فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی ﷺ

فرمانِ الٰہی

وَمَا تَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلاَ تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْهِ ط وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرَ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ. اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ. الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ. لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ط لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللهِ ط ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُ.

(یونس، 12: 61-64)

’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ جس حال میں بھی ہوں اور آپ اس کی طرف سے جس قدر بھی قرآن پڑھ کر سناتے ہیں اور (اے امتِ محمدیہ!) تم جو عمل بھی کرتے ہو مگر ہم (اس وقت) تم سب پر گواہ و نگہبان ہوتے ہیں جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرّہ برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی مگر واضح کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے۔ خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے۔ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)، اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔‘‘

فرمانِ نبوی ﷺ

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَیْلَی عَنْ أَبیْهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لاَ یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَأَھْلِي أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ أَھْلِهِ وَعِتْرَتِي أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ. وَذَاتِي أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ ذَاتِهِ. (رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْھَقِيُّ)

’’حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں اور میرے اہلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘

(المنهاج السوی، ص: 617)