اداریہ: حسین علیہ السلام روشنی کا استعارہ ہے

چیف ایڈیٹر دختران اسلام

محرم الحرام کی آمد پر آنکھیں نمناک اور دل غم میں ڈوب جاتا ہے۔ اس ماہ کے پہلے عشرے میں شبیہ رسول ﷺ حضرت امام حسین عالی مقام ؑسمیت گلشن نبوت کے پھولوں کو کرۂ ارض کے بدبخت ترین شخص یزید ملعون نے اپنی ظالم سپاہ کے ہاتھوں تہ تیغ کروادیا اور انسانیت کے سینے کو ایسا گھائل کیا کہ آج کے دن تک اس درد اور تکلیف کو محسوس کیا جارہا ہے۔ حضرت امام عالی مقام ؑ نے بنائے دینِ مصطفی ﷺ کی حفاظت کے لئے ظالم یزیدی اقتدار اور اس کی باطل فکر کو جانوں کے نذرانے پیش کر کے بے نقاب کر دیا اور اُمت محمدیہ کے ہر فرد کو یہ پیغام دیا کہ دین کی حفاظت اور قربانی لازم و ملزوم ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے قیامت تک کے ایمان والوں کو ایک نصیحت فرمائی کہ قرآن اور میری عترت سے جڑے رہو گے تو صراطِ مستقیم پر رہو گے۔ اس فرمانِ رسول ﷺ کی روشنی میں ہم سب کا ایمان ہے کہ اہلِ بیتِ اطہار ہی اہلِ حق ہیں اور ان سے محبت ایمان کی مضبوطی و استحکام کی علامت ہے۔

تاریخ عالم شاہد ہے کہ حاکم اور محکوم طبقات کے درمیان صدیوں پر محیط سیاسی اور طبقاتی کشمکش دراصل انسانوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کا نتیجہ ہے اور یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دنیا ابن آدم کو قانون اور حقوق دینے والے پیغمبر امن حضور نبی اکرم ﷺ کی دہلیز سے اپنی غلامی کا رشتہ استوار نہیں کرتی۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آتش نمرود میں بے خطر کود کر کلمہء حق کہنے کی جس پیغمبرانہ روایت کو آگے بڑھایا تھا، اس عظیم روایت کو امام حسین علیہ السلام نے تسلیم و رضا اور ایثار و قربانی سے سینچتے ہوئے کمال تک پہنچا دیا۔ امام حسین علیہ السلام ان کائناتی سچائیوں کی امین ہیں جن کے بغیر تہذیب انسانی کے اجتماعی رویوں کی ہر تفہیم اور توجیہہ بے معنی اور غیر مؤثر ہوکر رہ جاتی ہے۔

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ

شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد کائنات انسانی کو دو کردار مل گئے۔ ایک کردار کا نام یزیدیت ہے جو بدبختی ظلم، استحصال، جبر، تفرقہ پروری، قتل و غارت گری اور خون آشامی کا استعارہ ہے ۔ دوسرا کردار حسینیت ہے جو عدل، امن، وفا اور تحفظ دین مصطفےٰ ﷺ کی علامت قرار پایا۔ قیامت تک حسین بھی زندہ رہے گا اور حسینیت کے پرچم بھی لہراتے رہیں گے جبکہ یزید اور یزیدیت قیامت تک کے لئے مردہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کی قربانیاں آج بھی ہمیں صدا دے رہی ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والو! حسینیت کے کردار کو اپنے قول و عمل میں زندہ کرو۔ ہر دور کے یزیدوں اور یزیدیت کو پہچانو۔ یزیدیت تمہیں توڑنے اور تمہارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے جبکہ حسینیت تمہیں جوڑنے کے لئے ہے۔ حسینیت؛ اخوت، محبت اور وفا کی علمبردار ہے جبکہ یزیدیت ؛اسلام کی قدریں مٹانے کا نام ہے۔ حسینیت؛ احیائے اسلام کا نام ہے جبکہ یزیدیت؛ دین اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کا نام ہے۔ یزیدیت جہالت کا نام ہے جبکہ حسینیت علم اور فروغ شعور کا نام ہے۔ یزید ظلم کا نام ہے اور حسین امن کا نام ہے۔ یزید اندھیرے کی علامت ہے جبکہ حسین روشنی کا استعارہ ہے۔ یزیدیت پستی اور ذلت کا نام ہے جبکہ حسینیت انسانیت کی نفع بخشی کا نام ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دلوں کی سلطنت کو حسینی کردار کے ساتھ آباد کیا جائے۔ اس خطے کو اہل بیت اور صحابہ کرام کی محبتوں کا مرکز و محور بنایا جائے۔ فتنہ و فساد، جنگ، قتل و غارتگری کی آگ کو بجھا کرامام حسین علیہ السلام کے جلائے ہوئے چراغ امن سے اپنے ظاہر و باطن کے اندھیرے دور کریں اور سر زمین پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دیں ۔ہمیں اپنے اندر کی نفرتوں اور کدورتوں کو ختم کرنا ہو گا اور بستی بستی قریہ قریہ محبتوں کے چراغ جلانا ہوں گے۔ مدینے سے کربلا تک کے سفر میں قربانیوں کی ان گنت داستانیں بکھری ہوئی ہیں، ان داستانوں کو اپنا شعار بنانا اور شعور کربلا کو ہر سطح پر زندہ کرنا وقت کا تقاضا ہے۔