اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیائے رنگ وبو میں اپنے منشاء و ارادہ سے ’’عمل‘‘ یعنی ’’سلوک‘‘ کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ اس دنیا میں وہ جیسے چاہے زندگی بسر کر سکے، جو چاہے کر سکے، یعنی اسے اپنے تمام اعمال کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس خود مختاری کے ساتھ ساتھ قدرت نے خلقی طور پر اس کی ذہنی تربیت کا بندوبست فطرت بالقوہ (Potential Nature) کے ذریعے کر کے قوی احساسات و محسوسات کے ساتھ اس دنیا میں پیدا فرمایا، اس کی فطرت میں پیدائشی طور پر اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی الوہیت و ربوبیت کے اقرار کا داعیہ پیدا فرمایا، تاکہ اس کی طبیعت فطرتی طور پر اپنے خالق ومالک کی طرف راغب رہے، انسان روح اور جسم کے حسین امتزاج سے مرکب ہے، روح کی پیدائش دور ازل میں ہو گئی تھی، جس نے عالم ارواح میں تمام ارواح کے ساتھ مل کر وعدئہ الست کے دن اللہ سبحانہ وتعالی کی ربوبیت کا اقرار کرتے وقت خود کہا تھا کہ ہاں تو ہمارا رب ہے۔ (الاعراف،7 : 72)
انسان جب دنیا میں جسمانی طور پر جنم لیتا ہے تو اسے عالم ارواح کی بجائے ایک نیا عالم یعنی دنیاوی ماحول ملتا ہے، وہ سارا وقت اس مادی ماحول (Environment) میں گزارتا ہے، اس ماحول میں جو کچھ ظہور پذیر ہوتا ہے، وہ یا تو انسان کے اپنے اعمال و افعال کی وجہ سے ہے یا دوسرے عناصر قدرت اس کے لئے کام کررہے ہوتے ہیں۔ بہرحال ’’زمین‘‘ پر جو کچھ ہوتا ہے، وہ ’’انسان‘‘ کے لئے ہی ہوتا ہے، یعنی انسان، دوسرے انسانوں اور مخلوقات الہیہ کے ساتھ مل کرجو ’’ماحول‘‘ تشکیل کرتا ہے، اس میں انسان کو خلقی طور پر فطرت کی دو قوتوں سے لیس کر کے بھیجا جاتا ہے، ایک فطرت بالقوہ ہوتی ہے اور دوسری بالفعل، فطرۃ بالقوہ میں خلقی طور پر اچھائی، برائی اور خیروشر کے درمیان فرق کرنے کا داعیہ (Instinct) موجود ہوتا ہے، بفحوائے قرآنی خالق آفاق وانفس خود ارشاد فرماتاہے کہ
اللہ سبحانہ وتعالی نے نفس انسانی کے اندر فجور وتقویٰ الہام کیا ہے۔ (یعنی نفس کے اندر برائی اور اچھائی میں تمیز کا شعور ودیعت فرمایا ہے)
(الشمس : 8)
سورہ البلد کی آیہ کریمہ نمبر 10 میں اللہ جل مجدہ فرماتاہے کہ
’’پس ہم نے انسان کو نیکی اور بدی کے دونوں راستے دکھا دیئے ہیں۔‘‘
ہم فطرت بالقوہ کی بات کر رہے ہیں، کفروالحاد، شرک، بت پرستی، اخلاقی فضائل اورذائل یا معاشرتی اور سماجی اچھائیوں اور برائیوں کے تصورات یا دین ومذہب کے حوالے سے انسانی اقدار کے مختلف پیمانے زیربحث نہیں ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ہر انسان کے اندر چاہے اس کا تعلق معاشرے کے کسی بھی طبقہ کے ساتھ ہو، خیروشر، نیکی وبدی، انصاف اور ظلم بارے فرق محسوس کرنے کا داعیہ ضرور ہوتا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کے علاوہ انسان کے من کے اندر ’’خوداحتسابی‘‘ کا جوہر بھی محفوظ ر کھا ہے اور اسے بصیرت نفس عطا فرمائی ہے تاکہ وہ اپنے نفسی اعمال پر نظر رکھے۔ سورہ القیامہ کی آیت نمبر 14، اسی بصیرت نفس کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان اپنے نفس کے اعمال پر خوب نظر رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے نفع و نقصان کو خوب سمجھتا ہے، اور اسے بخوبی علم ہے کہ وہ خود اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ قرآن حکیم کے سورہ تحریم کی آیت نمبر7 اسی لئے اسے تنبیہ کرتی ہے کہ بیشک تمہیں تمہارے کئے کی جزا اور سزا ضرور ملے گی اور بمطابق آیہ نمبر25 سورہ آل عمران
’’ہر نفس کو اس کے اپنے کسب کا بدلہ مل کر رہے گا۔‘‘
انسان کی فطرۃ بالقوہ میں امانت کی ذمہ داری کا احساس ہے، ہر انسان اپنے اعمال پر کسی نہ کسی سطح پر اپنے آپ کو خود جوابدہ سمجھتا ہے، اور کوئی شخص بھی اپنے آپ کو اپنے اعمال اور سلوک کے نتائج سے بری الذمہ خیال نہیں کرتا، بعض لوگ یہ کہتے کہ جب ہماری پیدائش سے پہلے ہی ہر بات ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے اور ہم سے سب کچھ ہماری تقدیر ہی کرا رہی ہے تو اعمال بارے ہم کیسے ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں، فلسفہ جبریت کے شکار افراد کے نفسیاتی تجزیہ اور تحلیل نفسی سے یہ حقیقت کھل کر آشکار ہوتی ہے کہ محض ان فلسفیانہ گتھیوں کے سہارے وہ اپنے ذہن میں موجود ’’خوداحتسابی‘‘ یعنی جوابدہی کے تصور اور امانت کی ذمہ داری سے چھٹکارا حاصل نہیں کرپا ئے، جبھی تووہ بار بار تقدیر اور مقدر کا ذکر کرتے رہنے پر مجبور ہیں، ورنہ وہ اگر خود کو اپنے افعال کے نتائج سے یقینی بری الذمہ سمجھتے، تو سرے سے ان کے خیال وگمان اور ذہن میں جوابدہی سے چھٹکارا پانے کا سوال ہی پیدانہ ہوتا، ان کے ذہن کے اندر پنہاں کوئی احساس ضرورایسا ہے جو اس نوعیت کے سوال ابھار رہا ہے۔ درحقیقت انہیں اپنے خود ساختہ فریب ہائے فکروخیال کی اصلیت کا احساس ہے، لہذا بزعم خود، اپنے آپ کو جوابدہی سے بچانے کے لئے وہ مفروضات کا سہارا لیتے ہیں۔ ان شاء اللہ حقیقت نفس اور انسان کی حقیقت کے باب میں ہم قضا وقدر بارے تفصیلی گفتگو کریں گے کیونکہ سلوک وتصوف سے اس کا گہرا تعلق ہے۔
انسان کے طبائع، افعال وکردار اور سلوک واعمال پر ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے، کئی قسم کے عناصر مل کر انسانی ماحول کی تشکیل کرتے ہیں۔ انسان کے لئے مختلف شعبہ ہائے حیات میں مختلف ماحول ہوتے ہیں، مثلاً گھر کا ماحول، محلے، گاؤں، قصبے اور شہر کا ماحول، مدرسہ، سکول، کالج اور یونیورسٹی کا ماحول، مسجد، مکتب، دارالعلوم کاماحول، ہمسایوں اور رشتہ داروں کا ماحول، گلیوں، بازار اور منڈیوں کا ماحول، بحیثیت مجموعی ملکی اور بین الاقوامی معاشرتی، معاشی، اقتصادی، سیاسی، فکری، علمی اور عسکری ماحول، پرامن اور بدامن ماحول وغیرہ۔
انسان اس دنیا میں بہت کم عرصے کے لئے آتا ہے اور پھر راہی ملک عدم ہو جاتاہے۔ وہ یہاں دوسروں کے ساتھ مل کر رہتا ہے، اس کے ساتھ رہنے والے دوسرے عناصر اور اشیاء اس کے لئے اپنا کردار عین منشائے فطرت کے مطابق سرانجام دیتے ہیں، انسان کا مقصد حیات اللہ تعالی کی رضا کا حصول اور تہذیب انسانی کو پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ زمین کے اسباب و ذرائع استعمال کرتا ہے۔ یہ اسباب و ذرائع یا تو قدرت کی طرف سے مہیا ہوتے ہیں یا انسان انہیں خود تراشتا، ڈھالتا اور بناتا ہے۔ ان اسباب و ذرائع میں ہوا، زمین، پانی، پہاڑ اور جمادات ونباتات سب شامل ہوتے ہیں، ایک خاص قاعدہ، کلیہ اور توازن سے جب وہ ان اسباب و ذرائع کا استعمال کرتا ہے تو اس سے تہذیب انسانی کی پرورش ہوتی ہے۔
ماحول انسان کے اردگرد کے جملہ واقعات وحالات اور اسباب و ذرائع کے استعمال اور ان کے نتائج سے عبارت ہے۔ اگر ان سب اسباب و ذرائع کا استعمال فطری اور متوازن ہو اور ان سے خوشگوار صالح واقعات و حالات رونما ہوں تو ماحول آسودہ ہوتا ہے اور اگر یہ استعمال غیر فطری اور غیرمتوازن ہو تو اس سے پیدا ہونے والا ماحول آلودہ اور خراب ہوتا ہے، آج انسانوں کا ایک انتہائی محدود حلقہ فکر جس صورت حال کے بارے میں سوچ رہا ہے اور جو موضوع آج کی دنیا کے لئے انتہائی فکر انگیز جہت اختیار کر چکا ہے، وہ انسان کے اپنے پیدا کردہ ماحول کی آلودگی ہے، جس کاتعلق نہ صرف انفرادی اور اجتماعی بلکہ بین الاقوامی انسانی ماحولیات سے بھی ہوتا ہے! انسان کے اپنے من کی آلودگی، اس کے ظاہری بدن، اس کے اردگرد ہونے والے واقعات وحالات سے جنم لینے والی آلودگی، غرضیکہ ہر قسم کی آلودگی، فساد اور خرابی جہاں، جیسی اور جس طرح کی ہے، اس کا اثر براہ راست انسانی زندگی پر آشکار ہو رہا ہے۔ انسان کے تمام افعال وکردارکا تعلق اس کے ذہن سے ہوتا ہے۔ انسانی ذہن ہی اس کی کردار سازی کا ذمہ دار ہے۔ انسانی ذہن، حالات و واقعات اور ماحول کو بناتا، سنوارتا اور بگاڑتا ہے۔
آج کل کے حالات و واقعات جو ہمارے سامنے ہیں کسی دوسری مخلوق کے پیدا کردہ نہیں بلکہ یہ ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں، انہیں سمجھنے کے لئے ہمیں اپنے آپ میں جھانکنا ہو گا اور نزدیک ترین تاریخ کے اوراق کو الٹنا ہو گا۔ اپنے اعمال، سلوک اور اچھی کردار سازی کے لئے ہر شخص خود ذمہ دارہوتا ہے، اس ماحولیاتی سکول کے طالب علم کو خود امتحان دینا ہوتا ہے، نہ تو یہاں نقل کی گنجائش ہے اور نہ ہی رشوت وسفارش سے کام چلتا ہے۔ جو کوئی یہاں ناجائز ذرائع استعمال کرتا ہے وہ ناکامیاب رہتا ہے اور پورے ماحول کو اپنے عمل بدسے آلودہ کرنے کا ذمہ دار ہے۔
ہررنگ، نسل، قوم، قبیلے کا فرد وہ پاکستانی ہو یا ہندوستانی، برمی، چینی، امریکی یا جاپانی سب مل کر ماحول کی تشکیل کرتے ہیں، ارتقائے حیات اور بقائے نسل انسانی کی تعمیرو تخریب میں ہر کوئی اسی نسبت سے ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔ یہی مکافات عمل اور دستور فطرت ہے۔ ماحولیاتی آلودگی انسان کی ایک خاص جبلت یا خودپرستی سے جنم لیتی ہے۔ انسان کے لئے اپنے اندر اور باہر کے ماحول میں اس انا پرستی یا خود پرستی کو تلاش کرنا اور اس کو راہ راست پر لانا ہی حقیقی سلوک اورتصوف ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ ہمارے اندر وہ کون سے عوامل ہیں جن کا تعلق ہمارے قلب ونظر، سلوک اور ان افعال و کردار سے ہے جو ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں اور وہ کون سے بیرونی عوامل ہیں جو ماحولیات کی آسود گی اور آلودگی پر کار فرما ہوتے ہیں۔ دنیا کے اردگرد کے قدرتی ماحول میں سورج چاند، ستارے اور فضا شامل ہے۔ زمین کے اوپر اور اس کے اندر مختلف النوع اشیاء، جمادات، نباتات اور جاندار اس کا ماحول تشکیل کرتے ہیں اور اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان عناصر میں سب سے زیادہ موثر اور فیصلہ کن کردار انسان خود ہے۔ قدرت کی مہربانی کا یہ عالم ہے کہ سورج، چاند اور ستاروں کی روشنی میں حرارت کی جو مقدار جس تناسب سے حیات انسانی کے لئے درکار ہوتی ہے، صرف اتنی ہی بالائی فضا سے زمین کے لئے مہیا کی جاتی ہے، جس حد پر یہ پھاٹک (Barrier) لگا دیا گیا ہے اسے اوزون (Ozone) کہتے ہیں۔ دنیا کی فضا کے اردگرد اوزون کی پٹی یا غلاف کو ایک ایسے حساس نظام کے طور پر چڑھا دیا گیا ہے کہ کوئی بھی شئے یا شعاع جو انسانی حیات کے لئے مضر ہو، وہ اس میں داخلے کی راہ نہ پاسکے۔ اگر انسانی حیات کی بقاء کے لئے یہ اہم ترین اوزون گیس، اپنی پوری مقدار کے ساتھ جو اس وقت فضائے بالا میں موجود ہے، زمین پر چھوڑ دی جائے تو زمین پر بسنے والے سب حیوانات اور نباتات چشم زدن میں ختم ہو جائیں۔
خالق کائنات کا حسن سلوک دیکھئے کہ اس کے حکم سے سینکڑوں میل تک ہوا نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس سے انسان زمین پر زندہ ہے۔ زمین سے اوپر جائیں تو گیارہ کلومیٹر تک، ہوا اپنی کل مقدار کی پچانوے فیصد موجود ہے، پھر یہ بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ خلا کی حد آجاتی ہے۔ ہوا کی اس دبیز پٹی کے اندر بھی اللہ تعالی جل مجدہ اپنی ایسی بے شمار مخلوقات کی پرورش کر رہا ہے جس کو دیکھنا انسان کی طاقت بصارت سے باہر ہے۔ اللہ کی یہ نادیدہ مخلوق زمین کے جانداروں کوآسمانی دنیا کے ان دیکھے دشمنوں کی یلغارسے محفوظ رکھنے پر مامور ہے۔
اللہ تعالی نے ہوا کو مختلف گیسوں سے بنایا ہے، ان گیسوں میں نائٹروجن (78) اٹھتر فیصد، آکسیجن (21) اکیس فیصد اوزون ایک فیصد سے کچھ کم اور سب سے کم مقدار کاربن ڈائی آکسائیڈ یعنی کل ہوا کے ہزار حصے میں صرف تین حصے، ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس میں کئی دوسری گیسوں مثلاً ہائیڈروجن، ہیلیم، کریٹپون، نیون اور کاربن مونو آکسائیڈ وغیرہ کی قلیل مقدار شامل ہوتی ہیں۔ میتھین، نائٹروجن آکسائیڈ اور ہائیڈروکاربن گیسوں کی بہت خفیف مقدار بھی ہوا میں پائی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ سب گیسیں انسانی زندگی کے لئے مضرت رساں ہوتی ہیں لہذا قدرت نے ان گیسوں کو ایک خاص تناسب اور مقدار سے ہوا میں یکجا رکھا ہے جس کی وجہ سے یہ انسانی زندگی کے لئے خطرے کا باعث نہیں بنتیں بلکہ اس کو برقرار اور آسودہ رکھتی ہیں۔ لیکن جب ان گیسوں کو کسی تناسب کے بغیر انسان اپنے ہاتھوں سے بنا کر فضا میں چھوڑتا ہے تو اللہ تعالی کا قائم کردہ توازن بگڑ جاتا ہے اور ہوا آلودہ ہو کر انسانی صحت کے لئے ناکارہ ہوجاتی ہے۔
ہر انسان، اللہ تعالی کے عظیم ہوائی ذخیرہ سے روزانہ اوسطاً پندرہ کلوگرام صاف ہوا حاصل کرتاہے جب کہ پودوں کو اپنی زندگی کے لئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کی قدرت کاملہ سے کروڑوں اربوں سالوں سے یہ ہوائی نظام اس طرح قائم و دائم ہے کہ زمین پر ہر قسم کے جانداروں کو ہر وقت صاف ہوا میسر ہوتی رہتی ہے، لیکن عاقبت نااندیش انسان نے رواں صدی میں اپنی بنائی ہوئی اتنی گیسیں قدرت کے ہوائی ذخیرے میں داخل کر دی ہیں، جس نے اللہ تعالی کے حیات بخش نظام کو مختلف کر کے ہوا کو اس حد تک گندہ اور زہریلا بنا دیا ہے کہ اب یہ انسانی حیات کے لئے مہلک ثابت ہو رہی ہے۔
اللہ تعالی کی بنائی ہوئی کائنات اتنی وسیع ہے کہ عقل انسانی اس کے ادراک سے قاصر ہے۔ صرف 51 کروڑ بہتر ہزار مربع کلومیٹرپر مشتمل یہ زمین کائنات میں موجود کئی سیاروں سے بہت کم ہے لیکن اللہ تعالی جل مجدہ نے پھر بھی اسے اس عظیم کائنات کا مرکز قرار دیا ہے کیونکہ اس کا محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں موجود ہیں اور یہیں سے تمام کائنات کو اپنی رحمتوں سے نواز رہے ہیں۔
اللہ تعالی نے دنیائے ارض کو چالیس ہزار کلو میٹر تک ایک زبردست حفاظتی خول میں محفوظ رکھا ہے۔ کائنات میں ہر وقت ستاروں اور سیاروں کے عظیم الجثہ ذرات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے رہتے ہیں، ان کے بعض ذرات ہماری دنیا سے جسامت میں ہزاروں گنا بڑے ہوتے ہیں۔ لہذا ان سے بچانے کے لئے قدرت نے بارہ کلومیٹر تک کے کرہ اول میں بہت وافر مقدار میں بادل اور آکسیجن، پچاس کلومیٹر تک کے کرہ قائمہ میں اوزون، اسی (80) کلومیٹر سے پانچ سوکلومیٹر تک کے کرہ میانہ میں ہائیڈروجن، نائٹروجن، ہیلیم اور دیگرگیسوں کا ذخیرہ کر رکھا ہے۔ چالیس ہزار کلومیٹر اوپر بالائی حصہ کرہ ناری ہے جس میں گیسیں تو بالکل نہیں لیکن درجہ حرارت انتہائی زیادہ ہوتا ہے۔ شہابوں کی پہنچ ان ہی کروں تک ہوتی ہے جن میں داخل ہوتے ہی وہ جل کر بھسم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے زمین کو سورج اور دیگر اجرام فلکی کی شدید حرارت سے بچانے کے لئے پہلے کرہ میں سطح زمین سے اوپر آکسیجن والے حصے میں کم درجہ حرارت رکھا ہے اس سے اوپر درجہ حرارت کی ایک تیز تہہ رکھ کر اوزون والے حصے کو پھر ٹھنڈا رکھا ہے جب کہ کرہ میانہ اور کرہ ناری بہت ہی گرم خطے ہیں۔
اللہ تعالی نے دنیا کے کل رقبے کے تین چوتھائی کو آبی مخلوق اور تقریبا ًایک چوتھائی کو انسان اور خشکی پر رہنے والے دیگر جانداروں کے لئے مختص کیا ہے۔ دنیا کا کل رقبہ 51 کروڑ بہتر لاکھ مربع کلومیٹر ہے جس کا ایک چوتھائی خشکی ہے۔ جس کاکل رقبہ 14 کروڑ 89 کروڑ 40 ہزار مربع کلومیٹر ہے، اس حصہ زمین پر انسان کے کام آنے والے حیوانات، نباتات اور جمادات کا ایک وسیع جال بچھایا گیا ہے۔ زمین کے پیٹ کو معدنیات، تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر کے علاوہ بیکٹیریا، فنجائی، مولڈ اور ان خوردبینی جانداروں سے بھی بھر دیا گیا ہے جو ہمہ وقت بطن زمین کو مضرت رساں اشیاء سے پاک رکھتے ہیں تاکہ وہ انسان کے لئے اچھی متوازن غذا اور دیگر اسباب حیات آسانی سے مہیا کرے۔ سطح زمین کے اوپر اللہ تعالی نے جنگلات اور نباتات کا عظیم سرمایہ رکھ دیا ہے جس کی پرورش اور نشوونما کے لئے میٹھے پانی کا ایک وافر ذخیرہ محفوظ کر دیاگیا ہے۔ جہاں کہیں یہ پانی سوکھنے لگتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی اپنی قدرت سے بحر منجمد شمالی اور بحر منجمد جنوبی ایسے برف کے ذخائر سے زمین کی تہوں کے نیچے سے پانی بہم پہنچا کر اس کی سوکھی رگوں کو تازگی بخشتا ہے۔ لیکن ماحول کو زبردست تباہی سے دوچار کرنے والے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک امریکہ، روس اور یوروپ نے بحر منجمد شمالی اور جنوبی کو بھی ہزاروں زیر زمین ایٹمی دھماکے کر کے برف کو پگھلا دیا ہے، اور نتیجۃً یہ منجمد برف بہت تیزی سے پانی میں تبدیل ہو کر کڑوے، کسیلے اور کھارے سمندر میں مل رہی ہے۔ اللہ تعالی جل شانہ زیر زمین بھی مختلف طبقات میں پانی کو رواں دواں رکھتا ہے۔ زمین کو صاف ترین پانی بارش کی صورت میں مہیا فرماتا ہے۔ زمین سے روزانہ کئی لاکھ ٹن نمک دریاؤں کے ذریعے سمند ر میں پہنچتا ہے۔ جہاں کروڑوں ٹن نمکیات کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے۔ اسی ذخیرہ سے آبی مخلوقات کی پرورش بھی ہوتی ہے اور سمندر کے اندر لاکھوں کروڑوں آبی مخلوق جو روزانہ مر جاتی ہے، سمندر اور زمین کو اس کی بدبو اور تعفن سے بچانے کا کام بھی اسی نمک سے لیا جاتا ہے۔
سمندر کا رقبہ 36 کروڑ 11 لاکھ بتیس ہزار مربع کلومیٹرہے، سورج کی حرارت سے سطح سمندر سے آبی بخارات کرہ اول میں پہنچ کر ٹھنڈے بادل بن جاتے ہیں اور بھاری ہو کر پھر زمین پر بارش کی صورت میں انتہائی صاف اور شیریں پانی کی شکل میں برستے ہیں۔ بارش کا یہ پانی سمندر کے نمکین پانی کی طرح کڑوا نہیں ہوتا۔ حالانکہ سمندر کے پانی سے جو آبی بخارات فضا میں بلند ہوتے ہیں وہ تلخ اور کڑوے نمکین پانی سے بنتے ہیں۔ یہ انسان اور زمین کے ساتھ اللہ سبحانہ وتعالی کے بہترین سلوک اور احسان کی ایک ادنیٰ جھلک ہے۔
ہوا کے بعد، جاندار مخلوق کی بقاء کا دوسرا بڑا ذریعہ پانی ہے۔ اوسطاً ہر انسان روزانہ تقریبا ڈیڑھ سو لیٹر پانی مختلف شکلوں میں استعمال کرتا ہے۔ انسانی زندگی پر پانی کا بہت بڑا اثر ہے۔ یہ بقائے ماحول کے لئے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پانی کے اندر، اللہ تعالی نے ایک مکمل نظام حیات قائم کر رکھا ہے۔ زمین کے آبی ذخائر میں دنیا کا ستانوے فیصد پانی موجود ہے، گلیشیروں سے دو فیصد پانی کا اخراج ہوتا ہے جبکہ ایک فیصد پانی فضا میں آبی بخارات کی شکل میں موجود ہوتا ہے، سطح زمین پرپانی کے ذخائر دریاؤں، جھیلوں، چشموں، ندی نالوں اور مصنوعی طور پر بنائے گئے تالابوں اور کنوؤں کی شکل میں دستیاب ہیں۔ انسان کی بقا کے لئے پانی اللہ سبحانہ وتعالی کی بہت بڑی نعمت ہے، دین اسلام پانی کو بے جا ضائع کرنے سے منع کرتا ہے، حتی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو اور غسل طہارت کے وقت بھی سختی سے پانی کے ضیاع سے اجتناب کی تلقین فرمائی ہے لیکن آج کا خود پرست انسان جس بری طرح میٹھے پانی کو بے جا ضائع کر رہا ہے، یہ انسانیت پر ظلم عظیم ہے، مالدار افراد بڑی بے خوفی سے اپنی کوٹھیوں اور باغیچوں میں پانی کو بے طرح ضائع کرتے ہیں، گلی محلوں میں پانی کے نلکے کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیں، یہ ایک بڑا قابل مواخذہ گناہ ہے۔ آج کے انسان کی یہ غفلت مستقبل کو ایسا خطرناک بنا رہی ہے کہ کل کا انسان پانی کے قطرہ قطرہ کے لے تڑپے گا، لیکن روئے زمین پر میٹھاپانی دستیاب نہیں ہو گا، امریکہ اور یورپ جو آج مشرق وسطیٰ سے تیل کے حصول کے لئے خوفناک ترین جنگیں لڑ رہا ہے، کل یہی امریکہ پانی کے لئے یورپ اور ایشیا کو ملیامیٹ کرنے والا ہے۔
فضائی، ہوائی، سمندری اور آبی نظاموں کی طرح زمینی ماحولیاتی نظام بھی انتہائی پیچیدہ عوامل پر مشتمل ہے۔ اس نظام میں حیوانات اور نباتات کے علاوہ موجود غیر جاندار نامیاتی اور غیر نامیاتی مواد اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ زمین پر لاکھوں اقسام کے حیوانات ونباتات پائے جاتے ہیں۔ زمین کی سطح پر انسانوں سے کئی گنا چھوٹے بڑے جانوروں کے علاوہ زمین کی تہہ میں کافی گہرائی تک خوردبینی جاندار پائے جاتے ہیں۔ جس طرح زمین کے اوپر نباتات اور اشجار کی کثیر اقسام موجود ہیں اسی طرح سمندر میں بھی ان کی مختلف النوع اقسام کا ایک وسیع وعریض سلسلہ ہے، دوسری طرف زمین پر سرسبز میدانوں، کھیتوں اور باغوں کے وسیع قطعات بھی بچھے ہوئے ہیں جو زمینی نشوونما کے ارتقائی عمل میں کارآمد ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی تمام کائنات کا خالق اور رب العالمین ہے۔ خالق ہونے کے ناطے اس کا عمل تخلیق بھی جاری ہے اور رب العالمین ہونے کے حوالے سے وہ عمل ربوبیت یعنی مخلوق کی نشوونما اور اس کو بتدریج پروان چڑھانے میں بھی مصروف ہے۔ اس پاک ذات نے ہر چیز، ہر شئے اور ہر نظام میں ایک توازن قائم کررکھا ہے، وہ اپنی تمام مخلوقات کو اسی توازن واعتدال سے زندگی بسر کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ مخلوقات میں سے جب کوئی اس مقرر کردہ توازن واعتدال کی راہ سے ہٹتا ہے یا دوسری اشیاء کو ہٹانے کا موجب بنتا ہے، تو وہ فطرت کے قائم کردہ توازن میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ نتیجتاً وہ شئے اس عمل وخاصیت کی حامل نہیں رہتی جس کے لئے وہ تخلیق ہوتی ہے۔ یہ قانون فطرت سب مخلوقات الٰہیہ پر یکساں لاگو ہے۔ مخلوقات میں اس قسم کے بگاڑ کا سب سے بڑا عامل اور سبب (اب تک جو مشاہدے میں آیا ہے) وہ انسان کی ذات ہے، وہی انسان جو اشرف المخلوقات ہے اور جس کو عقل سے سرفراز کیا گیا ہے۔(جاری ہے)