تصوف اور تعلیمات بابا فریدؒ

رابعہ فاطمہ

جیسے علماء اپنے علم کی روشنی سے ہمیں زندگی کو اسلام کے احکامات کے مطابق گزارنے کے گر سکھاتے ہیں ایسے ہی صوفیاء اپنے روحانی فیوض و برکات کے نور سے ہمارے قلب و باطن کو منور فرماتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں چند سوالات لے کر آئے ان میں سے ایک سوال تھا کہ یارسول اللہ ﷺ احسان کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔

اسلام میں اسی احسان کو تصوف سمجھا جاتا ہے یعنی ظاہرو باطن میں اخلاص کا ہونا ہی احسان ہے۔ ’’تصوف‘‘ اصل میں بندے کے دل میں اخلاص و یقین پیدا کرتا ہے یہ دین سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ دین کی اصل ہے یعنی جس عبادت میں اخلاص نہ ہوگا وہ بے وقعت ہے۔ اخلاص سے تقویٰ، خوف خدا اور رب تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ خدا کی محبت ہی سے اللہ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کی مخلوق سے بھلائی سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ اسی لیے صوفیاء اکرام رب تعالیٰ کی خوشنودی کا راستہ چنتے ہیں۔ کیونکہ محبت الہٰی انسان کو نافرمانی ومعصیت سے روکتی ہے اور خلق خدا سے محبت بندوں کے حقوق پامال کرنے سے منع کرتی ہے یعنی جو چیز انسان کو رب کا بندہ بنائے اور انسانیت کا خیر خواہ بنائے۔ اس کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا:

’’ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں سے چھ کروڑ مسلمان یقیناً اہل تصوف کے فیوض و برکات کا نتیجہ ہیں۔‘‘

حضور داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں تصوف کی بنیادی خصوصیات آٹھ ہیں:

  1. سخاوت
  2. رضا
  3. صبر
  4. اشارہ
  5. غربت
  6. گدڑی
  7. سیاحت
  8. فقر

اور یہ آٹھوں خصلتیں آٹھ انبیاء کرام علیھم السلام کی سنت ہیں۔

حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے فرمایا ہے کہ بابا صاحب نے تصوف کو ایک عوامی تحریک بنا دیا تھا اس میں ہر قسم کے لوگوں کو داخل کرلیا تھا تاکہ ان کے اندر روحانی شعور پیدا کیا جاسکے۔ دور و نزدیک سے بے شمار لوگ ان کے اردگرد جمع ہوتے اور سلسلہ چشتیہ کی اخلاقی اور روحانی تعلیم حاصل کرتے

  • سخاوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہ انھوں نے راہ خدا میں اپنا بیٹا قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
  • رضا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی کہ انھوں نے رب کی رضا کے لیے خود کو قربان کرنے کے لیے پیش کردیا۔
  • صبر۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی کہ بے انتہاء مصائب و آلام میں بھی صبر کو نہیں چھوڑا۔

برصغیر پاک و ہند کے جملہ مشائخ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ریاضت و مجاہدہ میں کوئی بزرگ بھی گنج شکرؒ پر سبقت نہیں لے جاسکے۔ بابا فریدؒ کی پوری زندگی عبادت، ریاضت، شب بیداری اور روزہ داری کی ایک طویل داستان ہے جس کا احاطہ بہت مشکل ہے اور ان کی زندگی کو اس ڈگر پر لانے والی ان کی والدہ بی بی قرسم خاتون رحمہا اللہ تھیں جن کی تربیت، عبادت اور دعاؤں کی بدولت بابا فرید مسعود سے بابا فریدالدین گنج شکرؒ بنے

  • اشارہ: حضرت زکریا علیہ السلام کی سنت ہے کہ انھوں نے تین دن تک لوگوں سے اشارے سے بات کی جب انھیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی بشارت دی گئی۔
  • غربت: حضرت یحییٰ علیہ السلام کی کہ انھوں نے اپنے ہی وطن میں مسافروں جیسی زندگی گزاری۔
  • گدڑی: حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی سنت ہے کہ انھوں نے ہی سب سے پہلے پشمینی لباس پہنا۔
  • سیاحت: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سنت ہے کہ انھوں نے تنہا زندگی گزاری۔
  • فقر: آقا کریم علیہ السلام کی سنت مبارکہ ہے کہ انھوں نے کل کائنات کے خزانوں کے مالک ہونے کے باوجود رب العالمین سے دعا فرمائی اے اللہ! میری خواہش یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوں تو دو روز فاقہ کروں۔

برصغیر پاک و ہند میں بے شمار صوفیاء، اولیاء اور بندگان خدا ہوئےہیں لیکن ان میں سے جو رتبہ اور مقام حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کو ملا ہے وہ بہت کم بندوں کو ملتا ہے۔ ان میں تصوف کی ساری خصوصیات پائی جاتی تھیں۔

حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے فرمایا ہے کہ بابا صاحب نے تصوف کو ایک عوامی تحریک بنا دیا تھا اس میں ہر قسم کے لوگوں کو داخل کرلیا تھا تاکہ ان کے اندر روحانی شعور پیدا کیا جاسکے۔ دور و نزدیک سے بے شمار لوگ ان کے اردگرد جمع ہوتے اور سلسلہ چشتیہ کی اخلاقی اور روحانی تعلیم حاصل کرتے۔

حضرت بابا فریدؒ اپنے مریدوں کی اخلاقی تربیت پر زور دیتے اور باطن کی پاکیزگی کو نکھارنے کی تلقین فرماتے۔ خود بھی اس قدر احتیاط برتتے تھے کہ ایک مرتبہ خادم کھانے کے لیے ادھار نمک لایا آپؒ نے فرمایا درویش فاقے سے مرجاتے ہیں مگر لذت نفس کے لیے قرض نہیں لیتے۔

آپؒ اس قدر قناعت پسند تھے کہ اکثر روزہ سے ہوتے افطار کے وقت آپ کے سامنے ایک گلاس میں چند منقے ڈال کر شربت پیش کیا جاتا آپ آدھا لوگوں میں بانٹ دیتے اور آدھے گلاس سے روزہ افطار کرتے۔ بعض اوقات کوئی بطور تبرک آپ سے مانگ لیتا تو اسے دے دیتے بعد میں لوگوں کے لیے مختلف انواع کے کھانے لائے جاتے لیکن آپ دوسرے دن افطار تک کچھ نہ کھاتے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بچپن ہی سے نیک خصلت اور شرافت سے نوازا تھا۔ اپنی مشہوری کو ذرا بھی پسند نہ فرماتے۔ ایک مرتبہ سیستان کے ایک بزرگ حضرت شیخ اوحدالدین کرمانی کی خدمت میں موجود تھے انھوں نے آپ سے اپنی کرامت کا اظہار کرنے کو کہا فرمایا اپنی کرامت دکھائیں بابا فریدالدینؒ عرض کرنے لگے میں تو ایک طالب علم ہوں اور آپ جیسے بزرگوں سے کچھ سیکھنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ یہ ان کی عاجزی تھی مگر جب شیخ کرمانی کا اصرار بڑھا تو آنکھیں بند کرلیں اور اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے:

اے اللہ تو تو جانتا ہے کہ میں ان صاحب کمال لوگوں میں بے کمال ہوں۔ اے اپنے بندوں کے عیب چھپانے والے میرے ظاہر اور باطن تجھ پر روشن ہے نہ تو میں کرامت دکھانے کے لائق ہوں نہ ہی اسے دکھانا مناسب خیال کرتاہوں۔ مجھ بے ہنر کو ان حضرات کے سامنے شرمندگی سے محفوظ رکھ۔ یہ تو اہل علم بھی ہیں اور اہل کمال بھی میں تو کچھ بھی نہیں۔ ابھی بابا فرید یہ مناجات کرہی رہے تھے کہ تصورات کے پردے پر خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا رخ روشن نظر آگیا فرمایا فرید آزوردہ کیوں ہو ان بزرگوں سے کہو اپنی آنکھیں بند کرلیں پھر انہیں تمھاری کرامت نظر آئے گی۔

حضرت بابا فریدؒ اپنے مریدوں کی اخلاقی تربیت پر زور دیتے اور باطن کی پاکیزگی کو نکھارنے کی تلقین فرماتے۔ خود بھی اس قدر احتیاط برتتے تھے کہ ایک مرتبہ خادم کھانے کے لیے ادھار نمک لایا آپؒ نے فرمایا درویش فاقے سے مرجاتے ہیں مگر لذت نفس کے لیے قرض نہیں لیتے

آپ نے آنکھیں کھولی تو شیخ کرمانی نے فرمایا فرید کیا ہوا خاموش کیوں ہو کیا اس منزل تک ابھی نہیں پہنچے کہ کوئی کرامت دیکھا سکو۔ آپؒ نے فرمایا منزل تو ابھی دور ہے آپ حضرات اپنی آنکھیں بند کرلیجئے وہاں بیٹھے سب بزرگوں نے آنکھیں بند کی تو خود کو خانہ کعبہ کے سامنے موجود پایا بابا فرید بھی وہاں موجود ہیں۔ کچھ دیر بعد سب نے آنکھیں کھولیں تو اسی خانقاہ میں موجود تھے۔

آپؒ ہمیشہ اپنے خلفاء و مریدین کو پندو نصائح فرماتے رہتے آپ فرماتے تھے:

  • روحانی ترقی، روح کی تہذیب و تربیت اور باطنی صفائی میں ہے نا کہ مشین کی طرح نمازوں کی ادائیگی میں اگر معرفت چاہیے تو نمازوں اور عبادات میں اخلاص کے ساتھ دل سے غصے اور حسد و نفرت کو مٹادو۔
  • جو بادشاہوں سے میل ملاپ رکھتا ہے معرفت اس کے پاس بھی نہیں پھٹکتی شاہوں کا منظور نظر ہونا اخلاقی حس کو کمزور کردیتا ہے روح کی آزادی کو ختم کردیتا ہے۔
  • علم دین روحانی مجاہدہ کے لیے شرط اول ہے۔ صوفیاء کی زندگی کا مقصد فقط معرفت الہٰی ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ایسے مسالک کی جستجو میں رہتے ہیں جو انہیں واصل باللہ کرسکے اس کا واحد ذریعہ قلب ہوتا ہے جس کے ذریعے محدود لامحدود سے ہم آہنگ ہوسکے۔ اس کی مدد سے سلوک کے تمام مقامات طے ہوسکتے ہیں اور پیغامات الہٰی کو اخذ کرنے کی استعداد عبادت و ریاضت سے پیدا کی جاسکتی ہے۔

برصغیر پاک و ہند کے جملہ مشائخ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ریاضت و مجاہدہ میں کوئی بزرگ بھی گنج شکرؒ پر سبقت نہیں لے جاسکے۔ بابا فریدؒ کی پوری زندگی عبادت، ریاضت، شب بیداری اور روزہ داری کی ایک طویل داستان ہے جس کا احاطہ بہت مشکل ہے اور ان کی زندگی کو اس ڈگر پر لانے والی ان کی والدہ بی بی قرسم خاتون رحمہا اللہ تھیں جن کی تربیت، عبادت اور دعاؤں کی بدولت بابا فرید مسعود سے بابا فریدالدین گنج شکرؒ بنے۔

ہمیں آج بھی ان کی والدہ جیسی نیک عبادت گزار اور خشیت الہٰی رکھنےوالی ماؤں کی ضرورت ہے۔ اللہ کریم بابا فریدالدینؒ اور ان کی والدہ اور ان کے جملہ آل اولاد پر اپنا فضل اورکرم رکھے اور ان کے صدقے ہمیں اچھی مائیں بننے اور اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے و الی بنائے۔ آمین