ام المومنین حضر ت عائشہ صدیقہؓ نے حقوق نسواں کے لیے ایک موثر آواز بلند کی اور عالم نسواں کی رہنمائی کا حق ادا کیا۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ولادت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت ام رومانؓ کے ہاں ایک روایت کے مطابق نبوت کے پانچویں برس ہوئی۔ آپ وہ عظیم المرتبت اور خوش قسمت ہستی تھیں کہ آپ نے ابتدائی ایام میں بھی کفرو شرک کی آواز نہ سنی۔ بچپن سے ہی آپ کی شخصیت ذکاوت، ذہانت اور قوتِ حافظہ جیسی بے پناہ صلاحیتوں سے مزین تھی۔ تاریخ، ادب، شاعری اور طب میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا کہ یہ علوم آپ نے والد بزرگوار حضرت ابوبکر صدیقؓ سے سیکھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد رخصتی کی رسم ادا ہوئی تو کاشانہ نبوت میں حرم نبوی ﷺ کی حیثیت سے داخل ہوئیں۔ لڑکپن سے ہی معلم انسانیت کے نور علم سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ آدابِ معاشرت، تہذیب و شائستگی، تزکیہ اخلاق، اسرارِ شریعت، کلام الہٰی کی معرفت اور احکام نبوی ﷺ سے کامل آگاہی ہوئی۔ آپ ﷺ کو تقریباً 9 سال تک نبوت عظمی ٰ پر فائز محمد رسول اللہ ﷺ کی شریکِ حیات رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں بیوہ ہوئیں اور حضور ﷺ کے وصال شریف کے بعد حرمِ مدینہ میں تقریباً 47 برس تک شمع ہدایت رہیں۔ 17 رمضان المبارک 58ھ دار فانی سے رخصت ہوگئیں۔
تمام تر خصائل ومناقب کے ساتھ ساتھ آپ آنحضرت ﷺ کی بہت لاڈلی اور محبوب زوجہ تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضور ﷺ سے دریافت فرمایا آپ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا عائشہؓ کو اور پھر پوچھا مردوں میں تو آپ ﷺ نے فرمایا عائشہؓ کے والد ابوبکرؓ کو۔حضرت عائشہ صدیقہؓ کو دوسری ازواج پر کئی باتوں میں فضیلت تھی۔
حضرت جبرئیلؑ ان کی صورت ایک ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر آنحضرت ﷺ کے پاس لائے اور عرض کیا کہ ان سے شادی کرلیجئے۔ واقعہ افک پیش آیا تو آپؓ کی برات کے لیے سورۃ النور کی قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ آپؓ کے سوا کسی اور زوجہ نے حضرت جبریلؑ کو نہیں دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ ایک برتن میں ٖغسل فرماتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا کرتے اور آپؓ سامنے لیٹی ہوتیں۔ حضور ﷺ اور آپؓ ایک لحاف میں لیٹے ہوتے تو ایسی حالت میں بھی وحی نازل ہوتی۔ وصال شریف کے وقت رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک آپ کی گود میں تھا اور آنحضرت ﷺ آپؓ ہی کے حجرے میں مدفن ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کے علاوہ دوسری ازواج مطہرات بیوہ ہوکر آپ ﷺ کے حبالہ عقد میں داخل ہوئی تھیں جبکہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کنواری اور خالص فیضانِ نبوت سے مستفیض تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے آپؓ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ فرمائی۔ اسی زمانہ میں آپؓ نے قرآن پاک پڑھنا سیکھا۔ علوم دینیہ کی تعلیم کا کوئی وقت مخصوص نہ تھا۔ معلم شریعت خود گھر میں موجود تھے۔ شب و روز ان کی صحبت میسر تھی۔ آنحضرت ﷺ کی تعلیم و ارشاد کی مجلس روزانہ مسجد نبوی میں منعقد ہوتی تھیں جو حجرہ حضرت عائشہؓ سے بالکل ملحق تھی۔ اسی بنا پر آپ ﷺ گھر سے باہر بھی لوگوں کو جو درس دیتے آپؓ اس میں شریک رہتی تھیں۔ اگر کوئی بات سمجھ نہ آتی یا کسی آیت کا مفہوم معلوم کرنا ہوتا تو جب آپ حجرے میں تشریف لاتے، ان سے پوچھ لیتی تھیں۔ یہاں تک کہ عورتوں کی درخواست پر ہفتہ میں ایک خاص دن ان کی تعلیم و تلقین کے لیے مقرر فرمادیا تھا۔
حقوق نسواں کے لیے آپؓ کی آواز ہمیشہ ہی بلند اور موثر رہی اور آپ نے عالم نسواں کی رہنمائی کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابیات اپنی عرض داشتیں رسول اللہ ﷺ تک ام المومنین کی وساطت سےپہنچاتی تھیں۔ مثلاً حضرت عثمان بن مظعونؓ ایک پارسا صحابی تھے اور راہبانہ زندگی گزارتے تھے۔ ان کی بیوی نے حضرت عائشہؓ سے شکایت کی کہ میرے شوہر میرے حقوق (حقوق زوجیت) ادا نہیں کرتے۔ آپؓ نے آنحضرت ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آنحضرت ﷺ خود حضرت عثمان بن مظعونؓ کے پاس گئے اور انھیں سمجھایا ’’عثمان ہم کو رہبانیت کا حکم نہیں ہوا۔ کیا میرا طرز زندگی پیروی کے لائق نہیں۔ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور اس کے احکام کی سب سے زیادہ نگہداشت کرتا ہوں۔ پھر بھی میں بیویوں کے فریضہ کو ادا کرتا ہوں۔‘‘
اسی طرح ایک صحابیہ کو ان کے شوہر نے مارا۔ وہ حضرت عائشہؓ کے پاس آئیں اور جسم پر نیل کے نشان دکھائے۔ حضرت عائشہؓ نے بارگاہ نبوت ﷺ اس کی شکایت پہنچادی اور فرمایا:
’’مسلمان بیویاں جو تکلیف اٹھاتی ہیں میں نے اس کی مثال نہیں دیکھی۔‘‘آپ کی سفارش سے اس مسئلے کا حل فرمایا گیا۔ زمانہ جاہلیت میں سنگدل شوہر عورت کو طلاق دے دیتا اور چاہتا کہ اس کی بیوی تمام عمر اس جال سے آزاد نہ ہوسکے۔ زمانہ اسلام میں جب ایک مسلم خاتون سے یہ واقعہ پیش آیا تو آپؓ نے یہ مقدمہ آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کیا تو سورہ البقرہ کی وہ آیت نازل ہوئی جس کے مطابق یہ فرمایا گیا:
’’وہ طلاق جس کے بعد رجعت جائز ہے۔ دو بار ہے۔ اسکے بعد یا بحسن اسلوب اس کو زوجیت میں رکھ لینا یا بخیر و خوبی اس کو رخصت کردینا۔‘‘
(البقرة: 229)
حضرت عائشہ صدیقہؓ اسلام کی پہلی خاتون تھیں جنھوں نے اصلاحِ امت کا منصب سنبھالا اور حقوقِ نسواں کی جدوجہد کی۔ آپؓ نے عورتوں سے متعلق فقہی مسائل میں صنف نازک کے جذبات و احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا بلند مرتبہ و مقام متعین کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے حضور خواتین کے معاملات و مقدمات پیش کرتے ہوئے آپؓ کے قائدانہ کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا
چنانچہ جس خاتون کو بھی سماجی اور خانگی زندگی میں مسائل کا سامنا ہوتا تو وہ آپؓ کے آستانے پر حاضر ہوجاتی۔ آپؓ اس کا مقدمہ بارگاہ رسالت ﷺ میں پیش کرتیں اور اس سلسلے میں حقوق نسواں کا مکمل خیال رکھتیں۔ آپؓ عورت کی ذلت اور حقارت کو کسی طور قبول نہ کرتی تھیں بعض صحابیوں نے روایت کی کہ عورت، کتا اور گدھا اگرنمازی کے سامنے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ سن کر آپؓ سخت برہم ہوئیں اور فرمایا ’’تم نے کیسا برا کیا کہ خواتین کو گدھے اور کتے کے برابر کردیا۔ آنحضرت ﷺ نماز پڑھا کرتے اور میں لیٹی ہوتی۔ آپ سجدہ کرنا چاہتے تو میرے پاؤں دبادیتے۔ میں سمیٹ لیتی۔‘‘ اس طرح یہ فقہی ابہام بھی دور ہوگیا کہ عورت کے چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح آپؓ عورتوں کی جنسی ضرورتوں اور مسائل کو بہتر جانتی تھیں آپؓ قرآن و سنت سے ایسا استدلال کرتی تھیں۔ جس سے عورتوں کے لیے سہولت اور آسانی ہو۔مثلاً شرعی طہارت کے لیے نہاتے ہوئے سر پر تین دفعہ پانی ڈالنا ضروری ہے۔ بال کھونے کی ضرورت نہیں۔ ان کا فرمانا تھا کہ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ ٖغسل کرتی تھی تو صرف تین دفعہ پانی ڈال لیتی تھی اور ایک بال بھی نہیں کھولتی تھی۔ اس طرح آپؓ نے دوسرے فقہا کی نفی کی کہ ہر بال کو تر ہونا چاہیے۔
آپؓ شب و روز علوم و معارف کے بیسوں مسائل سے آشنا ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ ذہین و فطین ہونے کے باعث ہر مسئلہ کو بے تامل آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کردیتی تھیں اور تسلی بخش جواب حاصل کرکے اسے ذہن نشین بھی کرلیتی تھیں۔ خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ اور امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفانؓ کے ادوارِ خلافت میں آپ فتویٰ ارشاد فرماتی تھیں۔ آپؓ سے 2210 احادیث مبارکہ مروی ہیں جن میں 174 احادیثِ مقدسہ امام بخاری اور امام مسلم نے بھی بیان فرمائی ہیں۔ اس حیثیت سے امت مسلمہ پر آپؓ کا بڑا احسان ہے کہ آپؓ کے واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا۔ آنحضرت ﷺ کے ارشادات و فرمودات اور علم حدیث کو بیان کرنے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کا چھٹا نمبر ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ ایک ہمہ جہت شخصیت کی مالک تھیں۔آپؓ کی سیرت میں ازدواجی معاشرت کے تمام رنگ، سیاسی زندگی کے انقلابات، خانگی زندگی کے مصائب، طویل ایام بیوگی کو ثابت قدمی سے برداشت کرنے کا کمال حوصلہ موجود تھا۔ آپؓ کی تقریباً ساری زندگی عسرت و تنگ دستی اور فقرو فاقہ میں گزر گئی۔ آپؓ خود فرماتی ہیں کہ پورا مہینہ گزر جاتا اور گھر میں آگ تک نہ جلاتے، ہماری غذا پانی اور چھوہارے ہوتے تھے۔ اگر کہیں سے تھوڑا سا گوشت آجاتا تو ہم کھالیتے۔ کئی کئی راتیں گزرجاتیں مگر گھر میں چراغ نہ جلتا۔ اس کے باوجود آپؓ میں ایثار اور سخاوت کا جذبہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ ام الدردا روایت کرتی ہیں کہ ایک روز حضرت عائشہؓ روزہ دار تھیں۔ ان کے پاس ایک لاکھ درہم آئے۔ انھوں نے وہ سب تقسیم کردیئے۔ میں نے کہا کہ کیا آپؓ یوں نہ کرسکتی تھیں کہ ایک درہم بچالیتیں اور گوشت خرید کر افطار کرتیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر تو مجھے یاد دلادیتی تو میں ایسا ہی کرلیتی آپؓ یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرتیں۔ آپؓ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے۔
الغرض حضرت عائشہ صدیقہؓ اسلام کی پہلی خاتون تھیں جنھوں نے اصلاحِ امت کا منصب سنبھالا اور حقوقِ نسواں کی جدوجہد کی۔ آپؓ نے عورتوں سے متعلق فقہی مسائل میں صنف نازک کے جذبات و احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا بلند مرتبہ و مقام متعین کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے حضور خواتین کے معاملات و مقدمات پیش کرتے ہوئے آپؓ کے قائدانہ کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آپؓ کو اپنے عہد کے معروضی حالات کے پس منظر میں علوم قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپؓ اسلام کی پہلی خاتون عالمہ، فصیحہ و مفتی تھیں جن کی عظمت کے اعتراف میں خود صحابہ کرام نے انہیں منصب افتاء پر فائز فرمایا۔ اس حیثیت سے آپؓ نے امت کی اصلاح و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔
جامع الترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت موجود ہے کہ ہم اصحابِ محمد ﷺ کو جب کوئی مشکل پیش آتی تو ہم حضر ت عائشہؓ سے رجوع کرتے اور وہ ہمیشہ ہماری رہنمائی فرماتیں۔ آپ کی ذاتِ اقدس ایک پاکباز مسلم خاتون کا بہترین مرقع ہے جسے دنیا کی بزرگ ترین ہستی کے ساتھ روز و شب بسر کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسلامی تعلیمات کی روح کو مسلم خواتین میں پھر سے بیدار کرنے کے لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حیات طیبہ بہترین نمونہ ہے۔ عصر حاضر کی خواتین کے لیے آپ کی ذات ایک ایسا رول ماڈل ہے جس کو مشعل راہ بناکر دین و دنیا کی بھلائی حاصل کی جاسکتی ہے۔