عصر حاضر میں سائنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار دوڑ نے دنیا کو سمیٹ کر گلوبل ولیج بنا دیا ہے۔ اس ترقی یافتہ اور جدید دور نے جہاں نسل آدم کو آسودگی اور سکو ن بخشا ہے وہاں یہ جدت اپنے اندر نسل نو کے لئے اخلاقیات و کردار سے عاری تہذیب کا پیش خیمہ ہے۔ جس کی سب سے اہم ترین شکل کیبل اور اس کا نیٹ ورک ہے۔ اس کے ذریعے جہاں ہزاروں، لاکھوں لوگوں کو معلومات عامہ حاصل ہوتی ہیں وہاں لاکھوں افراد اسکا غلط استعمال کرکے اخلاقی اورمعاشرتی برائیوں کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔
اس کے ذریعے آج ہر گھر انڈین اور انگلش کلچر کا گہوارہ بن چکا ہے، بچے اسلام سے زیادہ ہندی و فرنگی تہذیب سے آشنا ہیں۔ اس صورت حال کو اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو حکومت سے لیکر ایک عام شہری تک اس جرم میں ہم سب ملوث ہیں جو اپنی نسلوں کے خون میں اس بے حیائی کا زہر گھول رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی و ملی سطح پر کیبل نیٹ ورک کا معیار متعین کیا جائے۔ والدین اور افراد معاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ منفی رجحانات والے چینلز کی بجائے مثبت چینلز کو طرز استعمال میں لائیں تاکہ بچوں میں فنی اور فکری رجحان، حیا اور علم حاصل کرنے کی طلب پیدا ہو جوکہ ایک مسلمان کا اصل فریضہ اور ایمان کا حصہ ہے۔
ماں کون ہے؟ کیا ہے؟
(عدیلہ سعید۔لاہور)
- سمندر نے کہا : ایک ایسی ہستی ہے جو اولاد کے لاکھوں راز سینے میں چھپا لیتی ہے۔
- بادلوں نے کہا : ایک دھنک ہے جس میں ہر رنگ نمایاں ہوتا ہے۔
- شاعر نے کہا : ایک ایسی غزل ہے جو سننے والے کے دل میں اتر جاتی ہے۔
- اولاد نے کہا : ممتا کی انمول داستان ہے۔
- مالی نے کہا : گلشن کا دلکش پھول ہے جس میں خوشبو اور خوبصورتی ہوتی ہے۔
اقوال زریں
(مہوش اشرف۔ لاہور)
- زبان اگرچہ تلوار نہیں مگر تلوار سے زیادہ تیز ہے۔
- بات اگرچہ تیر نہیں مگر تیر سے زیادہ زخمی کرتی ہے۔
- غصہ اگرچہ شیر نہیں مگر شیر سے زیادہ خوفناک ہے۔
- نشہ اگرچہ سانپ نہیں، مگر سانپ سے زیادہ خطرناک ہے۔
- گناہ اگرچہ زہر نہیں، مگر زہر سے زیادہ مہلک ہے۔