خطابات 2024ء اور ہمارا ذوق بندگی

ڈاکٹر فرح ناز

حیاتِ انسانی کا طرۂ امتیاز اطاعت و بندگی ہے۔عبادت و بندگی کے مقاصد اور ان کے فوائد وثمرات اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب ان کو پورے ذوق و شوق سے ان کی شرائط و آداب کے ساتھ ادا کیا جائے۔ آج ہماری حالت یہ ہے ہم قانونی طور پر تو اللہ تعالیٰ کے وجود کے قائل ہیں مگر عملی طور پر انتہائی تہی دست ہیں، ہماری غفلتوں، بے یقینی، مایوسی نے ہمیں عملی الحاد میں مبتلا کر دیا ہے۔ جس نے ہماری زندگیاں، ہمارے گھر بار اور سماج و معاشرہ کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ہماری زندگی کی ناؤ صعوبتوں، جسم وجاں کی کسمپرسی اور معاشی و سماجی پریشانی کے بھنور میں پھنس کر عبادت و مناجات اور سیدھی و سچی، روشن راہ اختیار کرنے کی بجائے کفر و الحاد کی وادی پُر خار سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پا رہی۔ صحبت بد کے اثرات نے ہمیں بہت سی ظاہری و باطنی پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ہے، بلاشبہ نیک مجالس اور صحبتیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کا ذوق و شوق بڑھانے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ عشرۂ اعتکاف میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی نیک صحبت کا میسر آنا یقیناً بڑی سعادت کی بات ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے دلنشین اور خوبصورت انداز میں حاضرین و سامعین کو دعوت فکر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:

’’وہ لوگ جو غلط مصادر اور صحبتوں کے برے اثر سے اپنے اذہان اور دل و دماغ میں تشکیک، شکوک و شبہات پیدا کر بیٹھے ہیں، جن کی دولت ایمان لٹ گئی ہے یا لٹنے کو ہے، جو ایمان کی دنیا سے اپنا یقین متزلزل کر بیٹھے ہیں، وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور احساس بندگی سے اپنے ایمان کو مضبوط و مستحکم کر کے ایقان کے درجے پر پہنچیں۔ اللہ پر جس قدر ایمان کامل، مضبوط اور مستحکم ہوتا چلا جائے گا اتنا ہی اللہ کے قریب ہوں گے اور جتنا قریب ہوتے چلے جائیں گے اتنا ہی اللہ کے احکام زندگی میں داخل ہوں گے اور ان احکام کی پیروی میں لطف، لذت اور سرور ملے گا اور بندگی نکھرتی چلی جائے گی۔‘‘

شیخ الاسلام کی دعوتِ فکر و عمل سے انسان کے اندر ایک سچی کھوج کا داعیہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کہاں اور کیسے تلاش کریں؟

’’دنیوی لحاظ سے تو ہر شخص کا کوئی نہ کوئی address ہوتا ہے لیکن اللہ رب العزت ہر جگہ موجود ہے، وہ ہستی ہر جگہ ہے، زمین وآسمان کی ساری کائنات میں موجود ہے اس کا پتہ جس طرح کا ہم جاننا چاہتے ہیں وہ exist نہیں کرتا، اس کا ایک مخصوص ایڈریس نہیں وہ ہماری دنیا میں ہر جگہ ہے اور ان دنیاؤں پر بھی محیط ہے جو ہم نہیں جانتے۔‘‘ (پہلا خطاب عشرہ اعتکاف 2024ء)

حضور شیخ الاسلام کی سوچ کا یہ انداز ذوق بندگی کو پذیرائی بخشتا ہے۔ تمام جن و انس کی تخلیق کا مقصد عبادتِ الٰہی ہے اور تمام عبادات کا مقصودِ اصلی یادِ الٰہی ہے۔ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے ذکر کو حرزِ جاں بنالے اور اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہو تو اسے قربِ الٰہی کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ اقرار توحید باری تعالیٰ کا افضل ذکر ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ‘‘ ہے اور یہ وہ کلمہ ہے جو ہم سب کو اپنی وراثت میں ملا مگر اس کلمے کا اولین تقاضا اپنے اندر جھانکنا ہے کہ جس ہستی کا میں نام لیتا ہوں، اس ہستی کے بارے میں میرا تعارف اور پہچان کتنی ہے اور پھر میرا تعلق بندگی کیسا ہے؟

ہم بظاہر مسلمان ہونے کے باوجود اپنے رب کے حقیقی تعارف، اس کی پہچان اور اسکے ساتھ تعلق میں بہت کمزور بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ یعنی ایمان لانے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر ہمارا اعتقاد متزلزل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ محض اللہ پر ایمان لانا کچھ اور بات ہے اور اس عظیم ہستی کی عظمت کو اس طرح محسوس کرنا کہ رب تعالیٰ کی ہمہ وقت موجودگی کا احساس بندے کے وجود اور طبیعت کو پورے طور پر اپنی تحویل میں لے لے یعنی اللہ کی موجودگی کا احساس کسی مسلمان کے انگ انگ اور شعور میں مکمل طور پر سرایت کر جائے اور دل پر اس کی عظمت مستقل نقش ہوجائے یہ الگ بات ہے۔مزید یہ کہ

شیخ الاسلام کے خطابات نے فتنہ الحاد کے بارے جس پُرزور انداز میں نئی نوجواں نسل کو آگاہ کیا ہے وہ وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ یہ فتنہ کس قدر حملہ آور ہے اس کا ادراک بھی بہت ضروری ہے۔ آپ نے اپنے ان خطابات میں عصری ضروریات کے مطابق سائنسی دلائل سے وجود باری تعالیٰ کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سائنس نے اپنی تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ اس کائنات میں اور انسانی وجود کے اندر ایسے بے شمار حقائق ہیں جو دیکھے نہیں جا سکتے، اس کے باوجود ان کو مانتے ہیں، نہ خوردبین نے دیکھا ہے، نہ سائنسدان نے دیکھا ہے مگر ہر سائنسدان ایٹم، نیوکلیس، الیکٹران، نیوٹرون، پروٹان کے وجود پر ایمان رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا:

’’صرف نظر آنا یا نہ آنا کسی حقیقت کو ماننے یا نہ ماننے کا واحد طریقہ نہیں ہے۔ آپ سائنس کی دنیا میں ایسی ہزاروں چیزوں کو مانتے ہیں اور ان پر یقین رکھتے ہیں جو نہ نظر آئی ہیں نہ نظر آ سکتی ہیں۔‘‘ (پہلا خطاب عشرہ اعتکاف 2024ء)

حضور شیخ الاسلام نے اپنے خطابات میں رب کریم سے شوق ملاقات کی نگہداشت اور رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق بندگی کی بلندی حاصل کرنے کا جو نصاب دیا ہے یہ امت مسلمہ کی خوش بختی ہے، کیونکہ عقیدہ کی درستگی اور حفاظت انتہائی ضروری ہے اگرچہ عمل زندگی کا حسن ہے مگر نجات کا دارومدار عقیدے پر ہے۔ ان خطابات سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ خدا کا پتہ وہی بتا سکتا ہے جو خود ان راہوں کی معرفت رکھتا ہو اور جو خود منزل آشنا ہو۔ہمیں چاہیے کہ دین وایمان، عقیدہ وعمل کی درستگی اور حق سچ کی حقیقت کی تلاش کے لئے کسی ثقہ کی طرف رجوع کریں۔ وہی ہمیں درست بات بتا سکتا ہے جسے خود حق کی آگہی ہو۔ جب ’’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ‘‘کہتے ہیں تو اس کا ادراک ہونا چاہئے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟

دور حاضر میں ہمارے وجود سے امت کو جو خیر پہنچنا ہے وہ بعد کی بات ہے لیکن ہمیں خود اپنی ذات میں جس خیر کا حامل ہونا چاہئے پہلے اس کا ادراک بہت ضروری ہے۔ اس وقت ہم عقیدہ کے اعتبار سے ایک ایسے انکار کی تہذیب میں سانس لے رہے ہیں جس میں شر کو تہذیبی تحفظ، پشت پناہی اور حوصلہ افزائی حاصل ہے۔

آج کے مسلمان کو دنیا کے حالات کی فکر توہے مگر اپنے حال کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان اپنے رب کو بھولا ہوا ہے۔ ہمارے محسوسات، ہمارے ارادے اور ہماری نیات کو اس کے وجود کے احساس سے عاری ہیں۔ اس ہستی کو بھول جانے کی وجہ سے ہمارا طرز زندگی، ہماری طرز فکر اور ہماری قوت فیصلہ اضملال کا شکار ہے اب غیروں پر اسلاف جیسا کوئی رعب ودبدبہ نہیں رہا۔اس کے لیے وجودِ باری تعالیٰ کے حقیقی ادراک کی اشد ضرورت ہے۔

شیخ الاسلام کے خطابات کی یہ سیریز ہمیں وہ نفسیات عطا کرتی ہیں جو درحقیقت بندگی کے لئے مطلوب ہیں اور ہمارے شعور، میلاناتِ نفس اور ہمارے زوایہ نگاہ اور ہمارے احوال کو درست کرنے اور درست رکھنے کے لئے کافی و شافی سامان فراہم کرتی ہیں۔

• اللہ کیا ہے؟

• کیسا ہے؟

• کیا چاہتا ہے؟

• اس کو مجھ سے کیا توقعات ہیں؟

• میری اس سے کیا expectation ہیں؟

• میں اللہ کو کس طرح جانوں؟

• میں اللہ کو کس طرح سمجھوں؟

• میں اللہ کے بارے کیا گمان کروں؟

• اور اللہ کو کس طرح پہچانوں؟

• میرا رب تعالیٰ سے تعلق کیسا ہونا چاہیے؟

شیخ الاسلام نے ان خطابات میں ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہےجنہوں نے خدا کا صرف پتہ ہی نہیں پایا تھا بلکہ خود خدا سے ملاقات بھی کی تھی۔ خدا سے ان کی ملاقات صرف نماز سے نہیں بلکہ کائنات میں بکھرے مشاہدات و بینات کے ذریعہ اللہ کی ذات پر مضبوط و مستحکم ایمان و ایقان کی وجہ سے تھی۔

اگر موجودہ سائنسی قائق کی روشنی میں زندگی کے ہر ہر گوشے میں اللہ کی نشانیاں دکھائی دینے لگیں، اللہ رب العزت کے وجود اور اس کی ہستی میں کوئی شک و شبہ نہ رہے، کائنات میں موجود چاند سورج، ستاروں، کہکشاؤں اور سیاروں کا نظام اسی طرح جمادات و نباتات کے افعال الغرض جس جس شے کو دیکھو اس میں غور کرنے سے اللہ کی قدرت جلوہ گرنظرآئے گی، جب ایسا تعلق پیدا ہو جائے تو پھر نماز اللہ کی ملاقات کا مؤثر ذریعہ بن جاتی ہے۔ انسان پر ذوق بندگی میں ایسا حال اور کیفیت طاری ہوتی ہے کہ پھر کلمہ محض ایک رٹا ہوا جملہ نہیں رہ جاتا بلکہ زندگی کی حقیقت بن جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی پہچان اور ذوق بندگی کی بالیدگی کے لئے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے 2024ء کے خطابات نسخہ کیمیا ہیں۔

ان خطابات کی اہمیت ایمانی تناظر میں اس اعتبار سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کو اپنے معیار بندگی کی حفاظت، مقاصد بندگی کی تکمیل، ذوق عبادت کے تحفظ،اپنے یقین کی پختگی، عمل میں حسن پیدا کرنے کی قابلیت حاصل کرنے کے لئے، عقیدے کو بلند، صاف ستھرا اور شفاف رکھنے کے لئے بہترین نصاب و مواد موجود ہے۔ بنیادی طور پر محسن وہ ہوتا ہے جو انسان کو تصور بندگی کو درست کرتا ہے اور انسانوں کو اپنی اصلاح کی سچی فکر کے لئے تیار کرتا ہے۔ یقیناً نسلوں پر شیخ الاسلام کا یہ احسان رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔