فقہی مسائل: عدت کے احکام و مسائل

دارالافتاء منہاج القرآن

عدت، نکاح زائل ہونے یا شبہ نکاح کے بعد عورت کا نکاح سے ممنوع ہونا اور ایک مخصوص مدت تک انتظار کرنا عدت ہے۔ اگر بیوہ یا طلاق شدہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے حاملہ ہو تو اس عرصے میں حمل کی علامات واضح ہو جاتی ہیں اور ہونے والے بچے کی وراثت طے ہو جاتی ہے۔

جاہلیت میں طلاق کا عام طریقہ یہ رہا ہے جس کو بیوی پر کسی سبب سے غصہ آتا، وہ نتائج و عواقب کا لحاظ کیے بغیر، ایک ہی سانس میں تین ہی نہیں بلکہ ہزاروں طلاقیں دے کر بیوی کو گھر سے نکال دیتا۔ اس طریقہ طلاق میں عورت، مرد، بچوں بلکہ پورے کنبہ کے لیے جو مضرتیں ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر (اسلام نے) ہدایت فرمائی کہ جب طلاق دینے کی نوبت آئے تو وہ عدت کے حساب سے طلاق دے۔ اور عدت کا شمار رکھے۔

اسلام میں کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ پہلا نکاح ختم ہو جانے کے بعد عدت گزارے بغیر دوسرا نکاح کرے۔ عدت در حقیقت نسلِ انسانی کی محافظت ہے۔ اس کی پابندی میں حکمت یہ ہے کہ اس دوران مرنے والے یا طلاق دینے والے شوہر کا بچہ اگر عورت کے رحم میں ہے تو اس کا پتہ چل سکے تاکہ نسب خلط ملط نہ ہو، اور خالص پہچانا جاسکے۔ اسلام نے حسب و نسب میں خالص کا جو لحاظ رکھا ہے، وہ اس کے دینِ فطرت ہونے کی اہم دلیل ہے۔ عدت کے ایام میں عورت نکاح نہیں کرسکتی، اگر کرے گی تو نکاح منعقد ہی نہ ہوگا۔ قرآنِ کریم کی رو سے بیوہ اور مطلقہ کے ایامِ عدت مختلف ہیں: بیوہ غیر حاملہ کی عدت چار ماہ دس دن، بیوہ یا مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل (یعنی بچے کی پیدائش)، مطلقہ حائضہ کی عدت تین حیض اور مطلقہ غیرحائضہ (جسے بڑھاپے یا کسی بیماری کی وجہ سے حیض نہ آئے) کی عدت تین ماہ ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے موضوع سے متعلق اہم سوالات کے جوابات:

سوال: بیوہ عورت اور طلاق یافتہ عورت کی عدت میں کیا فرق ہے؟ کیا بیوہ عورت بھی حیض نہ آنے کی صورت میں تین ماہ عدت میں رہے گی؟

جواب:ذیل میں بیوہ اور مطلقہ کی عدت الگ الگ بیان کی جا رہی ہے:

بیوہ کی عدت:

ایسی بیوہ جو حاملہ ہو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ یعنی بچے کی پیدائش ہونے پر بیوہ یا مطلقہ کی عدت مکمل ہو جائے گی۔ بھلے بچہ طلاق یا خاوند کے فوت ہونے کے دوسرے دن پیدا ہوجائے یا چھ ماہ بعد، حاملی کی عدت بچے کی پیدائش پر مکمل ہوگی۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاللَّاءِ يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا.

(الطلاق، 65: 4)

’’اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے‘‘۔

درج بالا آیتِ مبارکہ کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔

ایسی بیوہ جو حاملہ نہ ہو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.

(البقرة، 2: 234)

’’اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہے‘‘۔

اسلام میں کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ پہلا نکاح ختم ہو جانے کے بعد عدت گزارے بغیر دوسرا نکاح کرے۔ عدت در حقیقت نسلِ انسانی کی محافظت ہے۔ اس کی پابندی میں حکمت یہ ہے کہ اس دوران مرنے والے یا طلاق دینے والے شوہر کا بچہ اگر عورت کے رحم میں ہے تو اس کا پتہ چل سکے تاکہ نسب خلط ملط نہ ہو، اور خالص پہچانا جاسکے

فقہاء کرام فرماتے ہیں:

(اگر حاملہ نہ ہو تو) آزاد بیوہ عورت کی عدت چار ماہ دس دن ہے، برابرا ہے کہ وہ مدخول بہا ہو یا نہ ہو مسلمان ہو یا کتابیہ ہو۔

(علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 3: 92، دارالکتاب العربي، بيروت)، (الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاویٰ الهندية، 1: 529، دارالفکر، بيروت)

معلوم ہوا کہ آزاد بیوہ غیر حاملہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے، خواہ رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ہر حال میں عدت یہی ہوگی۔

لہٰذا درج بالا سارے مضمون سے معلوم ہوا کہ بیوہ کی عدت دو طرح کی ہے:

ایسی بیوہ جو حاملہ ہو اس کی عدت وضع حمل ہے۔

ایسی بیوہ جو حاملہ نہ ہو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔

مطلقہ کی عدت:

مطلقہ عورت کی عدت کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے:

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكُيمٌ.

(البقرة، 2: 228)

’’اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اور ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اسے چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا فرما دیا ہو، اگر وہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اور اس مدت کے اندر ان کے شوہروں کو انہیں (پھر) اپنی زوجیت میں لوٹا لینے کا حق زیادہ ہے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کر لیں، اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے‘‘۔

آزاد عورت جس کو رخصتی کے بعد طلاق ہوجائے اس کی عدت کی تین اقسام ہیں:

1۔ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔

2۔ ایسی مطلقہ جس کو حیض آتا ہو اس کی عدت تین حیض ہے۔

3۔ ایسی مطلقہ جس کو کم عمری، بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو اس کی عدت تین ماہ ہے۔

مگر ایسی مطلقہ جس کو نکاح کے بعد اور رخصتی سے پہلے طلاق ہو جائے اس پر عدت نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا.

(الاحزاب، 33: 49)

’’اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو۔‘‘

ایسی عورت جس کا خاوند گم ہو جائے اور اس کی بالکل کوئی خبر نہ ہو تو وہ چار سال تک انتظار کرے گی، اور چار سال کے بعد عدالت جا کر ثبوت پیش کرے گی کی چار سال سے اس کا خاوند لا پتہ ہے۔ عدالت حالات اور ثبوتوں کا جائزہ لیکر اس کا نکاح منسوخ کر دے گی۔ جس دن عدالت نکاح منسوخ کرے گی اس دن سے وہ عورت چار ماہ دس دن کی عدت گزارنے کی پابند ہوگی۔

رخصتی کے بعد اگر میاں بیوی کے درمیان جسمانی تعلق یا خلوتِ صحیحہ ثابت ہے تو طلاق، خلع یا عدالتی تنسیخ کا فیصلہ ہونے پر بیوی پر عدت گزارنا واجب ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ.

(الْبَقَرَة، 2 : 228)

اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔

مندرجہ بالا آیت میں ایسی مطلقہ عورت کا حکم بیان کیا گیا ہے جس نے شوہر کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کر لیا ہو یا ان کی خلوتِ صحیحہ ثابت ہوچکی ہو، اور اس عورت کو حیض بھی آتا ہو طلاق کے بعد اس پر تین حیض تک عدت گزارنا ضروری ہے۔

عدت سے استثنیٰ صرف غیرمدخولہ کیلئے ہے۔ مطلقہ غیرمدخولہ پر عدت واجب نہیں ہے۔ عدت کا نفاذ/شمار تب سے کیا جائے گا جب شوہر کی وفات، طلاق، خلع یا تنسیخِ نکاح واقع ہوگی، جب تک اِن میں سے کوئی امر واقع نہیں ہوتا اس وقت تک نکاح برقرار رہے گا، چاہے میاں بیوی لمبے عرصے تک ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ لہذا اس مسئلہ کے پیشِ نظر لازم ہے کہ جب عدالت سے خلع یا تنسیخِ نکاح کا فیصلہ حاصل کرلیں تو جس تاریخ کو فیصلہ آئے گا اُس دن سے اُن کی عدت شروع ہوگئی جس کی مدت تین حیض تک ہے۔

سوال: اگر ایک عورت بیوہ ہو گئی ہو جو 70 سال سے زیادہ عمر کی ہو اور بیرون ملک رہتے ہو حيض ختم ہو گیا ہو تو عدّت کا دورانیہ کیا ہو گا اور وہ کیا دوران عدّت سنگین ڈپریشن اور اکیلے پن کی وجہ سے بیٹے کے ساتھ سفر کر کے پاکستان واپس آ سکتے ہیں؟ نیز یہ بھی بتا دیں کہ جس عورت کو ضعیف عمر ہونی کی وجہ سے حیض آنا بند ہو گیا ہو تو اس کی عدت کیا ہوگی؟

جواب:بیوہ عورت کی عدت کے حوالے سے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.

(البقرة : 234)

’’اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔‘‘

تو بیوہ عورت کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے، اس کے بعد وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے، یا اپنی زندگی کا جو مناسب سمجھے فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ بیوہ عورت جوان ہو یا ضعیف العمر اسکی عدت چار ماہ دس دن ہے۔

محرم کے ساتھ عدت کے دوران سفر کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ضعیف العمر عورت جس کو حیض آنا بند ہو گیا ہو اس کی عدت تین ماہ ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا :

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ.

(الطلاق : 4)

"اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے۔"

لہذا پتا چلا کہ بیوہ کی عدت چاہے وہ جوان ہو یا ضعیف العمر۔ چار ماہ دس دن ہے۔ جبکہ ضعیف العمر عورت جس کو حیض آنا بند ہو گیا ہو اس کی عدت تین ماہ ہے۔

سوال: عدت کا کیا کفارہ ہے؟

جواب: عدت کا کوئی کفارہ نہیں، تاہم جو عورت احکام شرعی کے مطابق عدت کے ایام نہ گزارے وہ گنہگار ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ سے معافی مانگے۔

سوال: کیا عورت کے لیے ضروری ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد اسی کے گھر پر عدت مکمل کرے؟

جواب:قرآن وحدیث کی رو سے بیوہ غیر حاملہ کے لئے عدت چار ماہ دس دن اور حاملہ کے لئے وضع حمل ہے جو اس کو اپنے شوہر کے گھر میں ہی گزارنی چاہیے۔ عدت والی عورت دورانِ عدت نہ نکاح کر سکتی ہے اور نہ ہی زیب و زینت کرسکتی ہے۔ اِلاّ یہ کہ اگر شوہر کے گھر میں اس کی عزت و آبرو اور جان ومال محفوظ نہ ہو یا مجبوراً اسے ملازمت کے سلسلہ میں گھر سے باہر جانا پڑے تو جاسکتی ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

طُلِّقَتْ خَالَتِي، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا، فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي، أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا.

(الصحیح مسلم، كتاب الطلاق)، (المسند احمد بن حنبل)، (السنن أبو داود)

میری خالہ کو طلاق دے دی گئی تھی، انہوں نے اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کا ارادہ کیا، انہیں گھر سے باہر نکلنے پر ایک شخص نے ڈانٹا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں! تم اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لاؤ، ہوسکتا ہے کہ تم اس میں سے صدقہ دو یا کوئی اور نیکی کرو۔

بیوہ عورت کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے، اس کے بعد وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے، یا اپنی زندگی کا جو مناسب سمجھے فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ بیوہ عورت جوان ہو یا ضعیف العمر اسکی عدت چار ماہ دس دن ہے

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابیہ کو عدت کے ایام میں اپنے باغ کی کھجوریں توڑنے کے لئے گھر سے باہر جانے کی اجازت عطا فرما دی تھی۔ اسی طرح جب عورت کی حفاظت نہ ہو تو وہ بھی محفوظ مقام پر جا سکتی ہے کیونکہ عورت کی عزت وناموس اور جان ومال کا تحفظ ضروری ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:

لَوْ کَانَ فِي الْوَرَثَةِ مَنْ لَیْسَ مَحْرَمًا لَهَا وَحِصَّتُهَا لَا تَکْفِیهَا فَلَهَا أَنْ تَخْرُجَ وَإِنْ لَمْ یُخْرِجُوهَا.

(شامي، ردالمحتار، 3: 537، بیروت: دار الفکر للطباعة والنشر)

اگر خاوند کے وارثوں میں ایسا کوئی ہو جو اس کی بیوہ کا محرم نہیں اور بیوہ کا حصہ رہنے کے لیے ناکافی ہے وہ اس مکان سے نکل سکتی ہے اگرچہ باقی رشتہ دار اُسے نہ نکالیں۔

درج بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوہ عدت کی مدت شوہر کے گھر میں مکمل کرے، لیکن اگر ایسا کرنے میں کوئی امر مانع ہے تو عدت کے ایام اپنے میکے میں یا کسی عزیز (جیسے بھائی، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ) کے ہاں بھی گزار سکتی ہے۔ بامر مجبوری گھر سے باہر بھی جاسکتی ہے۔ بیوہ کے لیے عدت کے ایام شوہر کے گھر گزارنے کے لزوم پر تمام علماء کا اتفاق ہے، تاہم علمائے احناف مخصوص وجوہات کی بناء پر اس میں رخصت دیتے ہیں۔ جیساکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ.

(الطَّلاَق، 65: 1)

اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں۔

قرآن وحدیث کی رو سے بیوہ غیر حاملہ کے لئے عدت چار ماہ دس دن اور حاملہ کے لئے وضع حمل ہے جو اس کو اپنے شوہر کے گھر میں ہی گزارنی چاہیے۔ عدت والی عورت دورانِ عدت نہ نکاح کر سکتی ہے اور نہ ہی زیب و زینت کرسکتی ہے۔ اِلاّ یہ کہ اگر شوہر کے گھر میں اس کی عزت و آبرو اور جان ومال محفوظ نہ ہو یا مجبوراً اسے ملازمت کے سلسلہ میں گھر سے باہر جانا پڑے تو جاسکتی ہے

اس لیے مطلقہ یا بیوہ عورت کو عدت کے دوران بلاعذر شرعی گھر سے باہر نکلنا نہیں چاہئے، کسی وجہ سے شوہر کے گھر عدت گزارنا مشکل ہو تو عورت اپنے میکے یا کسی دوسرے گھر میں بھی عدت گزار سکتی ہے۔

سوال: کیا دوران عدت نکاح کا پیغام بھیجا جاسکتا ہے؟ یا دوران عدت نکاح کا پیغام قبول کیا جاسکتا ہے؟

جواب:قرآن مجید میں ہے:

وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَـكِن لاَّ تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلاَّ أَن تَقُولُواْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا وَلاَ تَعْزِمُواْ عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ.

(البقرة، 2: 235)

’’اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ (دورانِ عدت بھی) ان عورتوں کو اشارتاً نکاح کا پیغام دے دو یا (یہ خیال) اپنے دلوں میں چھپا رکھو، اللہ جانتا ہے کہ تم عنقریب ان سے ذکر کرو گے مگر ان سے خفیہ طور پر بھی (ایسا) وعدہ نہ لو سوائے اس کے کہ تم فقط شریعت کی (رو سے کنایتاً) معروف بات کہہ دو، اور (اس دوران) عقدِ نکاح کا پختہ عزم نہ کرو یہاں تک کہ مقررہ عدت اپنی انتہا کو پہنچ جائے، اور جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں کی بات کو بھی جانتا ہے تو اس سے ڈرتے رہا کرو، اور (یہ بھی) جان لو کہ اللہ بڑا بخشنے والا بڑا حلم والا ہے۔‘‘

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں دورانِ عدت نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ عدت کے دوران کیا گیا نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو حکم الٰہی کی خلاف ورزی ہوگی۔

سوال: اگر ایک بیوہ کام کرنے والی خاتون ہے اور اس کا کمانے والا کوئی نہیں‌ ہے، تو اس کی عدت کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ عدت کے دوران کام پر جاسکتی ہے؟

جواب:دورانِ عدت بیوہ اور مطلقہ کے لیے نکاح اور زیب و زینت کی ممانعت ہے، جبکہ شرعی پردے کے اہتمام کے ساتھ بوقتِ ضرورت وہ گھر سے باہر جاسکتی ہے۔ بوقتِ ضرورت گھر سے باہر نکلنے کی شرط صرف عدت والی خواتین کے لیے نہیں ہے، بلکہ بغیر ضرورت اور پردہ کے خواتین کا گھر سے نکلنا اسلام کی نگاہ میں ممنوع ہے چاہے وہ کنواری ہوں یا شادی شدہ، بیوہ ہوں یا مطلقہ۔

بامرِ مجبوری عدت والی خواتین ڈیوٹی پر جاسکتی ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ہے کہ:

عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: طُلِّقَتْ خَالَتِي، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا، فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي، أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا.

(الصحیح مسلم،كتاب الطلاق)، (مسند أحمد بن حنبل)، (السنن أبو داود)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق دے دی گئی تھی، انہوں نے اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کا ارادہ کیا، انہیں گھر سے باہر نکلنے پر ایک شخص نے ڈانٹا، وہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں! تم اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لاؤ، ہوسکتا ہے کہ تم اس میں سے صدقہ دو یا کوئی اور نیکی کرو۔