عالمی میلاد کانفرنس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد الازہری
نَحْمَدُه وَ نُصَلِّي وَ نُسَلِّمُ عَلٰی سَيِّدِنَا وَ مَوْلٰنَا مُحَمَّدٍ رَّسُولِهِ النَّبِيِّ الاَمِينِ المَکِينِ الحَنِينِ الْکَرِيمِ الرَّؤُفِ الرَّحِيمِ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيطٰنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اﷲِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم.
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَO
(الاعراف، 7 : 172)
معزز مشائخ و علماء کرام، قائدین، حاضرین، سامعین و ناظرین اور خواتین وحضرات! اﷲ رب العزت کا شکر ہے، جس نے ہمیں اپنی خلق کی سب سے بڑی نعمت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی عطا کی اور ہمیں توفیق مرحمت فرمائی کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ اپنا رشتہ محبت، رشتہ اتباع، رشتہ تعظیم اور رشتہ نصرت استوار کر سکیں۔ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کی اس نسبت کے پیش نظر یہ عظیم شب جو 12 ربیع الاول کی شب میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس شب پوری روئے زمین پر آقا علیہ السلام کی ولادت کی خوشیاں منا سکیں۔ اور میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان خوشیوں کے ساتھ اپنی زندگی ظاہراً اور باطناً حضور علیہ السلام کی غلامی، اطاعت اور اتباع میں گزار سکیں۔ آج کی اس مبارک رات کی مناسبت سے میں نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ وہ ’’عالم اَرواح کا میثاق اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ہے۔ میثاق سے مراد وہ عہد، حلف اور پختہ وعدہ ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کبھی تمام افراد کی اَرواح سے اور کبھی صرف انبیائے کرام اور رُسل عظام کی اَرواح سے لیا۔ میں نے اپنی گفتگو کی ابتداء میں سورۃ اعراف کی آیت نمبر 172 کی تلاوت کی ہے جس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
’’اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا : ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے : کیوں نہیں؟ (تو ہی ہمارا رب ہے) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھےo‘‘
میثاق عالم ارواح میں تین ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک میثاق کا ذکر مذکورہ آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔ ان تینوں کا ذکر ہم ترتیب کے ساتھ کرتے ہیں۔
- پہلا میثاق اللہ تبارک و تعالی نے تمام انسانوں کی روحوں سے اپنی الوہیت اور اپنی توحید کا لیا کہ وہ اللہ کو ایک مانے گا، اللہ کی توحید پر ایمان لائے گا، اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا۔ یعنی اللہ رب العزت نے اپنی توحید کے اقرار اور شرک کی نفی کا عہد اور وعدہ ہر اِنسانی روح سے لیا۔ اس کو ’’میثاقِ اَلَسْت‘‘ بھی کہتے ہیں۔ چونکہ میں ابتداء اس مضمون سے کرنا چاہتا تھا، اس لیے میں نے عنوانِ گفتگو کے طور پر اسی آیت کریمہ کی تلاوت کی ہے۔
- اس کے بعد دوسرا میثاق اللہ تبارک و تعالی نے تمام انبیاء اور رسولوں کی روحوں سے لیا۔ یہ میثاقِ نبوت تھا اور oath-taking ceremony تھی، اس امر کا اعلان تھا کہ تمہیں نبوت یا رسالت عطا کی جائے گی اور اپنی رسالت یا نبوت کا فریضہ ادا کرنے کے لیے تم اپنے اپنے وقت پر مبعوث کیے جاؤ گے۔ اور تمہارے یہ فرائضِ نبوت اور فرائضِ رسالت ہوں گے اور ہر ایک سے اس چیز کا عہد اور oath لیا کہ وہ اپنے فرائض نبوت و رسالت کا حصہ بجا لائیں گے۔ جیسے کسی شخص کو ایک آفس سپرد کیا جاتا ہے۔ اس کی appointment پر پہلے declaration اور decision کے طور پر ایک oath-taking ceremony ہوتی ہے، یہ ایک spiritual ceremony تھی، یہ دوسرا میثاق تھا۔
- تیسرا میثاق بھی صرف انبیاء اور رُسل عظام سے لیا گیا۔ یہ میثاق ان سے نبوت و رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا تھا۔ ہر نبی اور ہر رسول سے عہد اور وعدہ لیا گیا کہ تم پیغمبر آخرالزماں سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لاؤ گے، اور ان کے پیغمبرانہ مشن کی مدد کروگے۔
جو تین میثاق ہوئے میں نے ان کا اجمالاً تذکرہ کر دیا۔ اب ان شاء اللہ ہم ان پر تفصیل سے گفتگو اور analysis کریں گے اور قرآن مجید اور حدیث کی روشنی میں۔ comparative study بھی ہوگی۔
پہلا میثاق اﷲ تبارک و تعالیٰ کا اپنی ذات، اپنی وحدانیت، اپنی توحید اور اپنی الوہیت کی نسبت ہے کہ توحید پر ایمان لاؤ گے اور شرک نہیں کرو گے۔ اس کے لیے ارشاد فرمایا :
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى شَهِدْنَا أَن تَقُولُواْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَO
(الاعراف، 7 : 172)
’’اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا : ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے : کیوں نہیں؟ (تو ہی ہمارا رب ہے، ) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے۔‘‘ (ترجمہ عرفان القرآن)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسند میں حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنھما اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ میثاق مقام عرفات میں لیا گیا۔ آدم علیہ السلام کی پشت مبارک سے تمام روحوں کو نکالا گیا جو قیامت تک ان کی نسل سے اس دنیا میں پیدا ہونے والے تھے، انہیں روحوں کی شکل میں ان کے سامنے متشکل کیا گیا۔
پھر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے سامنے ان سب انسانی روحوں سے خطاب کیا اور کلام کرکے فرمایا : اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ جواب دو، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ قَالُوْا بَلٰی ۔ سب نے سر تسلیم خم کیا اور جواب دیا ہاں باری تعالیٰ تو ہی ہمارا رب ہے۔ سب نے اﷲ تبارک و تعالیٰ کی الوہیت وحدانیت اور اس کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ حدیث پاک میں ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اقرار، میثاق اور عہد پر تمام فرشتوں کو گواہ بنایا یہاں شَہِدْنَا کا کلمہ ہے۔ فرشتوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوگئے، ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام زمین و آسمان کو گواہ بنا دیا کہ باری تعالیٰ ہم اس عہد اور اقرار پر گواہ ہوگئے، مقصود یہ تھا اپنے اپنے وقت پر جب یہ لوگ دُنیا میں پیدا ہوچکے ہوں گے، ان کے زمانے ہوں گے، قوموں کی شکل میں یہ موجود ہوں گے، اللہ کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول آئیں گے، وہ انہیں توحید کی دعوت دیں گے، اللہ کا پیغام پہنچائیں گے، تو ان میں سے بے شمار لوگ ہوں گے جو منکر ہوجائیں گے۔ جیسا کہ ہوئے، ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ کئی تو ایمان لائیں گے اور قیامت کے دن کئی روحیں ایسی ہوں گی جو وہ اپنا اقرار بھول جائیں گی۔ وہ کفر و شرک کریں گی، منکر ہوجائیں گی، انبیاء کو رد کریں گی، اُن کی دعوت کا انکار کریں گی۔ قرآن مجید میں یہ بھی آتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ کہیں گے ہمارے پاس تیرا پیغام سنانے والا اور تیری توحید کا بتانے والا آیا ہی نہیں تھا۔ اب جب قیامت کے دن وہ اس امر سے منکر ہوں گے تو اُن کے انکار کو ردّ کرنے کے لیے گواہی دلوائی جا رہی ہے کہ ملائکہ اور زمین و آسماں اُس دن کہیں گے کہ ہم گواہی دے رہے ہیں۔ باری تعالیٰ تو نے تو عالمِ بشریت میں بھی ان کے پیدا ہونے سے پہلے خود ان کی روحوں کو متشکل کر کے ان سے اقرار الوہیت کروایا تھا۔
یہی مضمون حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق پر مروی ہے۔ یہی مضمون بخاری اور مسلم میں ہے۔ یہی مضمون امام نسائی نے کتابُ التفسیر میں اپنی ’’سنن‘‘ میں روایت کیا ہے، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر روح سے اپنی توحید پر ایمان لانے اور شرک نہ کرنے کا عہد لیا تھا۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔
دو چیزیں ذہن میں رکھ لیں کہ یہ میثاق توحید تھا اور دوسرا اس کے اوپر شہادت اور گواہی فرشتوں کی دلوائی گئی۔ اب یہی مضمون حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ انہوں نے مزید تفصیل کے ساتھ اِس کو بیان کیا ہے۔ یہی مضمون سنن ابی داؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے جہاں جہاں اس مضمون کو بیان کیا ہے، ایک ہی بات کی ہے کہ یہ میثاق، میثاق توحید تھا۔ اور گواہی اس وعدے پر ملائکہ کی تھی۔ اور حضرت ابوجعفر الرازی نے ابو العالیہ کے طریق سے اسے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہیں، تو ان کا مضمون بھی یہی ہے۔ اور ان کے مضمون میں زمین و آسمان کی گواہی کا ذکر آیا ہے جس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا :
فَجَمَعَهمْ لَه يوْمَئِذٍ جَمِيعاً. مَا هُوَ کَائِنٌ مِنْهُ إِلٰی يَوْمِ الْقِيامَةِ. فَجَعَلَُمْ أرْوَاحاً ثُمَّ صَوَّرَهُمْ ثُمَّ اسْتَنْطَقَهُمْ فَتَکَلَّمُوْا. وأخَذَ عَلَيهِمُ الْعَهْدَ وَالْمِيْثَاق.
(المستدرک علی الصحيحين، 2 : 353)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دن تمام ارواح کو جمع کیا جو نسل بنی آدم اس دن سے onward قیامت کے دن تک دنیا میں پیدا ہونے والی تھی، ان ساروں کو جمع کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب کو روحوں کی شکل میں متصور اور متشکل کیا اور ان کو قوتِ گویائی عطا کی پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے کلام فرمایااور ان سے عہد اور میثاق لیا۔
وہ عہد اور میثاق یہ تھا کہ اَنَّه لااله غَيْرِيْ کہ عہد کرو اس بات کا کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وَلاَ رَبَّ غَیْرِی اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ ’’وَلَا تُشْرِکُوا بِي شَیْئًا‘‘ اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤگے۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ یہ میثاقِ توحید تھا اور گواہی ملائکہ کی تھی اور اس حدیث کے مطابق اوپر اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ساتوں آسمانوں اور زمینوں کو تمہارے اوپر گواہ بناتا ہوں۔ زمین و آسمان نے اپنی زبان حال سے اس پر گواہی دی۔
اس کے بعد دوسرا میثاق، میثاقِ نبوت ہوا اور یہ میثاق نسل انسانی اور ہر روح سے نہیں لیا گیا بلکہ یہ نبوت کا میثاق صرف انبیاء سے لیا گیا۔ اس لیے میں نے کہا کہ یہ ان کی oath taking cermony تھی۔ اﷲ رب العزت کا امر، عالم ارواح میں جن جن کو نبوت و رسالت کے اعزاز سے بہرہ یاب کرنے کا تھا، ان انبیاء کی ارواح کو جمع کر کے ان سے عہد لیا اور وہ عہد و میثاق بشکل حلف نبوت تھا کہ تمہیں نبوت و رسالت سے سرفراز کروں گا اور تمہاری نبوت و رسالت کے یہ فرائض ہیں جو ادا کرنے ہیں۔ اب اس میثاق کا ذکر سورۃ احزاب کی آیت نمبر 7 اور 8 میں آتا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًاO لِّيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًاO
(الاحزاب، 33، 7، 8)
’’اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور عیسٰی ابن مریم (علیھم السلام) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیاo تاکہ (اللہ) سچوں سے اُن کے سچ کے بارے میں دریافت فرمائے اور اس نے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
ایک قاعدہ یاد رکھ لیں کہ جب بھی قرآن مجید میں لفظ ’’اِذ‘‘ آتا ہے اس حرف کا معنی ہوتا ہے ’’جب‘‘ مگر جہاں بھی ’’اذ‘‘ آئے گا اس کے ساتھ ایک لفظ محذوف ہوتا ہے ’’وَاذْکُرْ یعنی یہ Hiden ہوتا ہے اس لیے آپ قرآن مجید کا جو ترجمہ بھی اٹھا کے دیکھیں اُس میں لکھا جائے گا ’’اور یاد کرو جب‘‘ مگر وہ عبارۃً نہیں آتا معناً ہوتا ہے۔ تو گویا جہاں جہاںقرآن مجید میں کلمہ ’’اِذْ‘‘ کے ساتھ کوئی آیت شروع ہوئی ہے، وہاں اس آیت کے اندر بیان کیا جانے والا واقعہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور علیہ السلام سے یوں بیان کیا ہے: میرے حبیبِ مکرم یاد کریں وہ وقت جب میں نے یہ کیا، یاد کریں وہ وقت جب میں نے یہ کہا، یاد کریں وہ واقعہ جب یہ بات ہوئی، تو جب کسی کو یہ کہا جائے کہ یاد کریں وہ وقت یا یاد کریں وہ واقعہ۔ یہ کس کو کہا جاتا ہے؟ جو شخص اُس واقعہ کے وقت موجود ہی نہ تھا! اُس کو کوئی کہہ سکتا ہے یاد کریں وہ وقت؟ وہ کہے گا میں کیا یاد کروں، میں تو تھا ہی نہیں، موجود ہی نہیں تھا، مجھے تو علم ہی نہیں ہے، یاد تو وہ بات کرائی جاتی ہے، جو پہلے سے اُس کے علم میں ہو، اُس کے سامنے رونما ہوچکی ہو، جس کو بات کہی جارہی ہے وہ وہاں موجود ہو یا اُس کے علم میں ہو۔ خواہ جسمانی طور پر موجود ہو خواہ روحانی طور پر موجود ہو خواہ علمی طور پہ موجود ہو یعنی باعتبارِ خبر یا باعتبارِ علم یا باعتبار آگاہی موجود ہو۔ جسے باری تعالیٰ نے تو قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کی تخلیق پر بھی ’’اِذْ‘‘ کہا
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.
(البقره، 1 : 30)
’’اور یاد کیجئے جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ اور نائب بنانے والا ہوں‘‘۔
اسی طرح انبیاء کی روحوں سے میثاق لیا جا رہا تھا، تو اس کا ذکر بھی ’’اِذْ‘‘ کے ساتھ کیا۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ.
(الاحزاب، 33 : 7)
’’اور میرے محبوب یاد کریں جب ہم سب انبیاء سے عہد لے رہے تھے‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام تخلیق آدم سے بھی پہلے اور میثاقِ انبیاء سے بھی پہلے موجود تھے۔ یہ نحو اور بلاغت کا قاعدہ اور اصول ہے جب ہمزہ استفہام لَمْ یا لَا پر آئے گا تو وہ استفہامِ انکاری بنے گا اور اُس کا فائدہ اور اس کا معنی اور اُس کا مفہوم اور مراد positive اور مثبت ہوتا ہے۔ جسے قرآن حکیم میں فرمایا گیا اَلَمْ تَرَ کَیْفَ کیا آپ نے نہیں دیکھا؟ اردو اور دنیا کی ہر زبان میں زبان میں بھی یہی طریقہ ہے۔ جب اردو میں آپ کسی کو کہیں : کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ تو جب کسی کو یوں کہہ کے مخاطب کیا جائے تو اس کا معنی ہوتا ہے آپ جانتے ہیں آپ نے دیکھا ہے۔ یہ آقا علیہ السلام کی ولادت سے پہلے کا واقعہ ہے جب ابرہہ کا لشکر کعبہ معظمہ پر حملہ آور ہوا اس وقت آپ رحم مادر میں ہیں۔ لیکن حضور علیہ السلام کو دوران وحی اللہ پاک فرما رہا ہے: میرے محبوب! کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ابرہہ کے ہاتھیوں کے ساتھ کیا حشر کر دیا تھا۔ اس کا مطلب ہے ’’ہاں آپ نے دیکھا ہے۔‘‘ معلوم ہوا حضور علیہ الصلوۃ والسلام ولادت سے پہلے بھی دیکھتے تھے اسی طرح کائناتِ بشریت کے آغاز سے پہلے بھی ان انبیاء کے میثاق پر گواہ تھے۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجودگی اور آپ کا علم اور آپ کی خبر سارے زمانوں کے اوپر محیط ہے۔
اب بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اور جب ہم نے تمام انبیاء سے میثاق لیا۔ ۔ ۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار یا کم و بیش جتنے انبیاء علیہم السلام ہوئے اب ان تمام انبیاء سے میثاق لیا۔ اس سے معلوم ہوا ’’میثاقِ نبوت‘‘ سب سے لیا، مگر کل انبیاء علیہم السلام میں سب سے اونچے درجے کے اُولو العزم جو پانچ نبی ہوئے ان کا نام لے کر mention فرما یا کہ ان سے بھی عہد لیااور جب نام لے کر ذکر کیا تو فرمایا : وَمِنْکَ محبوب آپ سے بھی لیا۔ وَمِنْ نُوح اور نوح سے بھی لیا۔ وابراہیم اور ابراہیم سے بھی لیا، ’’وموسیٰ‘‘ اور موسیٰ سے بھی لیا۔ وعیسی بن مریم اور عیسی ابن مریم سے بھی لیا۔ اب یہاں کتنی لطیف بات ہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت تو بعد میں سب انبیائے آخر میں ہوئی مگر جب رب کائنات نے سب کا ملا کر ذکر کیا تو ترتیب بعثت کو بدل کر ترتیب مرتبت قائم کرکردی۔ جو رتبے میں سب سے اونچا ہے اُس کا نام پہلے لیا پھر خاص بات یہ ہے کہ رتبہ کی ترتیب بھی سارے پانچوں پر قائم نہیں کی کہ رتبے میں دیکھیں تو ابراہیم علیہ السلام سب سے اولو العزم ہیں۔ مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرنے کے بعد پھر ترتیب مراتب نہیں رکھی، پھر ترتیب بعثت لے آئے۔ صرف ایک single نام کی خاطر ترتیب بدل دی، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے لیا پھر ترتیب وہی برقرار رکھی۔ اللہ رب العزت نے فرمایا محبوب آپ سے عہد لیا اور نوح سے لیا اور ابراہیم سے لیا اور موسیٰ سے لیا اور عیسیٰ سے لیا ’’وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيْثَاقاً غَلِيظًا‘‘ اور ہم نے ان سب انبیاء سے بڑا پختہ عہد لیا۔
أنهُ خَذَ عَلَيْهِمُ الْعَهْدَ وَالْمِيْثَاقَ فِي إقَامَةِ دِینِ اﷲِ وَإبْلاغِ رِسَالَتِهِ.
وہ کس چیز کا عہد تھا؟ اس چیز کا عہد تھا کہ ’’یہ تمام انبیاء جب دنیا میں مبعوث ہونگے تو اللہ کے دین کی اقامت کریں گے اور اللہ کے دین کو فروغ دیں گے‘‘، یعنی وہ اللہ کا پیغام توحید لے کر دنیا میں آئیں گے اور نسل بنی آدم اور اپنی اپنی اقوام تک پہنچائیں گے۔ یہ وہ عہد تھا جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے لیا۔ اور عمومی ذکر کے ساتھ پانچ کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ پانچ اولو العزم سب سے بلند رتبہ انبیاء اور رسل ہیں۔ سورہ میں بھی اسی طرح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے اتفاقاً ایسا نہیں ہوا بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر جگہ یہی التزام کیا ہے اور جب ہر جگہ ایک ہی بات کا اہتمام ہو تو صاف ظاہر ہے اُس کے اندر کوئی ایک باقاعدہ message ہوتا ہے۔ جو یہ ہے کہ اگر انبیاء و رسل کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی برابری گوارہ کرتا تو پھر جو جس جس زمانے میں مبعوث ہوئے اسی ترتیب سے ذکر کرتا۔ مگر سورۃ شوریٰ میں بھی فرمایا :
أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ.
پیچھے حضرت نوح علیہ السلام کے دین کا ذکر چلا آرہا تھا کہ وہ کون سا دین تھا؟ فرمایا : یہ وہی دین ہے جو محبوب ہم نے آپ کی طرف بھی بھیجا ہے اور جو ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کی طرف بھی بھیجا ہے۔ تاکہ اللہ کے دین کو قائم کیا جائے‘‘۔ آپ نے دیکھا کہ باری تعالیٰ یہاں نوح علیہ السلام کے ذکر میں جب آقا علیہ السلام کا ذکر لائے تو ابراہیم، موسی اور عیسی سب اولو العزم پیغمبروں کا ذکر حضور کے بعد کردیا۔ یہی ترتیب یہاں رکھی ہے۔ اس سے معلوم ہوا آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام، آخر الانبیاء ہونے کے باوجود ذکر میں اول ہیں۔
سورۃ احزاب کی اس آیت کی تفسیر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو آقا علیہ السلام سے سنی وہ بیان کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :
قَالَ النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
کُنْتُ اَوّلاً النَّبِيِّيْنَ فِي الْخَلْقِ وَآخِرُهُم فِي الْبَعْثِ.
’’میں سب انبیاء سے پہلا نبی ہوں اپنی خلقت کے اعتبار سے اور آخری نبی ہوں اپنی بعثت کے اعتبار سے‘‘۔
حدیث پاک میں یہ بھی آیا ہے کہ جب اﷲ تبارک و تعالی نے فرمایا تھا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ آپ کو جو اصول کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ استفہام انکاری سے اثبات و اقرار مراد ہوتا ہے۔ لہذا اَلَسْتُ کے اندر جو Hidden meaning ہیں؟ وہ یہ ہے کہ میں ہی تمہارا رب ہوں۔ جب اﷲ تبارک و تعالیٰ نے عہد الست اور میثاق توحید لیا تو حدیث پاک میں آتا ہے کہ سب سے پہلے جس کی زباں سے ’’قَالُوْا بَلٰی‘‘ کا کلمہ نکلا وہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جب آدم علیہ السلام کے سامنے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم میں ملائکہ کو سجدہ ریز ہونے کے لئے تعظیمی سجدہ کا حکم دیا گیا تو سب سے پہلے سجدہ آدم کے لئے جس کی جبین زمیں پر جھکی وہ جبرئیل امین علیہ السلام تھے جو تمام ملائکہ کے امام ہوگئے اور جس نے قَالُوْا بَلٰی میں سب سے پہلے اپنی زبان کھولی وہ تاجدارِ کائنات اور خاتم الانبیاء ہوئے۔ یہاں آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں خلقت اور میں سب انبیاء سے پہلے ہوں اور بعثت میں سب کے بعد ہوں۔ امام بزار حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے
قَالَ خِيارُ وَلَدِ آدَم خَمْسَةٌ نوح و ابراهيم و موسیٰ و عيسیٰ محمد صلی الله عليه وآله وسلم و خيرهم محمد اجمعهن.
فرمایا : ’’کل نسل بنی آدم میں سب سے بلند رتبہ نفوس قدسیہ پانچ ہیں جن میں نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) اور موسی (علیہ السلام) اور عیسی (علیہ السلام) اور محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب سے اعلی رتبے میں ہیں‘‘۔
آگے فرمایا کہ یہ تمام انبیاء بھی آدم علیہ السلام کی پشت اور صلب سے روحوں کی طرح نکالے گئے ہیں۔ تمام انبیاء کی ارواح بھی اسی طرح روحوں میں متمثل کرکے سامنے لائی گئیں تاکہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ان سے عہد لے اور آدم علیہ السلام نے انبیاء کی ارواح کو روشن چراغوں کی شکل میں دیکھا ہر نبی کی روح نور کی طرح چمک رہی تھی اور ان سے اﷲ تبارک و تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا میثاق لیا۔ اب ان پر گواہی کس کی لی؟ فرمایا لِّيَسْئَلَ الصّٰدِقِيْنَ عَنْ صِدْقِيِمْج وَاَعَدَّ لِلْکٰفِرِيْنَ عَذَابًا اَلِيمًا (الاحزاب، 33 : 8) گویا انبیاء کے میثاق نبوت پر گواہ ان کی امت کے علماء کو بنایا اور پوری نسل بنی آدم کی میثاق توحید پر گواہ ملائکہ کو بنایا۔ معلوم ہوا میثاق نبوت پر آقا علیہ السلام کی امت کے صادقین، اولیاء، علماء، صلحاء، متقین، گواہ ہوں گے۔ اور پھر جو کفار انکار کر رہے ہوں گے ان کے انکار کو رد کر دیا جائے گا۔ اب تک دو میثاق کی بات ہوئی اب تیسرے میثاق کی بات کرتے ہیں۔ جو آج رات کا موضوع ہے۔ پہلے دو میثاق اس لئے Mention کیے تاکہ آپ evaluate اور assessment کر سکیں۔ تیسرے میثاق کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک دو پہلے گزرے ہوئے میثاق کے Contents، ingredients، مشمولات، شرائط، احوال اور conditions کا، پورا تصور اور نقشہ آپ کے سامنے نہ ہو۔ (جاری ہے)