عہدِ نبوی ﷺ میں قبولِ اسلام کے بعد مسلمانوں نے دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کے فریضہ کی ادائیگی کے لئے جو تکالیف برداشت کیں اُن کا ثمر اللہ رب العزت نے ریاستِ مدینہ کی صورت میں دیا۔ جب ایمان والے حق بات پر ڈٹ جاتے ہیں اور پھر کوئی تنگی اور اذیت اُن کے عزم کو کمزور نہیں کر پاتی تو پھر اللہ کی مدد شاملِ حال ہو جاتی ہے، استقامت والے اہل حق سرخرو اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا یہ وعدہ ہے کہ میرے راستے پر چلنے والوں کے لئے دنیا میں بھی انعامات ہیں اور آخرت میں بھی انعام و اکرام ہے۔ حق پر ہونا اور پھر حق کے لئے جان، مال کی قربانی کے جذبہ سے سرشار رہنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ مارچ کا مہینہ ہمیں قرارداد پاکستان کی یاددلاتا ہے۔ 23 مارچ 1940ء کے دن برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے منٹو پارک لاہور میں جمع ہو کر یہ عزم کیا تھا کہ ہم پرامن جدوجہد کر کے آزاد خطہ حاصل کریں گے۔ بلاشبہ قرارداد پاکستان کے ذریعے کیا گیا عزم ثمر بار ہوا اور کروڑوں مسلمان آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہوئے۔ پاکستان اور ریاستِ مدینہ کی فکری اساس اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کا عملی نفاذ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن عظیم مقاصد کے حصول کے لئے یہ وطنِ عزیز حاصل کیا گیا تھا وہ ہنوز تشنہ تعبیر کیوں ہیں؟کروڑوں افراد آج بھی تعلیم، صحت، انصاف، روزگار کی بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے ان عظیم مقاصد کا حصول کس طرح ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی شہرۂ آفاق کتاب ”دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کاتصور“میں ملتا ہے۔ اگر آج بھی دستور مدینہ کے آرٹیکلز سے راہ نمائی لی جائے تو ہمیں وطنِ عزیز کو نہ صرف بحرانوں سے نکال سکتے ہیں بلکہ پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی فہرست میں بھی نمایاں مقام دلوا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنی اس شہرۂ آفاق تجزیاتی تحقیق میں نظامِ حکمرانی ریاست کے ذائع آمدن، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عملی نفاذ، حکام کے تقرر و تبادلہ، حکومتی نائبین کی تقرری، اصحاب شوریٰ کی ذمہ داری، احتساب کے نظام، امور خارجہ، تعلیمی اداروں کی ذمہ داریاں، مالی انتظامات، اموالِ عامہ کے ادارے، بین الاقوامی معاہدات، امن بقائے باہمی کے فلسفہ، اقلیتوں کے ساتھ ریاست کے تعلقات، حقِ مساوات، خواتین کے حقوق پر بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اور یوں لگتا ہے کہ دستور مدینہ 14سو سال قبل نہیں بلکہ آج کے حالات اور زمینی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک مکمل دستاویز ہے۔ اگر دستور مدینہ کے تمام آرٹیکلز کو ان کی روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے تو آن واحد میں نہ صرف امن قائم ہو جائے بلکہ ہر شہری ریاست کے لئے جان، مال خرچ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ دستور مدینہ میں جہاں ریاست کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے راہ نما اصول دئیے گئے ہیں وہاں خواتین کے حقوق و فرائض کی تخصیص بھی احسن انداز میں کی گئی ہے اورپہلی بار خواتین کو سوسائٹی کا باوقار فرد تسلیم کیا گیا۔ اسلام سے قبل خواتین کو خرید و فروخت کی پروڈکٹ سمجھا جاتا تھا مگر اسلام نے عورت کو عزت دی اور اعلان کیا کہ مرد اور عورت دونوں کا کردار سوسائٹی کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی دعوتی مساعی میں ہمیشہ خواتین کو عزت و توقیر سے نوازا۔ یہاں تک کہ جب تاریخ انسانی کا پہلا دستور لکھا گیا تھا اُس میں بھی خواتین کے حقوق و فرائض متعین کئے گئے اور انہیں سوسائٹی کا ایک ذمہ دارممبر ڈیکلیئر کیا۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنی تحقیق کے ذریعے یہ بات ثابت کی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے خواتین کو حقِ رائے دہی سے نوازا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مرد و خواتین کو برابری کی بنیاد پر بیعت کا حق عطا کیا۔ قرآن مجید میں آتا ہے جس کا مفہوم ہے اے نبی مکرم ﷺ مومن عورتیں جو شرک نہ کریں، اولاد کو قتل نہ کریں، صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے دور رہیں، اپنے شوہروں کو دھوکہ نہ دیں، نافرمان نہ ہوں ایسی عورتوں کی بیعت کر لیا کریں۔ یہ بیعت کا حق، حق رائے دہی ہے۔ہم اس اداریے کے ذریعے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کو اُمت کے لیے ایک انتہائی معلومات افزاء تجزیاتی تحقیق کا تحفہ دینے پر مبارکباد پیش کرتی ہیں اور دعا گو ہیں کہ جن مقاصد کے لئے وطن عزیز حاصل کیا گیا تھا اللہ رب العزت انہیں پورا کرنے کے لئے ہماری توفیقات میں اضافہ کرے۔ (آمین) ۔