خواتین پر ریاستی جبر۔ ایک جائزہ

ڈاکٹر نورین روبی

 ریاست اپنے باشندوں کی جان و مال، عزت و ناموس کا بنیادی انسانی حقوق کی امین ہوتی ہے۔ ایک کامیاب ریاست میں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے جن ریاستوں میں قانون کی بالادستی ہوتی ہے وہاں امن و آشتی اور ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو ملک بھر میں جنگل کا قانون اپنے ڈیرے جمالیتا ہے۔ طاقتور کمزوروں کو نگلنے لگتے ہیں۔ لاقانونیت اور انتشار کی وجہ سے بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس جنم لینے لگتا ہے۔

پاکستان ایک اسلامی اور فلاحی مملکت ہے۔ اس ریاست اسلام کو ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے کہ لوگ قرآن وسنت نبوی ﷺ کی روشنی میں زندگی گزار سکیں۔ بصورت دیگر موجودہ صورتحال سے کون واقف نہیں گذشتہ کئی سالوں سے خواتین کو جس طرح وحشیانہ تشدد اور زندگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لاقانونیت اور بے انصافی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر ارباب اختیار خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی اور ناروا سلوک روا رکھیں گے تو ایک عام آدمی کی اخلاقی حدوں کو تاراج کرنے میں حد سے گزر جائے گا۔

ہمارے معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری اور بالادستی قائم ہے لیکن خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد ریاستی جبر کا شکار ہوتی ہے۔ ریاستی جبر دراصل ریاست کی جانب سے کسی بھی شہری کے بنیادی انسانی حقوق کو ہر جائز و ناجائز طریقوں سے سلب کرنے کا نام ہے۔ خواتین جو ہماری آبادی کا نصف ہیں انھیں صنف نازک گردانتے ہوئے ان پر ہر طرح کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ نچلی سطح سے لے کر ارباب اختیار تک جاری و ساری ہے۔ ریاست جب انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی بلکہ تعلیم، قانون، صحت، معاشرتی سامراجی، معاشی و اقتصادی لہٰذا صنفی امتیازی سلوک روا رکھتی ہے تو یہ ریاستی جبر کہلاتا ہے۔ خواتین اس کا بآسانی شکار ہوجاتی ہیں اور مختلف اجتماعی اور سامراجی مسائل کا بھی سامنا کرتی ہیں۔

پاکستان میں معاشرتی عدم انصاف کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہونے والے ریاستی جبر کا نشانہ خواتین بنتی ہیں۔ اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1947ء سے اب تک زندگی کے مختلف محاذوں پر خواتین کسی نہ کسی صورت میں ریاستی جبر کا شکار ہوتی چلی آئی ہیں۔ ہجرت کے وقت مہاجرین کے کیمپوں سے لے کر آج تک خواتین اتنے برس گزر جانے کے باوجود آج بھی شہر کے چوراہوں پر تشہیر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ سماجی ناانصافی، معاشی ناہمواری اور افلاس کی خاطر چند ٹکوں پر بکنے والی بچیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان میں مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ طالبات بھی شامل ہیں۔ یہ بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے یہاں حقوق نسواں کی علمبردار تنظیمیں، سیاسی قوتیں اور مذہبی اور سماجی مکتب فکر چپ سادھے ہوئے ہیں کیونکہ ریاست اس سے لاتعلق محسوس ہوتی ہے۔

ریاستی جبر کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ خواتین ووٹ دینے کے آزادانہ حق سے بھی محروم کردی جاتی ہیں۔ گھر کے سربراہ کی مرضی کا ووٹ کاسٹ کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی و ثقافتی روایات اور سوسائٹی کے انتہا پسند خیالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یوں تو اب خواتین سیاست کے میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں لیکن انھیں بہت سے اجتماعی اور سماجی مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں ہراساں کرنا، ذہنی و جسمانی تشدد وغیرہ شامل ہیں۔ سیاست میں ان کی شرکت ان کے حقوق، جان و مال کی حفاظت اہم ترین مسئلہ بن گئی ہے۔ خواتین کو مخصوص سامراجی طاقتوں اور استبدادی دباؤ کے ذریعے ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردینا ریاستی جبر ہی کہلائے گا۔ اس کے تحت خواتین کے حقوق محدود کردیئے جاتے ہیں۔ ان کو اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کی اجازت نہیں دی جاتی اور انہیں مختلف ہتھکنڈوں سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور انتہائی صورتوں میں قیدو بند صعوبتوں کے علاوہ وحشیانہ تشدد اور بربریت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ریاستی جبر کی ایک صورت خواتین کے صحت اور تعلیم کے حقوق کی عدم دستیابی ہے۔ بڑے بڑے شہروں اور دور دراز علاقوں میں آج بھی خواتین کی بہت بڑی تعداد جو تعلیم کی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔ اسی طرح صحت کی سہولیات ان میں سرفہرست ہیں۔ خواتین کے حوالے سے عمومی تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ انھیں صرف انتہائی صورتوں میں علاج کی سہولیات کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے بچیوں اور خواتین کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو غذائی کمی، خون کی کمی کا شکار ہے اور دوران زچگی اموات کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس معاملے میں بھی ریاست خاموش ہے۔ عملی اقدامات کے فقدان کی وجہ سے قانون سازی محض لفظی کاریگری بن کر رہ گئی ہے۔

ریاست انصاف اور قانون کی بالادستی کا نام ہے۔ پاکستان میں گھریلو تشدد ایک سنگین مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 90% پاکستانی خواتین اپنی زندگی میں کسی نہ کسی سطح پر خانگی تشدد کا شکار ہوئی ہے۔ گھریلو تشدد کے حوالے سے پاکستان خواتین کے لیے چھٹے نمبر پر خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔ایسی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو گھریلو تشدد کی کسی نہ کسی صورت سے اپنے آپ کو بچا پاتی ہیں۔ اگرچہ اب جائے ملازمت، تعلیمی اداروں اور خانگی سطح پر ہراساں کرنے کے قوانین اور ایپس بنائی جاچکی ہیں لیکن ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے شکایت کنندہ اور اس کے اہل خانہ ایک نئے عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

پاکستان ایک اسلامی اور فلاحی مملکت ہے۔ اس ریاست اسلام کو ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے کہ لوگ قرآن وسنت نبوی ﷺ کی روشنی میں زندگی گزار سکیں۔ بصورت دیگر موجودہ صورتحال سے کون واقف نہیں گذشتہ کئی سالوں سے خواتین کو جس طرح وحشیانہ تشدد اور زندگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لاقانونیت اور بے انصافی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر ارباب اختیار خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی اور ناروا سلوک روا رکھیں گے تو ایک عام آدمی کی اخلاقی حدوں کو تاراج کرنے میں حد سے گزر جائے گا۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کو چاہیے کہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایسے اقدامات اٹھائے کہ انہیں تعلیمی، سیاسی، سماجی، گھریلو سطح پر حقوق اور تحفظ حاصل ہوسکے۔ عدلیہ کے مضبوط نظام کے ذریعے ان کے لیے انصاف کی فراہمی کے لیے موثر قانون سازی کی جائے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ خواتین کی ترقی اور معاشرتی و سماجی بہتری اور حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے ریاست کو ترقی کی طرف گامزن کیا جاسکے۔