اسلام ایک فطری دین ہے اور معاشرے میں اس کی فطری تنظیم (Natural Structure) کے دو شعبے ہیں ایک خانگی شعبہ اور دوسرا تمدنی شعبہ۔ بیرون خانہ کے تمام امور اور حصول معاش کی ذمہ داری مرد کے سپرد ہے اور جہاں تک اندرون خانہ کا تعلق ہے تو عورت کو گھر کی مالکہ قرار دیا گیا ہے۔ جس کے ذمہ مرد کے کمائے ہوئے مال سے اس کے گھر کا انتظام کرنا، اس کے لئے سکون مہیاکرنا، اس کی خدمت کرنا، اس کے بچوں کی صحیح پرورش کرنا اور امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔ عورت پر ان تمام امور کی ذمہ داری کے بارے میں واضح ہدایت ہمیں اس حدیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
المراة راعية علی بيت زوج ها وولده و هی مسؤلة عن هم.
(صحيح بخاری)
’’عورت اپنے شوہر کے گھر اس کے بچوں کی نگران ہے اور اس دائرہ عمل میں جواب دہ ہے‘‘
ثریا بتول علوی اپنی کتاب ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ صفحہ 126 میں اس پر یوں تبصرہ کرتی ہیں:
’’عورت کی یہ ذمہ داریاں بڑی اہم ہیں اس محاذ پر ڈٹے رہنا اس کے لئے بڑا ضروری ہے بلکہ اس سے تھوڑی دیر کے لئے بھی ہٹنا اس کے لئے بڑا مضر ہے یہی وجہ ہے عورت کو اجتماعی عبادات مثلاً نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جانے، نماز جمعہ یا نماز جنازہ پڑھنے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے‘‘۔
اسلام میں بنیادی طور پر کسب معاش کی ذمہ داری مرد پر ہے لیکن اس کے باوجود حالات و واقعات کی مناسبت سے اگر یہ ذمہ داری عورت پر آجاتی ہے تو اسلام نے اس کو ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ اس کی اجازت دی ہے کہ وہ معاشی جدوجہد کرے۔ ارشاد خداوندی ہے:
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللّهَ مِن فَضْلِهِ
(النسآء 4 : 32)
’’مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو اس کے فطری دائرہ میں رکھتے ہوئے اسے عزت و عظمت کا ایسا مقام دیا ہے کہ جس کی بنا پر وہ اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے معاشرہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتی ہے اور اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حتی المقدور جدوجہد کرسکتی ہے۔
سید جلال الدین عمری اپنی کتاب عورت اسلامی معاشرہ میں لکھتے ہیں:
’’اسلام نے عورت کی جدوجہد کو صرف علم و فکر کے میدان تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اس کی پرواز عمل کے لئے وسیع تر فضا مہیا کی ہے وہ جس طرح علم و ادب کی راہ میں پیش قدمی کرسکتی ہے اس طرح اس کو مختلف پیشوں کو اپنانے اور بہت سی ملی و اجتماعی خدمات کے انجام دینے کی بھی اجازت دی ہے‘‘۔
اسلامی تاریخ کے آئینہ میں
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ قرن اول کی مسلمان عورتیں بالخصوص صحابیات رضی اللہ عنہن امور خانہ داری کے علاوہ دیگر معاملات مثلاً معیشت، تبلیغ و جہاد میں پیش پیش ہوتیں تھیں مگر اسلامی معاشرہ ان کی راہ میں حائل نہیں ہوا۔ اسلامی تاریخ پر نظر غائر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خواہ عرب کا علاقہ ہو یا اندلس کا، ترکی کا ہو یا ایران کا، برصغیر کا ہو یا افریقہ کا، غرضیکہ ہر جگہ اور ہر دور میں کبھی بھی مسلمان عورتوں کو غیر ضروری و غیر شرعی قید و بند میں نہیں رکھا گیا بلکہ اس نے حتی المقدور ہر شعبہ زندگی میں اپنی حدود و دائرہ کار میں رہتے ہوئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔
صحابیات رضی اللہ عنہن کی معاشی جدوجہد
اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک دور کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ صحابیات رضی اللہ عنہن نے امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر کے کاموں (Out Door Works) کو بھی سرانجام دیا ہے اور ان کے اس عمل پر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع نہیں فرمایا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور اپنے گھر کی دیکھ بھال پر انہیں دوہرے اجر کی بشارت دی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیوی امِ حرام رضی اللہ عنہا کے گھر آرام فرما رہے تھے کہ اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے۔ امِ حرام رضی اللہ عنہا نے وجہ مسرت دریافت کی تو فرمایا کہ خواب میں مجھے میری امت کے وہ بلند مرتبہ افراد دکھائے گئے جو خدا کی راہ میں جہاد کے لئے سمندر کا سفر کریں گے، جس کا اجر اتنا بڑا ہے کہ وہ جنت میں بادشاہوں کی طرح تخت پر متمکن ہوں گے۔ امِ حرام رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ دعا فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان لوگوں میں داخل فرمادے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سعادت مند گروہ میں ان کی شمولیت کی دعا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ لیٹے اور اس وقت بھی مسرت و شادمانی کے وہی آثار نمایاں تھے۔ امِ حِرام رضی اللہ عنہا نے سبب معلوم کیا تو وہی پہلا سبب بتایا۔ امِ حِرام رضی اللہ عنہا نے اس مرتبہ پھر دعا کی درخواست کی تو فرمایا : ’’پریشان کیوں ہوتی ہو تمہارا شمار سابقین میں سے ہے‘‘۔
عورت کی معاشی سرگرمیوں کے بارے میں احادیث مبارکہ بکثرت و بصراحت ملتی ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
’’میری خالہ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی (طلاق کے بعد ان کو عدت کے دن گھر میں گزارنے چاہئے تھے لیکن انہوں نے عدت کے دوران ہی میں) اپنے کھجور کے چند پیڑ کاٹنے کا ارادہ کیا تو ایک صاحب نے سختی سے منع کیا (کہ اس مدت میں گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے) یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں استفسار کے لئے گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کھیت جاؤ اور اپنے کھجور کے درخت کا ٹو۔ اس رقم سے بہت ممکن ہے تو صدقہ و خیرات یا کوئی بھلائی کا کام کرسکو‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الطلاق۔ رواہ مسلم)
ان الفاظ کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خالہ کو انسانیت کی بہی خواہی اور فلاح و بہبود کا درس دیا جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ عورت کو اس قابل دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی خدمت کرسکے اور اس کے ہاتھوں بھلے کام انجام پائیں نہ کہ وہ اپنی معاشی حاجات کو پورا کرنے کے لئے دوسروں کی مرہون منت ہو۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو باہر دیکھ کر تنقید کی تو وہ (خاموشی سے) گھر واپس چلی آئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا اس کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزول وحی کی سی کیفیت ہوگئی جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ نے تمہیں گھر سے باہر اپنی ضروریات کے لئے نکلنے کی اجازت دے دی ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ سورۃ احزاب، باب قولہ لا تدخلوا بیوت النبی الخ)
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ نے تو اس امر کے قطعی یقینی شواہد فراہم کردیئے ہیں کہ عورت عدت کے علاوہ اندرون و بیرون خانہ دوسری بہت سی مصروفیات جاری رکھ سکتی ہے۔ اسلام کی اس حقیقت پسندی کی بنا پر اسلامی تاریخ ایسی مسلمان عورتوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جنہوں نے کسی نہ کسی طرح معاشرے میں اپنی عزت اور وقار کا پاس رکھتے ہوئے معاشی جدوجہد کی۔
(جاری ہے)