور روحانیت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ وہ اس نظریہ کے قائل ہیں کہ تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو اعلیٰ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور اسلامی اقدار کے احیاء و فروغ پر مبنی ہو۔

اسی بنیاد پر آپ نے اپنا فلسفہ انقلاب بھی پیش کیا تاکہ عالمی سطح پر اسلامی اقدار اور افکار ونظریات کا احیاء ممکن ہوسکے۔ ان کی فکری و نظری خصوصیات کے جائزہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ میں ان کا بہت اہم کردار ہے دین کی مٹتی ہوئی اقدار کا احیاء کرنے کے پیش نظر 600 سے زائد موضوعات پر خطابات اور تصانیف کا ذخیرہ امت کو عطا کیا جس سے معاشرے کے ہر طبقے کی علمی، عملی اور فکری اصلاح میں اجتہاد کے سلسلے میں ان کی تالیفات نہایت اہمیت کی حامل ہیں جن میں ’’نص اور تعبیر نص‘‘، ’’تحقیق مسائل کا شرعی اسلوب‘‘، ’’اجتہاد اور اس کا دائرہ کار‘‘، ’’عصر حاضر اور فلسفہ اجتہاد‘‘، ’’تاریخ فقہ میں ہدایہ اور صاحب ہدایہ کا مقام‘‘، ’’التصور الشریعی للحکم الاسلامی‘‘، ’’فلسفہ الاجتہاد والعالم المعاصر‘‘،

"Introduction to the fatwa on suicide Bombing and Terrorism, Philosophy of Ijtihad and the modern world, Ijithad (meanings, application and scope)"

شامل ہیں۔

’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج (مبسوط تاریخی فتویٰ)‘‘، ’’خون مسلم کی حرمت‘‘، ’’منہاج المسائل‘‘، ’’الحکم الشرعی‘‘، ’’نصاب تربیت (حصہ اول)‘‘، ’’منہاج الخطبات للعیدین والجمعات‘‘ بھی نہایت اہم اجتہادی تالیفات ہیں۔

’’عرفان القرآن‘‘، ’’منہاج السوی‘‘، ’’سیرت الرسولؐ‘‘ اور ’مقدمہ سیرت الرسول ﷺ ‘‘، ’’قرآنی انسائیکلو پیڈیا‘‘، ’’اسلام اور جدید سائنس‘‘ اور ’’اسلامی امن نصاب‘‘ ان کی اجتہادی فکر کے عکاس ہیں۔

شیخ الاسلام کی مجتہدانہ کاوشوں کا سرسری جائزہ:

عصر حاضر میں اگر شیخ الاسلام کی مجتہدانہ کاوشوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فہم دین اور ابلاغ اسلام میں آپ غزالیؒ وقت ہیں۔ انھوں نے عقائد اسلام کو براہ راست قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے استدلال و استنباط کے ذریعے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اخذ احکام، استنباط اور استدلال میں انھیں خصوصی مہارت حاصل ہے۔ ان کا استدلال قیاس پر مبنی ہوتا ہے جو اجتہاد کی شرط اولین ہے۔ قدیم و جدید علوم و فنون پر گہری نظر رکھتے ہوئے عصری اور سائنسی علوم سے استفادہ کرنے کا ملکہ ان میں موجود ہے ان کی تصانیف اس کا عملی ثبوت ہیں۔ ذیل میں ان کی مجتہدانہ کاوشوں اور تصانیف کا ایک جائزہ پیش ہے۔

عرفان القرآن:

عرفان القرآن ان کی ایک بے نظیر تصنیف ہے قرآن کریم کا یہ ترجمہ تفسیری شان کا حامل ہے۔ اس کے مطالعہ کے دوران قاری آیات کے مفاہیم کو اپنے قلب و باطن میں اترتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات اور ضروری تقاضوں کا ترجمہ اتنی جامعیت اور وضاحت سے کیا گیا ہے کہ قاری کسی دقت نظری کا شکار نہیں ہوتا اور اس کے لیے ایک واضح راہ عمل متعین ہوجاتی ہے۔ یہ ترجمہ آیات کے اقتضاء کے قریب تر ہے جو شیخ الاسلام کی وسعت نظری اور آئمہ تفسیر کی کاوشوں پر گہری نظر کی دلیل ہے۔ اس ترجمہ میں عقلی تفکر کے ساتھ ساتھ عملیت کے پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے اور ان بنیادی نکات کو واضح کیا گیا ہے جن کا دینی جدوجہد کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ قرآنی ہدایت و تعلیمات کے سلسلے میں روحانی حلاوت اور قلبی تذکیر کا اہتمام بھی کیا گیا ہے کیونکہ اعمال صالحہ کے اثرات اور انوار مرتب ہونے کا عملی تصور تصوف کی تعلیمات سے ہی ممکن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عصری و سائنسی تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ سائنسی تحقق اور جدت نظری عرفان القرآن کا خاصہ ہے۔ اس ترجمہ میں علمی، عملی، فکری اور فنی محاسن کا خصوصی طور پر التزام کیا گیا ہے جس سے صاحب ترجمہ کے مخصوص تخلیقی اور اجتہادی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔

المنہاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ:

یہ کتاب 1000 احادیث کا مجموعہ ہے جنھیں متفرق ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر باب میں اسی سے متعلقہ احادیث کو بیان کیا گیا ہے۔ اضافہ کے طور پر آثار صحابہ اور تابعین کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ تخریج احادیث کا خصوصی اہتمام ہے اس مجموعہ کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر حدیث مبارکہ کا اردو ترجمہ بھی ساتھ ہی موجود ہے۔ یہ کتاب بھی مولف کے اجتہادی فکرو نظر کی عکاس ہے۔

قرآنی انسا ئیکلو پیڈیا:

شیخ الاسلام کی احیائے اسلام اور تجدید دین کی جدوجہد کا اہم مقصد ’’رجوع الی القرآن‘‘ ہے۔ انھوں نے امت کا تعلق قرآن سے جوڑنے کے لیے آیات قرآنی سے استنباط احکام، استدلال اور قدیم و جدید علوم و فنون کے امتزاج سے ایک نئے علمی، تحقیقی، ثقہ، سائنسی اور عصری اسلوب کی بنیاد رکھی اور اس اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے قرآنی علوم ومعارف اور مطالب و مضامین پر مشتمل قرآنی انسائیکلو پیڈیا تیار کیا۔ یہ انسائیکلو پیڈیا قرآنی مضامین کا ایک ایسا جامع اور نادر مجموعہ ہے جو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ نسل نو کی علمی، فکری، اخلاقی، روحانی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی رہنمائی کا آئینہ دار ہے۔ شیخ الاسلام کی یہ منفرد کاوش ان کے علمی ذوق اور اجتہادی فکر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

سیرت الرسولؐ اور مقدمہ سیرت الرسول ﷺ:

آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی شخصیت کے انتہائی اہم پہلوؤں پر مشتمل سیرت نبویؐ کا مطالعہ شیخ الاسلام کے زور قلم کا نتیجہ ہے انھوں نے فضائل، شمائل اور خصائل مصطفی ﷺ کی اہمیت اور افادیت کو مختلف معاشرتی پہلوؤں کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے سیرت رسول ﷺ کے فکری، نظریاتی، تعلیمات اور جمالیاتی پہلوؤں کو اجتہادی انداز سے دنیا کے سامنے پیش کیا تاکہ امت مسلمہ کا ان کے نبی کے ساتھ قلبی لگاؤ استوار ہو اور محبت اور ادب کا جذبہ پیدا ہو کیونکہ یہی ایمان کی اصل اور اساس ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے محبت اور عشق مصطفی ﷺ ، ادب و تعظیم رسالت اور تحفظ ختم نبوت پر امت کو قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل کا عظیم خزانہ عطا کیا جس کی وجہ سے لوگوں کی طرز فکر میں تبدیلی پیدا ہوئی۔ یہ کتاب سیرت الرسول ﷺ کے بیان میں اجتہادی فکر کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

دہشت گردی کے خلاف تاریخ ساز فتویٰ اور اسلامی امن نصاب:

9/11 کے بعد پوری دنیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی آگ لگی ہوئی ہے اور مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ اس فتنے کی مذمت میں اور اسلام کا شفاف چہرہ دنیا کے سامنے لانے کے لیے شیخ الاسلام نے 600 صفحات پر مشتمل ایک مبسوط تاریخی فتویٰ دنیا کے سامنے پیش کیا جو ان کی اہم مجتہدانہ کاوش ہے۔ یہ فتویٰ دنیا کی کئی زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔ انھوں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے 25 سے زائد کتب کی صورت میں فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کا اسلامی امن نصاب بھی مرتب کیا جو ان کی اجتہادی فکر کا عکاس ہے اور ایک تجدیدی کارنامہ ہے۔ اس میں نوجوان نسل کے لیے رہنمائی ہے جس کی بدولت وہ اپنے ایمان اور عقائد کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی قوت استنباط و استدلال کی بنیاد پر اس میں ایسے دلائل فراہم کیے ہیں جس سے اسلام کا تاباں اور درخشاں چہرہ دنیا میں متعارف ہوا اور اسلام کی بنیادی اقدار و تعلیمات کو فروغ ملا۔

اسلام اور جدید سائنس:

شیخ الاسلام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ انھوں نے نوجوان نسل کے ایمان کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دینے کے لیے بے شمار عصری موضوعات پر مدلل کام کیا جس سے نسل نو کا اسلام پر اعتقاد مضبوط ہوا۔ انھوں نے اپنی قوت استدلال و استنباط سے قرآن کریم سے ایسے دلائل فراہم کیے ہیں جس سے سائنسی توجیحات کا قرآن سے تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔ ’’اسلام اور جدید سائنس‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی کتاب تالیف کی جس سے اسلام کے علمی، فکری، سائنسی اور تہذیبی پہلو سے متعلق رہنمائی ملتی ہے۔انھوں نے اسلامی تعلیمات کو سائنسی و عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔ مستشرقین کی طرف سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کو ٹھوس عقلی و سائنسی استدلال کی بنیاد پر رد کیا اور نسل نو کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سائنسی توجیحات فراہم کیں۔ انھوںنے سائنسی شعور کے فروغ میں اسلام کے کردار کو مدلل انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا اور اپنی قوت استنباط و استخراج کے ذریعے یہ شعور دیا کہ قرآن مجید خود تسخیر کائنات کے لیے بنیادیں فراہم کرتا ہے اور تمام سائنسی ایجادات قرآن مجید کی مرہون منت ہیں۔

حاصل کلام:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں اگر ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ان جیسا انسان صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے اس لیے تو اقبال نے کہا تھا کہ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

بطور متعلم، معلم، مفکر، مترجم القرآن، سیاسی لیڈر، مصنف، مجتہد، مصلح، محدث، فقیہ، سفیر امت اور حقیقی عاشق رسول، ہر کردار میں وہ بے مثل اور اعلیٰ صفات کے حامل انسان ہیں۔ ان کی تمام تصانیف ان کے اجتہاد کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کے علم و فکر کی عکاس ہیں۔ شرق تا غرب علمائے امت اور اہل دانش ان کی فکر کے مداح ہیں اور ان کے ساتھ رفاقت اور تعلق کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔