استنبول میں صحابی رسولﷺ کا مزار اسلام کی عظمت و حقانیت کا مظہر

ڈاکٹر انیلہ مبشر

حضرت ابو ایوب انصاریؓ اسلام کے وہ بطل جلیل ہیں جن کی تمام عمر سرورِ کونین حضرت محمدﷺ کی والہانہ اطاعت اور اسلام کی تائید و نصرت میں گزری۔ انصار کے سابقون الاولون میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کو مدینہ میں فخر دوجہاں و سید البشر جناب محمد مصطفیﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا جو اس قدر باعث تکریم تھا کہ تمام صحابہ کرامؓ آپ پر رشک کرتے تھے۔ آپ آنحضرتﷺکے عہد حیات میں تمام غزوات میں والہانہ شوق سے شریک ہوئے اور تادم مرگ جہاد فی سبیل اللہ کے جذبے سے سرشار رہے۔

آنحضرتﷺ کے عہد رسالت میں جزیرہ نما عرب کے لوگ غریب و مفلس اونٹ بان کہلاتے تھے۔ اس ریگستانی علاقے کے دونوں اطراف دنیا کی دو بڑی سیاسی طاقتیں یعنی ایران کی ساسانی اور روم کی بازنطینی سلطنتیں پوری آب و تاب اور جاہ و جلال کے ساتھ موجود تھیں۔ ان میں سلطنت رومہ دو خودمختار مملکتوں پر مشتمل تھی۔ ایک کا پایہ تخت رومہ تھا تو دوسرے کا قسطنطنیہ (موجودہ ترکی کا شہر استنبول) قسطنطنیہ رومیوں کے مشرقی علاقہ جات کا دارالحکومت تھا جو اپنی مضبوط بلند و بالا فصیلوں اور قلعہ نما شہر پناہ کی وجہ سے دنیا بھر میں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ عسکری، سیاسی اور مذہبی اہمیت کا حامل یہ شہر عیسائی دنیا کے لیے بے حد فخرو غرور کا باعث تھا۔ آنحضرتﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ایک حدیث کے ذریعے یہ نشاندہی فرمادی تھی جو مسلمان تسخیر قسطنطنیہ کی مہم میں شرکت کرے گا اس کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کے اس فرمان کے پیش نظر تسخیر قسطنطنیہ مسلمانوں کے ایمان کا جزو قرار پائی۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت سے اسلامی فتوحات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت ابوعبید بن الجراحؓ کے عساکر نے اخبادین، دمشق اور حمص کے علاقے رومیوں سے چھین لیے۔ 15ہجری میں جنگ یرموک نے شام کی قسمت کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کرتے ہوئے رومیوں کو یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے دخل کردیا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت 16 ہجری میں بیت المقدس بھی فتح ہوگیا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ مسلمانوں کو قسطنطنیہ کے شہر تک لے آیا۔ حضرت امیر معاویہ نے اپنے عہد حکومت میں قسطنطنیہ کی طرف مہمات بھیجنے کی ابتدا کی۔

حضرت امیر معاویہ نے 52 ہجری میں قسطنطنیہ کی تسخیر کے لیے ایک لشکر روانہ کیا۔ اسلامی لشکر میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ ان صحابہ اور صحابہ زادوں کی شرکت جہاد قسطنطنیہ کا مقصد دراصل خود کو رسول اللہﷺ کی بشارت جنت کا مستحق قرار دلوانا تھا۔ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی عمر 80 سال سے تجاوز کرچکی تھی مگر اس ضعیف العمری کے باوجود آپ نے قسطنطنیہ تک کا طویل سفر طے کیا۔ یہاں تک کہ معرکہ کارزار میں رومیوں سے دست بدست جنگ کی۔ رومی مسلم سپاہ کی بے جگری سے پسپا ہوکر شہر میں واپس چلے گئے اور فیصل شہر کے دروازے بند کرلیے۔ مسلمان شہر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور کھلے آسمان تلے طویل قیام پر مجبور تھے۔یورپ کی آب و ہوا مسلمانوں کے لیے موزوں نہ تھی جس سے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی سخت بیمار پڑگئے۔ آپ نے بیماری کی حالت میں وصیت کی کہ میرا جنازہ سرزمین عدد میں جہاں تک لے جاسکولے جاکر دفن کرنا۔ چنانچہ آپ کو فصیل شہر کے عین نیچے دفنایا گیا اور زمین کی سطح کو ہموار کردیا گیا تاکہ قبر کی بے حرمتی نہ ہو۔ آپ کی وفات کے بعد مسلمانوں نے محاصرہ ختم کردیا۔ مسلمان قسطنطنیہ پر آٹھ بارحملہ آور ہوئے مگر مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

فتح قسطنطنیہ کی سعادت اللہ تعالیٰ نے تقریباً آٹھ سو سال بعد عثمانی سلطان محمد فاتح دوئم کی قسمت میں لکھ رکھی تھی۔ سلطان محمد فاتح دوئم نے قسطنطنیہ 54 دن کے سخت محاصرے کے بعد 20 جمادی الاول 857ھ بمطابق 29 مئی 1553ء کو فتح کیا۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ کی وہ پیشین گوئی پوری ہوگئی جس میں آپ نے فرمایا کہ تھا کہ ’’اللہ نے مجھے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کی کنجیاں دے دی ہیں۔‘‘ فتح قسطنطنیہ سے عیسائی دنیا ششدر رہ گئی۔

یہاں باز نطینی سلطنت کی سب سے بڑی عبادت گاہ آیا صوفیا موجود تھی۔عیسائیوں کے اس عظیم الشان کینسہ کی سیاسی اور مذہبی اہمیت کے پیش نظر سلطان محمد الفاتح نے اس کی تزئین و آرائش کو نقصان پہنچائے بغیر مسجد میں تبدیل کردیا۔ آیا صوفیا کے صدر دروازے پر آنحضرتﷺ کی وہ حدیث کنداں کروائی کہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والوں کو جنت کی بشارت ہے۔

اس فتح عظیم کے چند روز بعد سلطان محمد الفاتح نے ترک عالم شیخ العصر شیخ شمس الدین سے حضرت ابوایوب انصاریؓ کی تربتِ پاک کی تلاش کی درخواست کی۔ شیخ شمس الدین نے مراقبہ کیا تو فصیل کے باہر ایک جگہ نور دکھا جو زمین سے آسمان تک جارہا تھا۔ آپ نے سلطان کو اس جگہ کی نشاندہی کی۔ کھدائی کی گئی تو آپ کی قبر کا نشان مل گیا۔ یہاں سے سنگ مر مر کا کتبہ نکلا جس کو پڑھنے سے اندازہ ہوا یہی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر ہے۔ سنگ مرمر کا یہ پتھر آپ کی تربت سے باہر دیوار پر ابھی بھی نصب ہے۔ سلطان نے اس جائے لحد پر ایک عظیم الشان گنبد اور اس سے ملحقہ جامع مسجد تعمیر کروائی۔ مسجد مکمل ہوئی تو نماز کی ادائیگی کے بعد شیخ شمس الدین نے سلطان محمد الفاتح کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تلوار سے نوازا اور دعائے خیرو برکت کی۔ سلطان نے عزت و افتخار کے خیال سے اس تاریخی تلوار کو جامع ایوب میں رکھوادیا۔ چنانچہ اس کے بعد آنے والے تمام عثمانی سلاطین کی رسم تاج پوشی مسجد ابو ایوب انصاریؓ میں ادا ہوئی تھی۔امام مسجد تاریخی تلوار کو سلطان کی کمر سے باندھ کر اس کی تخت نشینی کا اعلان کرتا۔ یہ ترکوں کی صحابی رسول سے روحانی وابستگی کا اظہار تھا۔

فخر دو جہاں کی میزبانی کا شرف پانے والے جید صحابی جو مدینہ کے باسی تھے مگر قسطنطنیہ موجودہ ترکی میں خاک نشین ہوئے، حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار کو ترکی میں ایک درگاہ کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ درگاہ گولڈن ہارون (Golden Horn) یا شاخ زریں کے بائیں کنارہ پر واقع ہے۔ مزار مبارک کی عمارت نہایت رفیع الشان ہے۔ پاکیزہ خطاطی کے نمونے مزار کے تقدس میں اضافہ کرتے ہیں۔ جامع ایوب کبوتروں کی آماجگاہ ہے یہاں ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔ ترک اس مقام کو بہت مقدس خیال کرتےہیں اور حج پر روانگی سے پہلے مسجد ومزار ایوبؓ کی زیارت کرتے ہیں۔ نئے شادی شدہ جوڑے یہاں اپنی مرادیں پوری ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ نماز جمعہ کے لیے ترک جوق در جوق یہاں پہنچتے ہیں۔ بہت سے لوگ صحابی رسولﷺ کی آخری آرام گاہ کے قریب دفن ہوناپسند کرتے ہیں۔ اس لیے جامع ایوبؓ کے اردگرد ایک بڑا قبرستان بھی بن گیا ہے۔ ترکوں کے نزدیک مکہ، مدینہ اور یروشلم کے بعد مزار ابو ایوب انصاریؓ تقدس کے اعتبار سے بلند ترین مقام ہے۔ جس کی بے حد تعظیم کی جاتی ہے۔

روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے مدینہ میں یہود اور منافقین کی سازشوں کے پیش نظر رات بھرجاگ کر پہرہ دیا۔ آنحضرتﷺ نے آپؓ کے حق میں دعا فرمائی کہ اے ابو ایوبؓ اللہ تمھیں اپنے حفظ و امان میں رکھے کہ تم نے اس کے نبی کی نگہبانی کی۔ یہ حضورﷺ کی دعا ہی کا اثر تھا کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ زندگی بھرمصائب و آلام سے محفوظ رہے اور وفات کے بعد بھی دشمن دین کی سرحد کے قریب ہونے کے باوجود آپ کی قبر کی حفاظت رہی اور یہاں تک کہ آج ترکی کی حکومت آپ کی قبر کی نگران ہے اور اسے ترکی میں مقدس ترین مقام تصور کیا جاتا ہے۔ یقیناً آپ کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے ایثار و تعاون سے الہامی ہدایت کی حقانیت و عظمت کے نقوش آج بھی لوح حیات پر کندہ ہیں۔