وطن عزیز کا شہر لاہور اپنی منفرد ثقافتی پہچان رکھتا ہے، کپڑوں کے فیشن سے لے کر میلے ٹھیلوں کے انداز تک یہیں سے دیگر شہروں میں رواج پاتے ہیں۔ جشن بہاراں، بسنت اور اس جیسے درجنوں تہوار پوری آب و تاب کے ساتھ اسی شہرمیں منائے جاتے ہیں اور دیگر شہروں سے آکر لوگ ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ’’بسنت‘‘ انڈین کلچر ہے جواب زیادہ ہی شدو مد سے منائی جانے لگی ہے اور حکمران بھی اس سے لطف اندوز ہونے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ حکومتی سر پر ستی میں بسنت میلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پتنگ بازی کی آڑ میں خرافات اور بے ہودگی کے شرمناک کلچر کی پاکستانی ثقافت میں پیوند کاری کی کامیاب کوششیں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ شراب و کباب کی محفلوں سے آگے پتنگ بازی کی آڑمیں حکمران طبقہ بھی مزے لوٹ رہا ہے اور عوام کو بھی کھلی چھٹی مل چکی ہے۔ درجنوں بچے اور بڑے گلے کٹوا کر ہسپتالوں میں دم توڑ دیتے ہیں اور خونی ڈور سے قتل ہونے والوں کی بے نور آنکھیں قانون بنا نے والوں سے سوال کر تیں مٹی میں دفن ہو جاتی ہیں۔ ان حالات میں اہل لاہور کیلئے منہا ج القرآن ویمن لیگ کے زیر اہتمام پاکستان کی تاریخ کا پہلا سہ روزہ میلاد فیسٹیول ریس کورس پارک میں منعقد کیا گیا جسے زندہ دلان لاہور نے بہت ہی زیادہ پسند کیا۔ لاہور پارکوں کا شہر ہے اس لئے اسے دیگر شہروں پر ایک اور بر تری حاصل ہے جو یہاں کے مکینوں کوفر صت کے لمحات گزارنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ ہزاروں فیملیز نے تین دن اس فیسٹیول کا وزٹ کیا اس تاریخی میلاد فیسٹیول کا مقصد اسلامی ثقافت کی ترویج تھی۔ ماؤں کے ساتھ آنے والے بچوں نے اس فیسٹیول کو بہت Enjoy کیا اور وزٹ کے دوران اپنے والدین سے اسلام کے حوالے سے کافی سوالات کئے۔ ریس کورس پارک میں وسیع جگہ پر میلاد فیسٹیول کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی پہلی نگاہ خانہ کعبہ کے ماڈل پر پڑتی تھی جسے بڑی محنت سے بنایا گیا تھا۔ خانہ کعبہ کے ماڈل کو دیکھ کر حج اور عمرے کی حسرت اچانک بیدار ہو کر ہزاروں آنکھوں کو آنسوؤں سے تر کر گئی اور جب عجیب روحانی احساس نے وزٹ کرنے والوں کو جکڑ لیا۔ آگے چل کر گنبد خضریٰ کا خوبصورت ماڈل دیکھ کر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پاک کی سنہری جالیوں کے حسین تصور نے لاہوریوں کی روح کو بشاش کر دیا۔ درمیان میں اونٹ اور پہاڑی ٹیلوں کے دلکش مناظر اہل عرب کے کلچر کی یاد تازہ کر رہے تھے۔ کنویں اور مٹی کے بر تن بنا نے کے سٹال بھی انتہائی خوبصورت بنائے گئے تھے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب تبرکات‘ اسلامی خطاطی اور پینٹگ کے سٹالز اسلامی ثقافت کی عظمت اور شائستگی کے مظہر تھے۔ کھجوروں، عربی فوڈز اور روایتی لاہور ی کھانوں کے سٹالز بھی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ اسلامی کتب، خوشبو اور حجاب کے سٹالز بھی اپنی منفرد شناخت کے ساتھ موجود تھے۔ ان تمام سٹالز پر خریداری کرنے والوں کا تینوں دن تانتا بندھا رہا۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے نمائندوں نے اس فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کی کوریج کیلئے خصوسی دلچسپی کا اظہار کیا۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی مؤثر شخصیات نے اس تاریخی فیسٹیول کے وزٹ کے دوران جو خوبصورت تبصرے کئے وہ منہاج القرآن ویمن لیگ کی اس خوبصورت کاوش پر بہت بڑا خراج تحسین تھا۔
منہاج القرآن ویمن لیگ نے اس فیسٹیول کے ذریعے اُمت مسلمہ کو پیغام دیا ہے کہ غیر اسلامی ثقافت کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں ایسے فیسٹیولز، سیمینارز‘ پروگرامز اور ڈاکو منٹریز بنا نا ہوں گی جسے دیکھ کر نوجوان نسل کو اسلام کے حوالے سے ایسی معلومات مہیا ہوں جو اس کے خلاف ہونے والے زہر یلے پراپیگنڈہ کے باعث پائے جانے والے ذہنی خلفشار سے نجات دینے کے ساتھ ساتھ انہیں یہ یقین دلاسکے کہ اسلامی ثقافت ہی دنیا کی بہترین ثقافت ہے اور ہمیں ہر سطح پر اس کے احیا ء کیلئے کاوشیں کرنا ہوں گی تاکہ ہماری نسلیں غیر اسلامی ثقافتی یلغار اور ان کی سازشوں سے نہ صرف محفوظ ہوں بلکہ آنے والے وقت میں اسلامی ثقافت دنیا میں غالب ہوسکے۔ شیخ الا سلام ڈاکٹر طاہر القادری کا ایک قول ہے کہ ’’نظریاتی قومیں اپنے دفاع کیلئے نہیں بلکہ اپنی فکر کے عالمگیر فروغ کیلئے جیا کر تی ہیں‘‘۔ اسلامی ثقافت کے احیاء کیلئے اُمت کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریاں پہچاننا ہوں گی اور ایسے فیسٹیولز کے انعقاد اور ان میں بھرپور شرکت کے عمل کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اپنے اسلاف کی عظیم روایات کو لے کر آگے بڑھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے محبت اور عشق کے عقیدے کو اتنا پھیلائیں کہ اسلام ایک قابل عمل دین کے طور پر دنیا کی ایک بڑی طاقت بن کر اُبھر سکے۔ اُمت کا زوال ’’عروج‘‘ میں تبھی بدلے گا جب ہم اسلامی ثقافت کے عالمگیر پھیلاؤ کیلئے ہر سطح پر منظم کاوش کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں گے۔