سمیہ اسلام

ٹائم مینجمنٹ ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت آپ وقت کا استعمال صحیح طریقہ کار کے تحت کرپاتے ہیں اور وقت کی بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے ہی آپ جان پاتے ہیں کہ دن بھر میں کس سرگرمی پر آپ نے کتنا وقت صرف کرنا ہے؟

بہتر ٹائم مینجمنٹ آپ کو کم وقت میں زیادہ کام مکمل کرنے کے قابل بناتی ہے اور ساتھ ہی زندگی سے تناؤ کم کرتے ہوئے کیریئر کی کامیابی کا باعث بن سکتی ہے۔ٹائم مینجمنٹ آپ کو روز مرہ زندگی گزارنے کے لیے اضافی وقت فراہم کرتی ہے جسے آپ اپنے پسندیدہ مشغلوں اور اہم کاموں میں صرف کرسکتے ہیں۔ایسے افراد جو اپنے وقت کو بہترین طریقے سے مینیج کرلیتے ہیں وہ زندگی کے لیے تعین کردہ اہداف کو کم عرصے میں ہی حاصل کرلیتے ہیں۔

ٹائم مینجمنٹ کے اصول

ٹائم مینجمنٹ سے حاصل ہونے والے فوائد جاننے کے بعد ضروری ہے کہ ان اصولوں پر بھی بات کی جائے جن کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کی جاسکیں۔

صحیح اہداف کا تعین

زندگی میں قابل حصول اور قابل پیمائش اہداف کا تعین کریں جس کے لیے اسمارٹ طریقہ کار اپنائیں۔مثلاً اس بات کو یقینی بنائیں کہ جن اہداف کا تعین آپ کررہے ہیں وہ خاص ہونے کے ساتھ ساتھ قابل پیمائش، قابل حصول با موقع اور جدید بھی ہیں۔

عقلمندانہ ترجیحات

روزمرہ کیے جانے والے کاموں کو اہمیت اور عجلت کی بنیاد پر ترجیح دیں مثلاًروزمرہ کاموں پر غور کریں اور دیکھیں کہ اہم اور ضروری کام کون سا ہے: انہیں فوری کرنا ہے؟،اہم لیکن فوری ضروری نہیں: انہیں کب کرنا ہے؟،اشد ضروری لیکن غیر اہم: اگر ممکن ہو تو سرانجام دیں،غیر ضروری اور غیر اہم : بعد میں کرنے کے لیے ان کو ایک طرف رکھ دیں۔

وقت مقرر کریں

کسی بھی کام کے لیے وقت کا تقرر آپ کو زیادہ مؤثر اور زیادہ توجہ کے قابل بناتا ہے۔کس کام کے لیے آپ کو کتنا وقت درکار ہوگا یہ چھوٹی سی اضافی کوشش آپ کے لیے بہت سی امکانی مشکلات پیدا ہونے سے پہلے انہیں جاننے میں مددگار ثابت ہوگی۔مختلف کاموں کے مابین وقفہ لیں۔جب بہت سارے کام بغیر کسی وقفے کے ایک ساتھ انجام دیے جائیں تو انسان کے لیے توجہ مرکوز رکھنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے،کاموں کے لیے درمیان مختصر سا وقفہ آپ کو فریش کرنے اور زیادہ توجہ مرکوز رکھنے کے قابل بنائے گا۔مختصر ہی سہی نیپ ٹائمنگ پر غور کریں اس دوران واک کے لیے جائیں۔اپنی ذات کو منظم کریں۔بیڈروم کلینڈر کو طویل مدتی ٹائم مینجمنٹ کے طور پر استعمال کریں،کلینڈر پر ہر منصوبے کی تکمیل کے لیے ایک تاریخ منتخب کریں یا پھر مکمل منصوبوں کی آخری تاریخ کا انتخاب کریں۔اس بارے میں سوچنا شروع کریں کہ مخصوص کاموں کی تکمیل کے لیے کون سا دن اور وقت مناسب ہے۔

انسان کو زندگی میں حاصل ہونے والی کوئی کامیابی وقت کی پابندی کے بغیر ممکن نہیں، اگر آپ اپنی زندگی میں امور کو کل کروں گا یا کروں گی پر ٹالنے والے شخص ہیں تو آپ کا طرز زندگی تبدیلی کا مطالبہ کررہا ہے اور وہ تبدیلی ٹائم مینجمنٹ ہے۔ٹائم مینجمنٹ ایسی تبدیلی ہے جو کسی زندگی میں آجائے تو اسے دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی کی کئی منزلیں آرام سے طے کروا دیتی ہے۔

لوگوں کی اکثریت کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وقت کتنا قیمتی ہے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ زندگی ایک بار ملی ہے اور اس میں بھی آدھی زندگی گزرنے کے بعد جا کر شعور ملا اور یہ شعورملنے کے بعد بھی یہ نہیں دیکھا کہ وقت کو کہاں استعمال کرنا ہے۔ انسان جس طرح پیسے کے متعلق سوچتا ہے کہ اسے کہاں خرچ کرنا ہے، اس کا بہتر استعمال کیسے کرنا ہے، اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اٹھانا ہے، اسی طرح اسے چاہیے کہ وقت کی اہمیت کو بھی جانے۔اگر ایک شخص ٹھان لے کہ اسے اپنا وقت قابو کرنا ہے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے تو وہ کم وقت میں زیادہ کام کرنے کا ہنر سیکھ سکتا ہے۔

ہر انسان کو برابر کا وقت ملتا ہے

قدرت ہر شخص کو دن بھر میں 1440 منٹ، ہفتے میں سات دن، مہینے میں تیس دن اور سال میں 365 دن دیتی ہے، یعنی ہر ایک کو برابر کا وقت ملتا ہے۔ لیکن ہر ایک کا استعمال مختلف ہوتا ہے۔ لوگوں کا ایک ایسا طبقہ ہے جو بہت مصروف ہوتا ہے۔ وہ بہت خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس کا وقت گزرتا ہی نہیں۔ ایسے لوگ اپنا وقت ٹی وی دیکھ کر، سوکر، سوشل میڈیا پر یا آوارہ گردی میں گزار دیتے ہیں۔جو شخص تنظیم وقت کرنا چاہتا ہے، وہ سب سے پہلے یہ دیکھے کہ مجھ سے اپنا وقت کیوں قابو نہیں ہو رہا۔ سب سے پہلے وہ اس کی فہرست بنائے۔ جب فہرست بنے گی تو بہت سے ایسے کام نکلیں گے جو اس کے وقت کے ضیاع کا باعث بن رہے ہوں گے۔

پرائم ٹائم

ہرشخص کے چوبیس گھنٹوں میں کچھ وقت اس کا ’’پرائم ٹائم‘‘ ہوتا ہے۔ پرائم ٹائم وہ وقت کہلاتا ہے کہ جب آدمی کم وقت میں زیادہ معیار اور زیادہ مقدار کا کام کرسکتا ہے۔ مختلف افراد کیلئے پرائم ٹائم مختلف ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کیلئے صبح سویرے کا وقت بہتر ہوتا ہے تو بعض لوگوں کیلئے رات کا۔ تاہم، اسلامی فلسفے کے مطابق، کام کرنے کا بہترین وقت تہجد سے لے کر زوال تک کا وقت ہے۔ قرآن میں بھی ہے کہ ہم دن کو کام کرنے کیلئے اور رات کو آرام کیلئے بنایا ہے۔ اس حوالے سے دنیا کے کامیاب ترین اور امیر ترین افراد کی زندگی کا مطالعہ کیا گیا تو پتا چلا کہ وہ لوگ دیر سے سوتے ہیں اور جلد اٹھتے ہیں۔ امریکا میں کی گئی تحقیقات کے مطابق، عموماً دنیا کے امیر ترین افراد صبح تین سے چار بجے اٹھ جاتے ہیں اور پھر نہیں سوتے۔ با نظر غائر دیکھا جائے تو یہی فطری طریقہ ہے۔

بہر کیف، اپنے پرائم ٹائم کو جانچ کر اس کے مطابق اپنے کاموں کو ترتیب دیجیے۔ آپ کا جو بھی پرائم ٹائم ہے، اس میں وہ کام کیجیے جو آپ کی زیادہ توجہ مانگتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے کام جو نسبتاً کم توانائی اور توجہ کے طالب ہیں۔اگر آپ پرائم ٹائم میں کم تر توجہ کا کام کریں گے تو باقی وقت میں زیادہ توجہ کا طالب کام کرنا پڑے گا۔ یوں، آپ کا وقت زیادہ لگے گا، مگر نتیجہ کم تر ہوگا۔

بڑی تعداد میں لوگ اپنی دفتری زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھتے ہیں۔ اس کے برخلاف، ایسے لوگ بھی ہیں جو صرف اپنی ذاتی زندگی کو زندگی سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی فیملی کو ہی اصل زندگی سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کو اپنی زندگی کا اثاثہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ جس قسم کی زندگی کو اصل سمجھتے ہیں، وہ اپنے وقت کا زیادہ تر حصہ اس میں گزارتے ہیں۔

جو نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کی بہت بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ہم جیسے ہی تعلیم سے فارغ ہوں گے، ہمیں فوراً جاب مل جائے گی، پھر ہمیں زیادہ وقت مل پائے گا۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔ جاب ملنے میں کچھ عرصہ لگتا ہے۔ ڈگری لینے کے بعد جو نوجوان جاب کا انتظار کرتے ہیں، ان میں نوے فیصد جاب ملنے تک فارغ رہتے ہیں، حالانکہ انھیں چاہیے کہ اس دوران وہ کوئی ایسا کام کر یں جس میں بے شک تنخوا ہ کم ہو، معیار بھی وہ نہ ہو، مگر اس سے انھیں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا۔ انسان بنیاد کو نہیں دیکھتا، وہ بلندی کو دیکھتا ہے جبکہ بلندی کیلئے بنیاد کی مضبوطی ضروری ہے۔

ایک خاص روٹین کے ساتھ کام کرنے والوں کیلئے ٹائم مینجمنٹ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ وہ نو اور پانچ کے پھیرے میں رہتے ہیں۔ انھیں اپنے وقت کو ترتیب اور تنظیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ واضح رہے، ٹائم مینجمنٹ اُن افراد کا مسئلہ ہے جو وقت کی کمی کا احساس رکھتے ہیں، جو اپنی ایک زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، جو اپنے معمولی اوقات کو غیر معمولی نتائج میں بدلنے کیلئے پاگل ہوئے جاتے ہیں۔ جو اپنے اندر سوئے جن کو جگا چکے ہیں اور اب اس جن سے کام لینا چاہتے ہیں۔جب یہ کیفیت ہوجاتی ہے تو پھر کام زیادہ ہوتا ہے اور وقت بہت کم۔

جو لوگ سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں اور اپنے اندر تبدیلی کی لچک پیدا کرلیتے ہیں، ان کی ٹائم مینجمنٹ اچھی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے بہ حیثیت ِ قوم، ہم سیکھنے کو اہم نہیں سمجھتے۔ سیکھنے کیلئے کتاب کا مطالعہ اور حالات کا مشاہدہ اہم ذرائع ہیں۔ دنیا کے ذہین لوگ اپنی زندگی کی بدقسمتی اور خوش قسمتی کو معنی دیتے ہیں۔ جن لوگوں کی زبانوں پر ہر وقت گلہ شکوہ اور پچھتاوا رہتا ہے، یہ اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ وقت کا استعمال صحیح نہیں ہوا۔ مجھے ایک یونانی کہانی یاد آگئی جس میں ہے کہ ایک شخص جب مرنے لگا تو اس کے سامنے تین لوگ آگئے اور چیخ چیخ کر کہنے لگے کہ تم ہمارے مجر م ہو۔ مرنے والے نے کہا، تم کون ہو، میں تمہیں نہیں جانتا۔ ان تینوں نے جواب دینا شروع کیا۔ ان میں سے پہلے نے کہا، میں وہ وقت ہوں جو تمہیں ملا تھا لیکن تم نے مجھے ضائع کردیا۔ دوسرے نے کہا، میں وہ توا نائی ہوں جو تمہیں ملی تھی لیکن تم نے مجھے ضائع کر دیا۔ تیسرے نے کہا، ہم وہ ذرائع ہیں جو مالک نے بہانے بہانے سے تمہیں دیئے مگر تم نے ہمیں ضائع کیا۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مرنے کے بعد انسان سے دنیا کے بارے میں پانچ سوال کیے جائیں گے۔ ان میں سے ایک سوال یہ ہوگا کہ اپنے وقت کو کیسے استعمال کیا۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مواقعوں کو ضائع کرتا ہے تو پھر یہی مواقع اس کے آخری وقت پر عذاب کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ لہٰذا، وقت کو درست طریقے سے استعمال کرنا بہت ضروری ہے اور اس کیلئے ٹائم مینجمنٹ کی مہارت کا سیکھنا لازمی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اپنی چھٹی کو بھی پلان کرتے ہیں جبکہ ہم چھٹی والے دن لمبی تان کر سوجاتے ہیں اور پھر پورا دن برباد ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیے، زندگی میں قانونِ قدرت کے تحت ’’چھٹی‘‘ کبھی نہیں ہے، صرف کاموںکی تبدیلی ہے۔یہ زندگی اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے۔ اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا درست استعمال کرناچاہیے۔ وقت اللہ تعا لیٰ کا تحفہ اور انعام ہے۔ اس کو صحیح طریقے سے مینج کرنا چاہیے تاکہ زندگی میں آسانی پیدا ہو۔

اگر سیکھنے کی جستجو ہے تو انسان کی شخصیت ترو تازہ ہے۔ اگر سیکھنے کی جستجو ہے تو انسان کی شخصیت میں چمک ہے۔ سیکھنے والا ہر وقت کھوج اور تلاش میں رہتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو سیکھنے کا شوق ہوتا ہے ، ان کی عمر لمبی ہوتی ہے۔ جب انسان یہ کہتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوگیا تو پھر اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اب اس کا جینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔مارٹن لوتھر کنگ کہتا ہے کہ اگر آدمی نے کچھ کرکے دکھانا ہوتو اس کیلئے ایک زندگی کافی ہے، وگرنہ پانچ سو زندگیاں بھی مل جائیں تو وہ کچھ کرکے نہیں دکھا سکے گا۔