گلدستہ: اتباعِ سنت کی سائنسی تحقیق

نازیہ عبدالستار

بیٹھ کر پانی پیناسنت ہے

اگر پانی بیٹھ کر پیا جائے تو جسم کی حاجت کے مطابق پانی جسم میں جاتا ہے اور اگر زیادہ پانی جسم میں چلا جائے تو جسم کی ضرورت سے زائد ہوتا ہے اس کی وجہ سے ایک خطرناک مرض ہوتا ہے جسے استسقاءکہتے ہیں اور مریض کا تمام بدن پھول جاتا ہے۔

کھڑے ہوکر پانی پینا خلافِ سنت ہے

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا: اگر پانی کھڑے ہوکر پیا جائے تو اس کی وجہ سے معدہاور جگرکی ایسی بیماریاں پھیلتی ہیں جن کے علاج میں معا لجین عاجز آجاتے ہیں۔ کھڑے ہوکر پانی پینے سے پاؤں پر ورم کا خطرہ رہتا ہے اور اگر یہ پاؤں کی ورم شروع ہوجائے تو جسم کے تمام حصوں پر ورم کا خطرہ ہوتا ہے۔

ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اگر تمہیں پتہ لگ جائے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے کا اتنا نقصان ہے تو وہ پانی تم حلق میں انگلی ڈال کر باہر نکال دو۔

تین سانس میں پانی پیناسنت ہے

احادیث میں پانی کو تین اور بعض میں دو سانس کیساتھ پینے کا حکم ہے معمولات نبوی ﷺ اگر پانی کو تین سانس میں نہ پیا جائے تو مندرجہ ذیل امراض پیدا ہوسکتے ہیں۔

1۔ پانی سانس کی نالی میں جاکر نظام تنفس میں اٹک جاتا ہے جس سے بعض اوقات موت واقع ہونے کا خطرہ۔ لاحق ہوتا ہے۔

2۔ اس کازیادہ نقصان دماغ کے پردوںپر پڑتا ہے۔ کیونکہ پانی کی لہریں دماغ کے پردوں کیساتھ تعلق رکھتی ہیں دماغ میں فلوئڈ ہے اور اسکی نسبت پانی سے ہے۔ اگر آہستہ آہستہ پانی پیا جائے تو مضر اثرات کبھی بھی دماغ پر نہیں پڑیں گے۔

3۔ معدے میں فوراً زیادہ مقدار میں پانی چلا جائے تو اس کی سطحی اندرونی کیفیت میں انبساط یعنی پھیلاؤ ہوتا ہے اگر یہ پھیلاؤ اوپر کی سطح سے ہو تو دلاور پھیپھڑوں کے نقصان کا خطرہ رہتا ہے اگر یہ دائیں طرف ہو تو جگر کو نقصان پہنچتا ہے اور اگر یہ بائیں طرف ہو تو تلی کو نقصان پہنچتا ہے اگر یہ نیچے کی طرف ہو تو آنتوں پر دباؤ پڑتا ہے۔

دائیں کروٹ لیٹنا سنت ہے

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب رو بقبلہ ہوکر آرام فرماتے تھے)دل بائیں طرف ہے اگر بائیں طرف لیٹیں تو مندرجہ ذیل عوارضات کا قوی خطرہ ہوتا ہے۔ دل کے امراض پیداہوجاتے ہیں کیوں کہ بائیں کروٹ لیٹنے سے معدہ اور آنتوں کا بوجھ دل پر پڑتا ہے جس کی وجہ سے دوران خون اور دل کی حرکات میں کمی پیدا ہوجاتی ہے۔ جدید تحقیق سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دائیں طرف سونا دل اور معدےکے امراض سے بچاتا ہے۔ حتیٰ کہ بے ہوشی اور مسلسل بے ہوشی سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ صاحب مدارج النبوۃ نے اس کی حکمت یہ نقل کی ہے کہ چونکہ بائیں جانب دل ہوتا ہے اگر اس کروٹ کے بل سویا جائے تو نیند بہت گہری آتی ہے حتیٰ کہ آدمی اپنے آپ سے بالکل بے خبر ہوجاتا ہے ہلکی آہٹ پر بھی آنکھ نہیں کھلتی ظاہر ہے کہ ایسی نیند محمود نہیں اور اگر دائیں کروٹ سویا جائے تو دل معلق رہتا ہے اور شدید گہری نیند نہیں آتی (یعنی ذرا سی آہٹ پر آنکھ کھل جاتی ہے اس طرح خدانخواستہ کسی بھی ناگہانی صورت میں انسان اپنی اور اپنے اہل وعیال کی حفاظت کرسکتا ہے)اور صبح کی نماز کے لئے آسانی سے آنکھ کھل جاتی ہے اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفر اگر صبح کے وقت کبھی آرام فرماتے تو دایاں بازو کھڑا کرکے ہتھیلی پر سر رکھ کر آرام فرماتے تاکہ نیند زیادہ گہری نہ آئے۔ اور نماز فجر قضا نہ ہوجائے۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گزاری۔

سونے سے قبل لباس کی تبدیلی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے قبل تہمد باندھتے اور کرتا اتار کر ٹانک دیتے۔ (معمولات نبویؐ)حفظان صحت کا اصول ہے کہ جس لباس میں تمام دن رہے اسی لباس میں ہرگز نہ سوئیں بلکہ کسی ایسے لباس میں سوئیں جو ہلکا اور ڈھیلا ہو کیونکہ تنگ اور سخت لباس میں نیند اچھی نہیں آتی۔

سونے کا لباس یا سلیپنگ ڈریس

اہل یورپ کی ہی اصطلاح ہے جسے وہ صحت کے اصولوں کے موافق اور فخر سمجھ کر پہنتے ہیں۔ جبکہ اسلام نے اس سے قبل مسلمانوں کو رات کا لباس تہمد باندھنا بتایا ہے کیونکہ تہمد واحد لباس ہے جو کہ ہلکا کھلا اور ڈھیلا ہے۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سفید لباس کوپسند فرماتے تھے۔

سفید لباس ہر قسم کے (موسمی) سخت تغیرات کا مقابلہ کرتا ہے۔ سخت گرمی کے موسم میں سفید لباس گرم نہیں ہوتا ۔

کیونکہ یہ گرمی کو جذب نہیں کرتا بلکہ رادع حرارت ہے سخت سردی کے موسم میں سردی کی وجہ سے لباس ٹھنڈا نہیں ہوتا۔

حاجت کے لئے دور نکل جاناسنت ہے

کتب احادیث کے مطابق آپ ﷺ قضائے حاجت کے لئے بہت دور نکل جاتے تھے۔ اس وقت جدید سائنس زیادہ چلنے پر زور دے رہی ہے حتیٰ کہ امریکہ کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں یہ بات نمایاں ہے کہ پاؤں پہلے پیدا ہوا یا پہیہ۔ ظاہر ہے کہ پاؤں پہلے پیدا ہوا اس کا مقصد قوم کو پیدل چلانا ہے۔

ایک بائیو کیمسٹری کے ماہر نے نکتے کی بات کہی کہ جب سے شہر پھیلنے لگے، آبادی بڑھنے لگی اور کھیت ختم ہونے لگے اس وقت سے اب تک امراض کی بہتات ہوگئی ہے ۔ کیونکہ جب سے دور چل کے حاجت کرنا چھوڑا ہے اس وقت سے اب تک قبض، گیس، تبخیر اور جگر کے امراض بڑھ گئے ہیں۔

چلنے سے آنتوں کی حرکات تیز ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے حاجت تسلی بخش ہوتی ہے آج حاجت غیر تسلی بخش ہوتی ہے جس کی وجہ سے بیت الخلا میں زیادہ وقت گزارنا پڑتا ہے۔

عمامہ پہننا سنتِ رسول ﷺ

عمامہ پہننا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ جو آدمی عمامہ باندھے گا وہ لو لگنے

(Sun Stroke) سے بچ جائے گا۔ پگڑی باندھنے سے دائمی نزلہ نہیں ہوتا اگر ہو بھی تو اس کے اثرات کم ہوجاتے ہیں

سر درد کیلئے عمامہ بہت مفید ہے۔ جو عمامہ باندھے اسے درد سر

(Headache)کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

عمامہ دماغی تقویت اور یادداشت بڑھانے کے لئے عجیب الاثر ہے۔ عمامہ کا شملہ ریڑھ کی ہڈی کے ورم سے بچاتا ہے۔

عمامہ کا شملہ نچلے دھڑکے فالج سے بچاتا ہے۔ کیونکہ عمامہ کا شملہ حرام مغز(Spinal Cord) کو سردی گرمی اور موسمی تغیرات سے محفوظ رکھتا ہے اس لئے ایسے آدمی کو سرسام کے خطرات کم رہتے ہیں۔

فزیالوجی کی تحقیق اور ریسرچ کے مطابق جب حرام مغز محفوظ رہے گا تو جسم کا اعصابی نظام(Nervous System)اور عضلاتی نظام(Muscles System) درست اور منظم رہے گا…. اور ایسا پگڑی کے شملے میں ممکن ہے۔

سفید عمامہ کی وجہ سے دماغ اور دماغی اعصاب

(Brain Nerves)گرمی کی تمازت اور لو کے اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔

سنتیں اور نوافل کے فوائد

صحیح مسلم میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان ہر دن اللہ کے لئے بارہ رکعت نفل پڑھے جو فرض کے سوا ہیں تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ بہشت میں گھر بنادیتا ہے۔

ترمذی کی روایت میں ان بارہ رکعتوں کی تفصیل اس طرح آئی ہے کہ چار رکعت فرض ظہر سے پہلے اور دو رکعت بعد فرض ظہر کے اور دو رکعت فرض مغرب کے بعد اور دو رکعت فرض عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے پہلے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان بارہ رکعتوں کو گھر میں پڑھا کرتے تھے اور جو عمل ایسا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی فضیلت بتائیں اور خود بھی ہمیشہ کریں وہ سنت موکدہ ہوتا ہے جو شخص بلاعذر اس کو ترک کرے اوراس کے ترک پر اصرار کرے وہ گمراہ ہے۔ (ردالمختار)

(کتاب کا نام: مسنون زندگی قدم بہ قدم صفحہ نمبر: 71 تا 76)

اوقات نماز اور جدید سائنس

انسان طبعی طور پر محرک جسم ہے یہ ساکت اور جامد اجسام کی ضد ہے۔ اس لیے اس میں صحت، تندرستی اور بقا تحریک میں ہے۔ اور نماز بار بار اسی تحریک کا نام ہے۔ قدرت نے اس کے معمولات زندگی اور اس کو ازل سے ابد تک جانتے پہچانتے ہوئے نماز میں اس کے لیے اوقات اور وقفے مقرر کیے ہیں۔

نماز فجر

نماز فجر اس وقت ہوتی ہے جب رات ڈوبنے کوہوتی ہے اور انسان رات بھر کے آرام و سکون کے بعد جاگتا ہے۔ سائنس اور حفظان صحت کا اصول ہے کہ کسی بھی ورزش کو کرنے کے لیئے آہستہ آہستہ اپنی رفتار، قوت اور لچک میں اضافہ کیا جائے حتی کہ دوڑنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ پہلے آہستہ آہستہ دوڑیں پھر تیز پھر اور تیز اور پھر سبک رفتار بن جائیں۔ اگر انسان صبح اٹھتے ہی سترہ رکعات نماز شروع کر دے تو وہ جلد ہی اعصاب اور بے طاقتی کا مریض بن جائے گا اور پھر رات کو سونے کے بعد صبح اٹھتے ہی پیٹ خالی ہوتا ہے اور اعضاء بھی رات بھر سکون میں رہے ہوتے ہیں اگر انہیں فورا" تحریک دی جائے تو سخت محنت اور اٹھک بیٹھک مضر ہے اس لیے اللہ نے صبح کی نماز مختصر رکھی ہے۔

صبح کی نماز کا مقصد خالق کی عبادت کے علاوہ انسان کو طہارت اور صفائی کی طرف مائل کرنا بھی ہے اگر اس نے نماز کا وضو اور مسواک نہ کی اور صبح کا ناشتہ کر لیا تو رات بھر جو جراثیم منہ میں پھیلتے پھولتے رہے اور بیکٹیریا کی ایک خاص قسم جو رات کو سوتے وقت منہ میں پیدا ہو جاتی ہے، وہ غذا، لعاب یا پانی کے ذریعے اندر چلے جاتے ہیں اور معدے کی سوزش، آنتوں کے ورم اور السر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

نماز ظہر

صبح سے دوپہر تک آدمی فکر معاش کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اس دوران گردو غبار دھول و مٹی سے اس کا واسطہ پڑتا رہتا ہے بعض اوقات ایسے کیمیکل ہوا کے ذریعے کھلے ا عضاء، چہرے اور ہاتھوں پر لگ جاتے ہیں جو اگر زیادہ دیر رہیں تو انتہائی مضر ثابت ہوتے ہیں تو ایسی کیفیت میں انسان جب وضو کرتا ہے تو اس کی ساری کثافتیں اور تھکان دور ہو جاتی ہے سورج کی تمازت ختم ہو کر جو زوال سے شروع ہوتی ہے تو زمین کے اندر سے ایک گیس خارج ہوتی ہے یہ گیس اس قدر زہریلی ہوتی ہے کہ اگر آدمی کے اوپر اثر انداز ہو جائے تو قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے دماغی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ جب کوئی بندہ ذہنی طور پر عبادت میں مشغول ہو جاتا ہےتو نماز کی نورانی لہریں اسے اس خطرناک گیس سے محفوظ کر دیتی ہیں.

نماز عصر

زمین دو طرح سے چل رہی ہے ایک گردش محوری دوسری طولانی۔ زوال کے بعد زمین کی گردش میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ گردش اتنی کم ہو جاتی ہے کہ حواس پر دباؤ پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ انسان، حیوان، چرند پرند سب پر دن کے حواس کے بجائے رات کے حواس کا دروازہ کھلنا شروع ہو جاتا ہے اور شعور مغلوب ہو جاتا ہے۔ ہر ذی شعور انسان اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ عصر کے وقت اس پر ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کو وہ تھکان، بے چینی اور اضمحلال کا نام دیتا ہے مگر یہ شعور حواس پر لاشعور حواس کی گرفت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عصر کی نماز شعور کو اس حد تک مضمحل ہونے سے روک دیتی ہے جس سے دماغ پر خراب اثرات مرتب ہوں وضو اور عصر کی نماز قائم رکھنے والے بندے میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ وہ لاشعوری نظام کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے اور اپنی روح کے قریب ہو جاتا ہے اور دماغ روحانی تحریکات قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

نماز مغرب

دن بھر رزق کے حصول کے لیے کی جانے والی محنت کا جب صلہ ملتا ہے تو آدمی بالفعل اس بات کا شکر ادا کرتا ہے۔ شکر کے جذبات سے وہ مسرور، خوش و خرم اور پر کیف ہو جاتا ہے۔ اس کی ان کیفیات کا اس کے بچوں پر براہ راست اثر پڑتا ہے اور ان کے دل میں اس کے لیے عزت و احترام اور محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور بچے غیر ارادی طور پر اپنے والدین کی اچھی عادات کو اپناتے ہیں الغرض نماز مغرب کی پابندی کرنے والے کی اولاد نیک فرماں بردار اور سعادت مند ہوتی ہے۔

نماز عشاء

انسان طبعی طور پر لالچی ہے جب وہ کاروبار دنیا سے فارغ ہو کر گھر آتا ہے تو کھانا کھاتا ہے اور لذت و حرص میں کھانا زیادہ کھا لیتا ہے اب اگر وہ کھانے کے فورا بعد لیٹ جائے تو وہ مہلک امراض میں مبتلا ہو جائے گا۔ اب اللہ نے اس کو ایک اور فائدہ بھی دیا ہے کہ سونے سے پہلے نماز عشاء کی طویل ورزش ایک تو کھانا ہضم کرنے میں مدد دے گی اور دوسرا سکون اور آرام کی نیند سلائے گی ۔ اب تو خود ماہرین بھی سونے سے قبل ورزش پر زور دیتے ہیں۔

نماز تہجد

نماز تہجد کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں جو طویل تحقیقات کے بعد ماہرین نے اخذ کئے اور کتابوں میں بیان کیے ہیں:

1۔ بے سکونی اور نیند کی کمی کا علاج ہے۔

2۔ دل کے امراض کے لیے تریاق اعظم ہے۔

3۔ اعصابی کھچاؤ اور جکڑاؤ کے لیئے مفید ہے۔

4۔ دماغی امراض خاص طور پر پاگل پن کی خطرناک کیفیت کے لیے آخری علاج ہے۔

5۔ انسانی جسم میں نشاط، فرحت اور غیرمعمولی طاقت پیدا کرتی ہے جو اسے سارا دن ہشاش بشاش رکھتی ہے۔

(بحوالہ سنت نبوی ﷺ اور جدید سائنس)