خدا کو کیوں مانیں؟ اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟ (حصہ سوم)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: مریم اقبال
خصوصی معاونت: نازیہ عبدالستار

حصہ اوّل

حصہ دوم

اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰهُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَo

(الانبیاء: 30)

اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے۔

وَ جَعَلۡنَا فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِهِمۡ ۪ وَ جَعَلۡنَا فِیۡهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمۡ یَهۡتَدُوۡنَo

(الانبیاء: 31)

اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ جما دیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ (اپنے مدار میں حرکت کرتے ہوئے) انہیں لے کر کانپنے لگے اور ہم نے اس (زمین) میں کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پاسکیں۔

وَ جَعَلۡنَا السَّمَآءَ سَقۡفًا مَّحۡفُوۡظًا ۚۖ وَّ هُمۡ عَنۡ اٰیٰتِهَا مُعۡرِضُوۡنَo

(الانبیاء: 32)

اور ہم نے سماء (یعنی زمین کے بالائی کرّوں) کو محفوظ چھت بنایا (تاکہ اہلِ زمین کو خلا سے آنے والی مہلک قوتوں اور جارحانہ لہروں کے مضر اثرات سے بچائیں) اور وہ اِن (سماوی طبقات کی) نشانیوں سے رُوگرداں ہیں۔

بد قسمتی سے لندن میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ اقدس کی گستاخی میں ایک کتاب چھپی۔ جس کے نتیجے میں وہاں مظاہرے ہوئے ان پر قابو پانے کے لیے british counter terrorism کے ایک آفیسر کی ڈیوٹی لگائی گئی تاکہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنٹرول کیا جا سکے۔ وہ ایک انگریز تھا۔ اس کا نام ریچررڈ وارلے تھا۔ وہ چیف پولیس انسپیکٹر تھا۔ جب اس نے لوگوں کا جوش و خروش دیکھا اور ان کے حالات کا جائزہ لیا تو وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کی نفسیات کا جائزہ لے کہ ان کے خیالات کیا ہیں جو انہیں اس چیز کیلئے ابھارتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ گستاخی صرف ایک ناول کی طرح تھی۔ اس نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ میں ان کی نفسیات جاننا چاہتا ہوں تو وہ کونسی کتاب ہے جس کو میں پڑھوں تو مجھے ان سے متعلق معلومات ملیں تو اسے قرآن مجید کا بتایا گیا۔ اس نے 1999ء میں قرآن مجید کی انگلش ٹرانسلیشن خریدی تاکہ وہ مسلمانوں کی نفسیات کو سمجھ سکے۔ اس کی اپنی ڈگری علم ارضیات geology سےمتعلق تھی اور اس کے سبجیکٹ آف انٹرسٹ astrology تھا۔ قرآن مجید کو پڑھتے پڑھتے وہ ایک آیت پر پہنچتا ہے۔ جو کہ سورہ النبا کی چھٹی اور ساتویں آیت ہے۔

اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِهٰدًا ۙ

(النباء: 6)

کیا ہم نے زمین کو (زندگی کے) قیام اور کسب و عمل کی جگہ نہیں بنایا۔

وَّ الۡجِبَالَ اَوۡتَادًاo

اور (کیا) پہاڑوں کو (اس میں میخوں کی طرح نہیں) گاڑ دیا؟

میخ وہ ہوتی ہے جس کو زمین کے اندر گاڑھا جاتا ہے جتنی وہ گہری ہوتی ہے اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے۔ جب اس نے یہ آیت مبارکہ پڑھی کہ ہم نے پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑھ دیا۔ یعنی پہاڑ جس طرح زمین سے اوپر ہوتا ہے ویسے ہی زمین کے نیچے بھی ہوتا ہے۔ اس نے سوچا کہ ہم نےتو پچھلی صدیوں میں یہ دریافت کیا ہے کہ پہاڑ جتنے زمین کے اوپر ہوتے ہیں اسی طرح اس سے کئی گنا زیادہ زمین کے اندر بھی ہوتے ہیں۔ اس نے کہا کہ عالم انسانیت کو اس بات کا علم انیسویں صدی میں ہوا۔ اٹھارویں صدی تک کسی کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ پہاڑجس طرح زمین کے اوپر ہوتے ہیں اسی طرح زمین کے اندر بھی ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ کہنا ہے کہ جتنا پہاڑ زمین سے اوپر ہوتے ہیں کم از کم اس کے 5 یا 6 گنا زمین کے اندر ہوتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ ہمیں اب پتہ چلا ہے کہ پہاڑ زمین کے اندر بھی ہوتےہیں اور اس کتاب میں تو بہت پہلے سے درج ہے، اس نے یہ سوچا کہ یہ کتاب کہاں پر نازل ہوئی۔ اور اس کتاب کو کون لے کر آیا۔ آقا ﷺ کو اُمی کا لقب اس لیے دیا گیا کیونکہ حضور ﷺ نے کبھی کسی سے علم نہیں سیکھا تھا۔ اور کبھی بھی 1400 سال میں کوئی بھی یہ تہمت نہیں لگا سکا کہ یہ پیغمبر کہیں سے خفیہ علم لے کر آیا ہے۔ اس نے پھر سورہ لقمان کی آیت نمبر 10 پڑھی۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَهَا وَ اَلۡقٰی فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِکُمۡ وَ بَثَّ فِیۡهَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ؕ وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡهَا مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍ کَرِیۡمٍo

اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بنایا (جیسا کہ) تم انہیں دیکھ رہے ہو اور اس نے زمین کے اندر اونچے مضبوط پہاڑ رکھ دیئے تاکہ تمہیں لے کر (دورانِ گردش) نہ کانپے اور اُس نے اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا اور ہم نے اس میں ہر قسم کی عمدہ و مفید نباتات اگا دیں۔

اس نے پڑھا کہ ہم نے اس زمین کے اندر پہاڑ گاڑھے تاکہ زمین دورانِ گردش کانپے نہیں اور اس کا balance قائم رہے۔ اور پھر یہ کہ خشکی میں بھی پہاڑ ہیں اور سمندروں میں بھی پہاڑ ہیں۔ وہ یہ پڑھ کر چونک گیا کہ 1400 سال پہلے یہ علم مسلمانوں کی کتاب کو کس نے دیا۔ جب زمین کے اوپر نیچے تحقیقات کرنے کیلئے کوئی آلات نہیں تھے کوئی علم نہیں تھا اور پھر وہ پیغمبر کتاب لائے جنہوں نے کسی سے علم نہیں لیا تو اس بات نے اس کو بہت حیران کیا۔ پھر اس نے سورہ الانبیاء کی آیت مبارکہ پڑھی۔

وَ جَعَلۡنَا فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِهِمۡ ۪ وَ جَعَلۡنَا فِیۡهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمۡ یَهۡتَدُوۡنَo

(الانبیاء: 31)

اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ جما دیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ (اپنے مدار میں حرکت کرتے ہوئے) انہیں لے کر کانپنے لگے اور ہم نے اس (زمین) میں کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پاسکیں۔

جب اس نے یہ ساری آیات پڑھیں تو حیرت زدہ رہ گیا۔ اس کا فوکس اس مقصد سے ہٹ گیا جس کیلئے اس کی ڈیوٹی لگائی تھی۔ اس کی ہدایت کیلئے ایک آیت مبارکہ بھی کافی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جس وقت سائنس کا کوئی علم نہیں تھا، تحقیقات کیلئے کوئی آلات نہیں تھے تو اس وقت قرآن مجید کو یہ سارا علم کس نے دیا تو وہ اللہ رب العزت کی ہی ذات ہے جس نے قرآن مجید میں یہ سارا علم دیا۔

اگر زمیں بالکل سیدھی کھڑی ہو تو اس کو کانپنے سے بچانے کیلئے میخوں کی طرح پہاڑوں کو گاڑھنے کی ضرورت ہے؟ قرآن مجید کی آیات مبارکہ اس بات کا علم دے رہی ہیں کہ زمین ساکن نہیں ہے بلکہ زمین گردش میں ہے۔ یہ علم آج ہمیں سائنس دے رہی ہے کہ زمین گردش کرتی ہے۔ زمین دو طرح سے گردش کرتی ہے۔ زمین گول ہے۔ ایک گلوب ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ زمین ایک گھر کی طرح ہے جیسے فرش یہ تو اس کو صرف استعارتاً بتایا گیا ہے نہ ہی آسمان چھت کی طرح ہے اس کو بھی استعارتاً بتایا گیا ہے۔ پوری کائنات گولائی میں ہے تو ہر ایک کے اوپر اک چھت ہے جسے آسمان کہتے ہیں۔ زمین دو طرح سے گردش کر رہی ہے ایک تو اپنے محور کے گرد گردش ہے جیسے لٹو اپنے محور کے گرد گھومتا ہے۔ اور اس کی اپنی محور کے گرد رفتار 1670 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ بڑے سے بڑے جہاز کی رفتار بھی 1300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ گھومتے ہوئے کہیں کانپنے نہ لگے اس لیے پہاڑ رکھے۔ دوسری گردش زمین کا سورج کے گرد گھومنا ہے اور وہ یہ مدار 365 دنوں میں مکمل کرتی ہے۔ اس کی رفتار ایک لاکھ 8 ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ اور یہ رفتار 100 ہوائی جہازوں کی رفتار سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سب معلومات تو انسان کو آج ملی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ قرآن جو 1400 سال پہلے نازل ہوا جب علم نہیں تھا تو اس قرآن کو کس نے یہ سب بتایا تو کسی کے پاس اس کا جواب نہیں سوائے اللہ کے جس نے آقاا ﷺ کی طرف یہ علم بھیجا۔ اسی طرح چاند بھی گردش کرتا ہے۔ چاند زمین کے گرد بھی گردش کرتا ہے اور اس طرح اپنے محور کے گرد بھی گردش کرتا ہے۔ ان آیات مبارکہ نے رچرڈ وارلے کو حیران کیا پھر اس نے سورہ الذاریات کی ایک آیت مبارکہ پڑھی۔

وَ السَّمَآءَ بَنَیۡنٰهَا بِاَیۡىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ.

(الذاریات: 47)

اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں۔

اور فرمایا ہم نے ساری آسمانی کائنات کو ایک قوت کے ذریعہ پیدا کیا اور پھر ہم اس کائنات کو مسلسل پھیلاتے جا رہے ہیں۔ جب اس نے اس آیت مبارکہ کو پڑھا تو وہ شخص چکرا گیا کہ پہلے تو بات astrology کی تھی اور اب یہ astrophysics کا علم جو سائنسدانوں کو 1956میں پتہ چلا ہے۔ اس کے پڑھنے سے 25 سال قبل اس بات نے اس کو حیران کر دیا کہ کائنات کو قوت کے ساتھ بنایا گیا ہے اور اس کو وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں تو اس نے یہ سوچا کہ 14 صدیاں قبل جب اس علم کا کوئی تصور بھی نہیں تھا تو اس کتاب قرآن کو یہ بات کس نے بتائی؟

سائنسی تحقیق کے مطابق کائنات کی عمر 14 ارب سال تک ہو چکی ہے اور سائنس کے مطابق کائنات نے ابھی 65 ارب سال اور زندہ رہنا ہے۔ اور یہ کائنات ازل سے پھیلتی جا رہی ہے سوال یہ ہے کہ اس کا اختتام کیا ہوگا؟

1875ء میں یہ تحقیق سامنے آئی کہ پہاڑ جتنے زمین کے اوپر ہیں، اُتنے ہی زمین کے نیچے ہوتے ہیں۔ یوں سائنس دانوں نے 150 سال قبل یہ آگہی دنیا کو دی۔ جب کہ اسلام نے آج سے 1400 سال قبل قرآن مجید کے ذریعے یہ معلومات انسانیت کو فراہم کر دی تھیں۔

آج سے ساڑھے تین سو سال قبل ایک سائنسدان نیوٹن تھا جس نے سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کیا اس نے کشش ثقل law of gravity کا ایک قانون دیا۔ اس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق کائنات ساکن تھی۔ اس میں حرکت نہیں ہے۔ 1915 میں البرٹ آئن سٹائن نے ایک نظریہ general theory of relativity دیا اس نے یہ کہا کہ کائنات میں جمود نہیں بلکہ اس میں حرکت ہو رہی ہے۔ لیکن آئن سٹائن کو کائنات کے پھیلنے کا تصور نہیں تھا۔ 1929 میں ایک امریکن سائنسدان ایڈمن ہبب نے پہلی بار یہ مفروضہ پیش کیا کہ کائنات متحرک تو ہے ہی لیکن لگتا یہ ہے کائنات متحرک ہونے کے ساتھ پھیل بھی رہی ہے۔ سائنس کو تو یہ 1929 میں پتہ چلا لیکن تاجدارِ کائنات ﷺ نے 1400 سال پہلے بتا دیا۔

Red shift جس کو ہبل لاء بھی کہتے ہیں یہ جس کے مطابق کائنات پھیل رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کیلئے اتنی محنت اور وقت لگا ہے۔ اسی زمانے میں 1922 میں الیگزینڈر نے بھی یہ تحقیق کی اور کہا کہ لگتا ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ 1956 میں پھر دو سائنسدان جو کہ امریکہ سے تھے آرمو پنزیان اور رابرٹ جلسن نے تحقیق کر کے یہ مسلمہ قانون بنا دیا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے اور اس کے نتیجے میں ان دونوں سائنسدانوں کو نوبل پرائز دیا گیا۔ اب سوال یہ کہ جو لوگ پوچھتے ہیں کہ خدا کیا ہے؟ کہاں ہے؟ تو وہ سن لیں خدا وہ ہے جس نے کائنات کا علم اپنے پیغمبر ﷺ کو عطا کیا۔ جس نے کہا کہ ہم نے کائنات کو قوت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور ہم اس کو پھیلاتے جا رہے ہیں۔ خدا وہ ہے جو اپنی قدرت سے کائنات کو پھیلا رہا ہے اور اس نے یہ سب حقائق تب بیان کیے جب دنیا میں کسی علم کا وجود تک نہیں تھا۔ اور اس کے 1300 سال بعد تک بھی سائنسدانوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ نیوٹن اور آئن سٹائن جن کا سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑا نام ہے ان کو بھی نہیں پتہ تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔

خدا نے کائنات کے پھیلاؤ کا تصوّر حضور نبی اکرم ﷺ کے ذریعے اِنسانیت کو اُس کو وقت دیا جب عالمِ عرب میں ہر سُو جہالت کے ڈیرے تھے؛ جب کہ سائنس یہ باتیں 1450 سال بعد لوگوں کو بتا رہی ہے۔

کائنات کی وسعتوں کا کسی کو اندازہ بھی نہیں ہے۔ زمین ایک چھوٹا سا خطہ ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ نظام شمسی ہے جس میں زمین ایک چھوٹا سا سیارہ ہے۔ زمین اس میں حرکت بھی کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ زمین پھیل بھی رہی ہے۔ سولر سسٹم (نظام شمسی) بھی 8 لاکھ اٹھائیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ زمین کا قطر ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر ہے۔ سورج کا قطر 14 لاکھ کلو میٹر ہے۔ اور زمین اور سورج کے درمیان کا فاصلہ 15 کروڑ کلو میٹر ہے۔

اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰهُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَo

(الانبیاء: 30)

اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے۔

سائنس یہ کہتی ہے کہ کائنات ایک دھماکے سے قائم ہوئی۔ یعنی ایک انڈے کی طرح ایک چھوٹا سا ذرہ تھی اور وہ پھٹا اور کائنات قائم ہوئی اور پھر اللہ کے امر سے پھیلنے لگی۔

اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُo

اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے: ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے)۔

1949 میں امریکہ میں ایک لیبارٹری قائم ہوئی جس میں کائنات پر تحقیق کا کام شروع کیا گیا۔ 1990 میں بھی تحقیق سے یہی بات واضح ہوئی کہ کائنات ایک انڈے نما چیز کے پھٹنے سے قائم ہوئی۔ پھر ایک اور ادارہ ناسا نے بھی کائنات کی تحقیق شروع کی اور اپنے مطالعہ کے دوران تصویریں بنائیں اور لیبارٹری میں بھیجیں کہ نیچے تہوں میں ایسی سطحیں ہیں جن میں لہریں ہیں جن کو کوئی نہ کوئی حرکت دے رہا ہے۔ تاجدارِ کائنات ﷺ 1400 سال پہلے امت کو یہ خبر دے رہے ہیں کہ اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی ہے کہ

اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰهُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَo

(الانبیاء: 30)

اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے۔

کہ کیا ان کافروں نے نہیں دیکھا کہ یہ ساری کائنات آپس میں جڑی ہوئی تھی اور پھر سے ہم نے اسے پھاڑ دیا۔ تاجدارِ کائنات ﷺ 14 صدیاں پہلے دنیا کو بتا رہے ہیں اور سائنس کی تحقیق اس تک 19 ویں صدی تک پہنچی ہے۔ آقا ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کو توانائی سے پیدا کیا اور ہم اس کو توانائی سے پھیلاتے جا رہے ہیں۔ امریکہ کا ادارہ ناسا کی 1989 کی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ کائنات کے بالائی حصوں میں لہریں big bang radiations ہیں۔ اس کو دیکھ کر ایک امریکن سائنسدان نے اس کا مشاہدہ کیا اور کہا کہ میں آپ کو حلفاً کہتا ہوں کہ یہ لہریں خدا کے ہاتھ کی تحریریں ہیں۔ 2006 ء میں ایک اور امریکن سائنسدان جارج سموتھ اس نے فزکس میں نوبل پرائز حاصل کیا۔ اس نےcosmic background دریافت کر کے کہا کہ یہ لہریں جو big bang کی باقیات ہیں ان کو دیکھ کے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں خدا کا چہرہ دیکھ رہا ہوں۔ اس نے یہ اپنے آرٹیکل GOD for 21st century میں بتایا۔ ایک اور سائنس دان نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک کتاب لکھی کہ سائنس اللہ کے وجود کا انکار کیوں نہیں کرتی؟

یہ کائنات اتنا پھیلی ہے کہ اس سے اربوں کھربوں کائناتیں وجود میں آ گئیں۔ ہماری زمین جس کہکشاں کا حصہ ہے وہ ملکی وے گلیکسی ہے اس سے ہم 26 ہزار نور سال کے فاصلے پر ہیں۔ نوری سال کا فاصلہ 94.6 کھرب کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ ہمارے نظام شمسی کی رفتار بھی 4 لاکھ 47 ہزار فی کلو میٹر ہے۔ اور کہکشاں کی رفتار اور اس کا فاصلہ 6 لاکھ میل فی گھنٹہ ہے۔ ہماری کہکشاں اڑھائی ارب سال میں اپنا سفر مکمل کرتی ہے۔ جیسے ہماری کہکشاں ہیں ایسی کائنات میں ایک کھرب سے 2 کھرب یا اس سے بھی زیادہ کہکشائیں ہیں۔ سائنس تحقیق کرتے کرتے اس بات پر پہنچی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ کائنات پھیلتے پھیلتے رک جائے گی اس میں قوت نہیں رہے گی اور اس کا پھیلاؤ رک جائے گا۔ اور سائنس کہتی ہے کہ جب اس کا پھیلاؤ رک جائے گا تو یہ آہستہ آہستہ سکڑنے لگ جائے گی۔ اور سکڑتے سکڑتے اتنی سکڑ جائے گی کہ جہاں سے پھیلنا شروع ہوئی تھی۔ سائنس کو اس بات کی خبر آج پتہ چلی ہے کہ کائنات پھیلتے پھیلتے رک جائے گی اور پھر یہ سکڑنا شروع ہو جائے گی۔ رب کائنات نے اس پر بھی آقائے دوجہاں ﷺ کی طرف وحی کی۔ سورہ الطارق میں اللہ رب العزت نے اس کی خبر دی۔

وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِo

(الطارق: 11)

اس آسمانی کائنات کی قَسم جو پھر اپنی ابتدائی حالت میں پلٹ جانے والی ہے۔

سائنس آج زمین کی گردش ثابت کررہی ہے، جب کہ قرآن نے زمین کی گردش کا علم 1,450 سال قبل انسانیت کو عطا کر دیا تھا۔ تو گویا قرآن مجید نے سورہ طارق آیت نمبر 11 میں اس بات کی خبر 14 سو سال پہلے دے دی کہ کائنات اپنی پہلے حالت کی طرف پلٹنے والی ہے۔ اور یہ کائنات سکڑنا شروع ہو جائے گی اور پھر کیا ہوگا یہ سب آپس میں ٹکرا جائیں گے۔ اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔

وَ الۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِo

اس زمین کی قَسم جو پھٹ (کر ریزہ ریزہ ہو) جانے والی ہے۔

اور جب یہ سب ٹکرا جائے گی اور پھر قیامت آ جائے گی۔ سورہ التکویر میں فرمایا:

اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡo

(التکویر: 1)

جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گا۔

وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡo

(التکویر: 2)

اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گر پڑیں گے۔

وَ اِذَا الۡجِبَالُ سُیِّرَتۡo

اور جب پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) چلا دیئے جائیں گے۔

پھر سورہ الانفطار میں فرمایا:

اِذَا السَّمَآءُ انۡفَطَرَتۡo

جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے۔

وَ اِذَا الۡکَوَاکِبُ انۡتَثَرَتۡo

اور جب سیارے بکھر جائیں گے۔

پھر سورہ انشقاق میں فرمایا:

اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡo

جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے۔

وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّهَا وَ حُقَّتۡo

اور اپنے رب کا حکمِ (اِنشقاق) بجا لائیں گے اور (یہی تعمیلِ اَمر) اُس کے لائق ہے۔

پھر سورہ مرسلات میں فرمایا:

فَاِذَا النُّجُوۡمُ طُمِسَتۡo

پھر جب ستاروں کی روشنی زائل کر دی جائے گی۔

وَ اِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتۡo

اور جب آسمانی کائنات میں شگاف ہو جائیں گے۔

وَ اِذَا الۡجِبَالُ نُسِفَتۡo

اور جب پہاڑ (ریزہ ریزہ کر کے) اُڑا دیے جائیں گے۔

سائنس آگے آگے بڑھتی رہے گی اور ہر ایک علمِ قرآنی کی تصدیق کرے گی۔ ایک وقت آئے گا جب ساری سائنس تاجدارِ کائنات ﷺ کے قدموں میں سجدہ ریز ہو جائے گی۔ یہ سارے حقائق واضح ہوجائیں گے کہ کوئی ایک ذات ہے جو اس سب نظام کو چلا رہی ہے۔ کیونکہ یہ علم 1400 سال پہلے خدا کے سوا کوئی اور دے نہیں سکتا تھا۔

خلاصہ

1875ء میں یہ تحقیق سامنے آئی کہ پہاڑ جتنے زمین کے اوپر ہیں، اُتنے ہی زمین کے نیچے ہوتے ہیں۔ یوں سائنس دانوں یہ 150 سال قبل یہ آگہی دنیا کو دی۔ جب کہ اسلام نے آج سے 1400 سال قبل قرآن مجید کے ذریعے یہ معلومات انسانیت کو فراہم کر دی تھیں۔ آج سے ساڑھے 14 صدیاں قبل جہالت بھرے دور میں نازل ہونے والے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام سائنسی حقائق بیان کردیے تھے جو آج سائنسی تحقیقی سے معلوم ہو رہے ہیں۔ یہی اس بات کی دلیل ہیں کہ خدا کو مانا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو پڑھنا اور اس کی آیات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ خدا، دین اور حق کا راستہ اُن سے معلوم کرنا چاہتے ہیں جو خود بھٹکے ہوئے ہیں۔ ایسے ہزاروں سوالات ہیں جن کی خبر سائنس اور انسانیت کو آج ملی ہیں جب کہ قرآن مجید ان کا واضح تذکرہ ساڑھے 14 صدیاں قبل کر چکا ہے۔

خدا کے وجود سے انکار کرنے والوں سے یہ سوالات لازمی کریں کہ جو علم سائنس کو گزشتہ دو تین صدیوں میں حاصل ہوا، وہ آج سے 1450 سال قبل قرآن کو کیسے معلوم ہوا اور قرآن نے کیسے بیان کیا؟ سائنس آج زمین کی گردش ثابت کررہی ہے، جب کہ قرآن نے زمین کی گردش کا علم 1450 سال قبل انسانیت کو عطا کر دیا تھا۔ جن کو حق کی تلاش ہوتی ہے وہ سب سے پہلے اُس جگہ جاتے ہیں جہاں حق ملتا ہے۔ پھر اُس پر غور و فکر کرتے ہیں اور سوچ اور تدبر کے ساتھ حق تلاش کرتے ہیں تو اُنہیں حق مل جاتا ہے۔ خدا نے کائنات کے پھیلاؤ کا تصوّر حضور نبی اکرم ﷺ کے ذریعے اِنسانیت کو اُس کو وقت دیا جب عالمِ عرب میں ہر سُو جہالت کے ڈیرے تھے؛ جب کہ سائنس یہ باتیں 1450 سال بعد لوگوں کو بتا رہی ہے۔