فقہی مسائل: دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟

دارالافتاء تحریک منہاج القرآن

سوال: اذان سے پہلے درود کیوں پڑھاجاتا ہے؟

جواب: قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘

(الأحزاب، 33: 56)

اس حکم باری تعالیٰ میں نبی کریم ﷺ پر درودوسلام بھیجنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہے اور نہ ہی اذان سے پہلے درودوسلام پڑھنے کی قرآن وحدیث میں کہیں ممانعت آئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنانا:

’’جب تم مؤذن سے اذان سنو تو وہی کلمات کہو جو وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر میرے لیے جنت میں ’’وسیلہ‘‘ کی دعا مانگو، کیونکہ وہ جنت کا ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا، اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں گا، اور جو شخص میرے لیے اس مقام کی دعا مانگے گا اس کے حق میں میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔‘‘

(مسلم، الصحيح، كتاب الصلاة، باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم يصلي على النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثم يسأل الله له الوسيلة، 1: 509، الرقم: 738)

اس حدیث مبارکہ میں اذان کے بعد درود پڑھنے کا حکم ہے لیکن پہلے پڑھنے کی ممانعت نہیں ہے۔ لہٰذا اذان سے پہلے پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ منع کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر کوئی پہلے پڑھ لے تو باعث برکت ہے نہ پڑھے تو گناہ نہیں ہے لیکن بعد میں نہ پڑھنا حکمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہے۔

سوال: ہم نماز ادا کرتے ہیں مگر ہماری دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟

جواب:ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن ہماری دعا قبول نہیں ہوتی اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز ہم مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتی یا اس دعا کے عوض اللہ تعالیٰ ہم سے دنیا و آخرت کی کوئی بلا ٹال دیتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابھی اس چیز کی عطا کا وقت نہیں آیا وہ اس کو مؤخر کر دیتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ تین سو سال بعد قبول ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی دعا مانگی جو دو ہزار سال بعد پوری ہوئی یا اس دعا کے عوض آخرت میں اجر عطا فرماتا ہے۔ یہ امور اس وقت مرتب ہوتے ہیں۔ جب بندہ مسلسل بغیر کسی گلے شکوے کے دعا کرتا رہے۔

حضرت ابراہیم بن ادہم ؒاس کا جواب بڑے حسین پیرائے میں دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

اُدْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ.

(الغافر، 40 : 60)

’’تم مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔‘‘

ہم دعا کرتے ہیں مگر قبول نہیں کی جاتی اس کی وجوہات یہ ہیں:

عرفتم اللہ ولم تؤدوا حقه - تم نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا مگر اس کی اطاعت نہ کی۔

قرأتم القرآن ولم تعملوا به - تم نے قرآن کریم پڑھا مگر اس پر عمل نہ کیا۔

ادعيتم حب رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم وترکتم سنته  - تم نے محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت چھوڑ دی۔

ادعيتم عداوة الشيطان و وافقتموه  - تم نے شیطان کے دشمن ہونے کا دعویٰ کیا مگر پھر اُسی کی موافقت کی۔

قلتم : إنکم تحبون الجنة ولم تعملوا لها  - جنت کی محبت کا دعویٰ کیا مگر اس کے لیے عمل نہ کیا۔

قلتم : تخاف النار وذهبت أنفسکم بها  - تم نے کہا کہ تم نارِ دوزخ سے ڈرتے ہو مگر تم اپنی جانوں کو اسی طرف لے کر گئے۔

سوال: ہنسی مذاق اور شرارت میں دی گئی تکلیف کا کیا حکم ہے؟

جواب: دینِ اسلام فطری دین ہے، جس نے انسان کی فطری خواہش کے عین مطابق حدود و قیود کے ساتھ ہنسی مزاح کی اجازت دی ہے۔ مزاح، زندہ دلی و خوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہو جانا نازیبا اور مضر ہے، اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک بنا دیتا ہے۔ بسا اوقات ہمجولیوں اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لیے بےپناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ مزاح انسانی فطرت کا لازمہ ہے اور اس کے جواز پر بےشمار دلائل موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی مزاح فرماتے تھے لیکن آپ کا مزاح بھی ایسا ہوتا کہ جس میں نا تو جھوٹ ہوتا تھا اور نا اس سے کسی کی دل آزاری ہوتی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ مختلف مواقع پر آپ نے خوش طبعی اور مزاح فرمایا ہے، خشک مزاجی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں تھی، آپ نہیں چاہتے تھے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے مزاج و طبیعت کو ہمیشہ خشک اور بے لذّت بنائے رکھیں۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھار اپنے جاں نثاروں اور نیاز مندوں سے مزاح فرماتے تھے اور یہ ان کے ساتھ آپ کی نہایت لذت بخش شفقت ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاح بھی نہایت لطیف اور حکیمانہ ہوتا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ) آپ ہم سے مزاح بھی فرماتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں۔‘‘

(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 340، الرقم: 8462، مصر: مؤسسة قرطبة)

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘

(الحجرات، 49: 11)

جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزاح کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’اپنے بھائی کو ہنسی مذاق کر کے ناراض نہ کرو اور اسے اذیت نہ دو، اور نہ اس سے وعدہ کر کے وعدہ خلافی کرو۔‘‘

(ترمذي، السنن، كتاب: البر والصلة، باب: ما جاء في المراء، 4: 359، الرقم: 1995، بيروت: دار إحياء التراث العربي)

درج بالا آیت و روایت سے معلوم ہوا کہ ایسی دل لگی اور مزاح جس میں کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا کوئی پہلو نہ ہو اور نہ اس کی نیت ہو تو شریعت میں تفریح طبع کے طور پر اس کی اجازت ہے۔ اس کے برعکس ایسا مزاح جس میں طنز کرنے، مذاق اڑانے، عزتِ نفس مجروح کرنے، فحش گالیاں دینے، فحش گوئی کرنے وغیرہ کے پہلو شامل ہوں‘ شرعِ اسلامی میں ممانعت ہے اور اس کا مرتکب گناہگار ہے۔ اگر کوئی شخص درج بالا ممنوع امور کا مرتکب ہوا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے، اس کے مزاح سے جن لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے اگر وہ زندہ ہیں تو ان سے بھی معافی مانگی جائے اور ان میں سے جو فوت ہو چکے ہیں ان کا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دے۔ آئندہ ایسے مزاح سے اجتناب کرے۔