مرتبہ: نازیہ عبدالستار
ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں بڑی تاکید فرمائی۔ ارشاد فرمایا:
حَمَلَتْہُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ.
(لقمان، 31: 14)
’’جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی۔‘‘
قرآن کس قدر انسانی نفسیات کے مطابق بات کرتا ہے اور انسان کو جھنجھوڑ رتا ہے کہ ماں نے بچے کے لیے کس قدر تکلیف برداشت کی۔ اس کی ماں نے تھکاوٹ کے ساتھ اس کو اٹھایا قرآن کا اسلوب توجہ طلب ہے وھن علی وھن اس کا مطلب ہے کہ بار بار تھک کر 9 ماہ تمھیں اپنے پیٹ میں سنبھالتی ہے۔ اس نے کتنی بار اسے تکلیف میں مبتلا کیا کتنی مصائب و پریشانی اس نے برداشت کیں۔ اس وجہ سے کہ میرا بچہ محفوظ رہے۔ جب بچے کا رحم مادر میں زندگی کا آغاز ہوتا ہے تو اس کا وجود تک نہیں بنا ہوتا۔ جب وہ نطفہ سے لوتھڑا بنتا ہے بڑھتے بڑھتے جسم کی تشکیل کے مراحل آتے ہیں اور ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے۔ ماں نے نہیں دیکھا کہ اس کی شکل و صورت کیسی ہوگی وہ بڑا ہوکر تابع فرمان بنے گا یا نافرمان بنے گا۔ وہ زندہ بھی پیدا ہوگا یا مرجائے گا۔ماں9 مہینے تکلیفیں اٹھاتی ہے اس بات کی خبر نہیں کہ بچہ سالم پیدا ہوگا یا اس کے اعضاء صحیح نہیں ہوں گے۔ اس کو کسی چیز کی خبر نہیں۔ بس اتنابتادیا گیا کہ تیرے پیٹ میں بچہ ہے۔ وہ اسی لمحے سے اس کی حفاظت کا خیال کرنا شروعو کردیتی ہے۔ اپنی جان کو بھول کر اس کی جان کا خیال کرنے لگ جاتی ہے۔
کئی بار اسے تکلیف آتی ہے اسے اپنا خیال نہیں ہوتا، بچے کی فکر ہوتی ہےاسے نقصان نہ پہنچے ۔ جب بچے کی وجہ سے ماں کو تکلیف آتی ہے تو اس کے دل نے ہزار خوش طبعی کے ساتھ وہ تکلیف اٹھانے پر آمادہ کردیا۔ قرآن ان 9 ماہ کی تکلیف کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ 2 سال تک اسے دودھ پلاتی ہے اگر ماں دودھ نہ پلاتی تو ماں کی صحت بہتر ہوتی۔ ماں نے اپنی خوراک نچوڑ کر بچے کو پلاد ی ۔ماں اپنی جان کے عوض بچے کی جان کو پالتی ہے۔ قرآن بیان کرتا ہے۔ 9 ماہ دو سال تیری ماں نے تجھے تکلیفوں کے ساتھ پالا۔
یہ اس طرف اشارہ ہے اگر ان تکلیفوں کو برداشت کرتی ہے تو زندگی کی باقی تکلیفوں کو اٹھانا تو بہت آسان ہے۔ اگر بچہ سویا ہے اس نے بستر پر پیشاب کردیا۔ ماں اسے اٹھا کر دوسری طرف کردیتی ہے اس کے پیشاب والے بستر پر خود سوجاتی ہے۔
وہ بیٹا اور بیٹی والد کی بھی اولاد ہے ماں کی بھی اولاد ہے۔ لیکن اگر بچہ بیمار ہو تو ماں ساری رات جاگتی ہے مگر مرد یعنی باپ نہیں جاگ پاتا۔ شاید ہی صورتحال ایسی آتی ہے کہ سونے یا بیٹھنے کا موقع نہ ملے مگر ہوتا یہ ہے کہ باپ پھر بھی نیند پوری کرلیتا ہے مگر ماں کی مامتا کو نیند نہیں آتی ۔ وہ ماں جس نے اپنا خون جان بچے کو دے دی راتوں کا چین و آرام بچے کو دے دیااکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے کو تکلیف میں ماں ساری رات لے کر بیٹھی رہتی ہے۔ مسلسل راتوں کو جاگنا، شاید اس عورت کے لیے بھی ممکن نہ ہوتا، اس سے جڑی محبت جگائے رکھتی ہے۔ اس لیے اللہ پاک نے والدین کے ساتھ احسان کی بات کرکے مضمون کو اس طرح کردیا۔ وھنا علی وھن والدین کے ساتھ احسان کرو مگر جان لو کہ تمھاری والدہ کا ماں کا درجہ حق کے اعتبار سے زیادہ ہے۔ اس کا حق اس لیے زیادہ ہے کہ جو تکلیفیں تمھاری ماں نے اپنی جان پر برداشت کی ہیں اس کا اندازہ تمھارے والد کو بھی نہیں ہوسکتا۔
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا.
(الاحقاف، 46: 15)
’’ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔‘‘
اللہ رب العزت نے پہلی آیت میں دو زمانوں کا ذکر کیا تھا۔ بچے کو پیٹ میں سنبھالنے کا زمانہ پھر دو سال تک دودھ پلانے کا زمانہ یہاں ایک تیسرے مرحلہ کی طرف متوجہ کردیا فرمایا اس انسان کو سمجھنا چاہیے کہ اس کی ماں نے کتنی تکلیف اٹھا کر اس کو سنبھالا وہ تکلیف اس سے کہیں بڑھ کر تھی جب اس نے اسے جنا۔ درد زہ کا تصور ماں کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا۔
انسان اگر ان تکلیف کے ایام پر غور کرے گا تو اس نتیجے پر پہنچے گا کہ تو ماں کا حق تو عمر بھر ادا نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری و مسلم میں حدیث آتی ہے قرآن مجید نے ماں کے اس حق کو جس قدر اہتمام اور فضیلت کے ساتھ فرمایا اس کی تصریح میں حضور علیہ السلا م نے ایک صحابی کے سوال کے جواب میں فرمائی:
مجھ پر اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: تمھاری ماں کا صحابی نے پوچھا ماں کے بعد کس کا حق ہے فرمایا: تمھاری ماں کا۔ عرض کیا پھر اس کے بعد کس کا ہے فرمایا تمھاری ماں کا۔ تین بار بدل بدل کر سوال کیا سب سے بڑھ کر کس کا حق فرمایا تیری ماں کا۔ صحابی نے چوتھی بار پوچھا فرمایا اس کے بعد تمھارے باپ کا۔
(الصحیح بخاری)
ایمان کے دائرے میں آنے کے بعد اگر ساری کائنات کے اعمال صالح جمع کرلیے جائیں ان سارے اعمال صالحہ کے نتیجے میں عمومی درجے کی صحابیت مل جائے فرمایا: تمہیں تمھارے حج، زکوٰۃ، روزے تمھارا تقویٰ و طہارت زہد و ورع، صدق و اخلاص سارے ایک طرف مگر جو مشرف جو حضور علیہ السلام کو دیکھ نے سے ملتا ہے وہ نہیں مل سکتا ہے
اللہ تعالیٰ نے ماں کے حق کو اتنا مقدس قرار دیا۔ ایک شخص حضور علیہ السلام کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں آپ سے اجازت و مشورہ کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ اجازت دیجئے۔ اس پر آقا علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ کیا تمھاری ماں زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا حضور ﷺ زندہ ہے۔ حضور علیہ السلام نے حکم دیا اپنی ماں کی خدمت کرتے رہو۔ تمھارا، حج، عمرہ اور جہاد بھی اس میں ہے۔ اس نے فقط جہاد کی بات پوچھی تھی۔ آقا علیہ السلام نے تینوں اجر فرمادیئے۔ اس حدیث سے پتہ چلا کہ اگر والدین ضعیف ہوں ان کی صحت و بڑھاپا اس امر کی اجازت نہ دے ان کو جوان اولاد کے سوا کوئی اور سنبھالنے والا نہ ہو، حج پر چلے جانے اور عمرہ یا جہاد پر چلے جانے یہ زیادہ مقدم ہے کہ پوری زندگی ان بوڑھے والدین کی خدمت کریں۔
دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نےسوال کیا کہ حضور ﷺ میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں مجھے مشورہ دیجئے۔ ایک روایت کے مطابق حضور ﷺ نے دریافت فرمایا: تمھاری ماں زندہ ہے۔ عرض کیا میری ماں زندہ ہے۔ فرمایا جاؤ ان کے قدم پکڑو یہی تمھیں جنت میں لے جائیں گے۔ اس انداز کے ساتھ حضور ﷺ نے ماں کے حقوق اولاد پر منکشف فرمائے۔ سنن میں نسائی ہے حضور ﷺ منبر پر تشریف فرما ہیں اور تین بار فرمایا امین امین امین۔ فرمایا ابھی جبریل امین آئے تھے انھوں نے مجھے کہا جس شخص نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا۔ خواہ ماں ہو یا والد کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پایا پھر بھی جہنم میں گیا۔اللہ اس کو اپنی رحمت سے محروم رکھے۔ ا ٓپ ﷺ اس پر امین فرمادیجیے تاکہ اس پر مہر تصدیق ثبت ہوجائے۔ پھر جبریل علیہ السلام نے دوسری بات کہی وہ شخص ہلاک ہوگیا۔ جس نے زندگی میں ماہ رمضان المبارک پایا پھر بھی اپنے گناہ بخشوا نہ سکا اسی حال میں مرگیا۔ وہ بھی جہنم میں گیا۔ اللہ اس کو بھی رحمت سے محروم رکھے آپ ﷺ فرمادیں، امین میں نے دوسری بار امین کہی۔ تیسری بار جبریلؑ امین نے کہا آقاؑ وہ شخص تباہ و برباد ہوگیا۔ جس کے سامنے حضور علیہ السلام کا ذکر ہوا اس نے سن کر بھی درود و سلام نہ پڑھا اور اسی حال میں مرگیا وہ جہنم میں گیا۔ اللہ اسے اپنی رحمت سے محروم رکھے۔ آپ ﷺ فرمادیجئے آمین حضور علیہ السلام نے آمین فرمادی۔
ایک شخص حضور علیہ السلام کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں آپ سے اجازت و مشورہ کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ اجازت دیجئے۔ اس پر آقا علیہ السلام نے اس سے پوچھا کیا تمھاری ماں زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا حضور ﷺ زندہ ہے۔ حضور علیہ السلام نے حکم دیا اپنی ماں کی خدمت کرتے رہو۔ تمھارا، حج، عمرہ اور جہاد بھی اسی میں ہے
اس حدیث میں تین چیزیں بیان کیں اور ترجیح میں پہلا حق والدین کا بیان کیا جو حضور علیہ السلام کا نام سنے اور درود نہ پڑھے یہ بدبختی ہے۔ جو رمضان کو پائے اپنے آپ کو بخشوا نہ سکے یہ بھی بدبختی ہے جو والدین کو پائے خود کو بخشوا نہ سکے یہ بھی بدبختی ہے۔ ان تینوں گناہوں کو حضور علیہ السلام نے ایک ہی درجہ میں بیان کیا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ وہ جس ماں سے تھیں وہ کافر و مشرک تھیں جب تک حکم نہیں آیا تھا کہ اہل ایمان کا نکاح اہل ایمان سے ہو۔ کافرو مشرک کا نکاح اہل ایمان سے جائز تھا یہ اُس وقت منع ہوا جب جب حضور علیہ السلام نے منع فرمادیا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کی والدہ ان سے ملنے آئیں وہ کافرہ تھیں حضرت اسماءؓ حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کی۔ میری والدہ مجھ سے ملنے آئی ہیں وہ کافرہ ہیں میرے لیے کیا حکم ہے ؟ فرمایا بے شک وہ کافرہ ہیں مگر ہے تو تمھاری ماں اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ کریں اور اس کا مذہب کچھ بھی ہے احسان کا حکم جو اسلام میں آیا ہے اس کو برقرار رکھیں۔ حضور علیہ السلام نے والدین کے حقوق مختلف مواقع پر بیان کیے جس سے واضح ہوتا ہے اولاد اپنی عبادات اس وقت تک مقبول نہیں بناسکتی ہے اور اللہ کی طرف سے سعادت و خوش بختی کی نعمت نہیں پاسکتی جب تک اپنی ماں کے حق کو مقدم طریقے سے ادا نہیں کرتی۔
عبادات و ریاضات مل کر بھی ادنیٰ صحابیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ سارے مقام ولایت کا درجہ ملاکر اس صحابی کا مقابلہ نہیں جس صحابی نےایک لمحے کے لیے آقا علیہ السلام کا چہرہ دیکھا۔ کلمہ پڑھا جسم پاک کرنے کا بھی موقع ہی نہ ملا وہیں شہید ہوگیا۔ ایک غزوہ میں ایک صحابی اونٹ پر سوار ہے اچانک جب اس کی سواری آقا علیہ السلام کے سامنے آئی۔ اس کی نگاہ حضور علیہ السلام کے چہرے پر پڑی۔ اس کے دل کی کایا پلٹ گئی جن کے نصیب میں ایمان تھا ان کے لیے صرف ایک نگاہ چہرہ رسول ﷺ پر ڈالنے کی دیر تھی کہ چہرے کو تکتے ہی دل کی کایا پلٹ جاتی تھی۔ ایک اور جگہ پر بیان ہوتا ہے کہ ایک صحابی اپنی سواری پر سوار ہیں ایمان قبول کرنے کو دل چاہا اپنی سواری پر بیٹھے ہی آپ ﷺ سے مذاکرات کرنے لگا۔
’’اے محمد ﷺ اگر میں آپ کا کلمہ پڑھ لوں بتایئے مجھے کیا ملے گا؟ حضور علیہ السلام نے فرمایا: اگر تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائے تو تجھے جنت مل جائے گی۔ پوچھا اس بات کی ضمانت ہے کہ جنت مل جائے گی۔ فرمایا: ہاں مل جائے گی۔ پوچھا کیا آپ ﷺ کا وعدہ ہے فرمایا وعدہ ہے۔ عرض کیا حضور ﷺ میں یہی سے کلمہ پڑھتا ہوں۔ وہ شخص کلمہ پڑھ کر نیچے اترنے لگا کہ میں اپنے نبی کی دست بوسی کروں۔ پاؤں پھسلا وہیں شہید ہوگیا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد غسل بھی نصیب نہیں ہوا۔ (کیونکہ مشرکوں کو قرآن نے تجسس کیا ہے مشرک کی پلیدی کلمہ طیبہ پڑھ کر ختم ہوتی تھی۔) اب اس صحابی کے جسم کو غسل بھی نہیں دیا جاسکا۔ مسائل شریعہ جاننا تو بعد کی باتیں تھیں۔ نماز کا سجدہ دینا تو درکنار ابھی نماز یادنہیں کی فرمایامیرے صحابہ ادھر آؤ جس نے جنتی کا چہرہ دیکھنا ہے اس کو دیکھ لے۔ اس نے نماز نہیں پڑھی مگر وہ صحابی ہوگیا صحابیت نماز سے نہیں ملتی اگر نماز سے صحابیت ملتی تو کروڑوں ایسے لوگ ہوئے نمازیں پڑھنے والے نمازیں پڑھتے اور صحابی بن جاتے۔ صحابیت روزوں سے نہیں ملتی لاکھوں صائم الدھر ہوئے اپنی جان اللہ کی راہ میں کھپانے سے صحابیت نہیں ملتی۔ ساری ساری رات اللہ کی راہ میں کھڑے ہوکر عبادت کرنے سے صحابیت نہیں ملتی۔ سخاوت سے صحابیت نہیں ملتی۔ اگر ہم چاہیں کہ ایمان کے دائرے میں آنے کے بعد اگر ساری کائنات کے اعمال صالح جمع کرلیے جائیں ان سارے اعمال صالحہ کے نتیجے میں عمومی درجے کی صحابیت مل جائے فرمایا: تمہیں تمھارے حج، زکوٰۃ، روزے تمھارا تقویٰ و طہارت زہد و ورع، صدق و اخلاص سارے ایک طرف مگر جو شرف حضور علیہ السلام کو دیکھنے سے ملتا ہے وہ نہیں مل سکتا ہے۔ خواہ کوئی ہر روز حضور علیہ السلام کی خواب میں زیارت کرے۔ خواہ عالم بیداری میں روحانی طور پر حضور علیہ السلام کی زیارت نصیب ہو ساری زندگی حضور علیہ السلام کی زیارت نصیب ہو۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت اویس قرنیؓ نے بیس برس حضور علیہ السلام کی زندگی میں گزارے۔ معلوم تھا ایک لمحے حضور علیہ السلام کا چہرہ تک لیا تو صحابی بن جاؤں گا۔ تابعین سے درجہ اونچا ہوجائے گا۔وہ صحابی جس کا غوث و قطب مل کر بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس شرف کو حاصل نہ کیا فقط اس شرف کی خاطر کہ ماں ضعیف ہے اس کی خدمت سے دور نہ ہوجاؤں۔ ماں کی خدمت کو جاری رکھا یہ آقا علیہ السلام کا حکم تھا۔ والدہ کی اجازت سے ایک بار مدینہ طیبہ گئے مگر والدہ کا حکم تھا کہ اگر حضور علیہ السلام گھر میں نہ ملیں تو واپس پلٹ آنا اور پیغام دے دینا کہ اویس آئے تھے۔ آپ ﷺ گھر پر نہیں تھے ماں کی اجازت نہیں تھی کہ انتظار کرلیں آپؓ واپس تشریف لے گئے۔ یہ شرف اویس قرنیؓ نے پایا۔ آقا علیہ السلام اپنی مجلس میں نہ تکنے والوں کے شرف بیان فرمارہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ میرے اویسؓ کا درجہ یہ ہے۔
اسلام نے اس لیے فرمایا:الجنت تحت اقدام امھتکم۔تمھاری جنت تمھاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ساری رات عبادات بجا لائیں لیکن ساری عبادات مل کر بھی ماں کی خدمت کا بدل نہیں بن سکتیں۔ ماں کی خدمت کا شرف بہر طور پر مقدم ہے۔ اس حق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس سے پتہ چلا کہ نگاہ یار صحبت کی محتاج نہیں۔آپ ﷺ نے مزید وضاحت فرمائی کہ میرے اویسؓ کی علامت یہ ہے کہ اس طرح (اشارے سے فرمایا) اس کے ہاتھ پر داغ ہے۔ اس کی دعا سے میرے امت کے لاکھوں لوگوں کی شفاعت ہوگی۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ماں کی خدمت میں رہنے والے اویس کی شرف و فضیلت کا بیان سنا تو اشتیاق پید اہوا ہم بھی اس اویس رضی اللہ عنہ کا دیدار کریں۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے خواہش ظاہر کی آقاعلیہ السلام: کیا ہماری نگاہیں آپ ﷺ کے اویسؓ کو دیکھ سکتی ہیں۔ فرمایا: ہاں عمر و علیؓ تم دونوں دیکھو گے۔ حج کا موقع ہے ساری دنیا اطراف اکناف سے آئی ہے حضرت عمرو علیؓ اکٹھے بیٹھے ہیں۔ ہر وفد سے پوچھتے ہیں آپ کہاں سے آئے ہو۔ جو وفد یمن سے آیا ہوتا اس سے پوچھتے تم میں سے کوئی اویس ہے ان کا خیال تھاکہ ہر سال حج پر آتا ہوگا مگر ایسا نہ تھا پھر پوچھا اچھا یہ بتاؤ تم کسی ایسے اویس کو جانتے ہو جو قرن میں رہتا ہے۔ اب لوگوں کا دھیان بھی اس طرف نہیں جاتا تھا جس کے بارے میں حضرت فاروق اعظمؓ پوچھ رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بڑا عالم و فاضل ہوگا۔ مگر وہ لوگ جس اویسؓ کے بارے میں جانتے تھے ان کے کپڑے پھٹے پرانے ہیں جب وہ گلیوں سے گزرتا ہے لوگ اس کو پاگل و دیوانہ کہتے ہیں۔ لوگ اس کو پتھر مارتے تھے جب آپؓ نے علامات بیان کیں تو انھوں نے بتایااس ان علامات کے مطابق ایک پاگل سا رہتا ہے۔ ہم نے اس لیے نہیں بتایا کہ عمر کو اس سے کیا سروکار۔ فرمایا: اسی دیوانے کو تکنا چاہتے ہیں جب خبر لے لی دونوں یمن کے علاقے میں چل پڑے جسے لوگ پتھر مارتے ہیں اس کی زیارت کے لیے گلی کوچے پھرتے ہیں۔ پوچھتے ہیں ہم نے اویسؓ کو دیکھنا ہے کہتے ہیں آپ نے اویسؓ کو کیا دیکھنا ہے وہ تو پاگل ہے ہنسنے لگے تو ہنستا ہی چلا جاتا ہے۔ رونے میں آجائے تو روتا ہی چلا جاتا ہے۔
حضرت اویسؓ نماز ادا کررہے ہیں بھیڑیئے ان کا پہرا دے رہے ہیں جب دونوں ملے اپنا تعارف کروایا عرض کی جو میرے لیے میرے حضور ﷺ نے تحفہ بھیجا ہے وہ تو دے دو۔ جب حضور ﷺ نے عمرؓ اور علیؓ سے فرمایا تم میرے اویس سے ملو گے تو اپنا جبہ دے دیا اگر تم اویسؓ سے ملو تو میرا جبہ اس کو دے دینا۔ انھوں نے جبہ پیش کردیا۔ آپ رضی اللہ عنہ حضرت اویسؓ سے مختلف باتیں پوچھتے اور اویس ہر بات سے موضوع کو پھیر کر صرف ایک ہی بات پوچھتے کہ کوئی میرے آقا ﷺ کی باتیں بتاؤ کوئی حضور ﷺ کی مجلس کی بات بتاؤ کچھ بتاؤ کہ وہ کیسی باتیں کرتے تھے۔ وہ اٹھتے بیٹھتے کیسے تھے وہ چلتے پھرتے کیسے تھے تم انہیں کیسے دیکھتے تھے؟ ان کے ساتھ کیسے رہتے تھے؟ ان کا میل ملاپ کیسا تھا؟ وہ مسکراتے کیسے تھے؟ وہ محبوب تھا اور بات یہاں جاکر ختم ہوئی ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کیا آپ ﷺ حضور کے صحابی ہیں اویس نے سوال کردیا حضرت عمرؓ حضرت علیؓ سے کہ تم نے میرے حضور ﷺ کو دیکھا ہے؟ ان سوالوں کی قدرو قیمت کیا ہے یہ بات اہل محبت ہی جانتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے ہم زندگی بھر ان کے ساتھ رہے ہیں۔ لیکن اویس اپنی نگاہوں سے دیکھ کر پوچھ رہے تھے اویسؓ نے فرمایا تم نے جو کچھ بھی دیکھا وہ تو میرے محبوبؓ کا سایہ تھا۔ اللہ نے تو نے اپنا محبوب کسی کو دیکھنے ہی نہیں دیا۔ عشق و محبت کا یہ عالم ہے کہ اللہ کے اس راز کو جانتے ہیں کہ ماں کی خدمت ہر شے سے بڑھ کر ہے۔ ماں کی خدمت کو چھوڑ کر ا س بارگاہ میں نہیں گئے اس پر حضور ﷺ بھی خوش ہیں صحابہؓ بھی خوش ہیں۔ ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو نماز میں کمی نہیں کرتے۔ روزہ، حج، زکوٰۃ اور مساوات میں کمی نہیں کرتے۔ مگر ماں کی خدمت میں سستی کرتے ہیں۔ اسلام نے اس لیے فرمایا:
الجنت تحت اقدام امھتکم.
تمھاری جنت تمھاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔
ساری رات عبادات بجا لائیں لیکن ساری عبادات مل کر بھی ماں کی خدمت کا بدل نہیں بن سکتیں۔ ماں کی خدمت کا شرف بہر طور پر مقدم ہے۔ اس حق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کی خدمت جو ہمارے ذمہ متعین کردی ہے مرتے دم تک اس میں مستعد رہیں۔