سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی عائلی زندگی

سعدیہ کریم

تعارف

حضرت زینب بنت علی علیھا السلام کا نام زینب اور کنیت ابوالحسن ہے۔ آپؓ کی پیدائش جمادی الاول 5 ہجری (یکم اکتوبر 626ء) کو ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے ان کا نام زینب رکھا۔ آپ ﷺ اپنی نواسی سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ:

’’زینب اپنی نانی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی شبیہ ہیں۔‘‘

القابات

اسلامی تاریخ میں حضرت زینبؓ کو بہت سے القابات سے یاد کیاجاتا ہے۔ ایک معروف روایت کے مطابق ان کے القابات کی تعداد 61 ہے۔ آپؓ کو ثانی زہرا، عالمہ غیر معمولی معلمہ، نائبۃ الزہراء، عقیلہ بنی ہاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغریٰ، محدثہ، زاہدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسین،شجاعہ فصیحہ، عابدہ، فاضلہ اور ام المصائب جیسے القابات سے شہرت حاصل ہوئی ہے۔

بچپن/ جوانی

حضرت زینب سلام اللہ علیھا اپنے والدین اور نانا کی بے پناہ لاڈلی تھیں انھیں نبی کریم ﷺ سے سیکھنے اور علم حاصل کرنے کا موقع ملا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ کسی بھی سفر سے واپسی پر سب سے پہلے اپنی بیٹی فاطمہؓ کے گھر جایا کرتے تھے ایک دن جب سفر سے واپس پہنچے تو حضرت زینبؓ کی پیدائش کی خبر ملی۔ حضرت علیؓ نے فوراً نومولود بچی کو نانا کی آغوش میں دے دیا۔ آپ ﷺ نے چہرہ زینب پر نظر ڈالتے ہی فرمایا کہ یہ اپنی نانی کے مشابہ ہے پھر آپ ﷺ نے گھٹی کے طور پر اپنا لعاب دہن بچی کے منہ میں ڈالا، کھجور چبا کر تالو سے لگائی اور بچی کا نام تجویز فرمایا۔

حضرت زینبؓ 6 سال کی عمر تک اپنے نانا کی آغوش سے محبت اور رحمت سمیٹتی رہیں۔ آپ ﷺ کی تربیت کے زیر اثر دینی امور کے علوم حاصل کیے اور ان میں مہارت حاصل کی۔ حضرت زینب انتہائی ذہین، عقلمند اور بے پناہ فہم و فراست کی مالکہ تھیں۔قوت حافظہ بہت مضبوط اور اعلیٰ درجے کی تھی تحریر و تقریر کے فن میں بھی یدطولیٰ رکھتی تھیں۔بچپن سے ہی لوگوں کو اپنی گفتگو اور علم کے ذریعے اپنا اسیر کرلیتی تھیں چال ڈھال سے وقار حیدری چھلکتا تھا۔

6 سال کی عمر میں سیدہ زینبؓ کے محبوب نانا وصال فرماگئے۔ ابھی اسی صدمے کے زیر اثر تھیں کہ چھ ماہ بعد والدہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا بھی وصال فرماگئیں۔ ان صدمات کی وجہ سے معصوم کلی مرجھا کر رہ گئی۔ روایات میں آتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کا وقت وصال تھا تو آپ ﷺ نےحضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے کہا کہ بچوں کو بلاؤ۔ نانا کو اس حالت میں دیکھ کر سب بچے رونے لگے۔ حضرت زینبؓ نے اپنا سر آپ ﷺ کے سینہ مبارک پر رکھ دیا۔ آپ ﷺ نے ان کی مبارک پیشانی کو چوما اور اپنا دست شفقت سر پر پھیر کر دلاسہ دیا۔ نانا جان اور والدہ محترمہ کے وصال کے بعد حضرت علیؑ اور امام حسن و حسینؓ نے حضرت زینبؓ کا بہت خیال رکھا۔

علم و فضل

حضرت زینبؓ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ان کے چہرہ مبارک پر اپنے نانا جان جیسا جلال تھا اور حرکات و سکنات اور چال ڈھال میں آپؓ اپنے والد حضرت علیؓ کے مشابہ تھیں۔ علم و فضل اور خوبصورتی و خوب سیرتی میں قبیلہ قریش کی کوئی لڑکی ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی تھی۔

حضرت علی المرتضیٰؓ کی شفقت پدری اور تعلیم و تربیت کے نتیجے میں تمام بچوں کے دل و دماغ علم و حکمت کے خزانوں سے معمور ہوگئے تھے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے بھی اپنے والد کے علم و فضل سے خوب استفادہ کیا۔ یہاں تک کہ زہد و تقویٰ، عقل و فراست، حق گوئی و بے باکی، عفت و عصمت اور عبادت و شب بیداری میں اپنی والدہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا کی مثل ہوگئیں۔

جودو سخاوت، نرمی و شفقت، صبرو قناعت، سادگی اور محنت و مشقت آپ کی خصوصیات میں قابل ذکر ہیں۔ 37 ہجری کو کوفہ میں آپؓ نے درس و تدریس کا آغاز کیا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں آپ کی شہرت ہوگئی۔دور و نزدیک سے خواتین اپنے علم کی تشنگی کو مٹانے کے لیے آپ کے حلقہ درس میں شامل ہوتی تھیں اور آپ سے علم و معرفت کے خزانے حاصل کرتی تھیں۔

نکاح و رخصتی

حضرت زینب سلام اللہ علیھا جب سن بلوغت کو پہنچیں تو قبیلہ کندہ کے رئیس اشعث بن قیس نے ان کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جسے حضرت علی المرتضیٰؓ نے کسی وجہ سے رد فرمادیا۔ حضرت زینبؓ کی خوب صورتی اور خوب سیرتی کی وجہ سے لوگ شادی کے خواہش مند تھے لیکن حضرت علیؓ نے اپنی لاڈلی بیٹی کے لئے اپنے شہید بھائی اور غزوہ موتہ کے ہیرو حضرت جعفر بن طیارؓ کے بیٹے عبداللہ بن جعفرؓ کو منتخب فرمایا۔ حضرت جعفرؓ کی شہادت کے بعد نبی کریم ﷺ نے ان کے بچوں کی خود تربیت فرمائی تھی اور حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت جعفر کے بچے حضرت علی المرتضیٰؓ کی زیر تربیت رہے تھے۔

حضرت عبداللہؓ اپنے والد حضرت جعفر طیارؓ کی طرح اعلیٰ صفات اور پاکیزہ اخلاق کے مالک تھے۔ حضرت زینبؓ کا بچپن فقر وغنا میں گزرا تھا لیکن شوہر کے گھر میں مال و دولت اور عیش و آرام تھا۔ حضرت عبداللہ کا شمار مدینہ طیبہ کے امیر ترین تاجروں میں ہوتا تھا۔ حضرت زینبؓ اور حضرت عبداللہؓ کا نکاح حضرت علی المرتضیٰؓ نے مسجد نبوی میں نہایت سادگی سے پڑھایا۔ حضرت عمر فاروقؓ اور دوسرے جلیل القدر صحابہ کرامؓ بھی اس نکاح میں شامل تھے۔ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ

’’یہ ایک مثالی مسلمان جوڑے کا نکاح تھا۔‘‘

مختلف روایات کے مطابق نکاح کے وقت حضرت زینب کی عمر 11 یا 13 سال تھی اور حق مہر 480 درہم تھا۔

حضرت زینبؓ کی عائلی زندگی

حضرت زینبؓ کی ازدواجی اور عائلی زندگی نہایت خوشگوار تھی۔ آپؓ اپنے شوہر کی بے حد خدمت گزار تھیں۔ حضرت عبداللہ بھی ان کی دلجوئی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ آپؓ کے گھر میں لونڈیاں اور خادم بھی تھے لیکن گھر کا زیادہ تر کام حضرت زینبؓ خود کیا کرتی تھیں۔ حضرت عبداللہؓ ان کی بہت تعریف کیا کرتے تھے وہ فرماتے تھے کہ ’’میں نے خاتون خانہ میں زینب سے بہتر عورت نہیں دیکھی۔‘‘ ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’زینب بہترین گھر والی ہے۔‘‘

حضرت زینبؓ کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں سے نوازا تھا اور ایک بیٹی عطا فرمائی تھی۔ان کے بیٹوں میں عون، محمد، علی اور عباس ہیں جبکہ بیٹی ام کلثوم تھی عون اور محمد دونوں شہید کربلا ہیں۔ جب حضرت علی المرتضیٰؓ نے بطور خلیفہ کوفہ کو اپنا مستقر اور ٹھکانہ بنایا تو حضرت زینبؓ بھی اپنی فیملی سمیت کوفہ آگئیں وہاں پر انھوں نے درس و تدریس اور وعظ و ہدایت کا کام انتہائی دلیری اور دلچسپی سے کیا کوفہ کی خواتین درس ہدایت لینے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر رہا کرتی تھیں۔ آپؓ کے علم و فضل کا چرچا بہت دور تک پھیل چکا تھا دور و نزدیک سے علم کے متلاشی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے۔

حضرت زینبؓ علم و فضل کا مرقع تھیں فہم و فراست اور علم و حکمت کا انمول ذخیرہ والدین سے ورثہ میں ملا تھا والد کی فصاحت و بلاغت آپ کی شخصیت کا خاصا تھا۔ بچپن سے ہی شاعری کا شوق بھی رکھتی تھیں۔ اپنی گفتگو میں برملا اشعار کا استعمال کرتی تھیں جب حضرت علی المرتضیٰؓ شہید ہوئے تو انھوں نے اپنے غم کا اظہار مختلف اشعار میں کیا۔ والد کی شہادت کے بعد بھائیوں کے ساتھ دوبارہ مدینہ منورہ منتقل ہوگئیں۔

حضرت زینب سلام اللہ علیھا اپنے بھائیوں خاص طور پر حضرت حسینؓ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ حضرت عبداللہؓ ان کی محبت سے واقف تھے وہ ہمیشہ حضرت زینبؓ کی خوشی کا خیال رکھتے تھے۔ اور کبھی ان کے بھائیوں کی محبت میں رکاوٹ نہیں بنے تھے۔حضرت زینبؓ اور حضرت امام حسینؓ کی محبت بچپن سے ہی زبان زد عام تھی۔اسی محبت کا ذکر ایک دفعہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے نبی کریم ﷺ کے سامنے فرمایا کہ ’’بابا مجھے زینبؓ اور حسینؓ کی محبت دیکھ کر کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے یہ لڑکی اگر حسین کو ایک لمحے کے لیے نہیں دیکھتی تو بے چین ہوجاتی ہے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیٹی زینب مسقبل میں اپنے بھائی حسین کی مصیبتوں اور سختیوں میں بھی اس کے ساتھ ہوگی۔

اسی لیے حضرت زینبؓ نے اسلام کی حفاظت اور ملت اسلامیہ کی اصلاح کے لیے سفر کربلا اختیار کیا اور اپنے شوہر کی اجازت سے اپنے بیٹوں عون و محمد کو لے کر بھائی کے ساتھ میدان کربلا پہنچیں۔ حضرت زینبؓ نے سانحہ کربلا کو آنکھوں سے دیکھا اور روح و نظر سے محسوس کیا تھا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے، بھتیجے اور بے شمار جاں نثار شہید ہوئے لیکن اس سب کے باوجود حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے جس حوصلے، شجاعت اور صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

حضرت عبداللہ بن جعفر طیارؓ

حضرت عبداللہ کریم النفس، فیاض، خوش طبع، خوش خلق، عفیف، پاک دامن اور سخی تھے نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا کہ ’’عبداللہ خَلقاً اور خُلقاً میرے مشابہ ہیں۔‘‘

حضرت عبداللہؓ کی زندگی نبی کریم ﷺ کی اس بات کی عملی تصدیق تھی ان سے چند احادیث بھی مروی ہیں۔ جن میں سے دو متفق علیہ ہیں۔

نبی کریم ﷺ حضرت عبداللہ بن جعفر طیارؓ سے بہت محبت فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضور ﷺ کا وہاں سے گزر ہوا۔آپ ﷺ نے انھیں اٹھا کر اپنے ساتھ سواری پر بٹھالیا۔ جب حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے ساتھ حضرت عبداللہؓ کا نکاح ہوگیا تو انھوں نےحضرت زینبؓ کو بہت عیش و آرام کی زندگی دی۔ آپس میں دونوں کی محبت مثالی تھی۔حضرت عبداللہ اپنی بیوی کی بہت عزت کرے تھے اور ہمیشہ ان کی پسند و ناپسند کو ملحوظ رکھتے تھے۔ حضرت زینبؓ حضرت علیؓ کے دورخلافت میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ کوفہ منتقل ہوگئیں پھر جب حضرت علی المرتضیٰؓ کی شہادت ہوئی اور حضرت امام و حسن و حسین رضی اللہ عنھم واپس مدینہ منورہ منتقل ہوئے تو حضرت عبداللہؓ اور حضرت زینبؓ بھی دوبارہ مدینہ منورہ آگئے۔ آپ کی فیاضی کی وجہ سے آپ کو بحرالجود و سخا کہا جاتا تھا۔

حاصل کلام

حضرت زینبؓ نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔اپنے نانا کا زمانہ دیکھا بابا اور بھائیوں کے ساتھ اسلامی اصولوں کی رواداری میں زندگی گزاری۔ دین کی سربلندی کے لیے بھائیوں، بھتیجوں اور بیٹوں کی شہادت کا صدمہ برداشت کیا۔ اسلامی اصولوں کی برتری کے لیے ہر قربانی دی۔ آپؓ کا پورا وجود اور آپؓ کی پوری زندگی عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھی۔واقعہ کربلا کے عظیم مقصدکو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا انہی کا عظیم کارنامہ ہے۔ انھوں نے واقعہ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کے لیے جاوداں اور زندہ مثال بنادیا۔ وہ خدا کے ہر فیصلے پر راضی رہنے والی تھیں۔ اسلامی احکام کی سربلندی کے لیے سخت ترین حالات میں بھی سرتسلیم و رضا خم رکھنا حضرت علیؓ کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیاز ہے۔صبر، شجاعت اور فصاحت و بلاغت نے آپ کو انسانی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھرپور کامیابی عطا کی ہے۔