افکارِ شیخ الاسلام اور رومیات

نُورالزّمان نُوری

تاریخِ اسلام کی نامور عظیم علمی و روحانی شخصیت، تصوف و سلوک کی معروف معرکۃ الآراء کتاب ’’مثنوی معنوی‘‘ کے مصنف، سلطان العاشقین حضرت مولانا جلال الدین محمد رومیؒ (المتوفی 672ھ) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ حق تعالیٰ نے آپ کو تاریخ کے ہر دور میں مقبولیت و محبوبیت سے نوازا ہے۔ کتب سلوک و تربیت میں جو مقام آپ کی مثنوی و معنوی کو نصیب ہوا تاریخ میں اس کی مثال نہیںملتی۔ اس کتاب کے اسرار و معارف اور اثر آفرینی سے متاثر ہوکر علوم اسلامیہ کے بہت بڑے مصنف اور فارسی زبان کے معروف شاعر حضرت مولانا عبدالرحمن جامیؒ نے مثنوی شریف کو ’’ہست قرآں در زبان پہلوی‘‘ کہہ کر اس کی عظمت کی طرف اشارہ کیا۔

حضرت مولانائے رومؒ کی زندگی کے دو ادوار ہیں۔ پہلے دور میں آپ پر ظاہری علوم ہی کا رنگ غالب تھا۔ علوم دینیہ کا درس دیتے تھے، وعظ کہتے اور فتویٰ لکھتے تھے۔ سماع وغیرہ سے احتراز کرتے تھے۔ علم مناظرہ اور مذاہب عالم کے متبحر عالم تھے۔ آفاق میں آپ کے علمی تبحر کا ڈنکہ بجتا تھا۔

ان کی زندگی کا دوسرا دور حضرت شمس تبریز کی ملاقات سے شروع ہوتا ہے۔ اس ملاقات کی کئی روایات ہیں۔ (اس مقصد کے لیے سپہ سالار کی مناقب العارفین یا اردو میں مولانا شبلی نعمانی کی سوانح مولانا روم و دیگر کتب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔) اس ملاقات نے مولانا کی زندگی کو نئی ڈگر پر اس انداز سے تحریک دی کہ شمس تبریز کی توجہات کی تاثیر کے یہ اشعار بزبان خاص و عام ہوچکے ہیں۔

ہیچ چیزے خود بخود چیزے نشد
ہیچ آہن خود بخود تبعے نشد

مولوی ہرگز نشد مولائے روم
تاغلام شمس تبریزے نشد

مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی معنوی صوفیانہ مثنویوں میں سے سب سے زیادہ مقبول معروف ہے۔ جس قدر مقبولیت و شہرت مثنوی معنوی کو نصیب ہوئی فارسی کی کسی کتاب کو نصیب نہیں ہوئی۔ بعض شخصیات اور کتب اپنے القاب اور اوصاف سے اس قدر ہمہ گیر شہریت حاصل کرلیتی ہیں کہ وہ اضافت اور نسبت کے بغیر بھی اپنی مخصوص پہچان کی حامل بن جاتی ہی۔ جس طرح ہر صدی میں غوث، مجدّد اور علامہ ہوتے ہیں لیکن مجدد یا مجدد الف ثانی کے الفاظ سے الشیخ احمد سرہندی، غوث اعظم سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، اعلیٰ حضرت سے مولانا الشاہ احمد رضا خان اور علامہ سے ڈاکٹر محمد اقبال مراد لیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کتب تصوف میں جب صرف مثنوی کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد مولانا روم کی ’’مثنوی‘‘ معنوی ہوتی ہے۔

فارسی زبان میں جس قدر کتب نظم یا نثر میں لکھی گئی ہیں۔ کسی میں ایسے دقیق نازک اور عظیم الشان مسائل اور اسرار نہیں مل سکتے جو مثنوی میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مثنوی کی افادیت و اہمیت ہر دور میں مسلّمہ رہی ہے۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے تصوف اسلام کے مقدمہ میں مثنوی کی اہمیت یوں بیان کی ہے وہ لکھتے ہیں: تصوف اسلامی کے ذخیرہ میں مجھے دو کتب نے جتنا فائدہ دیا ہے کسی اور کتاب نے نہیں دیا۔ ایک مکتوبات مجدد الف ثانی اور دوسری کتاب مثنوی مولانا روم۔ اول الذکر نے عقائد میں اصلاح کی جبکہ موخرالذکر نے تصوف اور تربیت سلوک ہیں۔ اسی طرح پروفیسر یوسف سلیم چشتی (شارح اقبالیات) کے بقول علامہ اقبال کی زندگی کے آخری ایام میں قرآن اور مثنوی زیر مطالعہ رہتی۔ پروفیسر صاحب موصوف کے سوال پر کہ آپ نے زندگی میں کس کتاب سے زیادہ استفادہ کیا، علامہ نے جواب دیا: قرآن مجید اور مثنوی معنوی۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ کی تمام منظوم کتب میں جتنا ذکر مولانا روم کا ملتا ہے تاریخ کے کسی شاعر یا اہل علم کا نہیں ملتا۔ علامہ اقبال اپنے کلام میں جابجا مولانا روم کو مختلف القابات دیتے ہوئے ان کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ چند مقامات ملاحظہ ہوں:

پیرِ رومی مرشد روشن ضمیر
کاروانِ عشق و مستی را امبر

مرشدِ رومی حکیم و پاک زاد
سرِّ مرگ و زندگی برما کشاد

پیرِ رومی آں امامِ راستاں
آشنائے ہر مقام راستاں

پیرِ رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد

پیرِ رومی را رفیق راہ ساز
تا خدا بخشد ترا سوز و گداز

نورِ قرآن درمیان سینہ اش
جام جم شرمندہ از آئینہ اش

اے امامِ عاشقان درد مند
یاد ہے مجھ کو ترا حرف بلند

صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف

برصغیر پاک و ہند میں مولانا روم کی فکر کی تشریح و تعبیر اور ابلاغ کے لیے جو کردار علامہ اقبال نے ادا کیا۔ بہت کم اہل علم کے حصہ میں آیا۔

تحریک منہاج القرآن جو کہ آج کے دور زوال و انحطاط میں احیاء اسلام اور غلبہ دین حق کی بحالی کے لیے اپنے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مدبرانہ قیادت میں اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔ مولانائے روم کے فیضان سے مُستفیض و مُستنیر ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے عناصر خمسہ میں تعلق باللہ ایک اہم عنصر ہے۔ اس تعلق کی بحالی کے لیے تصوف کے افکار کی ضرورت ہے۔ لہذا شیخ الاسلام نے 1980ء میں جب تحریک منہاج القرآن کی دعوت کا آغاز کیا تو اوائل دور ہی سے مسجد رحمانیہ شادمان کالونی لاہور میں جہاں درس قرآن کی سلسلہ وار نشستوں کا انعقاد ہوتا تھا وہاں دروس تصوف کے سلسلہ کا بھی اجراء کردیا تھا۔ شیخ الاسلام نے اپنے والد گرامی فرید ملت حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی آغوش تربیت میں مولانا روم کی صحبت اور مثنوی کا فیض بھی پایا۔

شیخ الاسلام نے اپنی کئی مجالس میں اپنے والد گرامی کے آخری ایام کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد گرامی پچھلی رات کو اٹھتے اور دیگر اوراد و وظائف کے ساتھ مثنوی معنوی بھی مخصوص لَے میں پڑھتے اور اشکبار ہوجاتے۔ حضرت فرید ملت کو مثنوی معنوی سے بے پناہ محبت تھی۔ یہ محبت شیخ الاسلام کو ورثہ میں ملی۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے رفقاء کی تربیت، شب بیداریوں، حلقہ ہائے ذکر اور بالخصوص اعتکاف کے اجتماعات میں مثنوی کے درس دیتے رہے ہیں۔ راقم الحروف نے 1986ء میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن ماڈل ٹائون لاہور میں داخلہ لیا۔ اس وقت سے لے کر 1994ء کے سال فراغت اور پھر اعتکاف کی کئی نشستوں میں دروس مثنوی سے اکتساب فیض کرنے کا موقع ملتا رہا۔ یوں تو اکثر و بیشتر اعتکاف کے دروس میں تربیت سلوک میں مثنوی کا درس شامل ہوتا لیکن 2018ء کے اعتکاف کے سارے دروس کا موضوع مثنوی معنوی ہی رہا۔

اس سال آپ کے دروس مثنوی کے موضوعات کچھ اس طرح تھے:

  • تعارف مثنوی و صاحب مثنوی
  • بیداری روح اور طلب عشق الہٰی
  • انسانی زندگی پر عقل و عشق کے اثرات (طریق زہد و عشق)
  • عشق خودی کی نفی اور وصل الہٰی کا ذریعہ ہے
  • عاشقانِ الہٰی کے احوال
  • قرب الہیٰ کا ذریعہ تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن
  • روحانی ترقی کے مراحل اور ادب کی اہمیت

شیخ الاسلام ان دروس میں سے ایک درس میں عشق کے مضمون کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب بندہ عشق کے مقام پر پہنچتا ہے تو اپنی چاہت اور طلب کو قربان کردیتا ہے۔ اس کیفیت میں وہ یہ چاہتا ہے کہ میں کچھ نہ چاہوں اور فقط وہ چاہوں جو میرا مولا، میرا محبوب حقیقی چاہے، میری چاہت اس کی چاہت میں ضم ہوجائے، میرا ارادہ اس کے ارادے میں ختم ہوجائے۔ نہ میں رہوں،نہ میری چاہت، جب یہ حدیں ٹوٹ جاتی ہیں تب عشق اپنے کمال کو پہنچتا ہے۔

شیخ الاسلام ان دروس مثنوی میںیہ نکتہ تاکیداً بیان کرتے ہیں کہ عشق کا طریق ’’خودی‘‘ سے ’’بے خود‘‘ ہوجانا ہے اور ’’میں‘‘ کے ہوش سے بے ہوش ہوجانا ہے۔ ’’میں‘‘ نہ علم سے مرتی ہے نہ زہد و ورع سے نہ خالی اعمال صالحہ سے۔ یہ اس وقت مرتی ہے جب من میں ’’عشق‘‘ کا بھانبھڑ مچتا ہے۔ اس لیے مولانا روم بار بار فرماتے ہیں کہ ’’عشق‘‘ نخوت و ناموس جیسی بیماریوں کا علاج ہے۔

شیخ الاسلام کے بقول قرآن و حدیث کے بعد تربیت سلوک میں مثنوی معنوی کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

مولانا روم کو اللہ پاک نے یہ ملکہ عطا فرمایا ہے کہ وہ اپنے قاری، سامع اور مخاطب کو تصوف و سلوک اور حکمت کا جو پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس مضمون کے موافق اللہ پاک ان کے قلب و ذہن میں کوئی تمثیل یا حکایت القاء کردیتا ہے۔ مولانا وہ تمثل یاحکایت شروع کرتے ہیں اور اس کے اختتام تک کئی اسرار و نکات اور معرفت کے اسباق کا ابلاغ کرتے جاتے ہیں۔

تحریک منہاج القرآن ’’عشق‘‘ کی قوت سے بندہ مومن کے قلب و باطن میں تعلق باللہ اور ربط رسالت کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔

مولانا کا ساراکلام خواہ کلیات شمس تبریز کی صورت میں ہو یا مثنوی معنوی کی صورت میں، عشق کی توصیف و تعریف سے بھرا پڑا ہے۔ آپ عشق کو ایک آفاقی احساس سے تعبیر کرتے ہیں یعنی کائنات و آفاق سے ہم آہنگی کا جذبہ۔ آپ کے نزدیک عشق اس کائنات کی حرکی قوت ہے۔ مولانا عقل کی خدمات کے معترف تو ہیں لیکن جملہ امراض و علل کا طبیب عشق ہی کو ٹھہراتے ہیں۔ آپ مثنوی کے پہلے دفتر کے ابتدائی صفحات ہی میں یوں نغمہ عشق الاپتے ہیں:

شادباش اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علتہائے ما

اے دوائے نخوت و ناموسِ ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما

ہر کرا اجامہ زعشقے چاک شد
اُو زحرص و آزِ کلی پاک شد

’’خوش رہ، اے ہمارے اچھے جنون والے عشق! اے ہماری تمام بیماریوں کے طبیب! اے ہمارے تکبر اور جاہ و طلبی کی بیماریوں کی دوا! تو ہمارا افلاطون بھی ہے اور جالینوس بھی۔ جس شخص کا جامہ عشق کی وجہ سے چاک ہوا۔ وہ ہر طرح کے حرص اور عیب سے پاک ہوگیا۔ ‘‘

رومی کے نظام فکر میں ’’عشق‘‘ ایک بنیادی نکتہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق عشق ہی انسان کی عبادات اور اعمال صالحہ کا سرچشمہ ہے۔ اسی سے کائنات ارتقائی منازل طے کررہی ہے۔ آپ کی مثنوی معنوی از اول تا آخر عشق کا ترانہ ہے۔ آپ مثنوی میں عشق کا اتنی شدو مد کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ بقول خلیفہ عبدالحکیم یوں لگتا ہے کہ مولانا کو ’’عشق‘‘ سے عشق ہوگیا ہے۔ موصف اپنی کتاب ’’حکمت رومی‘‘ میں رقمطراز ہیں:

’’عشق مثنوی کا ایک اہم موضوع ہے جو اس کے ہر دیگر مضمون پر چھایا ہوا ہے۔ مولانا، ہزار طرح سے اس کی تفسیر کرتے ہیں اور وجد و مستی میں نغمہ ریز ہوتے ہیں لیکن ان کو تسلی نہیں ہوتی۔ نہ وہ خود عشق کی گونا گوں کیفیات سے سیر ہوتے ہیں اور نہ اس کے بیان سے ان کو تسلی و تشفی ہوتی ہے۔‘‘

(خلیفہ عبدالحکیم، حکمت رومی، ص: 176)

پیر رومی کے برصغیر پاک و ہند میں ’’مرید ہندی‘‘ نے زوال امت کے اسباب پر تدبر کرتے ہوئے اس کے خاتمہ کے لیے نسخہ عشق تجویز کیا۔ وہ عشق کی افادیت و اہمیت کے متعلق جابجا اسے رہبر و امام بنانے کے پیغام دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

عشق اوّل، عشق آخر، عشق کُل
عشق شاخ و عشق نخل و عشق گُل

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

من بندۂ آزادم عشق است امامِ من
عشق است امامِ من، عقل است غلامِ من

1980ء اور 90ء کی دہائی جب تحریک منہاج القرآن دعوتی و تنظیمی مراحل کو تیزی سے عبور کرتی جارہی تھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات کو ملاحظہ کیا جائے تو آپ بھی اپنے خطابات میں ’’عشق‘‘ کا اتنی کثرت اور شد و مد سے ذکر کرتے ہیں کہ گویا خطابات کا آغاز بھی عشق ہے اور نکتہ عروج بھی عشق ہے۔آپ اپنی کتاب ’’عشقِ رسولa وقت کی اہم ضرورت‘‘ میں اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ ایک اور مقام پر آپ تحریر کرتے ہیں:

عشق کی اصطلاح قدیم ہے یا جدید۔ ان مباحث میں الجھے بغیر سوال یہ ہے کہ عشق کے پس منظر میں جو تصور کارفرما ہے اور عشق جن کیفیات سے عبارت ہے۔ ان کا قرآن و سنت کی تعلیماتکے ساتھ کس حد تک تعلق ہے؟ اسلامی تعلیمات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ ان کی روح عشق سے لبریز ہے۔ قرآن عشق کے مضمون کو ایک مقام پر ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ.

(البقرة، 2: 165)

’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘

(اقبال اور تصورِ عشق، ص: 6)

عشق کے مضمون اور کیفیات کی وضاحت کرتے ہوئے آپ مزید لکھتے ہیں:

’’جب محبت کی کیفیات زندگی کے ایک ایک لمحے کو یوں محیط ہوجاتیں کہ انسان کی طبیعت غیر محبوب سے بے نیاز ہوجائے۔ دل رضائے محبوب کے لیے سراپا انتظار رہے۔ آنکھیں ہر لمحہ مشتاق دیدار رہیں۔ زبان ہر گھڑی محو ذکر رہے۔ پہلو بستر سے جدا ہوں، راتوں کی نیند خیر باد کہہ دے اور صبح و شام ایک ہی یاد غالب رہے تو اس کیفیت کو ’’عشق‘‘ کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص: 11)

اسی طرح شیخ الاسلام اپنی ایک دوسری کتاب ’’ایمان پر باطل کا سہ جہتی جملہ اور اس کا تدارک‘‘ میں حضور نبی اکرمa سے تعلق عشق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’محبت جب ایک حد میں رہتی ہے تو اس درجہ میں عقل کا تھوڑا بہت دخل رہتا ہے مگر یہی محبت حدیں پھلانگ کر عشق کے قالب میں ڈھل جاتی ہے تو وہ عقل کو دھتکار کر بیک قلم اس سے بیگانہ ہوجاتی ہے اور اس کی مداخلت برداشت نہیں کرتی۔ یہ مقام عشق کا مقام ہے۔ جہاں بقول اقبال

بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسباں عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

کی منزل بھی آتی ہے۔ جب عشق اس درجہ کو پہنچ جائے تو پھر عقل فارغ ہوکر ایک گوشہ میں بیٹھ جاتی ہے۔‘‘

(ایمان پر باطل کا سہ جہتی حملہ اور اس کا تدارک، ص: 108)

عشق کے لیے کوئی معشوق اور محبوب ہوتا ہے۔ محبوب جتنا اعلیٰ ہوگا۔ عشق بھی اتنا ہی اعلیٰ ہوگا۔ اگر بڑا عاشق بننا ہے تو بڑا محبوب بنائو۔ مولانا مثنوی کے دفتر اول کے ابتدائی حصہ میں ’’بادشاہ کی معشوقہ اور سمر قند کے زرگر‘‘ کی حکایت میں بیان کرتے ہیں۔ سب سے اعلیٰ ذات، خدائے ذوالجلال کی ذات ہے۔ اس لیے اس کا عشق بھی سب سے اعلیٰ ہے۔ مولانا مذکورہ عنوان کی حکایت کے مقصود اور پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

زانکہ عشقِ مُردگاں پائندہ نیست
چونکہ مُردہ سوئے ما آئندہ نیست

فانی اشیاء کا عشق پائیدار نہیں ہے۔ اس لیے کہ مُردہ ہماری طرف واپس آنے والا نہیں ہے۔‘‘

مال و دولت اور دنیا کی چیزیں سب مُردہ ہیں مگر ان کے حصول کی کوشش زندگیوں کے لیے ہے۔ جب عشق کا مقصود کسی زندہ کے لیے ہو تو عشق ایسی ہستی سے کرنا چاہیے جو سراپا حیات ہو اور حیات بخش ہو۔ اس لیے عارف رومی فرماتے ہیں:

عشق آں زندہ گزیں کو باقی ست
وز شرابِ جاں فزایت ساقی ست

’’اس کا عشق اختیار کرو جو زندہ ہے اور روح افزا شراب پلانے والا ساقی ہے۔‘‘

شیخ الاسلام کے خطابات اور تحریریں امت مسلمہ کے عروق مردہ میں عشق الہٰی اور عشق رسالتمآبa کی حرارت سے حیاتِ نو کی کیفیات سے بہرہ ور کررہی ہیں۔ آپ کے نزدیک مولانائے روم تاریخ اسلام کی ان چند نامور اعلیٰ شخصیات میں سے ہیں جن پر آج مشرق و مغرب میں تحقیق ہورہی ہے۔ ایک موقع پر شیخ الاسلام نے تاریخ کی تین شخصیات کا ذکر کیا جنہیں آج مغرب میں بہت پڑھا جارہا ہے۔ یہ تین شخصیات حجۃ الاسلام امام محمد غزالی، الشیخ الاکبر محی الدین ابن العربی اور حضرت مولانا جلال الدین روم رحمۃ اللہ علیہم ہیں۔ کسی تحریک کے قائد اور ادارہ کے سربراہ کے نظریات و خیالات اور افکار کی جھلک کا اس تحریک کے کارکنان اور ادارہ کے تلامذہ و متعلقین سے آشکار ہونا ایک بدیہی امر ہے۔ مولانا سے شیخ الاسلام کی محبت و عقیدت کا اظہار راقم الحروف نے کئی مواقع پر ملاحظہ کیا۔

راقم 1991ء میں جامعہ منہاج میں سال پنجم کا طالب علم تھا۔ اس سال جامع مسجد منہاج القرآن ماڈل ٹائون لاہور میں علماء کرام اور عہدیداران کے لیے ’’دراسات القرآن‘‘ کورس ہوا۔ جس میں ملک بھر سے علماء اور اساتذہ شریک تھے ایک نشست مثنوی شریف کے لیے مختص تھی۔ آپ نے علماء سے فرمائش کی کہ جو مثنوی کی طرز اور لَے جانتے ہیں وہ مولانا کا یہ شعر مخصوص لَے میں سنائیں۔

یک زمانہ صحبتِ بااولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کم و بیش پانچ چھ علماء نے مخصوص ترنم سے پڑھا پھر جب خود شیخ الاسلام نے روح کی گہرائیوں میں اترنی والی لَے سے یہ شعرپڑھا تو پورا ماحول وجدانی و روحانی کیفیات سے معمور ہوگیا۔ شیخ الاسلام دروس مثنوی دیتے ہوئے کئی مواقع پر مخصوص ترنم سے اشعارمثنوی پڑھتے ہیں تو سامعین اس کی معنوی کیفیات سے سرشار دکھائی دیتے ہیں۔

شیخ الاسلام کی مولانائے روم سے محبت و عقیدت اور آپ کے افکار کی کشش کا نتیجہ ہے کہ آپ کی زیر سرپرستی مرکز میں قائم منہاج کالج برائے خواتین لاہور میں نومبر 2021ء میں مثنوی خوانی کی تقریب میں ملک کے معروف ماہرین رومیات بطور مہمانان گرامی شریک ہوئے۔ 20 طالبات نے ترنم سے مثنوی خوانی کے مقابلہ میں حصہ لیا۔ ہر تین چار مثنوی خوانوں کے بعد شیخ الاسلام کا ترنم سے مثنوی کا کلپ LED پر دکھایا جاتا۔ معزز ارباب علم و دانش نے کالج ہذا کی اس کاوش کو از حد سراہا۔

حال ہی میں مولانائے رومؒ کے 771 ویں یوم وصال کے سلسلہ میں منہاج کالج برائے خواتین نے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز، فیکلٹی آف لینگوئجز اور سیکرز کلب کے اشتراک و تعاون سے 16 جنوری 2022ء، فرید ملت مارکی منہاج یونیورسٹی لاہور میں ’’یوم تذکارِ رومی‘‘ کے عنوان سے تاریخی انداز کا علمی و روحانی پروگرام منعقد کیا۔ جس کی صدارت جگر گوشہ شیخ الاسلام صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل نے کی۔ اندرون و بیرون ملک سے رومیات و اقبالیات کے اصحاب علم و دانش شریک ہوئے۔ ترنم سے مثنوی خوانی ہوئی مختلف زبانوں میں مولائے روم کو خراج اقبال اور شیخ الاسلام نے حاضرین، سامعین اور ناظرین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

یوم تذکارِ رومی سے قبل منہاج کالج، Cosis اور منہاج یونیورسٹی میں مثنوی خوانی (باترنم) اور رومی کوئز کے مقابلے ہوئے جس میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو تذکار رومی کانفرنس میں رومی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

شیخ الاسلام کی عارف رومی سے محبت کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ آپ نے مرکز میں قائم ہونے والے گوشہ درود، جس میں سالہا سال سے سال بھر (365دن) چوبیس گھنٹے (فرض نمازوں اور سحری و افطاری کے وقفوں کے ساتھ) امام الانبیاء حبیب خدا حضرت محمدمصطفیa کی ذات گرامی پر درود پڑھا جاتا ہے۔ اس مبارک عمارت کا دلکش اور دیدہ زیب نقشہ حضرت مولائے روم کے مزار واقع قونیہ (ترکی) کی طرز پر قائم کیا گیا ہے۔ درود پاک وہ مبارک وظیفہ ہے جس کے متعلق حضرت مولانا روم فرماتے ہیں:

ہر کہ باشد عاملِ صلوا مدام
آتشِ دوزخ شود بروئے حرام

’’جو شخص ہمیشہ کے لیے درود پاک کا عامل بن جاتا ہے۔ اس پر جہنم کی آگ حرام ہوجاتی ہے۔‘‘

شیخ الاسلام نے حضرت مولانا سے اپنی محبت کا اظہار یوں بھی کیا کہ اپنے چھوٹے پوتے حضرت الشیخ احمد مصطفی العربی کو سلطان شمس تبریز کے عُرف سے معروف کردیا۔ (اسی محبت و نیاز مندی کا نتیجہ ہے کہ شیخ الاسلام کے ایک تلمیذ نے منتخبات مثنوی کی شرح بعنوان ’’گلزارِ مثنوی‘‘ کا انتساب مذکورہ الصدر نام سے کرنے کی سعادت حاصل کی)۔

آج کے دورِ پُرفتن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ واصل باللہ، فانی فی اللہ، اقلیم تصوف کے تاجدار سلطان العاشقین حضرت مولانا جلال الدین رومی کا پیغام محبت و عشق عام کیا جائے۔ آپ کی انسان دوستی اور خیر خواہی سے دور حاضر کی شدتوں اور نفرتوں کو محبتوں میں بدلہ جائے۔ مولانا روم کا پیغام، پیغام امن و سلامتی اور انسان دوستی ہے۔ راقم الحروف اپنی گزارشات کا اختتام مولانا کے اسی پیغام پہ کرتا ہے۔

از بہاراں کے شود سر سبز سنگ
خاک شو تا گُل بروید رنگ رنگ

سالہا تو سنگ باشی دل خراش
آزموںو یک زمانہ خاک باش

’’موسم بہار میں پتھر سر سبز نہیں ہوتے۔ تو خاک ہوجا (متواضع بن) تاکہ تجھ سے رنگا رنگ پھول کھلیں تو کئی سال لوگوں کا دل دکھانے والا پتھر بنارہا۔ اب کچھ دیر کے لیے میری مان اور خاک بن جا پھر دیکھ (تیری سیرت و کردار میں کیا انقلاب واقع ہوتا ہے)۔‘‘