محرم الحرام کی فضیلت و اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

القرآن

حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور (دیگر) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی اور الله سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ الله ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔

(البقرة، 2: 194)

لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور الله کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا الله کے نزدیک (اس سے بھی) بڑا گناہ ہے، اور یہ فتنہ انگیزی قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہے۔

(البقرة، 2: 217)

اے ایمان والو! الله کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرم کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور نہ مکّہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ حرمت والے گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا قصد کرکے آنے والوں (کے جان و مال اور عزت و آبرو) کی (بے حرمتی کرو کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے رب کا فضل اور رضا تلاش کر رہے ہیں۔

(المائدة، 5: 2)

اللہ نے عزت (و ادب) والے گھر کعبہ کو لوگوں کے (دینی و دنیوی امور میں) قیام (امن) کا باعث بنا دیا ہے اور حرمت والے مہینے کو اور کعبہ کی قربانی کو اور گلے میں علامتی پٹے والے جانوروں کو بھی (جو حرمِ مکہ میں لائے گئے ہوں سب کو اسی نسبت سے عزت و احترام عطا کر دیا گیا ہے)، یہ اس لیے کہ تمہیں علم ہو جائے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ خوب جانتا ہے اور اللہ ہر چیز سے بہت واقف ہے۔

(المائدة، 5: 97)

بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتۂ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔

(التوبة، 9: 36)

الحدیث

حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا۔ تو رسول الله ﷺ نے اُن سے پوچھا: یہ کون سا (خاص) دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ اُنہوں نے کہا: یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس میں موسیٰ  علیہ السلام  اور اُن کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اُس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ  علیہ السلام  نے شکرانے کے طور پر اُس دن کا روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اِس پر رسول اللهﷺ نے فرمایا: تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اُس دن رسول الله ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی) اُس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب قول الله تعالی: وھل أتاک حدیث موسی، 3: 1244، الرقم: 3216، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، 2: 796، الرقم: (2)1130، وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 1: 552، الرقم: 1734، وأحمد بن حنبل في المسند، 1: 336، الرقم: 3112

اے ایمان والو! الله کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرم کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور نہ مکّہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ حرمت والے گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا قصد کرکے آنے والوں (کے جان و مال اور عزت و آبرو) کی (بے حرمتی کرو کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے رب کا فضل اور رضا تلاش کر رہے ہیں۔(المائدة، 5: 2)

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

حضرت (عبد الله) بن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ  علیہ السلام  اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ و نصرت عطا فرمائی تو ہم اِس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اِس دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے (خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی) روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب إتیان الیھود النبي ﷺ حین قدم المدینۃ، 3: 1434، الرقم: 3727، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، 2: 795، الرقم: 1130، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب في صوم یوم عاشوراء، 2: 326، الرقم: 2444، وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 1: 552، الرقم: 1734.

حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپﷺ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اُن سے اُس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو اُنہوں نے جواب دیا: یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یومِ آزادی اور یومِ نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ  علیہ السلام  نے اُس دن روزہ رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، 2: 704، الرقم: 1900، وأحمد بن حنبل في المسند، 1: 291، الرقم: 2644، وأبو یعلی في المسند، 4: 441، الرقم: 2567.

ایک اور روایت میں حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول الله ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول الله! اس دن کی تو یہود اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ تو رسول الله ﷺ نے فرمایا: جب اگلا سال آئے گا تو ہم ان شاء اللہ نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابھی اگلا سال آنے نہ پایا تھا کہ رسول الله ﷺ وصال فرما گئے۔

اِسے امام مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب أي یوم یصام في عاشوراء، 2: 797، الرقم: 1134، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب ما روی أن عاشوراء الیوم التاسع، 2: 327، الرقم: 2445، والبیہقي في السنن الکبری، 4: 287، الرقم: 8184.

حضرت (عبد الله) بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نہیں دیکھا کہ کسی دن کو دوسرے پر فضیلت دے کر روزہ رکھتے ہوں مگر اِس روز یعنی عاشورہ کو اور اس مہینہ یعنی ماهِ رمضان کو (ہمیشہ فضیلت دی)۔

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، 2: 705، الرقم: 1902، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، 2: 797، الرقم: 1132، وأحمد بن حنبل في المسند، 1: 222، الرقم: 1938، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب صوم النبي ﷺ، 4: 204، الرقم: 2370، والحمیدي في المسند، 1: 226، الرقم: 484.

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

ایک روایت میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ان چار اعمال کو کبھی ترک نہیں فرماتے تھے: دسویں محرم کے روزے، عشرہ ذو الحجہ کے روزے، ہر مہینہ کے تین روزے اور نمازِ فجر سے قبل دو رکعات۔

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6: 287، الرقم: 26502، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب کیف یصوم ثلاثۃ أیام من کل شہر، 4: 220، الرقم: 2416، والطبراني في المعجم الکبیر، 23: 205، الرقم: 354، وأیضًا في المعجم الأوسط، 8: 20، الرقم: 7831.

اِسے امام احمد بن حنبل، نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حضرت رُبَیّع بنت معوَّذ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: حضور نبی اکرم ﷺ نے عاشورہ کی ایک صبح کو انصار کے کسی گاؤں میں پیغام بھیجا کہ جس نے روزہ نہیں رکھا وہ اس دن کا بقیہ حصہ حالت روزہ میں گزارے۔ وہ باقی دن اس طرح پورا کرے اور جس نے روزہ رکھا ہوا ہے وہ روزے سے رہے۔ اس کے بعد ہم روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں ۔ ہم اُن کے لیے روئی کی ایک گڑیا بنا دیتیں ۔ جب اُن میں سے کوئی بچہ کھانے کے لیے روتا تو ہم اُسے وہی (گڑیا دے) دیتے۔ (وہ اس گڑیا سے کھیلنے میں مشغول ہوجاتا) یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صوم الصبیان، 2: 692، الرقم: 1859، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب من أکل في عاشوراء فلیکف بقیۃ یومہ، 2: 798، الرقم: 1136، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3: 288، الرقم: 2088، وابن حبان في الصحیح، 8: 385، الرقم: 3620.

ایک روایت میں حضرت اسماء بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے انہیں (ان کی قوم میں) بھیجا اور فرمایا: تم جا کر اپنی قوم کو اس (یومِ عاشور کے) روزے کا حکم دو۔ انہوں نے کہا (میں نے عرض کیا: یا رسول الله!) اگر میں اُنہیں دیکھوں کہ وہ کھانا کھا چکے ہیں تو پھر آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ باقی دن کا روزہ مکمل کر لیں۔

اِسے امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے: اس کے رجال ’صحیح مسلم‘ کے رجال ہیں۔

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3: 484، الرقم: 16005، والطبراني في المعجم الکبیر، 5: 274، الرقم: 5312، وأیضًا في المعجم الأوسط، 1: 186، الرقم: 589، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 5: 318، الرقم: 2855، وابن حبان في الثقات، 4: 141، الرقم: 2188، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 4: 231، الرقم: 1435، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 3: 185.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یومِ عاشور کا روزہ رکھتے تھے کیوں کہ اُس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول اللهﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو اِس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔

اِسے امام بخاری، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الحج، باب قول الله: جعل الله الکعبۃ البیت الحرام، 2: 578، الرقم: 1515، والطبراني في المعجم الأوسط، 7: 278، الرقم: 7495، والبیہقي في السنن الکبری، 5: 159، الرقم 9513.

حافظ ابن حجر عسقلانی نے (اِس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے) فرمایا ہے: اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اُس کی تعظیم کرتے اور اُس کی دیکھ بھال کرتے تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی ایک اور مقام پر (قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہتے ہیں: یومِ عاشور کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لیے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے۔

(العسقلاني في فتح الباري، 3: 455)، (العسقلاني في فتح الباري، 4: 246)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا: تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔ اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، 2: 704705، الرقم: 1901.

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے اور اُسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ رسول الله ﷺ نے (مسلمانوں کو) فرمایا کہ تم بھی اِس دن روزہ رکھو۔ اِسے امام مسلم، نسائی اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 2: 796، الرقم: (1)1131، والنسائي في السنن الکبری، 2: 159، الرقم: 2848، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 2: 133، الرقم: 3217، والبیہقي في السنن الکبری، 4: 289، الرقم: 8197.

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اہلِ خیبر یوم عاشور کا روزہ رکھتے اور اُسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اُس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور اُن کا بنائو سنگھار کرتے۔ تو رسول الله ﷺ نے (مسلمانوں سے) فرمایا: تم بھی اُس دن روزہ رکھا کرو۔اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 2: 796، الرقم: 1131.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاهِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: (یا رسول الله!) رمضان کے بعد کون سے مہینے کے روزے افضل ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ کا وہ مہینہ جسے تم محرم کہتے ہو۔

اِسے امام احمد بن حنبل نے، نسائی نے ’السنن الکبریٰ‘ میں اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2: 303، الرقم: 8013، وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب صیام أشھر الحرم، 1: 554، الرقم: 1742، والنسائي في السنن الکبری، 2: 171، الرقم: 2904، والدارمي في السنن، 2: 35، الرقم: 1757.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: عاشورہ کے دن انبیاء روزہ رکھا کرتے تھے، تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔

اسے امام ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ علامہ عینی نے کہا ہے کہ اس کی سند عمدہ ہے۔

أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 311، الرقم: 9355، وذکرہ العیني في عمدۃ القاري، 11: 118.

عاشورہ کے روزے کا ثواب

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللهﷺ سے عاشورہ کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: یہ روزہ گزشتہ سال (کے گناہوں اور کوتاہیوں) کا کفارہ کرتا ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ أیام من کل شھر وصوم یوم عرفۃ وعاشوراء، والإثنین والخمیس 2: 819، الرقم: 1162، وأحمد بن حنبل في المسند، 5: 308، الرقم: 22674، وأبو داود في السنن، کتاب الصیام، باب في صوم الدھر تطوعا، 2: 321، الرقم: 2425، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في الحث صوم یوم عاشوراء، 3: 126، الرقم: 752، وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 1: 553، الرقم: 1738، والنسائي في السنن الکبریٰ، 2: 150، الرقم: 2796.

ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول الله! اس مہینے کے بارے میں بتائیے جس میں، رمضان کے بعد میں روزے رکھوں۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اگر تو رمضان کے بعد کسی مہینے کے روزے رکھنا چاہتا ہے تو محرم کے روزے رکھ۔ بے شک یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اوردوسروں کی توبہ بھی قبول کی جائے گی۔

اِسے امام احمد، ترمذی، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1: 155، الرقم: 1334، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في صوم المحرم، 3: 117، الرقم: 741، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 300، الرقم: 9223، وأبو یعلی في المسند، 1: 337، الرقم: 426-427، والبیہقي في شعب الإیمان، 3: 360، الرقم: 3775.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یومِ عاشور کا روزہ رکھتے تھے کیوں کہ اُس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول اللهﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو اِس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔اِسے امام بخاری، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے

حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص یو م عرفہ کا روزہ رکھتا ہے وہ اس کے لیے دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور جو شخص محرم کے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اسے ہر ایک دن کے بدلے تیس دنوں (کے روزوں) کا ثواب ملتا ہے۔

اسے امام طبرانی نے محفوظ سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔

أخرجہ الطبراني في المعجم الصغیر، 2: 164، الرقم: 963، وأیضًا في المعجم الکبیر، 11: 72، الرقم: 11081، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 2: 70، الرقم: 1529، والھیثمي في مجمع الزوائد، 3: 190

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جس شخص نے عاشوراء کا روزہ رکھا اس نے گویا پورے سال کا روزہ رکھا اور جس نے اس دن صدقہ کیا تو یہ صدقہ پورے سال کے صدقہ کرنے کی طرح ہو گا۔

اسے علامہ ابن رجب الحنبلی نے ذکر کیا ہے۔

ذکرہ ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف: 112.

(ماخوز از کتاب: غایتہ الانعام فی بعض زمن الشھورواللیالی والایام)