ساری انسانیت ایمان باالانبیاء سے مشرف کیوں نہ ہوئی؟

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:

اُبَـلِّـغُـکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنْصَحُ لَکُمْ.

(الاعراف، 7: 62)

’’(پھر حضرت ہودؑ اپنی قوم سے مخاطب ہوئے) میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور تمہیں نصیحت کر رہا ہوں۔‘‘

اُبَـلِّـغُـکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ.

(الاعراف، 7: 68)

’’میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور میں تمہارا امانتدار اور خیرخواہ ہوں۔‘‘

ہر نبی و رسول نے آکر اپنی قوم کو یہی بتایاکہ میں تمہاری طرف خود نہیں آیا بلکہ مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے۔ بھیجنے والا کون ہے، وہ ربی اور وہ ربکم ہے وہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ وہ میرا بھی معبود ہے اور تمہارا بھی معبود ہے۔ وہ میرا بھی خالق ہے اور تمہارا بھی خالق ہے۔ وہ میرا بھی الہ ہے اور تمہارا بھی الہ ہے۔ وہ میرا بھی رازق ہے اور تمہارا بھی رازق ہے۔ وہی مجھے بھی مرض میں شفاء دیتا ہے اور تمہیں بھی وہ امراض سے شفاء دیتا ہے۔

بعثت انبیاء کا مقصد، ابلاغ پیغام ربانی ہے

پس اس رب کی جانب سے تمہاری طرف

ابلغکم رسلت ربی.

کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے آیا ہوں میں اپنے رب کا پیغام جو ہے نام تمہارے وہ پہنچانے کے لیے آیا ہوں۔ میرے رب نے تمہارے لیے کچھ احکام عطا کیے ہیں، میں امین بن کر ان پیغامات کو پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔

ان رسلت ربی۔ میں تمہارے لیے سراسر نفع ہوں، یہ رسلت ربی تمہاری زندگی کے لیے خیر ہی خیر ہیں۔ ان رسلت ربی میں تمہارے لیے نصیحت ہی نصیحت ہوں، ان رسلت ربی میں تمہارے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے اور یہ رسلت ربی اپنے مندرجات میں تمہاری خیر خواہی سے ہی مملو ہیں اور رسلت ربی کے ابلاغ میں اور پہنچانے میں میری اپنی ذات کا کوئی فائدہ و نفع نہیں ہے۔

ان رسلت ربی کے ابلاغ میں میری اپنی ذات کی کوئی منفعت پوشیدہ نہیں ہے۔ وانصح لکم اس میں ساری منفعت اور نصیحت تمہارے لیے ہے۔ میں ان کے پہنچانے میں تمہاری ہی خیر خواہی چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ میں اور سب طبقہ انبیاء اس نصیحت کو پہنچانے کے لیے ناصح امین بنائے گئے ہیں۔ تمہارے خیر خواہ اور اس پیغام ربی کو پہنچانے میں سراسر امین اور امانت دار بنائے گئے ہیں۔

دعوت انبیاء دعوت توحید ہے

اس لیے ہماری دعوت یہ نفسانی خواہشات اور انسانی خصوصیات اور ہوائے نفس سے پاک ہے۔ یہ دعوت صرف اورصرف دعوت الی اللہ ہے۔ یہ دعوت حق ہے یہ دعوت رب کی توحید کی دعوت ہے اور یہ دعوت رب کی بندگی کی دعوت ہے اور دعوت خدا کی خدائی کی دعوت ہے اور یہ دعوت رب کی معبودیت کی دعوت ہے اور یہ دعوت اس کی شان وحدہ لاشریک کی دعوت ہے۔ اس لیے آؤ سب سے پہلے اس دعوت پر لبیک کہو اس دعوت کی بنیادیں مولائی رضا و خوشنودی کی ہیں۔ اس لیے آؤ اور آگے بڑھو اور فاستبقوا الخیرات پر عمل پیراہ ہوجاؤ اور اس دعوت کو دل و جان سے قبول کرلو۔

انسان کا دعوت انبیاء کی قبولیت میں تامل

اتنے واضح اور صاف مقصد کو سننے اور جاننے کے بعد انسان بلاتامل در نبوت پر جھکا نہیں اور اس انسان نے ان رسلت ربی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا بلکہ یہ اس پیغام ربی کو چھوڑ کر اور اس کی صداقت و حقانیت کو تسلیم کرنے کی بجائے، یہ انبیاء علیہم السلام کے منصب نبوت کو پرکھنے لگا۔ اس منصب پر فائز ہونے کی ان سے دلیلیں طلب کرنے لگا اور ان کی اس منصب پر فائز ہونے کی علامات صداقت ڈھونڈنے لگا اور ان آثار کی کھوج میں پڑ گیا جو ان کی حقانیت کی واضح براہین ہیں۔

یہ انسان کی عجیب سرشت ہے کہ کسی بھی دوسرے انسان کی عظمت و رفعت کو فوری نہیں مانتا بلکہ اسے منوانا پڑتا ہے۔ اب یہ انسان انبیاء و رسل کو ماننے کے لیے ان سے ایک ایسی دلیل طلب کرتا ہے جس کا وقوع انسان کے بس میں نہیں ہے۔ جس کا صدور انسانی طاقت سے ممکن نہیں ہے، جس کی طلب پر بھی عقل انکاری ہے اور جس کے صدور کو بھی ناممکن جانتی ہے۔ انسان ایسی دلیل ان انبیاء علیہم السلام سے طلب کرتا ہے۔

دعوت کی صداقت پر معجزہ طلبی

انبیاء علیہم السلام قوم کے مطالبے پر ایسے دلائل و براہین کو اللہ کے اذن سے قوم کے سامنے ظاہر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے قوم عاد حضرت ھود علیہ السلام سے مطالبہ کرتی ہے:

قَالُوْا یٰـهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ.

(ھود، 11: 53)

’’وہ بولے: اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لے کر نہیں آئے ہو۔‘‘

ہر قوم اپنے نبی سے دلیل نبوت طلب کرتی رہی۔ ایک معجزے کا مطالبہ پر قوم اور امم کی طرف سے انبیاء علیہم السلام سے ہوتا رہا اور یہ بھی ان سے کہا جاتا رہا کہ اپنی نشانی و صداقت دکھائیں آپ اپنے مسیحا نبی ہونے کی دلیل معجزہ دیں۔ اس لیے ہر امت یہی کہتی رہی:

اِنْ کُنْتَ جِئْتَ بِاٰ یَۃٍ فَاْتِ بِهَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ.

(الاعراف، 7: 106)

’’اس (فرعون) نے کہا: اگر تم کوئی نشانی لائے ہو تو اسے (سامنے) لاؤ اگر تم سچے ہو۔‘‘

انسانی فطرت میں موجود اس حقیقت کی بنا پر باری تعالیٰ نے اپنے ہر نبی کو دلیل نبوت، معجزہ نبوت اور علامت نبوت عطا کی۔

معجزات کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کی بعثت

اس لیے قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا:

جَآءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ.

(ابراہیم، 14: 9)

’’ان کے پاس اس کے رسول واضح نشانیوں کے ساتھ آئے تھے۔‘‘

اور اسی حقیقت کو سورہ یونس میں یوں ارشاد فرمایا:

وَجَآئَتْهُمْ رُسُلُھُمْ بِـالْـبَـیِّـنٰـتِ.

(یونس، 10: 13)

’’اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے۔‘‘

جن کو باری تعالیٰ توفیق دیتا ہے وہ اس کی نشانیوں پر ایمان لے آتے ہیں اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت کی شہادت فرعون کا ایک درباری یوں دیتاہے۔ قرآن بیان کرتا ہے:

وَقَدْ جَآءَ کُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّکُمْ.

(المومن، 40: 18)

’’وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آیا ہے۔‘‘

اسی طرح رسول اللہ ﷺ اعلان کرتے ہیں کہ مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء علیہم السلام بھی معجزات و بینات کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا:

قُلْ قَدْ جَآءَ کُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بِالْبَیِّنٰتِ.

(آل عمران، 3: 183)

’’بے شک مجھ سے پہلے بہت سے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے ہیں۔‘‘

مزید برآں اسی مضمون کو آیت نمبر 184 میں بیان کیا ہے:

فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ جَآءُ وْ بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالْکِتٰبِ الْمُنِیْر.

(آل عمران، 3: 184)

’’پھر بھی اگر آپ کو جھٹلائیں تو (محبوب آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں) آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کو جھٹلایا گیا جو واضح نشانیاں (یعنی معجزات) اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔‘‘

اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم ثمود سے کہا:

قَدْ جَآءَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ.

(الاعراف، 7: 73)

’’بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نو معجزات عطا کیے جانا:

ان ہی بینات کا ذکر کرتے ہوئے سورہ زخرف میں فرمایا:

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍ م بَیِّنٰتٍ.

(بنی اسرائیل، 17: 101)

’’اور بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو روشن نشانیاں دیں۔‘‘

سورہ قصص میں فرمایا:

فَلَمَّا جَآئَهُمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰـتِنَا بَیِّنٰتٍ.

(القصص، 28: 36)

’’پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس ہماری واضح او ر روشن نشانیاں لے کر آئے۔‘‘

اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے یوں مخاطب ہوئے:

اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ.

(آل عمران، 3: 49)

’’بے شک میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں۔‘‘

اور اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوں بھی ذکر کیا:

وَلَمَّا جَآءَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ.

(الزخرف، 43: 63)

’’اور جب عیسیٰ علیہ السلام واضح نشانیاں لے کر آئے۔‘‘

اور رسول اللہ ﷺ کو عطا کردہ بینات اور معجزات کا ذکرکرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا:

ولَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ م بَیِّنٰتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِهَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ.

(البقرة، 2: 99)

’’اور بے شک ہم نے آپ کی طرف روشن آیتیں اتاری ہیں اور ان (نشانیوں) کا سوائے نافرمانوں کے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔‘‘

لفظ بینۃ اور بینات کا قرآنی مفہوم

ہم نے اب تک ایسی متعدد آیات کا مطالعہ کیا ہے جن میں لفظ بینۃ اور بینات (جمع) استعمال ہوئے ہیں۔ اللہ رب العزت نے انبیاء علیہم السلام کو ان کی صداقت، ان کی سچائی اور ان کی حقانیت کی علامات کے طور پر ان کو بینہ اور بینات سے نوازا ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ خود بینۃ کا معنی کیا ہے۔

عربی لغات میں بینۃ کا معنی ہے:

بان الشی بین بیانا او انفح فھو بین وھی بینۃ وجمعھا بینات ویستعمل البینۃ فیما یبین الشی ویوضحه حسیا کان الشی او عقلیا.

(المعجم، ایرانی)

’’بینہ، او بینات، اس چیز کو کہتے ہیں جو حسی اور عقلی طور پر انتہائی واضح اور بہت روشن ہو۔‘‘

گویا بینہ ایک ایسی دلیل ہے جو عقل کو قائل کرنے کے لیے کافی ہے۔ جو انسانی فہم و شعور کو اپنی طرف ایک کھلی حقیقت کے طور پر مائل کرتی ہے۔ اس بینۃ اور بینات کو دیکھنے کے بعد انسان کے لیے عقلی اور حسی اعتبار سے انکار کرنا ممکن نہیں رہتا۔ گویا بینۃ وہ دلیل ہے جو انسان کے حسی حواس اور عقلی حواس دونوں کے لیے بیک وقت ایک حجت قاطع بنتی ہے۔ جس کا انکار سوائے تعصب و عناد کے ممکن نہیں رہتا۔

باری تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو ان بینات و معجزات کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر حق کی طرف آجائیں اور رب کی عبادت اور توحید کی طرف راغب ہوجائیں، شرک و الحاد سے دور ہوجائیں اور لاتعداد خداؤں سے خلاصی پالیں اور ایک رب کے حضور اس کی شان توحید کے ساتھ سربسجود ہوجائیں۔

بینات انبیاء علیہم السلام کا انکار کا سبب صرف عداوت و بغض ہے

اب ان ساری بینات کو دیکھنے اور جاننے کے بعد بھی کوئی ایمان نہ لائے تو اس کا مطلب ہے اس کے دل میں عداوت اور بغض ہے جو کہ اب ظاہر ہوچکی ہے۔ اس لیے فرمایا:

وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُوْمِنُوْا بِاللهِ وَحْدَهٗٓ.

(الممتحنۃ، 60: 49)

’’اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے ایک کھلی دشمنی اور بغض پیدا ہوگیا ہے۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو باری تعالیٰ نے ید بیضاء کا معجزہ عطا کیا ہے، آپ اپنا دست مبارک اپنی بغل سے نکالتے تو وہ روشن و تاباں دکھائی دیتا۔

ید بیضاء کا معجزہ

جس کا ذکر سورہ النحل میں یوں کیا۔ ارشاد فرمایا:

وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓ ءٍقف فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ.

(النمل، 27: 12)

’’اور تم اپنا ہاتھ اپنے گریبان کے اندر ڈالو وہ بغیر کسی عیب کے سفید چمکدار (ہو کر) نکلے گا (یہ دونوں اللہ کی) نو نشانیوں میں (سے) ہیں۔‘‘

فرعون کے بھرے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی نبوت کی علامت اور صداقت کا اظہار اپنے عصا کو پھینک کر کرتے ہیں۔

قرآن اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

فَاَلْقٰی عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ. وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ. قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ.

(الاعراف، 7: 107۔ 109)

’’پس موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا (نیچے) ڈال دیا تو اسی وقت صریحاً اژدہا بن گیا۔ اور اپنا ہاتھ (گریبان میں ڈال کر) نکالا تو وہ (بھی) اسی وقت دیکھنے والوں کے لیے (چمکدار) سفید ہوگیا۔ قومِ فرعون کے سردار بولے: بے شک یہ (تو کوئی) بڑا ماہر جادوگر ہے۔‘‘

سورہ طہ میں یوں ذکر کیا:

وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓ ءٍ اٰ یَۃً اُخْرٰی. لِنُرِیَکَ مِنْ اٰیٰـتِنَا الْکُبْرٰی.

(طٰهٰ، 20: 22-23)

’’اور (حکم ہوا) اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبالو وہ بغیر کسی بیماری کے سفید چمکدار ہوکر نکلے گا (یہ) دوسری نشانی ہے۔ یہ اس لیے (کر رہے ہیں) کہ ہم تمہیں اپنی (قدرت کی) بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔‘‘

عصائے موسیٰ کا رسیوں کو ہڑپ کر جانا

عصائے موسیٰ کے تین معجزوں کا ذکر قرآن یوں کرتا ہے۔ سب سے پہلے فرعون کے دربار میں جب جادوگروں نے اپنی رسیوں کو زمین پر ڈالا تو انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انہیں ڈرا دیا اور یوں وہ زبردست ایک جادو سامنے لے آئے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے حکم دیا۔ قرآن بیان کرتا ہے:

وَ اَوْحَیْنَـآ اِلٰی مُوسٰٓی اَنَ اَلْقِ عَصَاکَ فَاِذَا ھِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِکُوْنَ. فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.

(الاعراف، 7: 117-118)

’’اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی کہ (اب) آپ اپنا عصا (زمین پر) ڈال دیں تو وہ فوراً ان چیزوں کو نگلنے لگا جو انہوں نے فریب کاری سے وضع کر رکھی تھیں۔ پس حق ثابت ہوگیا اور جو کچھ وہ کر رہے تھے (سب) باطل ہوگیا۔‘‘

عصائے موسیٰ کا دوسرا معجزہ یوں صادر ہوتا ہے۔ قرآن اس کا تذکرہ کرتا ہے کہ جب باری تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیاکہ بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر راتوں رات نکل جائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس حکم پر عمل کیا۔ فرعون اور اس لاؤ لشکر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ یہاں تک کہ وہ دونوں سمندر کے کنارے پہنچ گئے۔ اب بنی اسرائیل کا پکڑا جانا بظاہر یقینی تھا۔ اس لیے اصحاب موسیٰ نے کہا: انا لمدرکون۔

اب ہم ضرور پکڑے گئے۔ باری تعالیٰ نے عین اس موقع پر اپنی مدد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے لیے نازل کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا۔

عصائے موسیٰ سے سمندر کا پھٹنا اور خشک راستے کا ظاہر ہونا

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَاَوْحَیْنَـآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ ط فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ.

(الشعراء، 26: 63)

’’پھر ہم نے موسیٰ(علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا دریا پر مارو پس دریا (بارہ حصوں میں) پھٹ گیا اورہر ٹکڑا زبردست پہاڑ کی مانند ہوگیا۔‘‘

عصائے موسیٰ کی ضرب نے سمندر کو پھاڑ دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے قرآن بیان کرتا ہے۔ ایک راستہ طریقاً فی البحر یبسا خشک راستہ بنادیا گیا۔ لیکن فرعون اور اس کی قوم یہ سارا منظر دیکھ کر بھی ایمان نہ لائی حتی کہ انہوں نے بھی اس راستے پر چل کر ان کو پکڑنا چاہا مگر اللہ نے فرعون اور قوم فرعون کو ان گنت نافرمانیوں پرہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ قرآن بیان کرتا ہے:

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰـتِنَا وَکَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ.

(الاعراف، 7: 136)

’’پھر ہم نے ان سے (بالآخر تمام نافرمانیوں اور بدعہدیوں کا) بدلہ لے لیا اور ہم نے انہیں دریا میں غرق کردیا، اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کی (پے درپے) تکذیب کی تھی اور وہ ان سے (بالکل) غافل تھے۔‘‘

معجزہ عصا موسیٰ سے بحیرہ قلزم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے لیے پھٹ بھی گیا اور ان کے لیے خشک راستہ بھی بن گیا۔ جس پر چل کر وہ پار ہوگئے جبکہ بحیرہ قلزم فرعون اور اس کی قوم کے غرق ہونے کا سبب بن گیا۔

عصائے موسیٰ بارہ چشمے جاری ہونا

اسی طرح اس عصاء موسیٰ نے تیسرا معجزہ یہ صادر ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے پتھر پر مارا تو اس سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ وادی سینا اور وادی نیہ کے صحراء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قوم بنی اسرائیل کے ہر خاندان کو ایک چشمہ عصا موسیٰ کے معجزے کی وجہ سے میسر آیا جس کا ذکر قرآن یوں کرتا ہے:

وَاِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْناً قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ.

(البقرة، 2: 60)

’’اور (وہ وقت بھی یا دکرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا: اپنا عصا اس پتھر پر مارو، پھر اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔‘‘

عصائے موسیٰ ایک عجیب بینہ ہے

عصائے موسیٰ عجب ایک بینۃ رب ہے جو جادوگروں کو رسیوں کو ہڑپ کرجاتاہے، سمندر کو پھاڑ دیتا ہے اور اس میں خشک راستہ ظاہر کردیتا ہے اور چٹان کے سینے پر پڑتاہے تو اس چٹان سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوجاتے ہیں۔ انسان کے یقین کے لیے اور انسان کے ایمان کے لیے اس سے بڑھ کر قائل کرنے والی صداقت و حقانیت نبوت پر اس سے بڑی علامت اور کیا ہوسکتی ہے مگر انسان میں موجود بغض و عداوت اور تعصب و عناد ان سب چیزوں کو دیکھ کر بھی انکار کردیتا ہے اور ان کو جادو و سحر سے تعبیر کرتا ہے۔

معجزہ داؤد علیہ السلام؛ لوہے کا موم ہونا

حضرت داؤد علیہ السلام کو باری تعالیٰ نے یہ بینہ اورمعجزہ عطا کیا۔ ارشاد فرمایا:

وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ.

(سباء، 34: 10)

’’اور ہم نے ان کے لیے لوہے کونرم کردیا تھا۔‘‘

پہاڑ ان کے لیے مسخر کردیئے گئے تھے پرندے ان کے تابع فرمان کردیئے گئے تھے اور لوہے کو جس طرح اور جیسے چاہتے موم کی طرح استعمال کرتے جس سے زرہیں بناتے جو لوگ حالت حرب میں استعمال کرتے۔