ارشادی باری تعالیٰ ہے:
’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرادیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہورہا ہے یہاں تک کہ وہ (قیامِ اَمن کے) حکمِ الٰہی کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے۔ بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
(الحجرات، 49: 9۔10)
یہ آیت کریمہ اہل ایمان کے دو گروہوں میں صلح و صفائی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ جب دو گروہوں میں، دو قبیلوں میں، دو خاندانوں میں، دو طبقوں اور حتی کہ نچلی سطح پر دو شخصوں میں اگر کوئی لڑائی جھگڑا ہوجائے، ان کے درمیان کوئی ناچاکی ہوجائے، کوئی نااتفاقی و ناراضگی رونما ہوجائے۔ جس کی وجہ سے ان کے درمیان نفرت کی آگ بھڑک اٹھے اور وہ نفرت و مخالفت بڑھتے بڑھتے عداوت اور دشمنی بن جائے جس کی وجہ سے ان کے درمیان جنگ و جدال کا ماحول پیدا ہوجائے اور ایک دوسرے کےساتھ لڑنے اور مرنے کے لیے آمادہ ہوجائیں۔ حتی کہ قتل و غارت کا فتنہ ان کے مابین بپا ہوجائے۔
اصلاح معاشرہ کی ضرورت
تو اب اس ساری ناچاکی، نااتفاقی، لڑائی اور فتنہ انگیزی اور قتل و غارت گری کی فضا اور ماحول کو ختم کرنے کے لیے تمہارا ناصحانہ اور مصلحانہ کردار شروع ہوجاتا ہے۔ تم ان دونوں گروہوں، قبیلوں، خاندانوں اور باہم ناراض دوستوں اور بھائیوں کے درمیان ایک پُل بن کر پیکر اصلاح بن جاؤ، ایک مصلح بن جاؤ، ایک صلح جُو بن جاؤ، ایک اتفاق پسند اور اتحاد پرور بن جاؤ، تم ان کے درمیان پیدا ہونے والی نفرت کو سرد کرو اور ان کے درمیان پیدا ہونے والی منافرت کو ختم کرو اصلاح اور اتفاق کی ہر صورت ان کے درمیان پیدا کرنے کی کوشش کرو اور ان کو باہم متحد اور متفق کرنے کی ہر تدبیر کرو ان کو پھر سے یکجا اور اکٹھا کردو اور یہ بات ذہن نشین رکھو، بحیثیت مسلمان، بطور مومن، تمہار اکردار اپنے ان ناراض گروہوں اور خاندانوں اور افراد کے درمیان صرف اور صرف مصلح کا ہے۔ تم ان کے لیے مفسد نہیں ہو ان کے درمیان فساد کی بھڑکی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے اور مٹانے والے ہو نہ کہ مفسد بن کر اس آگ کو اور زیادہ بھڑکانے اور بڑھانے والے ہو۔
اصلاح احوال مومن کی فطرت کی آواز ہے
اپنی اور دوسروں کی اصلاح اور فلاح ایک مسلمان کی سرشت اور فطرت میں داخل ہے۔ تم اپنے اس مصلحانہ کردار کو ہر وقت زندہ و تابندہ رکھو۔ اس لیے قرآن کہتا ہے:
’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرادیا کرو۔‘‘
(الحجرات، 49: 9)
اور اصلاح کی کاوشوں کے ذریعے فساد انگیزی اور فتنہ انگیزی کا خاتمہ کردو۔ امن و محبت اور سلامتی و عافیت کو ان کے درمیان عیاں کردو۔ اس لیے کہ ایک مسلمان کی پہچان ہی اصلاح ہے اور اس کاوشوں کا نقطہ آغاز اور نقطہ کمال اصلاح ہی اصلاح ہے وہ گھر میں ہو یا باہر ہو۔ وہ ہر جگہ اصلاح اور فلاح کی بات کرتا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان محبت و مودت کو فروغ دیتا ہے۔ ہر جگہ پر اصلاحی کاوشیں جاری رکھتا ہے۔ اس لیے اسے مصلح بنایا گیا ہے۔ مفسد نہیں بنایا گیا۔ اسی بنا پر جب مسلمانوں میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑتے ہیں تو وہ ہر ممکن ان کے درمیان صلح و صفائی کراتا ہے ان کو باہم شیر و شکر کرتا ہے۔
باغی گروہ کی سرکشی ختم کرنا
حتی کہ ان میں سے اگر کوئی ایک گروہ، ایک خاندان اور ایک طبقہ زیادتی کرے اور صلح جوئی کو ترک کردے اور ظلم و ستم پر آمادہ رہے افتراق و انتشار پر تُلا رہے، فتنہ و فساد پر ڈٹا رہے اپنی قوت و طاقت پر ناز کرے اور معاشرے میں ظلم کی بنا پر اس مظلوم گروہ و طبقے کو دبانا چاہے تو فرمایا ایسی صورت میں تم پر فرض ہے مظلوم کا ساتھ دو۔ ظالم کے خلاف سارے کے سارے مل کر ڈٹ جاؤ اس کے ظلم کو اپنی اجتماعی قوت و طاقت کے ذریعے توڑ دو اس کے باغیانہ خیالات اور عزائم کو ختم کردو، تم سب مل کر اس کو ظلم سے باز رکھنے والے بن جاؤ۔ حتی کہ تمہاری ان اصلاحی کاوشوں اور امن و سلامتی اور محبت و آشتی کے ذریعے پھر وہ صلح جوئی کے لیے آمادہ ہوجائے اور اپنے ظلم سے باز آجائے۔
’’یہاں تک کہ وہ قیام امن کے حکم الہیٰ کی طرف لوٹ آئے۔‘‘
(الحجرات، 49: 9)
’’پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے۔‘‘
(الحجرات، 49: 9)
جب وہ باغی گروہ صلح جوئی کے لیے تمہاری کاوشوں کی بنا پر آمادہ ہوجائے اور اب تم اپنے کردار عدل و انصاف اور کردار غیر جانبداری اور اپنے کردار مصلح کی بنا پر دونوں کے درمیان عدل وانصاف پر مبنی صلح کرادو۔
انصاف بے پرواہ عمل ہے
دونوں گروہوں میں سے خواہ ان میں کوئی طاقتور ہو اور کوئی کمزور ہو، کوئی بادشاہ و شہنشاہ ہو اور کوئی عام مزدور اور یہاڑی دار ہو۔ عدل و انصاف کا پلڑا جس طرف تُلتا ہے تم اس کو اسی طرف تولو، کسی جاہ و منصب، کسی کی طاقت، کسی کی اندھی دولت، کسی کی فرعونیت، قارونیت تم کو انصاف ہی کا خون کرنے کے لیے آمادہ نہ کرے اور تم ان دونوں طبقوں اور گروہوں میں سے انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے کے لیے کسی ایک سے مرعوب نہ ہو۔ کوئی بھی گروہ تمہیں جان کی حفاظت کی بنا پر ڈرا اور دھمکا نہ سکے، کوئی طبقہ تمہارے فیصلے اور تمہارے قلم کو خرید نہ سکے۔ تمہیں نہ اپنی جان کا ڈر ہو، نہ اپنی منصبی ذمہ داریوں میں کسی قسم کے خسارے کا اندیشہ ہو، حق تمہاری پہچان ہو۔ انصاف تمہاری شناخت ہو، نہ جھکنا اور نہ بکنا تمہارا کردار ہو، کسی سے نہ ڈرنا اور نہ خوف زدہ ہونا تمہارا تعارف ہو۔ ہر سطح کا منصفانہ اور عادلانہ کردار ان ہی خوبی سے آراستہ ہوتا ہے۔
ایسے ہی لوگوں کویہ طاقت رب عطا کرتا ہے۔ طاقتور لوگوں کے خلاف اگر انصاف کا ترازو تُلتا ہو اور پھر ان کے خلاف انصاف پر مبنی فیصلہ دینے کی قوت رب اپنے بندوں کو عطا کرتاہے۔
انصاف کرنے والے اللہ کے پسندیدہ ہیں
رب ان منصف بندوں کو یہ بشارت دیتا ہے کہ اللہ تمہیں اپنا محبوب رکھتا ہے تم سے رب ہوکر محبت کرتا ہے، تمہاری فرمانبرداری اور بندگی پر ناز کرتا ہے اور وہ یہ اعلان قرآن میں یوں کرتا ہے:
اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.
(الحجرات، 49: 9)
’’بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے۔‘‘
ایسے ججوں اور قاضیوں منصف پسندوں اور مصلحوں کی مدد کرتا ہے جو عدل و انصاف کو اپنی پہچان بناتے ہیں۔ باری تعالیٰ ایسے لوگوں کی قدم قدم پر مدد کرتا ہے اور ان کو اپنی معیت، حمایت اور غیبی نصرت عطاکرتا ہے اور یہ بندے اپنے اس منصفانہ کردار کی بنا پر رب کی معیت کے نظارے کرتے ہیں۔ وہ رب ان کے اندر ہر لمحہ یہ کیفیت راسخ کرتا ہے:
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا.
(التوبۃ، 9: 40)
’’غمزدہ نہ ہو اور پریشان نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
زندگی کے جس بھی شعبے میں جس بھی طبقے میں حق ہوگا اللہ ان ہی کی مدد کرتا ہے اور جو فرد بھی حق پر ہوتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔ اسباب اس کے موافق بناتا ہے۔ وسائل اور ذرائع کو اس کی طرف غیب سے رواں کرتاہے۔ لوگوں کے دلوں میں نرمی اور رحمدلی کی کیفیات پیدا کرتا ہے۔ اس کی خوبیوں کو عیاں کرتا ہے، اس کی خامیوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اس گروہ کی مدد و نصرت کے حامیانہ اور مددگارانہ خیالات ڈالتا ہے اور القا کرتا ہے۔ غیب و غیوب سے اعوان وانصار کو پیدا کرتا ہےا ور ظاہر کرتا ہے اپنے پسندیدہ اور محبوب بندوں کو وہ دائمی اپنی رحمت، اپنی نصرت، اپنی حمایت اور اپنی معیت کے حصار میں رکھتا ہے۔
اصلاح اور فلاح میں انسانی عظمت ہے
قرآن اصلاح اور فلاح کے عمل کو ایک ایمانی عمل سے تعبیر کرتا ہے۔ اصلاح بین الناس، لوگوں کی ناراضگیوں کو ختم کراکے ان کو باہم شیرو شکر کرنا ہے ان کو متحد اور متفق کرنا ہے ان کو باہمی مشترکات اور اجتماعی مفادات پر اکٹھا کرتا ہے۔ اس لیے قرآن اس حقیقت کو یوں واضح کرتا ہے:
’’بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
(الحجرات، 49: 10)
یہ آیت کریمہ واضح کررہی ہے ایمان اور صلح جوئی کا باہم ایک گہرا تعلق ہے۔ ایمان ملنے اور جڑنے کا نام ہے،ایمان کے ذریعے بندہ اپنے رب سے جڑتا اور ملتا ہے اور ایمان کے سبب ایک امتی اپنے رسول سے جڑتا اور ملتا ہے، ایمان، ایمان والوں کو باہم جوڑنے، ملانے، اکٹھا کرنے اور یکجا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ حالات کے کتنے ہی زیرو بم آجائیں، زمانے کے کتنے ہی نشیب و فراز آجائیں، پھر ذات کی کتنی ہی تنگیاں اور دشواریاں آجائیں، ایمان کی ہر لمحہ صدا ہے،ایمان کی ہر لمحہ پکار ہے، ایمان کی ہر لحظہ بازگشت ہے کہ اے مومنو باہم جڑے رہو۔ اے مسلمانو باہم اکٹھے رہو، اے اسلام کے ماننے والو ایک دوسرے کے قریب رہو اور باہم محبت و مودت اور احترام و اکرام اور باہم ملنے جلنے کی ہر صورت قائم و دائم رکھو۔ اپنے صلہ رحمی کے رشتوں کو کبھی بھی کٹنے نہ دو اور نہ کسی کو کاٹنے دو۔ ہر ہر امر خیر سے جڑنا اور ملنا تمہاری پہچان ہو۔
لوگوں کے درمیان اصلاح کرانا، ان کی ناراضگیاں ختم کرنا، ان کو باہم متحد و متفق کرنا اور ان کو یکجا اور اکٹھا کرنا اور ان میں باہم محبت اور مودت کو فروغ دینا، دشمنی و عداوت کو سرد کرنا اور ختم کرنا، ان سے نفرت اور منافرت کو مٹانا ان کو جنگ و جدال سے بچانا، ان کو تنازعات و اختلافات سے روکنا، ان کو اجتماعی مشترکات اور معاشرتی مفادات پر جمع کرنا، ان کو قتل و غارت سے روکنا ایک دوسرے کے خون کو بہانے سے روکنا، ایک دوسرے کا دشمن بننے سے منع کرنا، یہ مصلحانہ عمل سراسر پیغمبرانہ عمل ہے۔ یہ عباد صالحین کا عمل ہے۔ یہ اہل ایمان کا عمل ہے۔ یہ عمل ہی ایک مسلمان کا عمل ہے، اس اصلاحی عمل کو رسول اللہﷺ نے بہترین صدقہ قرار دیا ہے۔
ہاں انسانوں کی طبیعت میں غضب کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے باہم عداوت اور مخالفت کے احساسات اور جذبات بھی ہوتے ہیں کسی کو چاہنے اور کسی کو نہ چاہنے کے خیالات بھی ہوتے ہیں، انسانوں کے باہمی مفادات بھی متصادم ہوتے ہیں، اپنے زیادہ سے زیادہ مفادات کا حصول بھی رشتوں کی ڈور کو کمزور کرتا ہے اور بسا اوقات کاٹ دیتا ہے۔
اصلاح تقاضا ایمان ہے
کچھ لوگ اپنا سب کچھ، اپنی ساری پہچان، اپنی ساری شخصیت کے تعارف کا عنوان ہی مفاد ہی مفاد کو بنالیتے ہیں۔ دنیا داری اور زرپرستی کو بنالیتے ہیں، جائیداد اور دولت پرستی کوبنالیتے ہیں۔ اس بنا پر ساری اعلیٰ اسلامی قدریں ان کے ان جذبات و احساسات کی بنا پر ماند پڑ جاتی ہیں۔ ان کی ذات میں تعلیمات اور اخلاقیات کا غلبہ دکھائی نہیں دیتا بلکہ خواہشات اور مفادات کا تغلب دکھائی دیتا ہے۔ قرآن ایسے لوگوں کو مخاطب کرتا ہے۔ تم بہر صورت مومن ہو، مسلمان ہو، اللہ کے بندے اور رسول اللہﷺ کے امتی اور دعویٰ ایمان رکھنے والے ہو، تمہارا ایمان تم سے مطالبہ کرتا ہے کہ باہم جڑے رہو، اکٹھے رہو، یکجان و یک قالب ہو۔ اخوت و محبت کا نشان بن کر رہو، اپنے درمیان آنے والے کسی بھی دنیاوی مفاد کو باہم ٹوٹنے اور منتشرہونے اور مفترق ہونے کا سبب نہ بننے دو۔ اس لیے کہ تم کو مصلح بنایا گیا ہے، تم پیکر اصلاح ہو، فاصلحوا بین اخویکم اپنے بھائیوں کے درمیان اگر کوئی ناچاکی اور ناراضگی ہوجائے تو اسے ختم کرایا کرو تاکہ اسے مزید بڑھایا نہ کرو۔
مسلمان مصلح ہے مفسد نہیں
ناراض لوگوں کو باہم راضی کیا کرو، ٹوٹے ہوئے لوگوں کو باہم جوڑا کرو، لڑنے والوں کو لڑنے سے منع کیا کرو، باہم دشمنی پالنے والے کو دشمنی و عداوت سے منع کیا کرو، باہم نفرت کرنے والوں کو محبت کی لڑی میں پرویا کرو، ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرنے والوں اتصال کے رشتوں میں سیا کرو، ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں کو باہم شیرو شکر کیا کرو، عداوت کی آگ میں جلنے والوں کو بحر محبت و مودت میں مستغرق کیا کرو۔ اس لیے کہ اس کائنات میں اثبات حق کو ہے ابطال باطل کو ہے، محبت حق اور عداوت باطل ہے۔ مودت سچ ہے اور نفرت جھوٹ ہے۔ دوسروں کی خیر خواہی صدق ہے اور دوسروں کو ایذا رسانی کذب ہے۔ جب اہل ایمان تقاضا ایمان کے تحت اپنی مصلحانہ کاوشوں کے ذریعے مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے مابین باہمی منافرت و عداوت کو ختم کرتے ہیں اورمسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو مٹاتے ہیں تو اپنے اس مخلصانہ اور مومنانہ عمل کے باعث وہ اللہ کی رحمت اورنصرت کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔
قرآن لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے عمل کو اللہ کی رضا اور خوشنودی سے تعبیر کرتا ہے۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے دو لڑتے ہوئے افراد، گروہوں اور طبقوں کو اگر ہم اکٹھا کرادوں تو مجھے اس سے کیا اجر ملے گا۔
عمل اصلاح کے فوائد و ثمرات
قرآن سورہ النساء میں اس عمل اصلاح کے اجر کو واضح کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِصْلَاحٍ م بَیْنَ النَّاسِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا.
(النساء، 4: 114)
’’ جو کسی خیرات کا یا نیک کام کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم دیتا ہے اور جو کوئی یہ کام اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرے تو ہم اس کو عنقریب عظیم اجر عطا کریں گے۔‘‘
ایک مسلمان کے اصلاحی کے عمل کے ذریعے دو افراد اور دو خاندانوں اور دو گروہوں کے درمیان سے باہمی نفرت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ان کے درمیان بھڑکنے والی عداوت کا انسداد ہوسکتا ہے، ان کے درمیان قائم ہونے والی قتل و غارت گری سے بچاؤ ہوسکتا ہے اور ان کے درمیان پیدا ہونے والا انتقام سرے ہی سے اختتام پذیر ہوسکتا ہے۔ اس کےاس اصلاحی عمل کے ذریعے ان کے درمیان نسل در نسل جاری ہونے والے خون خرابے کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور اس اصلاحی عمل کے ذریعے معاشرے کے اجتماعی امن پرور ماحول کو تقویت مل سکتی ہے اور اس کے مصلحانہ عمل کے ذریعے معاشرے کے لوگوں کے درمیان تحمل و برداشت کے رویوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے کہ اس لیے یہ اصلاح کا عمل درحقیقت انسانوں کی فلاح کا عمل ہے۔ اس اصلاح میں انسانوں کی فلاح پوشیدہ ہے۔ اس لیے قرآن بار بار اس امر پر زور دیتا ہے۔
سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا:
وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ ط وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ.
(البقرة، 2: 224)
’’اور لوگوں میں صلح کرانے میں آڑ مت بناؤ، اور اللہ خوب سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔‘‘
صلح کا عمل پیغمبرانہ سنت ہے، صلح کا طریق پیغمبروں کی سیرت ہے، انبیاء علیہم السلام نے انسانیت کو باہم جوڑا ہے، ان کے ذات پات کے رشتوں پر ایمانی تعلق کو مقدم رکھا ہے۔
صلح جوئی عظیم عمل ہے
رسول اللہﷺ صلح کے اس عظیم عمل کی بنا پر جو شخص اس میں مشغول ہوتاہے اس کے لیے آپ نے فرمایا اگر وہ دو افراد اور دو خاندانوں کو باہم جوڑنے اور اکٹھا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے لیے اچھے جذبات اور عمدہ کلمات اور بہترین الفاظ وہ اپنی طرف سے از خود ان کی طرف منسوب کردیتا ہے جبکہ امر واقع میں ان کے درمیان باہمی عداوت اور دشمنی کی وجہ سے ایسا بعید از قیاس محسوس ہوتا ہو تو اس کے باوجود یہ مصلح شخص جھوٹا اور کذاب نہیں کہلوائے گا اس لیے اس پہ بظاہر کذب ان کو ایک دائمی وصف صدق پر جمع کردے گا۔ باہم اکٹھے رہنا اور مل جل کر رہنا اور باہم محبت و مودت کے ساتھ رہنا یہ صدق ہےاور یہ حق ہے اور یہی تعلیم دین ہے اور یہی تعلیم اسلام ہے۔
اس لیے حضرت ام کلثوم بنت عقبہؓ روایت کرتی ہیں:
’’رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا لوگوں میں صلح کرانے والا جھوٹا نہیں خواہ وہ صلح کے لیے کسی کی طرف کوئی اچھی بات منسوب کرے یا وہ اپنی طرف سے کسی کے متعلق کلمات خیر کہے۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الصلح باب یصلح بین الناس، 2: 958، رقم: 2546)
اسی طرح حضرت حمید بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں:
’’رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے دو آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے پہلو دار بات کی اس نے جھوٹ نہیں بولا۔‘‘
(ابوداؤد، السنن کتاب الادب، باب اصلاح ذات البین، 4: 280، رقم 494)
صلح جوئی اور صلح پسندی افضل عمل ہے
اس مضمون کے حوالے سے حضرت ابی الدرداءؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں کوئی ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں نماز، روزہ، زکوٰۃ سے بھی افضل ہے لوگ عرض گزار ہوئے یارسول اللہﷺ کیوں نہیں ضرور بتایئے آپ نے فرمایا لوگوں کے درمیان صلح کرانا کیونکہ باہمی تعلقات کا بگاڑ امن و سلامتی کو تباہ کرنے اور (ظلم و زیادتی کو فروغ دینے) والا عمل ہے (اور رشتوں کی خرابی قطع رحمی کا باعث بنتی ہے)۔‘‘
(احمد بن حنبل المسند، 6: 444، رقم 27548)
خلاصہ کلام
لوگوں کے درمیان اصلاح کرانا، ان کی ناراضگیاں ختم کرنا، ان کو باہم متحد و متفق کرنا اور ان کو یکجا اور اکٹھا کرنا اور ان میں باہم محبت اور مودت کو فروغ دینا، دشمنی و عداوت کو سرد کرنا اور ختم کرنا، ان سے نفرت اور منافرت کو مٹانا ان کو جنگ و جدال سے بچانا، ان کو تنازعات و اختلافات سے روکنا، ان کو اجتماعی مشترکات اور معاشرتی مفادات پر جمع کرنا، ان کو قتل و غارت سے روکنا ایک دوسرے کے خون کو بہانے سے روکنا، ایک دوسرے کا دشمن بننے سے منع کرنا، یہ مصلحانہ عمل سراسر پیغمبرانہ عمل ہے۔ یہ عباد صالحین کا عمل ہے۔ یہ اہل ایمان کا عمل ہے۔ یہ عمل ہی ایک مسلمان کا عمل ہے، اس اصلاحی عمل کو رسول اللہﷺ نے بہترین صدقہ قرار دیا ہے۔
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا سب سے بہترین صدقہ دو قرابت داروں اور دو انسانوں کے درمیان صلح کرانا ہے۔‘‘
(رواہ البخاری، بخاری، التاریخ الکبیر، 3: 2910، رقم 1007)
ہماری یہ انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے جہاں افراد لڑ رہے ہوں ان میں صلح کرائیں جہاں رشتے دار ناراض ہوں ان کو راضی کرائیں جہاں دوستوں کی دوستی میں سرد مہری آجائے۔ اس کو ختم کرائیں۔ جہاں دفتروں میں ناچاکی کا ماحول ہو۔ اس کا انسداد کریں جہاں کلاسوں میں نفرتیں ہوں ان کو محبتوں میں بدلیں۔ ہم جہاں رہیں، جس جگہ کام کریں، وہاں محبت اورمودت کا ماحول قائم کریں۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کریں، ایک دوسرے سے دور نہ کریں۔ یہی دین ہے اور یہی اسلام ہے۔
باری تعالیٰ ہم سب کو معاشرے میں مصلحانہ اورناصحانہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین