تاقیامت دعوتِ دین کا فریضہ علمائے حق کے ذمہ ہے

رابعہ فاطمہ

جب سے انسان نے زمین کو اپنا مسکن بنایا ہے تب سے لے کر آقا علیہ السلام تک اللہ رب العزت نے ہر زمانے اور ہر ہر علاقے کے لوگوں کی رہنمائی کے لیے اپنے برگزیدہ انبیاء و رسل بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو دنیا میں رہنے کے اصول اور آخرت میں کامیابی کے طریقے سکھا سکیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا.

(فاطر، 35: 24)

’’بے شک ہم نے آپ کو حق و ہدایت کے ساتھ، خوشخبری سنانے والا اور (آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

چونکہ آقا علیہ السلام اللہ پاک کے آخری نبی اور رسول ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں آنا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَـآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ.

(الاحزاب، 33: 40)

’’محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں۔‘‘

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:

انا خاتم النبیین لا نبی بعدی.

’’میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘

(سنن ترمذی، حدیث: 2219)

جب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا تو پھر قیامت تک کے لوگوں کے لیے رہنمائی کون کرے گا تو اس کا مختصر اور آسان جواب ہے علماء حق یہ فریضہ ادا کرتے رہیں گے۔ قرآن کریم اور آقا علیہ السلام کی احادیث مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے انسانیت کی فلاح کے لیے یہ ذمہ داری پوری کریں گے۔ ہر زمانے اور علاقے کی اپنی ضروریات و تقاضے ہوتے ہیں۔ اگر ایک صدی پیچھے چلے جائیں تو موجودہ ماحول و رہن سہن اس سے بالکل متضاد ہے تب اتنی جدید اور تیز ترین زندگی نہیں تھی اتنی زیادہ سہولیات و آسائشوں کے سامان تھے اس وقت کے علماء نے جو فتاویٰ جات یا دین کی نشرو اشاعت کی تھی وہ اس زمانے کے لحاظ سے تھی آج کے زمانے کا انسان اور اس کے زندگی کے معاملات بالکل مختلف ہیں۔ اب وہ فتاویٰ جات و دینی لٹریچر رہنمائی تو کرسکتا ہے لیکن موجودہ مسائل کے حل میں مدد نہیں دے سکتے کیونکہ اب حالات کا تقاضا مختلف ہے۔ قرآن و حدیث میں قیامت تک کے مسائل کا حل موجود ہے لیکن ہر زمانے کے علماء و فقہاء و محدثین و مفسرین اپنے اپنے زمانوں اور ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بحر بے کنار سے موتی چن لیتے ہیں اور اپنے پیش آئندہ مسائل کو حل کرلیتا ہے۔

انھیں علماء و بزرگان دین میں سے ہر صدی میں ایک ولی کامل سب سے جداگانہ شان رکھتا ہے وہ دین اسلام کے ماننے والوں میں جو ایک صدی کے دوران برائیاں یا قباحتیں پیدا ہوگئی ہوتی ہیں انھیں دور کرتا ہے۔ اسلام کی اصل روح کو زندہ کرتا ہے جیسے پہلی صدی ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ یا گزشتہ صدی میں حضرت امام احمد رضا خانؒ اسی طرح موجودہ صدی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایسی علم و فضل والی شخصیت ہیں جنھوں نے موجودہ دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔

جیسے ہر زمانے میں باطل کے مقابلے میں حق ہوتا ہے ویسے ہی اس پر فتن دور میں فتنوں اور دین اسلام کے دشمنوں اور کچھ دوستوں کے روپ میں دشمنوں کے مقابلے میں اللہ رب العزت نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے شیخ الاسلام کی صورت میں نوازا ہے۔ ہماری آنے والی نسلیں بھی ان کی مقروض ہیں کیونکہ انھوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اسلام کے اصل چہرے کو دکھایا کہ اسلام کے دامن پر جو دہشت گردی اور متشددانہ رویے کا داغ لگانا چاہتے تھے۔ آپ نے نہ صرف اسے دھویا بلکہ بتایا کہ اسلام سراپا محبت و امن ہے۔ اس کے دامن میں انسانیت کی فلاح ہے یہ محبت کرنے والا دین ہے۔ اس میں تو کسی کو نہ صرف ناحق مارنے کی ممانعت ہے بلکہ اسلام تواپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو اذیت دینے والے کو بھی کٹہرے میں لاکھڑا کرتا ہے۔

شیخ الاسلام نے اپنی اب تک کی زندگی میں جتنے اہم امور سرانجام دیئے ہیں ان کی ایک بہت زیادہ طویل فہرست ہے لیکن انھوں نے خاص طور پر جو پاکستانی عوام اور بالخصوص جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے اہم کام کیے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں:

  • پاکستانی عوام کو اپنے حقوق کا احساس دلایا انھیں آئین پاکستان میں موجود جو عام لوگوں کے حقوق درج ہیں انھیں بتائے ہیں۔
  • انھیں مصفطوی انقلاب کی دعوت دی انھیں بتایا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے۔ انسانیت کی فلاح کے لیے کچھ کرنے کا مقصد دیا انھیں بتایا کہ سیاست دین سے جدا نہیں۔
  • نوجوانوں کو برے کام سے روک کر انھیں آقا کریمؑ کے محبت بھرے دامن سے جوڑ دیا انھیں فحش کاموں سے بچاکر درود و سلام پڑھنے والا بنادیا ان کے دلوں کو محبت رسول و آل رسول و اصحاب رسول سے بھر دیا جینے کا مقصد اور منزل کا نشان بتایا۔
  • قرآن مجید کی تفسیر احادیث مبارکہ پر کام فقہی اصطلاحات اصول حدیث غرض یہ کہ جتنے بھی علوم کا ذکر کیا جائے ان سب پر بہت تفصیل سے کتابیں مل جائیں گے بہت سی کتب چھپ کر منظر عام پر آگئی ہیں اور مزید بہت سی کتب زیر طبع ہیں۔
  • شیخ الاسلام نے درود پاک کی جو محبت ہمارے دلوں میں جگائی ہے اس کی مثال ملنا بھی بہت مشکل ہے۔ آپ نے نہ صرف پاکستان کے قریہ قریہ بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ہر وقت درود پاک پڑھنے کی ترغیب دلائی ہے۔ آپ نے ادارہ منہاج القرآن کے ساتھ ہی گوشہ درود شریف کا بھی اہتمام کیا ہے حرم نبوی ﷺ کے بعد یہ واحد جگہ ہے پوری دنیا میں جہاں چوبیس گھنٹے درود پاک پڑھا جاتا ہے۔ پھر ہر ماہ کے بعد اسے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں تحفۃً پیش کیا جاتاہے۔
  • آپ نے بتایا کہ تصوف اگر شریعت کے تابع نہ ہو تو وہ شیطان کے راہ کی طرف مڑ جاتا ہے یعنی شریعت اور طریقت جدا نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔
  • آپ نے نوجوانوں کو لکیر کا فقیر بننے کی بجائے خود ریسرچ کرنے اور جدید علوم سے روشناسی کی طرف مائل کیا ہے۔
  • آپ نے ظلم کے خلاف ڈٹ جانا سکھایا ہے۔
  • موجودہ صدی میں فتنہ خوارج اور فتنہ قادیانیت تیزی سے اپنی جڑی مضبوط کررہا تھا آپ نے اسلام کے اصل چہرے اور روح کو دکھانے کے لیے تجدیدی تحریک ادارہ منہاج القرآن کی صورت میں تشکیل دیا اس کی شاخیں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہیں۔ آپ نے نصف صدی میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر آنے والے ہر فتنے کا مقابلہ کیا اور تجدید کا حق ادا کیا علم و حکمت کے متوالوں کو جدید علوم سے روشناس کروایا اور ان کی علم کی پیاس کو بجھایا ادارے کو اور اس سے وابستہ لوگوں کو چند مقاصد دیئے کہ جنہیں حاصل کیا جانا چاہیے۔
  1. دین حق کی دعوت و تبلیغ
  2. اصلاح احوال امت
  3. احیاء دین اور اس کی تجدید
  4. فروغ علم و حکمت
  5. اتحاد امت مسلمہ
  6. عالمی قیام امن
  7. بین المسالک و مذاہب و رواداری
  8. عشق رسول ﷺ محبت اہل بیتؓ، محبت صحابہؓ اور سلف صالحین سے محبت و احترام
  9. اپنے ملک و قوم کی اصلاح اور ان کے حقوق کی پاسداری

ادارہ منہاج القرآن کی سب سے زیادہ کوششیں خارجیت کو اہل سنت وجماعت سے دور رکھنا تھا۔ آپ نے درود گوشہ اور عالمی میلاد کانفرنس اور ہر شہر شہر، قریہ قریہ حتی کہ پوری دنیا میں محافل میلاد کا اہتمام کرواکر اس خارجی سوچ کا خاتمہ کردیا۔

  • آپ نے خاص طور پر عقائد کو جو کہ ایمان سے متعلق ہیں۔ ان پر خصوصی توجہ دی توحید و رسالت، علم غیب و ادب مصطفی کریم ﷺ اور دیگر عقائد میں بھی دفاع کیا آپ نے کہا کہ اسلام کو گروہوں میں نہ تقسیم کرو بلکہ اتحاد قائم کرو تاکہ اسلام پھیلے پھولے اور سب سے بڑھ کر آپ نے عالمی سطح پر تحفظ ناموس رسالت میں کردار ادا کیا دیکھا جائے تو جو کام آپ کے لکھے گئے ہیں ان سے کہیں بڑھ کر آپ نے کام کیے ہیں جو کہ اسلام اور مسلم امت کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آپ اس صدی کے مجدد ہیں آپ نے دین اسلام کی خدمت کے لیے خود کو وقف کردیا ہے اپنی اولاد کی تربیت بھی ایسی کی ہے کہ جو آپ کے مشن کو آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری آئندہ نسلیں بھی ان کی مقروض ہوں گی۔ اب بھی ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جو کہا درست کہا ہے۔

وہ پاکستان کے اس بوسیدہ نظام کو ختم کرکے مصطفوی انقلاب لانے کی بات کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت انہیں تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھتے ان کے عمل میں علم میں حلم میں برکتیں عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان کے صدقے سے ہمیں بھی ان کے فیض سے بہرہ مند فرمائے۔ اللہ رب العزت انھیں سیدہ کائنات کے صدقے دنیا و آخرت کی بھلائیاں اور کامیابیاں عطا فرمائے۔

ان کا وجود امت مسلمہ کے لیے اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے۔ اس پرفتن دور میں ان کی اشد ضرورت ہے یہ سلامت رہیں اور ہماری رہنمائی و رہبری کرتے رہیں۔ آمین